بڑھتی ہوئی مسابقت کے باوجود پاکستان کی سب سے پرانی آدم جی انشورنس کمپنی نے اپنا مارکیٹ شئیر کیسے برقرار رکھا ہے؟

1706

آدم جی انشورنس کی کارکردگی اپنی ہم عصر کمپنیوں کے مقابلے میں انتہائی نمایاں رہی ہے اور چونکہ پاکستان میں انشورنس (بیمہ) انڈسٹری تاحال ابتدائی مراحل میں ہی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں توسیع کی گنجائش موجود ہے اس لئے یہ انشورنس کمپنی مستقبل میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار ہے۔

یہ تعریفی کلمات ایک سیکیورٹی بروکریج فرم فاؤنڈیشن سیکیورٹیز کے ریسرچ اینالسٹ حسن ارشاد نے 26 فروری کو کلائنٹس کو جاری ایک نوٹ میں درج کئے۔

پاکستان میں 36 انشورنس کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے 7 کمپنیاں لائف انشورنس کی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ انشورنس کے حوالے سے عوام میں دلچسپی کا فقدان ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجموعی قومی پیداوار میں اس انڈسٹری کا حصہ محض 0.9 فیصد ہے حالانکہ ہمارے خطے میں انشورنس کمپنیاں کا حصہ اوسطاََ 2.2 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

لیکن اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس میدان میں ترقی کے روشن مواقع موجود ہیں کیونکہ یہ صنعت بھی آن لائن سیلز اور موبائل ایپلی کیشنز جیسے جدید ڈیجیٹل نظام کو اپنانے کی کوشش کر رہی ہے، پاکستان کی انشورنس انڈسٹری میں ترقی کی شرح 2013ء کے بعد سالانہ 17.7 فیصد رہی ہے، 2013ء میں مجموعی پریمیم 136.3 ارب روپے تھا جو 2018ء میں 308 ارب روپے تک ہو چکا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر (تقریباََ 63 فیصد) حصہ لائف انشورنس کا ہے۔

حسن ارشاد کے مطابق ، ’’فی کس مجموعی قومی پیداوار میں ہونے والا اضافہ، معاشی بحالی اور ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال ایسے عناصر ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انشورنس انڈسٹری میں ترقی کے بے پناہ مواقع موجود ہوں، اس کے علاوہ سی پیک کے دوسرے مرحلے سے مزید انشورنس اندسٹری کو مزید فوائد حاصل ہوں گے۔‘‘

آدم جی انشورنس کمپنی اس انڈسٹری میں اپنے آپ کو سرفہرست رکھنے میں کامیاب رہی ہے، 1960ء میں قائم ہونے والی یہ کمپنی ابھی تک پاکستان کی سب سے بڑی جنرل انشورنس کمپنی ہے جس کا مارکیٹ شئیر 26 فیصد ہے، (اس کے بعد ای ایف یو جنرل انشورنس اور پھر جوبلی جنرل انشورنس کا نمبر آتا ہے جن کا مارکیٹ شئیر بالترتیب 24 فیصد اور 12 فیصد ہے۔)

حسن ارشاد کے مطابق کاروباری استحکام، کم قیمت سرمایہ کاری پورٹ فولیو، منافع جات اور ذیلی ادارہ آدم جی لائف کی آمدن میں اضافہ ایسی وجوہات ہیں جن سے آدم جی انشورنس آج بھی سرفہرست ہے۔

گزشتہ عشرے میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں آدم جی انشورنس کے کاروبار میں اضافہ دیکھنے میں آیا، 2013ء سے 2018ء کے دوران اس کمپنی کا مجموعی پریمئیم 20.2 فیصد اضافے کے ساتھ 5.5 ارب روپے سے بڑھ کر 13.8 ارب روپے ہوگیا جبکہ اس کے مقابلے میں پوری انشورنس انڈسٹری میں سالانہ ترقی کی شرح 14.4 فیصد رہی۔

انشورنس کمپنیوں کی ترقی کو گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی انشورنس سے جوڑا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے بیمہ کمپنیوں کے پریمئیم میں گزشتہ تین سالوں کے دوران 63.9 اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، پاکستان میں گاڑیوں کی طلب میں 2013ء اور 2018ء کے دوران 12.9 فیصد اضافہ ہوا ہے، پاکستان کے برعکس متحدہ عرب امارات میں گاڑیوں کی انشورنس کو لازمی قرار دیا گیا ہے جس سے آدم جی انشورنس نے خاصا فائدہ اٹھایا ہے۔

پاکستان میں آٹو انڈسٹری اس وقت کٹھن دور سے گزر رہی ہے، اگر حکومت نظام زر میں آسانی کے ساتھ ساتھ دستاویزی پالیسی میں نرمی اختیار کرتی ہے تو 2021ء تک آٹو انڈسٹری کے مشکل دور سے نکلنے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں موٹرائزیشن کی شرح صرف 18 فیصد ہے جو کہ خطے کی اوسط 67 فیصد سے انتہائی کم ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شعبے میں ترقی کی کافی گنجائش موجود ہے۔

آدم جی انشورنش کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ سرمایہ کاری ہے جس کا حجم 2019ء کے 9 ویں مہینے میں 23.3 ارب روپے تھا۔ 2018ء میں کمپنی کو بعد از ٹیکس ادائیگی 59.1 فیصد منافع  ہوا تھا۔

اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے حسن ارشاد کہتے ہیں، ’’مسلسل اور منافع بخش انشورنس بزنس کے نتیجے میں فری فلوٹ (Float) اس پورٹ فولیو کی وجہ ہیں۔‘‘ فلوٹ سے مراد یہ ہے کہ ایک انشورنس کمپنی نے پریمئیم کی شکل میں رقم وصول کی لیکن ابھی تک اسے کلیم کی ادائیگی کی بجائے سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور کلیم ادا کرنے تک منافع کمایا جاتا ہے۔

گزشتہ پانچ سالوں میں 28.7 فیصد کی سالانہ شرح ترقی کے ساتھ اس کمپنی کے فلوٹ کا حجم 11.7 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

اپنے حریفوں کے برعکس اس کمپنی کے پورٹ فولیو کا رحجان ایکویٹی پر مبنی ہے جو کہ اس پورٹ فولیو کا 71 فیصد ہیں اور بقایا 29 فیصد میں قرض سیکیورٹی اور ڈپوزٹس کی شکل میں ہیں۔

ایکویٹی پورٹ فولیو میں مسلم کمرشل بینک کا حصہ 49 فیصد ہے اور توقع ہے کہ مسلم کمرشل بینک کی آمدن میں اضافہ ہوگا تو اس کے اثرات منافع جات کی ادائیگی پر بھی پڑیں گے، سرمایہ کاری سے ہونے والی آمدن 2020ء میں 47.9 فیصد تک بڑھنے کے بھی امکان ہیں، ایم سی بی اور آدم جی انشورنس دونوں ہی نشاط گروپ کا حصہ ہیں اور یہ مالیاتی اور صنعتی ادارہ پاکستان کے امیر ترین شخص میاں محمد منشاء کی زیر ملکیت ہیں۔

آدم جی انشورنس رینٹل انکم سے بھی آمدن کما رہا ہے، اس کمپنی نے کراچی میں 10 منزلہ عمارت خریدی ہے اور لاہور میں اپنے 15 منزلہ آفس کی تزئین و آرائش کی ہے، ان دونوں عمارتوں میں تقریباََ 50 فیصد جگہ کرائے پر دستیاب ہے۔ 2019ء کے پہلے نو ماہ میں کرایہ سے آمدن ایک  کروڑ 40 لاکھ روپے رہی اور فاؤنڈیشن سیکیورٹیز کے اندازے کے مطابق 2020ء میں یہ حجم بڑھ کر 16 کروڑ 10 لاکھ روپے ہو جائے گا۔

آخر میں آدم جی لائف انشورنس کمپنی کی بات کی جائے جو اجتماعی اور انفرادی طور پر لائف انشورنس کی سہولیات فراہم کرتی ہے، اب تک لائف انشورنس کے میدان میں اس کا حصہ صرف 6.7 فیصد رہا ہے لیکن گزشتہ تین سالوں کے دوران اس کی سالانہ ترقی کی شرح 13.1 فیصد رہی ہے۔

چونکہ آدم جی انشورنس کا آدم جی لائف میں حصہ 74.3 فیصد ہے اس لئے یہ اپنی ذیلی ادارے میں 100 فیصد حصہ حاصل کرنا چاہتی ہے، اس حصول میں کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟

حسن ارشاد کا کہنا ہے، ’’ہمارا ماننا ہے کہ آدم جی انشورنس کمپنی کا موجودہ نیٹ ورک ہم آہنگی کے فروغ میں مدد دے گا اور آدم جی لائف کو مارکیٹ میں زیادہ شئیر حاصل کرنے اور مزید منافع کمانے کے قابل بنائے گا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ’’سال 2019ء کے پہلے نو ماہ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اس کمپنی نے سنگل پریمئیم پالیسی میں کمی کر کے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کیا ہے اور اس کی بجائے یونٹ لنکڈ پالیسیوں پر توجہ مرکوز کر لی ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ یونٹ لنکڈ پالیسی کے ماڈل میں ترقی کے ممکنہ مواقع موجود ہیں اور اس سے طویل مدت میں آدم جی لائف کو زیادہ فوائد دستیاب ہو سکتے ہیں۔‘‘

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here