لاہور ہائی کورٹ نے بینکوں کے لیے رہن شدہ پراپرٹی کی نیلامی قانونی قرار دے دی

رہن شدہ پراپرٹی نیلامی کے عمل میں ایک بولی دہندہ کی شمولیت غیر قانونی قرار بینکوں کے لیے نیلامی میں ایک سے زیادہ بولی دہندگان کو شامل کرنا لازمی ہو گا: لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

775

لاہور: لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے فنانس ترمیمی آرڈیننس 2001 کے (پیسے کی وصولی کے بل) سیکشن 15 کو دوبارہ متعارف کرانے کی درخواست مسترد کر دی ہے، صارف کے نادہندہ ہو جانے کی صورت میں سیکشن 15 بینکوں کو گروی پراپرٹی فروخت کے حوالے سے بااختیار بناتا ہے۔

بینچ نے فیصلے میں کہا ہے کہ بینکوں کو نیلامی کے لیے ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ تاہم بینچ نے نیلامی میں ایک ہی بولی دہندہ کی شمولیت کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ بینکوں کے لیے نیلامی میں ایک سے زیادہ بولی دہندگان کو شامل کرنا لازمی ہو گا۔

سیکشن 15 سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مامون رشید شیخ کی صدارت میں پانچ رکنی بینچ نے کیا، بینچ نے تمام فریقین کے دلائل سنتے ہوئے فیصلہ 8 نومبر 2019 کو محفوظ کیا تھا۔

درخواست گزار محمد شعیب ارشد اور دیگر نے درخواست کے ذریعے فنانس ترمیمی آرڈیننس 2001 کے سیکشن 15 کو دوبارہ سے متعارف کرانے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا تھا۔

درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے آرڈیننس آئین کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا تھا جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے دو فیصلوں میں بھی سیکشن 15 کو آئین کے منافی قرار دیا تھا لیکن اس سیکشن کو فنانس ترمیمی ایکٹ 2016 کے تحت لاگو کر دیا گیا تھا۔

درخواست گزاروں کے مطابق بینک واجب الادا رقم کا تعین کیے بغیر جائیداد نیلام نہیں کر سکتے فنانس ترمیمی بل کا سیکشن 15آئین سے متصادم ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قرضوں سے متعلق کیسز جلد نمٹانے کے لیےہائی کورٹ سے درخواست کی تھی۔ درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ رولز میں ترمیم کر کے چارٹرڈ اکاونٹنٹس کو جج کے اختیارات دے دیے گئے۔

2016 میں اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے اس حوالے سے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے نئے سیکشن 15 کو منسوخ کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی درخواست کے بعد 13 ستمبر کو معاملے پر دوبارہ سے سماعت کا آغاز کیا تھا اور یہ کیس 31 جولائی 2019 سے وزیراعظم کے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کی تقریب میں خطاب کے بعد سے زیرِ التوا تھا۔

بنک قرض نادہندگان کے خلاف صرف بنکنگ کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here