اس حقیقت سے بہت کم افراد آگاہ ہوں گے کہ پاکستان میں چار شہروں سے ہیتھرو ایئرپورٹ لندن تک براہ راست پرواز کی سہولیات دستیاب ہیں، ان شہروں میں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور سیالکوٹ شامل ہیں۔ شاید آپ کو پہلے تین شہروں سے لندن کے لیے براہ راست پروازوں کا علم ہو لیکن اس بات کا علم نہ ہو کہ سیالکوٹ سے بھی براہ راست پروازیں لندن جاتی ہیں۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا پیدائشی شہر سیالکوٹ پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت زیادہ صنعتی و کاروباری اہمیت کا حامل ہے ، کھیلوں کا سب سے زیادہ سامان اسی شہر میں بنتا ہے، یہاں کا کاروباری طبقہ غیر معمولی طور پر خودانحصاری پر یقین رکھتا ہے ، اسی کاروباری برادری نے مل کر سیالکوٹ میں ایک ایئرپورٹ تعمیر کروا دیاہے جو پاکستان کا واحد نجی ایئرپورٹ ہےتاہم بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ ایئرپورٹ کس قدر بہتر طور پر چل رہا ہے ۔
سیالکوٹ میں ایوی ایشن کی کامیابی کی رفتار اور اس کا حجم ناقابل یقین ہے، سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے)کے مطابق یہ اب تک پاکستان کا تیزی سے ترقی کرنے والا ایئرپورٹ ہے جس میں بین الاقوامی پروازوں کی ٹریفک میں گزشتہ 11سالوں کے دوران 62.7 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہورہاہے لیکن صرف اعداد و شمار سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ سیالکوٹ میں کتنی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔
2006ء میں سیالکوٹ میں ایک بھی ایئرپورٹ نہیں تھا، اگر اُس وقت آپ سیالکوٹ میں رہتے ہوتے تو آپ کو پہلے بس کے ذریعے لاہور جانا پڑتا اور پھر لاہور سے پرواز پکڑنا پڑتی لیکن اب 2020ء میں سیالکوٹ ایئرپورٹ پاکستان کا چوتھا مصروف ترین ہوائی اڈا بن چکا ہے جہاں سے آپ ہفتہ وار دنیا کے بڑے شہروں دبئی، شارجہ، دوحہ، مسقط، ریاض، دمام، مانامہ، کویت، لندن، میلان ،پیرس اور بارسلونا کے لیے پرواز پکڑ سکتے ہیں۔
سیالکوٹ سے ہوائی سفر میں اضافے کو دیکھتے ہوئے یہ امر ہرگز حیران کن نہیں اگر یہاں کی کاروباری برادری پی آئی اے پر مزید انحصار کرنے کی بجائے ایئر سیال کے نام سے ذاتی فضائی سروس شروع کر رہی ہے، جس کا مرکزسیالکوٹ ایئرپورٹ ہی ہوگا۔
جیسا کہ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے اراکین کہہ چکے ہیں ،’ ہم نے اپنے لئے ایئرپورٹ تعمیر کرلیا ہے اور اب اپنے لئے ایئرلائن بھی قائم کرلیں گے۔‘ لیکن یہ سمجھنے کیلئے کہ ایئرسیال کا منصوبہ کتنا کارآمد ثابت ہوگا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیالکوٹ ایئرپورٹ کا قیام کیسے ممکن ہوا۔
سیالکوٹ ایئرپورٹ کی کہانی
سیالکوٹ پنجاب کے تین سب سے زیادہ برآمدات کرنے والے شہروں میں سے ایک ہے، دیگر دو شہرگجرات اور گوجرانوالہ ہیں جو صنعتی شہر کہلاتے ہیں۔ دیگر دو شہروں کی طرح سیالکوٹ لاہور اور راولپنڈی کو ملانے والی جی ٹی روڈپر واقع نہیں ہےاور اگرچہ سیالکوٹ میں ریلوے اسٹیشن موجود ہے لیکن یہ پشاور اور کراچی کو ملانے والی مرکزی ریلوے لائن پر موجود نہیں بلکہ وزیر آباد کے ذریعے مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہے۔
سڑکوں اور ریلوے لائن کے ذریعے بڑے شہروں کے ساتھ رابطے کا فقدان سیالکوٹ کی کاروباری برادری کے لیے ایک عرصہ سے باعث تشویش رہا ہے۔
کافی عرصہ سے سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اراکین کوشاں تھے کہ اسلام آباد میں بیٹھے فیصلہ ساز اُن کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کریں مگر کوئی شنوائی نہیں ہو سکی، نوے کی دہائی کے بعد سیالکوٹ چیمبر کے اراکین نے فیصلہ کیا کہ ’اگر حکومت ائیرپورٹ بنا کر نہیں دیتی تو ہم خود بنا لیں گے‘۔ اور پھر 2001ء میں سیالکوٹ چیمبر کے ذمہ داران نے ایئرپورٹ کی تعمیر کے لیے مشرف انتظامیہ تک رسائی حاصل کی۔
شائد یہ بات عجیب لگے کہ مشرف کی فوجی حکومت نے ائیرپورٹ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی لیکن سول ایوی ایشن اتھارٹی نے طویل عرصہ تک اس ایئرپورٹ کی تعمیر کی راہ میں رخنہ ڈالے رکھاکیونکہ سیالکوٹ جغرافیائی طور پر مقبوضہ کشمیر کی سرحد کے قریب واقع ہے ۔
تاہم مشرف انتظامیہ سے اجازت ملنے کے بعد سیالکوٹ چیمبر نے ائیرپورٹ کی تعمیر کے لیے پیسہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا،چیمبر کے365 امیر ترین اراکین نے سرمایہ کاری کی، کم سے کم سرمایہ کاری 10 لاکھ روپے تھی ،13 امیر ترین خاندانوں نے فی کس ایک کروڑ روپے سے زائد دئیے ،یوں کچھ ہی عرصے میں 2.1 ارب روپے سے کچھ کم رقم جمع ہو گئی۔
سیالکوٹ سے باہر یہ ائیرپورٹ ایک ہزار ایکڑ رقبہ پر تعمیر کیا گیا تاکہ گجرات اور گوجرانوالہ سمیت دیگر قریبی علاقوں کے عوام بھی مستفید ہو سکیں، اگرچہ حکومت نے ایئرپورٹ کی تعمیر کیلئے کچھ نہیں کیا تاہم پنجاب حکومت نے وزیر آباد اور سیالکوٹ ہائی وے سے ایئرپورٹ تک ایک سڑک تعمیر کردی۔
سیالکوٹ ایئرپورٹ ایک ٹرمینل اور ایک رن وے پر مشتمل ہےتاہم یہ رن وے اسلام آباد ائیرپورٹ کے بعد دوسرا طویل ترین رن وے ہے،ایئرپورٹ کی تعمیر جنوری 2003ء میں شروع ہوئی اور پہلی تجرباتی پرواز مارچ 2005ء میں اڑی ۔
ایئر بلیو نے ستمبر 2007ء کے اختتام پر سیالکوٹ سے کراچی کے لیے پروازوں کا آغاز کیا ، اسی دوران ہی پی آئی اے نے بھی اس ائیرپورٹ سے پروازیں شروع کردیں ۔
ابتداء میں ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ ایئرپورٹ سیالکوٹ کو پاکستان کے دیگر شہروں سے جوڑنے سے زیادہ دوسرے ممالک سے جوڑے گا،30 جون 2009ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام اور اپنے آپریشنز کے دو سالوں بعد سیالکوٹ ائیرپورٹ پر بین الاقوامی پروازوں کی تعداد مقامی پروازوں کی نسبت زیادہ تھی۔
ابتدائی سالوں میں بین الاقوامی پروازیں پی آئی اے اور ایئر بلیو کے ذریعے ہی ہوتی تھیں ، جولائی 2009ء میں شاہین ایئرلائنز شروع ہوئی تو وہ بھی اس میں شامل ہو گئی تاہم نومبر 2012ء میں حکومت نے اس ایئرپورٹ سے غیر ملکی ایئرلائنز کو بھی پروازوں کی اجازت دے دی اور ایئر عریبیہ پہلی ایئرلائن تھی جسے یہاں سے پروازوں کی اجازت ملی اور اس نے جنوری 2013ء میں سیالکوٹ تا شارجہ براہ راست پرواز کا آغاز کیا، اُسی سال مارچ میں فلائی دبئی اور مئی میں ایمریٹس نے سیالکوٹ ایئرپورٹ سے پروازوں کا آغاز کیا۔
ابتداء میں ایمریٹس سیالکوٹ سے دبئی کے لیے ہفتہ وار چار پروازیں اڑاتی تھی تاہم دو سال بعد ہی ایمریٹس نے روزانہ کی بنیاد پر پروازیں شروع کردیں ۔
اسی اثناء میں پی آئی اے نے سیالکوٹ تا یورپ براہ راست تجرباتی پروازیں کیں،2012ء کے آغاز میں ایک تجرباتی پرواز بارسلونا روانہ ہوئی تاہم ابتدائی تجربات کچھ خاص ثمرآور ثابت نہیں ہوئے ۔ جنوری 2019ء میں پی آئی اے نے سیالکوٹ سے بارسلونا اور پیرس کیلئے فلائٹس کا آغاز کیا جس سے ائیرلائن کے اخراجات میں کمی آئی۔
یہ سوال اٹھتا ہے کہ پی آئی اے نے بارسلونا کے لیے ہی پروازیں کیوں شروع کیں؟ دراصل بارسلونا میں بڑی تعداد میں پاکستانی مقیم ہیں جن کاتعلق سیالکوٹ اور لاہور کے قریب جی ٹی روڈ کے قرب و جوار کے علاقوں سے ہے۔
اسکے علاوہ دنیا کے 40 فیصد فٹ بال سیالکوٹ میں بنتے ہیں، آپ میں سے بیشتر نے بارسلونا کے ایک دو فٹ بال کلبوں کا نام ضرور سنا ہوگا۔
سیالکوٹ فٹ بال کیوں تیار کرتا ہے؟ امریکی جریدے دی اٹلانٹک (The Atlantic) میں جو پنسکر (Joe Pinsker) لکھتے ہیں ’’ فٹ بال بنانے کے مرکز کے طور پر سیالکوٹ کی تاریخ برطانوی نو آبادیاتی دور سے ملتی ہے جب متحدہ ہندوستان کے گوروں کو فٹ بال کھیلنے کا شوق ہوا ۔لیکن گورے سمندر پار یورپ سے فٹ بال کی درآمد کے لیے طویل اور صبر آزما انتظار نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ یورپ سے فٹ بال آنے میں کئی دن لگتے تھے، 1889ء میں ایک برطانوی سارجنٹ نے سیالکوٹ کے ایک زین ساز (چمڑے کا کام کرنے والا) کو اپنا پھٹا ہوا فٹ بال مرمت کرنے کے لیے دیا اور اس کے کام سے اتنا خوش ہوا کہ اسے زیادہ تعداد میں فٹ بال بنانے کا آرڈر دے دیا،یوں سیالکوٹ میں فٹ بال بنانے کی صنعت ترقی کرتی گئی ،1982ء سے سیالکوٹ میں تیار کردہ فٹ بال عالمی کپ میں استعمال ہو رہے ہیں۔‘‘
ایئر سیال
آخر ایئر سیال کا آغاز کیوں ہوا؟ کسی بھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی ترقی کی توقع نہیں کی جاسکتی جب تک وہاں کسی ائیرلائن کا مرکز نہ ہو، پاکستان میں پہلے سے موجود ائیر لائنز کے مرکزی دفاتر کراچی میں ہیں جبکہ پی آئی اے نے اسلام آباد کو مرکز بنا یا ہواہے،اس لیے سیالکوٹ ائیرپورٹ کی ترقی کیلئے بین الاقوامی ٹریفک چاہیے تھی۔
ایئر سیال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر امین احسن نے پرافٹ اردو کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا ’’اس منصوبے (ائیرسیال) کی کامیابی کے امکانات اس لئے ہیں کیونکہ سیالکوٹ واحد شہر ہے جہاں ایک نجی ائیرپورٹ موجود ہےجو پاکستان اور خطے میں کسی اور شہر کے پاس نہیں، ہم نے سوچا کہ ہماری اپنی کمرشل ائیرلائن ہونی چاہیے تاکہ وہ زرمبادلہ بچایا جا سکے جو غیر ملکی ائیر لائنز کے پاس چلا جاتا ہے جو سیالکوٹ میں ائیرلائن کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔‘‘
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنی طلب موجود تھی جو ائیر لائن کی ضرورت پیش آئی؟ سیالکوٹ ائیرپورٹ سے ایک سال میں زیادہ سے زیادہ 8 لاکھ 17 ہزار افراد نے سفر کیا، کیا یہ تعداد مزید سرمایہ کاری کیلئے کافی ہے؟ ائیر سیال کے سرمایہ کاروں کے نزدیک اس کا جواب مسافروں کی موجودہ تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں دیا جا سکتا لیکن تیز رفتار ترقی کرکے اس سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے ۔
امین احسن کا کہنا تھا ’’اگر آپ اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو ائیر لائنز کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، انٹرنیشنل ائیر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (IATA) کی پیشگوئی کے مطابق آئندہ 20 سالوں میں پاکستان میں ہوئای سفر کرنے والوں کی تعداد میں 184 فیصد اضافہ ہو جائے گا،اور ان کا مفروضہ ہے کہ موجودہ ائیرلائنز اس کام کیلئے کافی نہیں ۔‘‘
’’اگر آپ رسد کے حوالے سے دیکھیں تو ایک جانب مسافر کی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں اور دوسرا مسافروں کو آداب میزبانی سے بھی شکایات ہیں، پی آئی اے نے اپنے ملازمین کی تعداد میں کمی کی ہے، ائیر بلیو رسد پوری کرنے سے قاصر ہے اور شاہین ائیر کی بندش واضح طور پر اشارہ ہے کہ ایوی ایشن کی صنعت میں داخلے کے دروازے کھلے ہیں۔‘‘
اگر سیالکوٹ کے شہریوں کی ضروریات کو ایک جانب رکھا جائے تو اس کے علاوہ ائیرسیال بنانے کی وجہ کیا ہے؟
امین احسن نے کہا،’’ائیر سیال پاکستانی ایوی ایشن انڈسٹری میں موجود دیگر نجی ائیرلائنز سے اس لیے مختلف ہےکیونکہ اس میں چار سو سے زائد شئیر ہولڈرز شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سیالکوٹ کے کاروباری حلقے سے ہے،اس وجہ سے کمپنی میں ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہواہے،ائیر سیال کی انتظامیہ اسے محض کمرشل مفادات کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہتی بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل ہو اور سیالکوٹ کی کاروباری برادری کیلئے باعث فخر ہو۔‘‘
لیکن سیالکوٹ کی کاروباری برادری کی اجتماعی کاوشوں سے وجود میں آنے والی یہ ائیرلائن اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ کام کیسے کرے گی۔
ایوی ایشن انڈسٹری میں کسی بھی قسم کے خارجی حالات کی وجہ سے منافع کی بجائے نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے،ایسے حالات میں کئی ائیر لائنز مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں، تاہم امین احسن کا ماننا ہے کہ مسابقتی دوڑ میں یہ چیز ائیرسیال کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے کیونکہ ہم اپنے شئیرہولڈر ڈھانچے کی وجہ سے قلیل مدت میں ائیرلائن کے لیے اضافی سرمایہ جمع کرسکتے ہیں۔
ائیر سیال جون 2020ء میں کراچی اور اسلام آباد کے لیے ہفتہ وار پروازیں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے بعد قوی امکان ہیں کہ پشاور اور کوئٹہ کے لیے بھی پروازیں شروع کی جائیں گی اورپروازوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جا ئے گا۔
اس کے بعد یہ ائیر لائن آئندہ سال مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر دبئی کے لیے پروازیں شروع کرنا چاہتی ہے، تاہم ابھی تک یورپ کیلئے ممکنہ فضائی آپریشنز کی بابت کچھ نہیں کہا گیا۔
کمپنی ابتدائی طورپر آئر لینڈ کی کمپنی ائیر کیپ (AerCap) سے لیز پرلیے گئے تین طیاروں سے پروازوں کا آغاز کرنا چاہتی ہے جن میں A320 اور A200 ائیربس طیارے شامل ہیں۔
ڈیڑھ سو مسافروں کی گنجائش والا A320 ائیرکرافٹ اس وقت دنیا میں بہترین سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ نسبتاََ تنگ حجم کا حامل ہے اور اس کی پرواز کی صلاحیت 61سو کلومیٹر ہے، اس لحاظ سے لندن تو پرواز کی حدود سے باہر چلا جاتا ہے لیکن اس جہاز پر (کچھ کھینچ تان کر)سیالکوٹ سے پیرس تک کا براہ راست سفر کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس جہاز کو مختصر اور درمیانے دورانیے کے سفر کیلئے تیار کیا گیا ہے اس لئے A320 مشرق وسطیٰ کی ائیرلائنز میں سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
بڑی مارکیٹ
ایئر سیال پاکستانی ایوی ایشن انڈسٹری میں قدم رکھنے والی پہلی ائیر لائن نہیں، 2019ء میں حکومتِ پاکستان نے ملک میں نئی ائیر لائنز کے قیام کی حوصلہ افزائی کیلئے نئی ایوی ایشن پالیسی متعارف کروائی اور متعدد ادارے اس مارکیٹ میں قدم رکھنے کو تیار ہیں، ائیر سیال کے علاوہ عفیف زارا ایئر ویز، عسکری ایئر، گو گرین اور لبرٹی ائیر بھی اس دوڑ میں شامل ہیں جبکہ اس مارکیٹ پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے خیال میں ائیر سیال کے بعد لبرٹی ائیر پروازوں کا آغاز کرسکتی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ائیر سیال کی انتظامیہ جانتی ہے کہ وہ ایک بڑی مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں اور مسابقت کی دوڑ میں حصہ لینے کو بالکل تیار ہیں۔
اس حوالے سے امین احسن نے کہا،’’اس کیلئے کوئی شارٹ کٹ نہیں، ہم جانتے ہیں کہ اس صنعت میں رہتے ہوئے کیسے کام کرنا ہے ،یہ بھی کہ صرف وہی اپنا وجود قائم رکھ سکے گا جو بہترین ہوگا، ہماری بہترین کاروباری صلاحیتوں کا مقصد صرف بقاء نہیں بلکہ ہم مسابقت کی اس دوڑ میں اپنے قدم جمائے رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’میں ہمارے چیئرمین فضل جیلانی کے ویژن کا ذکر کرنا چاہوں گا جن کا مقصد ائیرلائن کے کرایوں سے متعلق صارفین کو مدنظر رکھ کر پالیسی مرتب کرنا ہے، اگرچہ میں اس وقت زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم یہ یقینی ہے کہ ائیر سیال حریف کمپنیوں کی نسبت اپنے کسٹمرز کی سہولت ،آرام اور تحفظ کا زیادہ خیال رکھے گی۔‘‘
جیسا کہ پہلے تحریر کیا گیا کہ نئی کمپنیاں اگر تیزی سے ترقی نہیں کر رہیں تو پھر بھی بہتر کام کر رہی ہیں، مثال کے طور پر 2016ء میں سیرین ایئر (Serene Air)کے مسافروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ 2019ء میں اس پر 17 لاکھ 50 ہزار مسافروں نے سفر کیا اور اگرچہ ائیر بلیو سست روی کا شکار ہے پھر بھی 2019ء میں اس سے 18 لاکھ مسافروں نے سفر کیا۔
امین احسان کے مطابق’’گو کہ ائیر بلیو کی کارکردگی کچھ خاص نمایاں نہیں تھی پھر بھی مسافروں کی تعداد پر زیادہ فرق نہیں پڑا۔‘‘
اگر کوئی ائیر لائن بری طرح متاثر ہوئی ہے تو وہ ہے شاہین ایئر ۔جس کے ذریعے سفر کرنے والوں کی تعداد 2018ء میں 28 لاکھ تھی جو 2019ء میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ، اب شاید یہ مارکیٹ سے ہی باہر ہو چکی ہے، امین احسن کے مطابق ائیر لائن کے زوال کی وضاحت مارکیٹ فیکٹرزکے ذریعے نہیں کی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا ’’شاہین کی ناکامی کو کاروباری اصولوں سے واضح نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ زیر استعمال ہوائی جہازوں، ضوابط، اویل ایبل سیٹ کلومیٹرز (ASKs)، ریونیو پیسنجر کلومیٹرز (RPKs) اور نشستوں کی فراہمی جیسے امور میں بہتر کارکردگی کا مظاہر کر رہی تھی لیکن کچھ خارجی اور غیر واضح عناصر اس کے زوال کا باعث بنے۔‘‘
حکومتِ پاکستان اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کی حکومت ایوی ایشن کے شعبے میں سنجیدہ نظر آتی ہے اور ایسی پالیسیاں بنا رہی ہے جس سےاس شعبے کو ترقی ملے، اس کے ساتھ موجودہ حکومت پاکستان کو سیاحت کا مرکز بنانے پر توجہ دے رہی ہےجس سے ایوی ایشن کی صنعت مزید فروغ پائے گی۔
امین احسن کے مطابق’’ اس وقت ایوی ایشن کے شعبہ کیلئے حالات سازگار ہیں کیونکہ اس شعبہ کیلئے حکومت پالیسی سازی کر رہی ہے ، وزیراعظم خود اس شعبے میں دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ اس کی توسیع سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے، معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوگی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔‘‘
ایوی ایشن کے فروغ سے معاشی ترقی کی رفتار تیز ہونے کے امکانات روشن ہیں، امین احسن نے کہا،’’مجھے لگتا ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں اورمجموعی قومی پیداوار میں اضافہ ہوگا جس سے مزید روزگار پیدا ہوگا ۔ ہمیں امید ہے کہ ہم انٹرنیشنل ائیر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے طویل مدتی اندازے کے برعکس پانچ سالوں میں سات لاکھ 86 ہزار 3 سو ملازمتیں اور آئندہ 20 سالوں میں مجموعی قومی پیداوار میں 9.3 ارب ڈالر اضافے کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
ائیر سیال کا مقصد اگلے 5 سال میں مسافروں کے لحاظ سے تمام نجی مقامی ائیر لائنز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پی آئی اے کے بعد دوسرا نمبر حاصل کرنا ہے۔’’میں مستقبل میں اس ائیر لائن کو پاکستان کی دوسری بڑی ائیر لائن بنتے ہوئے دیکھ رہاہوں، ہم پاکستان میں اور پاکستان سے باہر اپنے قابل قدر صارفین کو بہترین سروس فراہم کریں گے۔‘‘
لیکن ایسا ہوگا کیسے؟ اس کا جواب اس مارکیٹ شئیر میں مضمر ہے جس کی تلاش ائیر سیال کر رہی ہے۔
ایئر سیال کا مارکیٹ شئیر کتنا ہو سکتا ہے؟
2017ء کی مردم شماری کے مطابق سیالکوٹ کی آبادی بہ مشکل 10 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور ان میں سے زیادہ تر افراد کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ہوائی سفر کر سکیں۔
اگر صرف سیالکوٹ کی آبادی کو دیکھا جائے تو یقیناََ ایئر سیال کو مستقبل میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں، تاہم اب پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے شہر اور قصبات بس گئے ہیں ،وقت کے ساتھ بڑے شہروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو ا ہے۔
سیالکوٹ گوجرانوالہ کے میٹروپولیٹن علاقے میں شامل چار بڑے شہروں میں سے ایک ہے جو کہ پاکستان کا تیسرا بڑا میٹرو پولیٹن شہر ہے ،اس سے پہلے کراچی اور لاہور کا نمبر آتا ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق لاہور کا میٹروپولیٹن علاقہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے جس میں دو کروڑ سے کم افراد رہائش پذیر ہیں، کراچی میں ایک کروڑ 70لاکھ اور گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد اور منڈی بہاؤالدین پر مشتمل گوجرانوالہ میٹروپولیٹن میں ایک کروڑ 60 لاکھ افراد مقیم ہیں۔
یہ سچ ہے کہ سیالکوٹ ائیرپورٹ سے بھی مستفید ہونے والوں کی تعداد بھی تقریباََ کراچی جتنی ہی ہے۔ 2019ء میں کراچی کے جناح ائیرپورٹ سے 62 لاکھ جبکہ سیالکوٹ ائیرپورٹ سے محض 6 لاکھ 50 ہزار مسافروں نے سفر کیا ۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ جناح ائیرپورٹ پر مسافروں کی تعداد میں گزشتہ 12 ماہ میں سالانہ ایک فیصد جبکہ اسی عرصہ میں سیالکوٹ ائیرپورٹ پر سالانہ 40.7 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
باالفاظ دیگر ائیر سیال کے چیف ایگزیکٹو امین احسان کا یہ نکتہ اہمیت کا حامل ہے کہ موجودہ ائیر لائنز ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے میٹرو پولیٹن علاقے کی ضروریات موثر انداز میں پوری کرنے سے قاصر ہیں جبکہ معاشی فیصلہ سازی کا رحجان بھی صرف اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کی جانب ہے۔
ظاہری بات ہے کہ گوجرانوالہ کا میٹروپولیٹن علاقہ کراچی سے زیادہ وسیع ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ گوجرانوالا میٹروپولیٹن کے تمام علاقوں کو سیالکوٹ قریب پڑتا ہے،ضلع نارووال کے کچھ علاقے لاہور سے قریب تر ہو سکتے ہیں لیکن اگر سیالکوٹ کو مقامی اور بین الاقوامی ہوابازی کا مرکز بنا دیا جائے تو یہاں کے رہائشیوں کا طرز زندگی بے حد معیاری ہو جائےگا۔
یہی وہ مارکیٹ ہے جس سے ائیر سیال فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے اور خاص طور پر یہاں کوئی دوسری ائیر لائن بھی مقابلے پر نہیں ہے، اگر ایسا ہی ہوا تو ائیرسیال انتظامیہ کی کمپنی کے مستقبل کے حوالے سے پیش گوئیاں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔