یونیٹی فوڈز: سابق ٹیکسٹائل کمپنی کی خوردنی تیل میں کامیابیاں

1236

تقریباََ 3 سال قبل طحہٰ اسپننگ ملز کے نام سے ایک کمپنی پر کٹھن وقت کے سائے منڈلانے لگے۔ اس کمپنی نے ٹیکسٹائل کی صنعت پر غالب اس بحران کا بخوبی جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ ’’یہ شعبہ ہمارے لئے نہیں ہے‘‘۔ یہ کمپنی اس کی بجائے خوردنی تیل کی صنعت میں داخل ہو گئی اور اس کی خاصیت چکنائی سے تیار کردہ مصنوعات اور جانوروں کی خوراک تھی۔

آج اس کمپنی کی تقدیر بدل چکی ہے۔ یونیٹی فوڈز کے نام سے اس نئی کمپنی نے مالی سال 2018ء کی آمدن 2.8 ارب روپے کی نسبت مالی سال 2019ء میں 407 فیصد اضافہ کے ساتھ 14 ارب روپے کمائے۔ جب اس کمپنی نے خودرنی تیل کی صنعت میں قدم رکھا اس کی ریفائننگ کی صلاحیت 54 ہزار میٹرک ٹن سالانہ تھی اور اب اس کی ریفائننگ کی صلاحیت 2 لاکھ 34 ہزار میٹرک ٹن سالانہ ہے۔

سیکیورٹی اور بروکریج فرم عباسی اینڈ کمپنی کے ریسرچ اینالسٹ فواد نوید نے 2 مارچ کو کلائنٹس کو جاری اپنے نوٹ میں تحریر کیا ’’ہمارے مشاہدے کے مطابق کمپنی کی مصنوعات پر صارفین تیزی سے بھروسہ کر رہے ہیں اور جدید انتظامی امور کے باعث بہتر شرح منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے آٹے کے کاروبار میں داخل ہونے سے اس کمپنی کی 5 سال پر مشتمل سالانہ مجموعی شرح ترقی (compound annualised growth rate) کے حساب سے اس کی آمدن اور منافع میں بالترتیب 30 فیصد اور 50 فیصد اضافہ ہوگا۔ ‘‘

بحیثیت سابق اسپننگ مل یونیٹی فوڈز خودنی تیل کی صنعت کو بہتر طور پر سمجھتی ہے۔ خوردنی تیل کی فروخت پر سخت قواعد کے نفاذ نے بہتر معیار اور حفظان صحت کے اصولوں پر تیار کردہ خوردنی تیل کی طلب میں اضافہ کر دیا ہے۔ یونیٹی نے ’ذوقین‘ اور ’اہتمام‘ دو برانڈز متعارف کروائے جو قیمت میں کم ہیں اور عوام میں ہردلعزیز ہیں۔

یونیٹی کی تیزی سے ترقی میں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس نے غیر مناسب شرح تبادلہ کے باوجود اپنی شرح ترقی میں بہتری کی۔ یونیٹی ہر مہینے امریکہ سے سویا بین اور کینولا کے بیج اور ملائشیا اور انڈونیشیا سے پام آئل اور خصوصی اجزائے چکنائی درآمد کرتی ہے۔

لیکن گزشتہ دو سال میں ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں ہونے والی 55 فیصد کمی کے باوجود 2019ء میں اس کمپنی کے منافع کی شرح 9.1 فیصد تک جا پہنچی جو کہ گزشتہ سال 8.9 فیصد تھی۔ 30 جون 2020ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں اس کے منافع کی شرح 9.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

نوید کا کہنا تھا ’’ہمارے مشاہدے کے مطابق آگے چل کر اس کمپنی کے منافع کی شرح 10 سے 11 فیصد تک رہے گی۔ اور پورٹ قاسم پر 45 ہزار میٹرک ٹن کا حجم رکھنے والے آئل ٹرمینل کے قیام کے بعد اس کمپنی کو آلات خریدنے اور کم قیمت پر مصنوعات تیار کرنے میں مدد فراہم ہوگی۔‘‘

ان قابل ستائش اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یونیٹی فوڈز توسیع کی جانب گامزن ہے۔ سب سے پہلے یہ کمپنی ہائیدڑوجینیشن گھی پلانٹ، ایک کمیکل ریفائنری، ایک تکسیری/تجزیاتی پلانٹ اور پورٹ قاسم پر گودام پر 3.75 ارب روپے خرچ کر رہی ہے۔

فروری 2019ء میں اس کمپنی نے اضافی 3.75 ارب روپے ایکوئٹی مارکیٹ سے اکٹھا کئے جس سے اس کمپنی کے حصص کی قیمت 222 فیصد تک بڑھ گئی۔ اس رقم کو کیپیٹل اخراجات کی مد میں استعمال کیا جائے گا جس سے اس کمپنی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ پچھلے سال سے اب تک یہ کمپنی اس رقم میں سے 1.72 ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔

ان اخراجات میں پورٹ قاسم پر خام پام آئل ریفائنری کا حصول بھی شامل ہے جو روزانہ کی بنیاد پر 500 ٹن پیداوار کی صلاحیت رکھتی ہے۔

دوسرے نمبر پر یہ کمپنی اپنے آٹے کے کاروبار میں توسیع کی جانب گامزن ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ بھی اسی طرح ترقی کرے گی جیسے تیل کے کاروبار میں میسر ہوئی۔ یہ کمپنی خود سے 36 کروڑ 70 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری اکٹھی کر کے سن رج فوڈز (Sunridge Foods) کے 69 فیصد حصص کے حصول میں دلچسپی رکھتی ہے۔ سن رج فوڈز 2015ء میں پورٹ قاسم پر قائم ہونے والی ایک آٹا تیار کرنے کی کمپنی ہے جس میں سالانہ 36 ہزار میٹرک ٹن پیداوار کی گنجائش ہے۔

ٹیکسٹائل کے کاروبار کو چھوڑ کر یونیٹی کا خوراک کے کاروبار میں داخلے کا اقدام پاکستان میں نیا نہیں ہے۔ دیگر منافع بخش صنعتوں کی نسبت پاکستان میں اپنی بقاء کیلئے جدوجہد کرنے والی ٹیکسٹائل کی صنعت اور بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں کمزور ٹیکسٹائل کے کاروبار کی وجہ سے کئی ٹیکسٹائل مل مالکان اپنے کاروبار کو چھوڑ کر دیگر منافع بخش کاروباروں کا رخ کر رہے ہیں۔

ایسا گمان ہوتا ہے کہ یونیٹی فوڈز میں سرمایہ کاری کرنے والے کئی سرمایہ کار پہلے ہی اجناس خاص طور پر چاول اور گندم کی تجارت کے کاروبار میں تجربہ رکھتے ہیں۔ عبدالمجید غیزانی چاولوں کے برآمد کنندہ اور اس کمپنی کے بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ فرخ امین گوڈیل چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں جن کا تعلق گندم اور چاول برآمد کرنے والے ایک نمایاں خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

2018ء میں کمپنی کی خوردنی تیل کی پیداوار کی جانب تبدیلی کے پہلے 2 سال میں ڈائریکٹرز اور سی ای او نے تنخواہ وصول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی بجائے کمپنی میں اپنے حصص کیلئے کام کرنا شروع کر دیا جو کہ اپنی قابلیت پر اعتماد کی نمایاں علامت ہے جس کے بل بوتے پر کمپنی کی پہچان تبدیل کرتے ہوئے مثبت نتائج اخذ کئے گئے۔

یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ خوردنی تیل اور آٹے کا کاروبار پاکستان میں انتہائی مسابقتی اور وسیع شعبہ ہے۔ اگرچہ خوردنی تیل کے مقابلے میں آٹے کی مارکیٹ زیادہ مستحکم ہے پھر بھی چھوٹی کمپنیوں کی بڑی تعداد ان دونوں شعبہ جات میں کام کر رہی ہے۔ دونوں شعبہ جات اجناس کی مارکیٹ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے وابستہ کمپنیاں قیمت کا تعین خود کرنے کی خوبی نہیں رکھتیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کمپنی کی نئی انتظامیہ کا غذائی اجناس کے شعبہ میں انتہائی تجربہ کار ہیں اور اس امر کے مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔ تاہم اس کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ طویل مدت میں اس کمپنی کی آمدن میں اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے اور صارفین بھی کسی وقت بالکل ہی مختلف مصنوعات استعمال کر سکتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here