5.2 کھرب روپے کا ٹیکس ہدف کیسے پورا ہوگا؟ ایف بی آر معجزے کا منتظر

1891
3d render of growing taxation concept

بنجامن فرینکلن کا کہنا تھا کہ زندگی میں دو ہی حقائق یقینی ہیں ایک موت اور دوسرا ٹیکس۔ تاہم پاکستان میں کچھ چیزوں کی طرح ٹیکس بھی غیر یقینی ہے۔ ایسا اس لئے نہیں کہ لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے، لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور بعض اوقات غیر منصفانہ بھی لیکن آزادی کے 7 عشرے گزارنے کے بعد بھی ٹیکس اصلاحات کیلئے کی گئیں تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ ٹیکس کے نظام کی از سر نو تشکیل کیلئے غیر سنجیدگی اور بغیر کسی ہدف کے کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں ہمارے پاس جو ٹیکس کا نظام نافذ العمل ہے وہ مختلف بے ربط نظریوں کا مرکب معلوم ہوتا ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے وفاقی بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) کیلئے ٹیکسوں کی وصولی کے 5.238 ٹریلین روپے کے ہدف کو کم کر کے 5.503 کھرب روپے مختص کیا تھا۔ 265 ارب روپے کی چھوٹ سے ایف بی آر کو کچھ وقت کیلئے سکون تو ملا اور اس میں رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں 211 ارب روپے کا شارٹ فال دیکھنے میں آیا۔

یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف نے ٹیکس ہدف میں دوسری بار کمی کرتے ہوئے 4.8 کھرب روپے مقرر کردیا

پاکستان کی معیشت برائے 19ء-2018ء پر مبنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں وصولی 43 فیصد کمی کے ساتھ 76.4 ارب روپے رہی اور اگر اس کا موازنہ سابقہ مالی سال سے کیا جائے تو سابقہ سال ودہولڈنگ ٹیکسوں کا یہ حجم 133.4 ارب روپے تھا۔ اس رپورٹ میں مزید درج کیا گیا کہ مجموعی طور پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں وصولی 8.2 فیصد کمی کے ساتھ 960.7 ارب روپے رہی اور اگر اس کا موازنہ سابقہ مالی سال سے کیا جائے تو یہ حجم 1047 ارب روپے تھا۔

ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے 5.238 ٹریلین روپے کا ہدف پورا کرنے کیلئے رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں 2.828 روپے کے ٹیکس وصول کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بجائے ٹیکس وصولی میں توسیع کرنے کے ایف بی آر کی جانب سے آئی ایم ایف کو ٹیکس اہداف 5.238 ٹریلین روپے سے بھی کم کر کے 4.8 کھرب روپے مختص کرنے کی درخواست کی گئی تاکہ شارٹ فال کو پورا کیا جا سکے۔

اور چونکہ اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اس لئے 5.2 ٹریلین روپے کا بڑا ہدف پورا کرنے کیلئے ہر ماہ اوسطاََ 567.5 ارب روپے کی خطیر رقم ٹیکس وصولی کی مد میں جمع کرنا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: فائلرز کی تعداد میں 45 فیصد اضافہ، پھر بھی ایف بی آر کا خسارہ 208 ارب روپے تک پہنچ گیا

گومگوں کی اس صورتحال کو سہل کرنے کیلئے پرافٹ اردو نے مایہ ناز ماہر معاشیات اور ٹیکس مشیران سے رابطہ کیا تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ ہو کیا رہا ہے اور کیا پاکستان اور ایف بی آر اس تلخ حقیقت سے نجات حاصل کر کے 5.2 ٹریلین روپے کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں؟

ثاقب شیرانی کے مطابق اگر آئی ایم ایف پاکستان کو ایک اور سہولت فراہم کرتا ہے اور ٹیکس وصولیوں کے ہدف کو کم کر کے 4.8 ٹریلین روپے کر دیتا ہے تب بھی شارٹ فال برقرار رہے گا۔ وزیراعظم کی مشاورتی کونسل کے سابق ممبر اور مایہ ناز ماہر معاشیات کہتے ہیں ہیں کہ اگر ایف بی آر واقعتاََ اپنی کارروائی پوری کرتا ہے اور اس مسئلہ سے نمٹ لیتا ہے اور اس دوران کوئی غیر متوقع حادثہ بھی جنم نہیں لیتا تب بھی پاکستان 4.7 ارب روپے سے زیادہ ٹیکس اکٹھا نہیں کر سکتا۔

شیرانی کا مزید کہنا تھا کہ فنڈ پروگرام کے تحت مطلوبہ ہدف کیلئے گزشتہ سال کی وصولیوں کی نسبت 45 فیصد اضافی وصولیاں درکار ہیں اور درآمدات میں نمایاں کمی کے ساتھ ساتھ معیشت بھی زوال پذیر رہے گی کیونکہ درآمدات ٹیکس وصولیوں کا بڑا ذریعہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:88 ارب روپے ٹیکس کی وصولی مشکلات کا شکار، ٹیکس نادہندگان نے ایف بی آر کے خلاف کورٹ کا رُخ کر لیا

شیرانی نے ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کی طویل رخصت اور ان کے ممکنہ استعفیٰ اور ہٹائے جانے کی افواہوں کی جانب بھی اشارہ کیا۔ جیسا شیرانی سوچتے ہیں اگر ایف بی آر 4.7 ارب روپے جمع کر لیتا ہے تو وہ خوش اسلوبی سے اس مسئلے سے نمٹ سکتا ہے اور اس کیلئے انہیں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کی بجائے ایک ایسا چیئرمین تعینات کیا گیا جو ہوا میں ہی اِدھر اُدھر اڑتا پھرے اور ایک ایسا بورڈ تشکیل دیا گیا جو روز اول سے کسی بھی طرح سے چیئرمین کا ہم خیال نہ ہو۔ یہ اچھا آغاز ہرگز نہیں۔

سینئر ماہر معاشیات اور معاشی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن خان ثاقب شیرانی سے اتفاق کرتے ہیں لیکن ان کا اندازا شیرانی کے اخذ کردہ 4.7 ٹریلین سے بھی کم ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’اگر ملک میں معیشت کے موجودہ مایوس کن حالات میں ایف بی آر 4.4 ٹریلین روپے بھی جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو مجھے دنیا میں سب سے زیادہ خوشی ہوگی۔‘‘

منصوبہ بندی کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق ثاقب شیرانی اور ڈاکٹر اشفاق حسن کے اخذ کردہ اعداد و شمار سے اتفاق کرتے ہیں تاہم وہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے ناقد نظر آتے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ مضحکہ خیز مفروضوں اور خالصتاََ زبردستی کی تدبیروں پر مبنی مضحکہ خیز اہداف معاشی سوچ کے منافی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:برآمدات میں کمی کیوں ہوئی؟ وزارت کامرس کی دیگر وزارتوں ، ایف بی آر کیخلاف وزیراعظم کو شکایتیں

ان کا کہنا ہے ’’مغرب میں معیشت کے تیز آغاز کیلئے انہوں نے ٹیکسوں میں کمی کی۔ ہمارے ہاں وہ ٹیکسوں میں اضافہ چاہتے ہیں۔ لیکن ان تفصیلات کی بابت کون غور و فکر کر رہا ہے؟ ہم نے مشکل سے صرف ایک نقطہ پر دستخط کئے اور ایک مرتبہ پھر معیشت کے دگرگوں حالات کی گردش میں پھنس گئے۔‘‘

لندن سکول آف اکنامکس سے گریجوایٹ، سابق ڈپلومیٹ اورسیاسی معاشیات اور ٹیکنالوجی کے ایک دلدادہ قاری یاسر محمود اس وقت ذاتی ٹیکنالوجی کمپنی چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس بات سے متفق ہے۔ یاسر کے مطابق مطلوبہ ہدف انتہائی بلند النظر ہے اور حکومت نے ایف بی آر کی صلاحیتوں کو جانچے بغیر آئی ایم ایف کے مطالبات کو منظور کر لیا۔

شیرانی کے اخذ کردہ اعداد و شمار دہراتے ہوئے یاسر کا کہنا تھا ’’گزشتہ بجٹ میں ریکارڈ 780 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کے باوجود ایف بی آر مطلوبہ 4.7 ٹریلین روپے سے زائد کا ہدف حاصل کرنے کی قابلیت نہیں رکھتی۔‘‘

حکومت کی جانب سے درآمدات پر روک کے اقدام پر بھی تنقید کرتے یاسر محمود کا مزید کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کی وجہ سے درآمدات میں کمی ریونیو میں شارٹ فال کا باعث بنی کیونکہ 50 فیصد سے زائد ٹیکس درآمدات کی مد میں حاصل ہوتے تھے۔ یاسر کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور پاکستان ریونیو آٹومیشن پرائیوٹ لمیٹڈ میں فائلرز کے آٹومیٹک فرانزک آڈٹ کی قابلیت کا فقدان ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: انٹرنیٹ سروسز فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی  سے مستثنیٰ، ایف بی آر کی اپیل خارج

انہوں نے کہا ’’آئی ایم ایف چھوٹے اور متوسط درجے کے دکاندار حضرات کیلئے طے شدہ ٹیکسوں کے حق میں نہیں اور یہی وجہ ہے کہ کسی قسم کے طے شدہ ٹیکس سے متعلق معاہدوں کی عدم موجودگی کے اثرات پاکستان کی معیشت میں بڑی نقد رقم جمع کرنے والے چھوٹے دکاندار حضرات تک پہنچ چکے ہیں۔‘‘ ان کے اس دعوے کے باوجود حکومت نے معیشت کی ڈیجیٹائزیشن اور ڈاکیومینٹیشن اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے اطلاق کیلئے اہم پہلوؤں پر توجہ نہیں دی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ حکومت بھی گزشتہ حکومتوں کی غلطیاں ہی دہرا رہی ہے۔

پاکستان کے بلند پایہ ماہر معاشیات اور لاہور میں یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ٹیکس وصولیوں کی مد میں 5.2 ٹریلین روپے اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم صرف جنوری 2020ء میں ایف بی آر محض 321 ارب روپے یا 425 ارب روپے ماہوار کے مقرر ہدف کا 75.5 فیصد ہی اکٹھا کر پایا۔ تاہم یہ اعداد و شمار دسمبر 2019ء کی نسبت زیادہ ہیں۔

مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں ایف بی آر صرف 2.080 ٹریلین روپے ہی جمع کر پایا۔ گو کہ وصولیوں کے ہدف کو پہلے ہی کم کر کے 2.367 ٹریلین روپے مختص کیا گیا تھا لیکن ایف بی آر یہ ہدف بھی پورا نہ کر سکا۔

یہ بھی پڑھیں: رئیل اسٹیٹ، جواہرات اور زیورات کے بزنس سے وابستہ افراد کے گرد گھیرا تنگ 

ڈاکٹر قیس کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو درپیش مسئلہ امراء پر براہ راست ٹیکسوں کے نفاذ میں اس کی تاریخی نااہلی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ ایف بی آر گزشتہ 6 ماہ میں 23 لاکھ ٹیکس فائلرز حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک غیر یقینی تعداد ہے لیکن اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ نیوز چینلز پر ہیڈلائنز میں ہر ماہ تاریخٰی ٹیکس وصولیوں کے حوالے سے زور و شور سے بیان کیا جاتا ہے کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار وسیع کیا جا رہا ہے لیکن یہ اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی متاثرکن اقدام نہیں ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار معیشت کی خستہ حالی کو روک نہیں سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیئے کہ 2017ء کی مردم شماری میں 3 کروڑ 20 لاکھ خاندان ہیں جن میں سے 20 فیصد خاندان امیر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریبا 64 لاکھ خاندانوں کو ٹیکس فائلرز ہونا چاہیئے جبکہ ان میں صرف 23 لاکھ نے ٹیکس ریٹرن جمع کروائی اور 40 لاکھ سے زائد خاندانوں کو نظر انداز کر دیا گیا جنہیں ٹیکس فائلرز ہونا چاہیئے تھا۔

ماہر معاشیات کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آر یہ دعویٰ کرتا نظر آتا ہے کہ ان کے پاس جائیداد، گاڑیوں، سکول کی فیسوں اور پاکستانیوں کے بیرون ملک سفر سے متعلق تمام معلومات موجود ہیں لیکن بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کیلئے ان معلومات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

پروفیسر قیس نے مزید کہا کہ حکومت نے اس کی بجائے ٹیکس نادہندگان کیلئے ٹیکس ایمنسٹی متعارف کروا دی اور بڑے کاروباری حضرات اور سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کیلئے قانون پاس کروانے کی کوشش کی اور اس اقدام کو سیاسی چپقلش کے باعث واپس لے لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت نے ایف بی آر کا ٹیکس خسارہ نان ٹیکس آمدن سمیت دیگر ذرائع سے پورا کرنے کی ٹھان لی

ڈاکٹر قیس کا ماننا ہے کہ اگرچہ نیب نے مستقبل کو محفوظ کرنے کا احساس پیدا کیا ہے لیکن ٹیکس چوری اور غبن میں ملوث وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شامل ماضی کے کرپٹ افراد کو ایک اور موقع فراہم کر کے ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔

انہوں نے پرافٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’حکومت غریب افراد سے صرف بجلی، گیس یا پیٹرولیم کی قیمت میں اضافہ کر کے بلاواسطہ طریقے سے ٹیکس وصول کر سکتی ہے اور یہ بلاواسطہ ٹیکس روزمرہ کی اشیاء پر پر لاگو ہو سکتے ہیں۔ یہ شارٹ فال کو دور کرنے کا مناسب طریقہ ہرگز نہیں ہے۔‘‘

’’پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آمدن میں اضافے کیلئے اپنے حالیہ بجٹ میں پیشہ ور افراد، پروفیسر حضرات اور انفارمینش ٹیکنالوجی کے ماہرین پر سابقہ حکومتوں کی جانب سے ٹیکسوں پر نرمی کو ختم کر دیا تھا لیکن پرائیوٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں، وکیلوں اور اس طرح کے دیگر بڑی آمدن کے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہی جو ایف بی آر کی ذاتی نااہلی اور کرپشن کے باعث ڈاکیومنٹ نہ ہو سکے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’مجھے خدشہ ہے کہ ٹیکس وصولیوں میں یہ بڑے مسائل کی وجہ سے ملکی معیشت زوال کا شکار رہے گی۔‘‘

اس کے علاوہ بھی کئی خدشات ہیں اور ان کے حل کیلئے مناسب کوششیں نہیں کی جا رہیں۔ اس وقت جی ڈی پی میں زرعی پیداوار 21 فیصد سے 19 فیصد تک آ چکی ہیں۔ پاکستان کی بڑی صنعت کا مجموعی قومی پیداوار میں حصہ گزشتہ سالوں میں 20 فیصد سے کم ہو کر صرف 13 فیصد ہو چکا ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کیلئے درآمدات میں کمی کی حکومتی پالیسی کے نتیجے میں پرتعیش اشیاء کی درآمدات میں کمی ہوئی اور برآمدات میں محض 5 فیص اضافہ ہوا۔ برآمدات میں قلیل اضافے سے حاصل ہونے والی آمدن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے حکومتی خزانے میں جمع نہ ہو سکی۔ اور تمام سیاق و سباق کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس صورتحال میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ٹیکس چوری پر ایف بی آر نے ARY  کو 992 ملین روپے ادائیگی کا نوٹس بھیج دیا

پروفیسر قیس کا کہنا ہے ’’معیشت کا منفی رحجان اور آمدن اور منافع حاصل کرنے کے مواقعوں میں کمی مختلف ذرائع سے ٹیکس وصولیوں کی ایف بی آر کی صلاحیتوں میں کمی پیدا کرے گی۔ اور اگر شبر زیدی مالی سال کے وسط میں مستعفی ہو جاتے ہیں تو رہنمائی کے فقدان سے ایف بی آر کے حکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘

ڈاکٹر قیس اسلم کا مشاہدہ ہے کہ ایف بی آر کو شفاف، سادہ، برابر، آمدن اور اچھے نظم و ضبط کے تحت عوام کے مفاد کیلئے سنجیدگی سے تشکیل نو کی ضرورت ہے۔

تمام ماہرین معاشیات کم و بیش ایک ہی نکتہ پر ہیں۔ اس صورتحال میں وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر برائے معاشی معاملات اور منجھے ہوئے ماہر معاشیات ڈاکٹر سلمان شاہ نے پرافٹ سے گفتگو میں حکومتی پالیسیوں اور اقدام پر بات چیت کرتے ہوئے کہا ’’اصل ہدف مجموعی قومی پیداوار میں ابتدائی 0.6 فیصد خسارہ ہے۔ اگر آمدن میں کمی واقع ہوتی ہے تو ابتدائی خسارہ کے ہدف کو پورا کرنے کیلئے اخراجات میں براہ راست کمی لانا پڑے گی۔‘‘

ہو کیا رہا ہے؟

تمام ماہرین معاشیات جن سے پرافٹ اردو نے گفتگو کی کم و بیش ایک ہی نظریے پر قائم ہیں کہ پاکستان مالی سال 20ء-2019ء کے مقرر کردہ 5.2 ٹریلین روپے کے ٹیکس ہدف کو پورا نہیں کر سکتا اور اگر سب کچھ درست رہا تو ٹیکس وصولیوں کی مد میں حقیقی اعداد و شمار تقریباََ 4.5 ٹریلین روپے ہو سکتے ہیں۔

ماسوائے پاکستان کے مایہ ناز ٹیکس مشیر اور لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) کے فیکلٹی ممبرز ڈاکٹر اکرام الحق اور خزیمہ بخاری کے۔ دونوں ہی پرامید ہیں کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی منصوبہ بندی ایف بی آر کو 30 جون 2020ء تک ٹیکس ہدف پورا کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔

انہوں نے پرافٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے ستمبر 2018ء میں یہ منصوبہ پیش کیا تھا لیکن پاکستان تحریک انصاف کے وزراء نے اس کا اطلاق نہیں کیا۔ ورنہ ہم گزشتہ سال بھی 5 ٹریلین روپے ٹیکس کی مد میں وصول کر سکتے تھے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں:ایف بی آر ٹمبر پر عائد اضافی ڈیوٹی ہٹانے میں ہچکچاہٹ کا شکار: ٹمبر ٹریڈز

وزیراعظم عمران خان نے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو ’’مالی سال ختم ہونے سے قبل ضروی اصلاحاتی پروگرام‘‘ کیلئے کام کرے گی۔ گو کہ یہ کمیٹی ذرائع آمدن کی حکمت عملی تیار کرنے کیلئے ہر 15 دن میں ایک ملاقات کرتی تھی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا ’’یہ نئی ٹیکس اصلاحاتی کمیٹی پاکستان کے ذہین ترین افراد پر مشتمل ہے جسے 18 اکتوبر 2018ء کو اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے تشکیل دیا تھا۔ انہوں نے 12 ستمبر 2018ء کو ایک خصوصی ملاقات میں ہماری جانب سے پیش کردہ 8 ماہ (نومبر 2018ء تا جون 2019ء) پر مشتمل آمدن کے حصول کیلئے تجاویز پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور نتیجتاََ وہ مالی سال جی ڈی پی میں 8.9 فیصد خسارہ پر اختتام ہوا اور ایف بی آر میں شرح ترقی منفی 0.4 فیصد رہی۔

’’اگر پی ٹی آئی حکومت کاروبار اور سرمایہ کاری رحجان کو نقصان پہنچائے بغیر تجدید شدہ 5.2 ٹریلین روپے کے ٹیکس ہدف کی زیادہ سے زیادہ وصولی چاہتی ہے تو ابھی بھی رواں مالی سال کے بقایہ ماہ میں مذکورہ ایجنڈہ پر کام کیا جا سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے 9 ستمبر 2018ء کو دی نیوز آن سنڈے میں شائع ایک آرٹیکل میں درج ذیل نکات تحریر کئے۔

  • وصولیوں کو محفوظ بنایا جائے اور جن افراد نے پہلے ہی ود ہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے معقول ٹیکس ادا کر دیا ہے لیکن 31 مارچ 2019ء اتک اپنی ریٹرنز جمع نہیں کروائیں ان کی مکمل نشاندہی یقینی بنائی جائے۔

  • 31 مئی 2018ء تک 86 ہزار 876 کمپنیاں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) سے رجسٹرڈ ہوئیں لیکن کارپوریٹ انکم ٹیکس جمع کروانے والی کمپنیوں کی تعداد 35 ہزار سے بھی کم ہے۔ ان تمام کمپنیوں کو جنہوں نے ابھی تک ریٹرنز جمع نہیں کروائیں انہیں نوٹس جاری کئے جائیں اور 31 مارچ 2019ء تک ان کی مکمل نشاندہی کو یقینی بنایا جائے تاکہ 03 جون 2019ء تک ان سے وصولی یقینی بنائی جا سکے۔

  • انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء [جس کی تفصیل سیکشن 18 (D)(1) میں درج ہے] کے تحت قرض معاف کروا کر ذاتی مفاد حاصل کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کر کے ٹیکس خسارہ وصول کیا جائے۔

  • انڈر انوائسنگ اور انڈر رپورٹنگ کی وجہ سے درپیش سیلز ٹیکس خسارہ کی وصولی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

  • تمام شعبہ جات اور خاص طور پر درج ذیل شعبہ جات میں قیمتوں کی جانچ کر کے ٹیکس خسارہ میں کمی کی جائے:

    1. ادویہ سازی (Pharmaceutical)

  1. مواصلات (Telecommunication)

  2. مشروبات (Beverages)

  3. کار سازی (Automobiles)

  4. خوراک (Food)

  • موجودہ ودہولڈنگ ٹیکس کی تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے مندرجہ بالا افراد کی نشاندہی کی جائے جنہوں نے انکم ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کروائیں اور ان تمام افراد کو ایل ٹی یو (Large Taxpayers Units) یا آر ٹی او (Regional Tax Offices) کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے:

  1. جن کی انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 236 کے تحت موبائل پر ہونے والی ٹیکس کٹوتی 48 ہزار روپے سالانہ سے زائد ہو۔

  2. سیکشن 236 کے تحت کمرشل بجلی کے بل پر ہونے والی ٹیکس کٹوتی 1 لاکھ روپے سالانہ سے زائد ہو۔

  3. سیکشن 236(b) کے تحت گھریلو بجلی کے بل پر ہونے والی ٹیکس کٹوتی 1 لاکھ 20 ہزار روپے سے زائد ہو۔

  4. سیکشن 231AA ،231A اور 236P کے تحت بینکوں کے ذریعے ترسیلات پر ہونے ٹیکس کٹوتی 25 ہزار روپے سالانہ سے زائد ہو۔

  5. سیکشن 151 کے تحت قرضوں پر حاصل سود پر ہونے والی ٹیکس کٹوتی 36 ہزار سے زائد ہو تاکہ ایف بی آر کو اُس سرمایہ کاری کے حجم کا اندازہ ہو سکے جس کے مطابق سود حاصل کیا گیا ہے۔

  6. سیکشن 236K ،236C اور 236W کے تحت ناقابل انتقال جائیدادوں کی خرید و فروخت پر ہونے والی ٹیکس کٹوتی 1 کروڑ روپے سے زائد ہو تاکہ ذرائع سرمایہ کاری کی بابت علم ہو کے۔

  7. سیکشن (1)231، (2)231 اور (3)231 کے تحت گاڑیوں کی خرید اور رجسٹریشن پر ہونے والی ٹیکس کٹوتی سے متعلق جان کاری حاصل کی جائے تاکہ گاڑیوں کی خریداری کیلئے درکار ذرائع آمدن کی بابت علم ہو سکے۔

  8. سیکشن 1A) 231B) کے تحت قسطوں پر گاڑیوں کی خریداری پر ہونے والی ٹیکس کٹوتی سے متعلق جان کاری حاصل کی جائے تاکہ ماہوار قسط کی ادائیگی کیلئے درکار ذرائع آمدن کی بابت علم ہو سکے۔

  • تمام نان فائلرز کی معلومات درست ہونے کی جانچ 31 مارچ 2019ء تک یقینی بنائی جائے تاکہ 03 جون 2019ء تک ان سے وصولی یقینی بنائی جا سکے۔

  • آنے اور جانے والے ہر کنٹینر کی اسکیننگ اور ایکسرے جانچ کی جائے۔

  • دستیاب معلومات کے مطابق انڈر انوائسنگ کی جانچ کر کے کسٹم ڈیوٹی خسارہ کو کم کیا جائے۔

  • اسمگل ہونے والی اشیاء کا سدباب کیا جائے۔

ٹیکس پالیسی بورڈ

سب کی رائے کا لب لباب یہ ہے کہ اگر ٹیکس کا یہی نظام اور طریقہ کار رہا تو پاکستان کے مالیاتی مسائل سے نکلنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

ڈاکٹر اکرام الحق اور خزیمہ بخاری نے ہمیں بتایا ’’ہمیں ایسی ٹیکس پالیسیاں درکار ہیں جس سے سرمایہ کاری اور معاشی ترقی اور خاص طور پر بڑے پیمانے پر ملازمتوں کی حوصلہ افزائی ہو۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ترقی پسند ٹیکس پالیسی کا اطلاق ایف بی آر ایکٹ 2007ء کے سیکشن 6 کے تحت پالیسی بورڈ کی پڑتال کے بعد کیا جائے اور اس کی مطلوبہ ضروریات پوری کرتے ہوئے اس میں ذہین ترین افراد کو اس میں شامل کیا جائے۔

’’حکومت کو مستحکم اور تیز تر معاشی ترقی پر غور کرنا چاہیئے اس طرح ٹیکسوں میں خود ہی اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

LTUs اور RTOs کی ذمہ داریاں

ڈاکٹر اکرام اور خزیمہ کی سفارشات ان تمام افراد کی فوری طور پر جانچ اور ریٹرنز جمع کروانے پر غور کرنے سے متعلق ہیں جنہوں نے پہلے ہی ود ہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے معقول ٹیکس ادا کر دیا ہے لیکن اپنی ریٹرنز جمع نہیں کروائیں۔

ٹیکس مشیران نے بتایا کہ ایس ای سی پی کے تحت نومبر 2019ء تک 1 لاکھ 7 ہزار 62 کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں جبکہ ریٹرنز جمع کروانے والی کمپنیوں کی تعداد نصف سے بھی کم ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ’’ان تمام کمپنیوں کو جنہوں نے ابھی تک ریٹرنز جمع نہیں کروائیں انہیں نوٹس جاری کئے جائیں اور 31 اپریل 2020ء تک ان کی مکمل نشاندہی کو یقینی بنایا جائے۔

اگر ایف بی آر سے متعلق منصوبہ بندی کی بات کی جائے تو ان کا مشورہ ہے کہ ایف بی آر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء [جس کی تفصیل سیکشن 18 (D)(1) میں درج ہے] کے تحت قرض معاف کروا کر ذاتی مفاد حاصل کرنے والے عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔

ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ادویہ سازی، مواصلات، مشروبات، کار سازی، خوراک اور دیگر شعبہ جات میں انڈر انوائسنگ، انڈر رپورٹنگ اور نان رپورٹنگ سے ہونے والے ٹیکس خسارہ کو قیمتوں کی جانچ کے ذریعے کم کیا جائے۔

ود ہولڈنگ ٹیکس کی بنیاد پر اقدامات

ٹیکس کے ماہران نے یہ بھی تجویز کیا کہ سیکشن 236 کے تحت سالانہ 24 ہزار روپے سے زائد موبائل بل، سیکشن 235کے تحت سالانہ 36 ہزار روپے سے زائد کمرشل بجلی کے بل، سیکشن 235B کے تحت 60 ہزار روپے سے زائد گھریلو بجلی کے بل اور سیکشن 231AA ،231A اور 236P کے تحت 24 ہزار روپے سے زائد بینکوں کی ذریعے رقوم کی ترسیلات پر ٹیکس کٹوتی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کی ’لوکل آٹو موبائل سٹینڈرڈ ‘کی مخالفت ، یورپی قوانین اپنانے پر اصرار

انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ سیکشن 151 کے تحت 36 ہزار روپے سے زائد قرضوں پر حاصل سود پر ٹیکس کٹوتی کی جائے تاکہ ذرائع آمدن کا تعین ہو سکے اور سیکشن 236K ،236C اور 236W کے تحت ناقابل انتقال جائیدادوں کی خرید و فروخت پر 1 کروڑ روپے سے زائد سرمایہ کاری کی تفصیلات کے بارے میں نشاندہی ہو سکے۔

ان کا مزید مطالبہ ہے کہ سیکشن (1)231، (2)231 اور (3)231 کے تحت گاڑیوں کی خرید اور رجسٹریشن اور سیکشن 1A) 231B) کے تحت قسطوں پر گاڑیوں کی خریداری پر ہونے والی ٹیکس کٹوتی سے متعلق جان کاری حاصل کی جائے تاکہ یکمشت اور ماہانہ بااقساط ادائیگی کیلئے درکار ذرائع آمدن کا تعین کیا جا سکے۔

کسٹم ونگ کی ذمہ داریاں

لاہور سے تعلق رکھنے والے ماہرین ٹیکس تجویز کرتے ہیں کہ کسٹم ونگ ہر آنے اور جانے والے کنٹینر کی ایکسرے جانچ اور اسکیننگ کرے اور دستیاب معلومات کے ذریعے انڈرانوائسنگ کرنے والوں کا سدباب کرتے ہوئے وصولیاں کرے۔

اپنے جواب میں اُن کا کہنا تھا ’’جب ایسا ہو جائے آئی آر ایس (اِن لینڈ ریونیو سروس) کو چاہیئے کہ چوری شدہ سیلز اور انکم ٹیکس کی وصولی کرے اور کسٹم ونگ کو چاہیئے کہ اسمگل ہونے والی مصنوعات کی روک تھام کرے۔‘‘

صورتحال امید افزاء نہیں ہے حتیٰ کہ بہترین حالات میں بھی کسی نہ کسی طرح شارٹ فال کا عفریت غالب ہے۔ کچھ بنیاد پرست تجاویز بھی سامنے آئیں لیکن انہیں نظر انداز کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جون 2020ء تک 5.2 ٹریلین روپے کا تجدید شدہ ہدف پورا کر پائے گی؟ ایسا لگتا تو نہیں ہے لیکن ڈاکٹر اکرام الھق اور خزیمہ بخاری کا مطلوبہ ہدف پورا کرنے کی منصوبہ بندی شاید ایک اچھی چال ہو سکتی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here