جنیوا: اقوام متحدہ کے ماہرین معاشیات نے خبردار کیا ہے کہ مہلک کورونا وائرس عالمی معیشت کے لیے رواں برس ایک سے دو کھرب ڈالر کے نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور حکومتوں سے اپنے اخراجات کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
یو این کانفرنس آن ٹریڈ، انوسٹمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ (یو این سی ٹی اے ڈی) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کچھ ملکوں کو معاشی بحران کا شکار کرے گا اور مجموعی طور پر عالمی معیشت کی شرح نمو میں نمایاں کمی کا باعث بنے گا۔
حقیقت میں معاملہ یہ ہے کہ یہ وبا پہلے ہی دنیا بھر میں 110,000 لوگوں کو متاثر کرچکی ہے اور 38 سو سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جس کے بارے میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ عالمی معیشت کی شرح نمو 2.5 فی صد سے کم کر سکتی ہے، یو این سی ٹی اے ڈی نے یہ بھی کہا ہے، یہ حالات عالمی معیشت کے لیے سست روی کا باعث ثابت ہو سکتے ہیں۔
یو این سی ٹی اے ڈی کی گلوبلائزیشن اینڈ ڈویلپمنٹ سٹریٹیجیز ڈویژن کے سربراہ رچرڈ کوزول رائٹ نے کہا ہے، رواں برس ستمبر میں کی گئی پیشگوئی سے موازنہ کریں تو ہم عالمی معیشت کی شرح نمو دو فی صد سے کم دیکھ رہے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو غالباً ایک کھرب ڈالر کا نقصان ہو گا۔
انہوں نے جنیوا میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، حقیقی سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیشگوئی پرامید طور پر درست ثابت ہو گی یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ بدترین منظرنامے میں دو کھرب ڈالر تک ڈوب جائیں گے۔
عالمی معیشت پر نمایاں ہونے والے چند ایشوز میں صارفین اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی، عالمی طلب کی سست روی، بڑھتا ہوا قرضہ اور منڈی میں بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والی بے چینی شامل ہیں۔
یو این سی ٹی اے ڈی نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بڑے پیمانے پر معاشی سست روی کا سامنا کرنے کے خطرات سے دوچار ہے۔ اثاثوں کی قدر کا اچانک اور بڑے پیمانے پر گر جانا جو شرح نمو کی حالیہ سائیکل کا اختتام ثابت ہو سکتا ہے اور یہ امکان نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرینِ معاشیات نے کہا ہے، زیادہ ڈرامائی منظرنامے میں سب سے متاثرہ معیشتوں میں وہ ملک شامل ہوں گے جو بڑے پیمانے پر پیٹرول اور دیگر اجناس کی برآمد پر انحصار کر رہے ہیں یوں وہ ملک متاثر ہوں گے جن کے چین اور ان ملکوں کے ساتھ گہرے کاروباری تعلقات ہیں جو اس وبا سے سب سے پہلے متاثر ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس بحران کی مدت اور شدت کا انحصار اس اَمر پر ہے کہ یہ وائرس کس حد تک پھیلتا ہے، ویکسین بنانے کے لیے وقت کی ضرورت ہے، آبادی میں بے چینی کی سطح کیا ہے اور ان اقدامات کا کیا اثر ہوتا ہے جو معیشتوں نے اس وبا پر قابو پانے کے لیے کیے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مرکزی بنک اکیلے بحران سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوں گے، یو این سی ٹی اے ڈی نے دنیا کی اہم ترین معیشتوں کے درمیان عالمی رابطہ قائم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔