امریکہ میں اس وقت 2030ء تک کاربن کے اخراج سے جان چھڑوانے کیلئے بحث چل رہی ہے۔ ماحولیاتی بحران اِس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور عالمی سطح پر سیاسی تبدیلیاں، مہاجرین کی نقل مکانی اور ملکوں کے آپسی تعلقات پر ماحولیاتی بحران کے مضر اثرات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
امریکی صدارت کی دوڑ میں شامل سینیٹر برنی سینڈرز (Bernie Sanders) کی گرین نیو ڈیل (Green New Deal)کہتی ہے کہ وہ اگر وائٹ ہائوس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو امریکہ سے 71 فیصد کاربن کے اخراج کو کم کردیں گے جبکہ صنعتی لحاظ سے ترقی پذیر ممالک میں کاربن کا اخراج مزید 36 فیصد کم کردیں گے، برنی سینڈرز کے مدمقابل سابق نائب صدر جو بائیڈن (Joe Biden) کا دعویٰ ہے کہ ورمونٹ (Vermont)سے تعلق رکھنے والے سینیٹر برنی سینڈرزکے منصوبے سے کوئی بھی بڑا سائنسدان متفق نہیں ۔
پاکستان نے بھی کاربن کے اخراج پر قابو پانے کے حوالے سے 2030ء تک کے لیے کچھ اہداف مقرر کئے ہیں۔ 2019ء میں وفاقی کابینہ نے پاکستان کی پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری دی جس میں کہا گیا ہے کہ 2030ء تک 30 فیصد کاربن فیول پر چلنے والی گاڑیوں کو بجلی پر چلنے والی گاڑیوں سے تبدیل کرنا ہے۔
اس ہدف سے کوئی بھی اختلاف نہیں رکھتا، الیکٹرک گاڑیاں صرف ماحول کیلئے ہی فائدہ مند نہیں بلکہ تباہ حال آٹو انڈسٹری کی بقاء کیلئے بھی اہم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ہدف کا حصول قابل ستائش ہوگالیکن اس کے ساتھ یہ ہدف ایک ایسی خواہش بھی ہے جو ایک تکلیف دہ غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔
پہلی مرتبہ حکومت ماحولیاتی تغیرات سے نبرد آزما ہونے میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں اور الیکٹرک وہیکلز پالیسی کو سب سے ہتھیار سمجھا جا رہا ہے، کم از کم حکومت تو ایسا ہی سمجھ رہی ہے، پاکستان کو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے ، ایسے میں الیکٹرک وہیکلز کے حامیوں کا ماننا ہے کہ انہوں نے کئی ایک مشکلات کا حل پیش کردیا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کی جانب تبدیلی کے اس رحجان کے بے تحاشہ فوائد ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس بڑی تبدیلی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا واقعی ممکن ہے یا اس کا حال بھی ایک ارب درختوں کے سونامی جیسا ہی ہوگا؟
تمام بڑے آٹو مینوفیکچررز کی جانب سے ابتدائی طور پر الیکٹرک وہیکل پالیسی کے خلاف سنجیدہ تحفظات ایک مثبت اشارہ ہیں لیکن ان تحفظات کی وجہ حزب اختلاف بھی ہو سکتی ہے، پرافٹ اردو نے پاکستان کی پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی کی نمایاں خصوصیات کا جائزہ لیا ہے تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ حکومت کے نزدیک اس ہدف کا مقصد کیا ہے اور یہ کہ شاید یہ بادل برسنے کی نسبت گرج زیادہ رہے ہیں۔
الیکٹرک وہیکل پالیسی کیوں متعارف کروائی گئی؟
بجلی سے گاڑیاں چلانے کا رحجان ایک عالمی تحریک بن چکا ہے جو کرہ ارض کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کی ایک کوشش ہے، اس کا آغاز 2017ء میں ہوا جب دنیا بھر کی حکومتوں نے کرہ ارض کو بچانے کیلئے اس تبدیلی کو اپنانے کے عزم کا اظہار کیا اور ان میں سے کئی ممالک نے الیکٹرک وہیکل پالیسیاں متعارف کروائیں۔
پاکستان ماحولیاتی تغیرات سے متاثر ہ ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے، جلد یا بدیر اسے بھی عالمی رحجان کو اپنانا ہی تھا، اگر صرف پالیسی سازی کی بات کی جائے تو پاکستان نے 2019 میں ہی پالیسی تیار کرلی تھی جسے وفاقی کابینہ نے کافی غور و خوض کے بعد منظور ی بھی دے دی۔
اس پالیسی کا مقصد الیکٹرک وہیکلز کی جانب رحجان سازی، ضروری انفراسٹرکچر کا قیام اور خریداروں اور مینوفیکچررز کی حوصلہ افزائی کرناہے۔ پرافٹ اردو کی جانب سے اس پالیسی کی بنیادی خصوصیات کو آپ کیلئے پیش کیا جا رہا ہے لیکن حکومت کی جانب سے یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ اس میں ابھی اصلاحات کی کافی گنجائش موجود ہے۔ انفراسٹرکچر کی تبدیلی کے اہم ممکنات میں تین ہزار سی این جی اسٹیشنز کی الیکٹرک وہیکل چارجنگ اسٹیشنز میں تبدیلی سب سے اہم ہے۔
یہ اقدام صرف ماحولیات کے تحفظ کے لیے نہیں ہے
اگر پاکستان کے الیکٹرک گاڑیوں کے معاملے میں اقدامات کو مدنظر رکھا جائے تو ابھی تک سب ٹھیک چل رہا ہے، الیکٹرک وہیکلز پالیسی اور ’ماحول کے حوالے سے ذمہ دارانہ رویہ‘ کو خوب سراہا جا رہا ہے۔ اور اس ستائش کے بعد حکومت دیگر منصوبوں کی جانب بھی توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
ماحولیات کے حوالے سے یقینی فائدہ یہ ہے کہ اس سے کاربن کے اخراج کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم ہو گی پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی 40 فیصد گاڑیوں سے خارج شدہ کاربن سے پیدا ہوتی ہے جبکہ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 20 فیصد ہے، الیکٹرک گاڑیاں پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے سب سے مؤثر ہیں جہاں تقریباََ ایک لاکھ 35 ہزار اموات آلودہ ماحول کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
پاکستان میں ماحولیاتی تغیرات سے نمٹنے کے علاوہ الیکٹرک گاڑیوں کی جانب تبدیلی کے رحجان میں فوائد بھی شامل ہیں۔
صارفین ابتداء میں ہی پیٹرول اور دیگر مرمتی اخراجات میں بچت کر سکتے ہیں اور یہ سہولت پہلے سے ہی ہائبرڈ گاڑیوں میں موجود ہے، ایک موٹر سائیکل کا اوسطاََ پیٹرول کا خرچ سات ہزار روپے سے کم ہو کر ایک ہزار روپے ماہانہ تک آ جائے گا، اسی طرح ایک 800 سی سی گاڑی کا اوسطاََ پیٹرول کا خرچ کم ہو کر 12 سو روپے ماہانہ تک آ جائے گا۔ طویل مدت میں ملکی سطح پر دیکھا جائے تو تیل کی درآمد کم ہونے سے ہمارے بیرون ملک زرمبادلہ کے ذخائر میں بھاری بچت کے امکانات روشن ہیں۔ گاڑیوں میں استعمال ہونے والے درآمدی تیل کا خرچ تقریباََ 2 ارب ڈالر ہے۔
وزیر ماحولیات ملک امین اسلم نے متعدد مواقع پر یہ واضح کیا ہے کہ اگر اس خطے میں اپنے صلاحیتوں کا صحیح استعمال کیا گیا تو کیسے الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی سے تیل کے درآمدی خرچ میں کمی واقع ہو گی جس کا حجم اربوں ڈالر سالانہ ہے، کیسے ایک بالکل نئی صنعت کے قیام سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور کیسے پاکستان اس قسم کی گاڑیوں کا برآمد کنندہ بن سکتا ہے۔
اگر کاغذی کارروائی کو مدنظر رکھا جائے تو یہ منصوبہ انتہائی شاندار معلوم ہوتا ہے لیکن جب اس پر عمل درآمد کا وقت آئے گا تو کئی قسم کی مشکلات درپیش ہوں گی۔
تبدیلی کا یہ رحجان آسان نہیں
جیسا کہ تشکیل کے بعد ہر پالیسی ہی پرکشش لگتی ہے لیکن عمل درآمد مشکل ہے۔ کئی افراد کا ماننا ہے کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کے مطابق الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی سہل اقدام ہرگز نہیں ہوگا۔
ابتداء میں جب تک بڑے اسٹیک ہولڈرز کی معاونت شامل نہ ہو بڑے پیمانے پر الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی کا حصول ممکن نہیں ہو سکے گا، آٹو سیکٹر جیسے دیگر اسٹیک ہولڈرز الیکٹرک وہیکلز پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں۔
ہنڈائے نشاط موٹرز کے چیف فنانشل آفیسر نوریز عبداللہ نے پرافٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نومبر میں متعارف کروائی جانے والی پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی میں متعدد خامیاں ہیں، سب سے پہلے تو پالیسی کی تشکیل کے دوران اسٹیک ہولڈرز سے مناسب مشاورت نہیں کی گئی، اس کے علاوہ ان کا ماننا ہے کہ اس پالیسی کو تیار کرنے والے ہراول دستے میں شامل وزیر ماحولیات کی ذمہ داریوں میں ایسے اقدامات شامل نہیں ہیں۔
وزارت صنعت و پیداوار اور اس کی ذیلی تنظیم انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ متعلقہ ادارے ہیں جو آٹو سیکٹر کی تنظیم و فعالیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی کے خلاف نہیں ہیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ یہ قبل از وقت ہے اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے بغیر مشاورت اور بغیر اس صنعت کو سمجھے پالیسیوں اور فیصلوں جیسے اقدامات جلد بازی ہیں جو صرف پہلے سے کمزور آٹو سیکٹر کو نقصان پہنچائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس پالیسی میں واضح سقم موجود ہیں۔ حکومت نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں جیسا کہ الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی سے تیل کی درآمد پر آنے والے اخراجات میں 2 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ انہوں نے اس طرح کے دعووں کی حقیقت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ منتقلی کے عمل پر اٹھنے والے اخراجات بہت زیادہ ہوں گے۔ ابھی تک کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا گیا جو اس قسم کی منتقلی میں معاونت کر سکے اور حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی روڈ میپ فراہم نہیں کیا گیا۔
یہ بات ذہنوں میں گردش کرنا قدرتی عمل ہے کہ آخر میں مسئلہ صرف اخراجات کا نہیں بلکہ ماحولیاتی تغیرات کا بھی ہے۔
’’ماحولیاتی تغیرات سے نمٹنے کیلئے فصلوں کی باقیات جلانے کی روک تھام اور کم اونچائی پر بھٹے سے نکلنے والے دھوئیں کا سدباب جیسے دیگر کئی اقدامات بھی کئے جا سکتے ہیں۔ تو آخر ان کم خرچ اقدامات کی طرف زیادہ توجہ کیوں نہیں دی جا رہی؟‘‘
’’ہمیں الیکٹرک گاڑیوں سے اختلاف نہیں ہے لیکن پاکستانی مارکیٹ (جہاں فی کس مجموعی قومی پیداوار 1 ہزار 3 سو 57 ڈالر ہو) ابھی اس کیلئے تیار نہیں ہے۔ اور سمجھائے گئے ناقص عقیدے کے برعکس الیکٹرک گاڑیاں قیمت میں روایتی گاڑیوں سے قیمت میں بہت مہنگی ہیں۔ کاروباری نظر سے دیکھا جائے تو دیگر کئی چیزوں کی طرح اس اقدام کی معقولیت پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔‘‘
اگرچہ ماحول کو بچانے کیلئے اس قسم کے اقدامات ناگزیر ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں فی الحال صرف کتابی ٹیکنالوجی ہیں۔ معاشی بندشوں کے پیش نظر پاکستان اس قسم کی غیر یقینی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
آٹو سیکٹر سے وابستہ کئی دیگر کھلاڑیوں کو بھی پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی سے اختلافات ہیں لیکن چونکہ یہ پالیسی اب نظر ثانی کے مراحل میں ہے اس لئے وہ ابھی اس پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتے۔ وزارت صنعت و پیداوار اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس مرتبہ مشاورت میں شامل کیا گیا ہے تاکہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کی مکمل تشکیل کی جا سکے اور طے کیا جائے کہ مستقبل میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے حوالے سے ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔
ایک عام رائے یہ بھی ہے کہ صرف 2 اور 3 پہیوں والی گاڑیوں (موٹر سائیکل اور رکشہ) کو ہی بجلی سے چلایا جائے اور روایتی گاڑیوں کو ہی عام استعمال کی اجازت دی جائے۔ تاہم پاکستان میں موٹرائزیشن کی شرح کافی کم ہے۔ پاکستان کے ادارہ برائے اعداد و شمار کے مطابق صرف 9 فیصد گھروں میں ذاتی گاڑی استعمال کی جاتی ہے۔
آٹو سیکٹر گزشتہ سال فروخت میں کمی کے باعث تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اگر پہلے سے تباہ حال اس شعبے کو کسی اور وجہ سے نقصان پہنچتا ہے (مثال کے طور پر الیکٹرک وہیکل پالیسی اور الیکٹرک گاڑیوں کی جانب تبدیلی کا ارادہ) تو جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ یہ شعبہ مزاحمت کرے گا۔
تاہم 2 اور 3 پہیوں والی گاڑیاں بالکل ہی مختلف شعبہ کا حصہ ہیں۔ ادارہ برائے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا آدھے گھروں میں موٹر سائیکل موجود ہے۔ اور یہ امید کی کرن ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں پر تبدیلی کا عمل ممکن ہے۔ ان کی مارکیٹ وسیع ہے اور الیکٹرک بائیکس اور رکشے کی قیمت بھی الیکٹرک گاڑیوں کی نسبت کم ہوگی۔ 2 اور 3 پہیوں والی گاڑیاں بنانے والے اس تبدیلی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہماری سوچ سے بھی پہلے؟
حالات سے باخبر ذرائع نے پرافٹ اردو کو آگاہ کیا کہ حکومت کے پاس اس تبدیلی سے گزرنے کا شاید اس سے ملتا جلتا منصوبہ موجود ہے۔ سب سے پہلے 2 اور 3 پہیوں والی گاڑیوں کی بجلی پر منتقلی ممکن ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں بڑی تعداد میں یہ بائیکس اور رکشے تیار کئے جاتے ہیں اور اگر انہیں بجلی پر منتقل کر لیا جائے تو حکومت کا ماحولیاتی تغیرات سے نمٹنے، تیل کے درآمدی اخراجات میں کمی، نئی ملازمتوں کے مواقع، الیکٹرک گاڑیوں کے برآمد کنندہ بننے اور دیگر مقاصد کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس اقدام سے مستقبل میں الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی کے عمل میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔
پرافٹ اردو نے اس حوالے سے پاکستان الیکٹرک وہیکلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر محمد ایاز سے گفتگو گی۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ اس ضمن میں جلد ہی حکم برائے قانونی ضوابط جاری کر دیا جائے گا۔ ’’اس سے کم از کم الیکٹرک بائیکس اور الیکٹرک رکشوں کی پیداوار کیلئے راستہ ہموار ہوگا۔ میں پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے مستقبل کے حوالے سے پرامید ہوں اور میرا ماننا ہے کہ ہم اپنی سوچ سے بھی پہلے 3 پہیوں والی گاڑی (رکشہ) کی نئی کھیپ کو سڑکوں پر چلتا دیکھ سکیں گے۔‘‘
اس حوالے سے تازہ ترین پیشرفت سازگار کمپنی کی جانب سے متعارف کروائے گئے نئے الیکٹرک رکشہ ہیں۔ سازگار کو پاکستانی مارکیٹ میں سب سے بڑے اور قابل اعتماد مینوفیکچرر کی حیثیت حاصل ہے۔ سازگار کے سیلز ہیڈ اسماعیل غزنوی نے آگاہ کیا کہ باعث حیرت امر یہ ہے کہ یہ کمپنی سری لنکا اور حتیٰ کہ جاپان کو بھی رکشے برآمد کر رہی ہے۔
کیا صارفین کو اعتماد میں لیا گیا؟
مارکیٹنگ کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’صارف بادشاہ ہے‘ اور یہ صارفین الیکٹرک گاڑیوں کی جانب منتقلی کیلئے اسٹیک ہولڈرز کی ایک بڑی تعداد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پرافٹ اردو نے کئی صارفین سے گفتگو کی تاکہ منتقلی کے اس عمل کے حوالے ان کی رائے جان سکیں۔ موٹر سائیکل چلانے بیشتر صارفین رکشہ چلانے والے صارفین کے مقابلے میں اس تبدیلی کو اپنانے کیلئے زیادہ تیار نظر آئے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ موٹر سائیکل چلانے والوں کی نسبت رکشہ چلانے والوں میں ٹیکنالوجی اور اس کے فوائد سے متعلق آگہی کا فقدان ہے۔ لیکن جب انہیں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکنہ بچت کی بابت بتایا گیا ان میں سے زیادہ تر نے اس منتقلی کے حوالے سے دلچسپی کا اظہار کیا۔ تاہم وہ اس حوالے سے قائل نظر آئے کہ ان رکشوں کو مارکیٹ میں آنے کیلئے ابھی کافی وقت درکار ہے۔
موٹر سائیکل اور رکشہ چلانے والے صارفین کو ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ بجلی سے چلنے والی ان گاڑیوں کو چارج کرنے کے انفراسٹرکچر کی دستیابی کیسے ممکن ہوگی۔ جب انہیں سازگار کے الیکٹرک رکشہ سے متعلق بتایا گیا جسے گھر کے عام سوئچ سے چارج کیا جا سکتا ہے اور ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد 5 گھنٹے یا 170 کلومیٹر تک کا سفر طے کیا جا سکتا ہے تو زیادہ تر موٹر سائیکل چلانے والے صارف چارجنگ کے انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی کے باوجود قائل ہو گئے۔ تاہم رکشہ چلانے والے حضرات اس تبدیلی سے متعلق ابھی تک خدشات میں گھرے ہوئے ہیں۔
اچھی خبر اور بری خبر
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ حکومت الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی کے عمل میں سنجیدہ نظر آتی ہے۔ آغاز کرنے کیلئے یہ ایک اچھی خبر ہے۔ مزید اچھی خبر یہ ہے کہ اگرچہ فی الحال الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی اس وقت کوئی قابل عمل آپشن نہیں ہے لیکن 2 اور 3 پہیوں والی گاڑی سے اس تبدیلی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
اگر بات دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کی ہو تو یہ مارکیٹ انتہائی وسیع ہے، موٹر سائیکل کے حوالے پاکستان دنیا بھر میں پانچویں بڑی منڈی ہے اور یہاں سے پہلے ہی سری لنکا اور جاپان کو تین پہیوں والی گاڑیاں برآمد کی جا رہی ہے، جیسا کہ لمز کی رپورٹ’’پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں‘‘میں نشاندہی کی گئی ہے کہ عام آراء کے برعکس یہاں تبدیلی کے اس عمل کیلئے وافر بجلی بھی فراہم ہو گی۔
تاہم اس امر کا انحصار الیکٹرک وہیکل پالیسی پر ہے جس کا تعین ہونا باقی ہے اور جو فی الحال نظر ثانی کے مرحلے میں ہے۔ تمام بڑے اسٹیک ہولڈرز کیلئے فائدہ مند اور بڑے پیمانے پر تبدیلی کیلئے حکومت کی جانب سے ایک مستحکم پالیسی انتہائی ضروری ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے متعدد مواقع پر دیکھا کہ جب بھی عمل درآمد اور سہولیات فراہم کی بات ہو تو موجودہ حکومت تمام تر نیک نیتی کے باوجود ناکام نظر آتی ہے اور یہ ایک بری خبر ہے۔