صفحہ اول معیشت کورونا وائرس پاکستان کی معیشت کیلئے کس حد تک تباہ کن ثابت...
اگر آپ سوچتے ہیں کہ چین سے شروع ہونے والے کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر جو ہیجانی کیفیت طاری ہے وہ ضرورت سے زیادہ ہے تو آپ غلط سوچ رہے ہیں،کرونا وائرس سے دنیا بھر میں تین ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں اور ستر ہزار کے لگ بھگ افراد اس کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں بھرتی ہو چکے ہیں۔
اگرچہ کرونا وائرس سے شرح اموات 2003 کے سارس (اکیوٹ ریسپریٹری سنڈروم ) اور 2012 کے مرس (مڈل ایسٹ ریسپریٹری سنڈرم) وائرسز کی نسبت کافی کم ہے تاہم اس سے متاثر ہونے کی شرح کافی زیادہ ہے یعنی موخر الذکر وائرسز کی نسبت کورونا وائرس زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
حال ہی میں متعدد بیماریوں پر تحقیق کرنے والے ہانگ کانگ کے ایک ادارے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر مناسب سدباب نہ کیا گیا اور ویکسین کی تیاری میں تاخیر ہوتی رہی تو کورونا وائرس دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
چین کے بعد اب یہ ایران، جنوبی کوریا ، اٹلی اور امریکا میں زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ 80 سے زائد ممالک میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تصدیق ہوچکی ہے۔
چین کے شہر ووہان میں جب دسمبر کے آخر میں کورونا وائرس نے سر اٹھانا شروع کیا تو چین نے وہ سب کرنا شروع کر دیا جو کیا جانا چاہیے۔ چینی حکومت نے عوامی نقل و حمل کو پہلے مرحلے میں حدود اور دوسرے مرحلے میں بالکل روک دیا۔ 16 شہروں کو مکمل بند کردیا گیا۔ طبی مراکز ہنگامی بنیادوں پر قائم کیے گئے اور متاثرہ افراد کو قرنطینہ میں منتقل کردیا گیا۔
چین کو وائرس سے گھبرانے کی زیادہ ضرورت اس لیے بھی تھی کیونکہ 13.6 کھرب ڈالر اور سالانہ سات فیصد شرح نمو کیساتھ یہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے،گزشتہ سال چین کی معاشی شرح نمو چھ فیصد رہی ہےتاہم معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق رواں سال چینی معیشت کی شرح نمو تین سے پانچ فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہےاور اس کی بنیادی وجہ کورونا وائرس کے باعث آنے والی معاشی سست روی ہے۔
لیکن ایسا کیوں؟
برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق چین میں قمری سال کی چھٹیوں کے بعد بھی فیکٹریاں وائرس کے خوف کی وجہ سے مکمل نہیں کھل سکی ہیں، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ، خطے پر بھی اسکے اثرات مرتب ہوئے ہیں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں میں سے زیادہ سیاح چین سے جاتے ہیں تاہم اب چینی سیاحوں کی تعداد میں 55 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
ایسی مثالیں موجود ہیں جب کسی وبا نے عالمی معیشت کو گھٹنوں کے بل گرا دیاہو، 2003 میں چین میں سارس نامی وبا پھیلی تو آٹھ ہزار افراد متاثر ہوئے جبکہ ساڑھے سات موت کے منہ میں چلے گئے تاہم چین کی معیشت کو 30 سے 50 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، تب 2003 میں عالمی درآمدات میں چین کا حصہ محض 5.3 فیصد تھا جو 2018 میں 10.9 ہو چکا ہے۔
اب بھی کچھ معاشی تجزیہ کار خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی شرح نمو 0.3 فیصد نیچے آسکتی ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی طرح کہیں نہ کہیں پاکستان بھی ایسے ہی خدشات میں گھرا ہو ا ہےتاہم پاکستانیوں کا کورونا وائرس کے حوالے سے انداز نہایت مضحکہ خیز ہے، حکومتی دعوئوں کے برعکس اس وبا سے نمٹنے کیلئے کسی قسم کی مربوط قومی پالیسی دکھائی نہیں دیتی۔
سب سے پہلے وزیر اعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا میڈیا پر نمودار ہوئے اور ائیرپورٹس پر چین سے آنے والوں کی سکریننگ کے بارے میں بتایا ، چین سے پاکستان کے مابین ہفتہ وار 41 پروازیں اڑتی ہیں لیکن ان تمام پروازوں کے مسافروں کی سکریننگ کے انتظامات نہیں کیے گئے۔یہاں تک کہ شمالی کوریا نے چین سے فضائی رابطہ مکمل منقطع کر لیا ،پاکستان نے 29 جنوری کو چین کیلئے پروازوں پر پابندی لگائی تاہم ’شہد سے میٹھی دوستی‘ کے دبائو پر تین ہی دن بعد پابندی اٹھا لی ۔
دوسری جانب پاکستان ان چنیدہ ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے اپنے شہریوں کو چین سے نکالنے سے انکار کردیا، اب بھی آٹھ سو پاکستانی طلباء چین میں موجود ہیں، طلباء کو چین سے نہ نکالنے کے اقدام کی کچھ لوگ تعریف کر رہے ہیں کہ چونکہ پاکستان کسی وبا سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ،یہ سچ ہے کہ پاکستان دنیا ان دو ممالک میں سے ایک ہے جو پولیو کو ختم نہیں کرسکے تو کورونا وائرس کے خلاف پاکستان کیا کرتا۔
لیکن پاکستان کی تباہ حال معیشت کا کیا کیا جائے ؟ اگر چین میں فیکٹریاں بند رہیں یا تاخیر سے کھلیں تو کیا ہماری معیشت صورتحال کا مقابلہ کر پائے گی؟
حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی رپورٹس سے تو لگتا ہے کہ پاکستان کی معیشت صورتحال کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔
پاکستان کی صنعتیں:
چین میں کورونا وائرس اور صنعتوں کی بندش سے سب سے پہلے پاکستان کا صنعتی شعبہ ہوگا، عقیل کریم ڈھیڈی سکیورٹیز (اے کے ڈی) کی 11 فروری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لیے زیادہ تر چین پر انحصار کرتا ہےاورچین میں فیکٹریوں کی بندش اورخام مال کی تجارت رک جانے کی وجہ سے پاکستان متاثر ہوگا، درآمدات اور خاص طور پر طلب و رسد کا شدید مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
2019 میں پاکستان کی 20 بڑی درآمدات میں سے 18 چین سے درآمد کی گئیں جن میں ٹیلیفون کا الیکٹریکل میٹریل ، فرٹیلائزر، دھاگہ، سیمی کنڈکٹرز، طبی آلات اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔
اے کے ڈی سکیورٹیز کے تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو کیبل، الیکٹریکل اور آٹو آلات کے میدان میں طلب ورسد کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ مذکورہ سیکٹرز کے لیے زیادہ تر پرزہ جات چین سے آتے ہیں۔ اس میں سٹیل گریڈز، سیمی کنڈکٹرز، ائیرکنڈیشنگ پارٹس اور کمپریسرز شامل ہیں۔
لیکن مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوتا، چین عالمی منڈی میں ہر قسم کی مصنوعات کے لحاظ سے بڑا حصہ دار ہے، اس لیے چینی مصنوعات کا متبادل تلاش کرنا بھی پاکستان کیلئے بے حد مشکل اور مہنگا ثابت ہو گا۔
مثال کے طور پر مصنوعی سوت، دھاگے اور فائبر کی پیداوار میں عالمی سطح پر اجارہ داری رکھتا ہے اسی طرح سٹیل اور کیمیکلز کی عالمی منڈی میں بھی چین بڑا کھلاڑی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اندسٹریل مینوفیکچرنگ، آٹو اسمبلنگ اینڈ پارٹس، خوراک کی تیاری کا سامان، سٹیل ، کیمیکلز سب کی درآمدات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی صنعت جو اپنی مصنوعات کیلئے چین سے اجزاء درآمد کرتی ہے ، یا وہ اب ایشیائی ممالک سے متبادل پر غور کر رہی ہے، آئندہ دنوں میں ضرور مشکلات سے دوچار ہو گی۔
انہی وجوہات کی بنا پر صنعتی سیکٹر کے اصل مصارف میں اضافہ ہو نے کا امکان ہے کیونکہ خام مال ، پرزہ جات اور دیگر مصنوعات اگر چین کی بجائے متبادل کے طور یورپی یا وسط ایشیائی ملک سے منگوائی گئیں تو اخراجات میں اضافہ ہو جائے گا۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ کچھ بڑے منصوبوں کو کچھ مزید وقت مل جائے گا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی مینوفیکچرر ز مختصر مدت کیلئے اِس صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ،کوئی بھی ایسا مقامی مینوفیکچرر جو وہ مصنوعات تیار کرتا ہے جو چین سے درآمد کی جاتی ہیں وہ کسی حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سب سے زیادہ یوریا کے علاوہ دیگر کھادیں بنانے والی کمپنیوں اٹھا سکتی ہیں، خاص طور پر فوجی فرٹیلائزر ڈی اے پی کی مقامی مارکیٹ سے فائدہ اٹھا سکتاہے، فاطمہ فرٹیلائزر کیلشیم امونیم نائٹریٹ ، نائٹروجن ، فاسفورس پوٹاشیم کی پیداوار سے فائدہ اٹھا سکتا ہے،اسی طرح لوٹے کیمیکلز (Lotte Chemicals) اور آئی سی آئی پاکستان بھی صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مجموعی طور پر چوں کہ چین میں پیداواری عمل سست روی کا شکار ہے تو پاکستان میں مصنوعات کی پیداوار اور برآمدات میں اچانک تیزی آ سکتی ہے۔
اے کے ڈی سکیورٹیز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ پاکستان کی برآمدات عموماََ کم ہی رہی ہیں، پاکستان کی زیادہ تر برآمدات بھی کسی نہ طرح درآمدات سے جڑی ہیں جوچین سے منگوائی جاتی ہیں، پاکستان برآمدات کو واقعی اوپر لے کر جانا ہے تو کرونا پر انحصار کرنے کی بجائے چین کیساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ (ایف ٹی اے) کرنا ہوگاجس کے تحت کم و بیش 313 چیزوں پر ٹیکس نہیں لگے گا۔
رپورٹ میں مارکیٹ کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے کہ ایشیائی معیشتوں میں سست روی سے ہوسکتا ہے کہ بڑے بینک، تیل و گیس کا شعبہ اور آر ایل این جی پر انحصار کرنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی کسی حد تک مستفید ہو سکے
کیا واقعی ہی ایسی امید رکھنی چاہیے؟ مارکیٹ کی صورت حال اس وقت بہتر ہو گی جب معاشی حالات درست ہوں گے، بڑی شہروں میں معاشی سرگرمیاں شروع ہوں گی، صنعتیں چلیں گی اور کورونا کے مزید کیسز سامنے آنا بند ہوں گے، تاہم ابھی تک ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔
پاکستان کیلئے طویل المدتی سرمایہ کاری اور ترقی:
کورونا کے معیشت پر اثرات کے حوالے سے عالمی کریڈنگ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی رپورٹ سے بڑھ کر کچھ دلچسپ نہیں۔
رپورٹ کے مطابق ،’وائرس سے پیدا شدہ معاشی اضطراب کی وجہ سے حکومتیں مالی معاملات کو بہتر کرنے کی جانب زیادہ متوجہ ہوئی ہیں۔‘یہ رپورٹ موڈیز کی اینالسٹ انوشکا شاہ نے تیار کی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ وبا کے اثرات مزید کچھ ہفتوں تک جاری رہنے کے بعد بالآخر ختم ہو جائیں گے اور معاشی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔
تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وائرس کی وجہ سے یورپی اور امریکی خطے کی بجائے ایشیائی پیسفک خطے کے ممالک براہ راست متاثر ہوں گے ، سیاحت میں کمی آئے گی، کئی ممالک کی چین کی جانب برآمدات متاثر ہونے سے چین میں طلب و رسد کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر وہ ممالک متاثر ہوں گے جن کی سیاحت کا زیادہ تر انحصار چین سے آنے والے سیاحوں پر ہوتا ہے، ان میں مالدیپ ، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں۔ اسکےبعد وہ ممالک جو چین کو سب سے زیادہ برآمدات بھیجتے ہیں، متاثر ہوں گے، جن میں تائیوان، ہانگ کانگ، ملائیشیا، جنوبی کوریا شامل ہیں۔ اسی طرح زیمبیا اور جمہوریہ کانگو جیسے اجناس پیدا کرنے والے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
خوش قسمتی یا بدقسمتی سے پاکستان نا تو زیادہ تر چینی سیاحوں پر انحصار کرتا ہےناہی پاکستان کی زیادہ برآمدات چین میں جاتی ہیں، پھر دو ایسے راستے موجود ہیں جن سے پاکستان کی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔
موڈیز کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس عارضی ہے اور چند ہفتوں میں نہ سہی مہینوں میں ختم ہو جائےگاتاہم اگر یہ مسلسل جاری رہا تو پاکستان کی مانند ابھرتی ہوئی مارکیٹس پر زیادہ انداز ہو گا۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کے 130 ممالک بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے چین کے ساتھ منسلک ہیں، ان میں سے زیادہ تر ممالک کیلئے ترقی کا ذریعہ صرف بیرونی سرمایہ کاری ہےاور کورونا وائرس مزید کچھ عرصہ برقرار رہا تو ان ممالک میں سرمایہ کاری اور افرادی قوت کی فراہمی میں خلل پڑنے ترقی کا عمل متاثر ہوگا۔
اس کا مطلب ہے سی پیک کے جاری منصوبے بھی متاثر ہوں گے، کیوں کہ ان پر 10 ہزار سے 15 ہزار چینی کارکن کام کر رہے ہیں، ان میں بہت سے قمری سال کی چھٹیوں پر چین گئے ہیں جو کورونا کی وجہ سے واپس نہیں لوٹ سکے۔
لیکن اگر کورونا وائرس کی وجہ سے سی پیک متاثر ہوتا ہے تو اسکے منصوبوں کی لاگت 62 ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔ اگرچہ چند ہی ہفتے قبل پاکستان میں چین کے سفیر یائو جنگ اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر نے کہاکہ سی پیک پر کام نہیں رکے گا۔
اور پھر اگر وائرس کی تباہ کاریاں جاری رہیں تو کچھ اضافی نقصانات بھی ہو سکتے ہیں، رپورٹ کے مطابق قرضوں پر انحصار کرنے والے ممالک کو مزید مالی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، ان میں پاکستان ، سری لنکا اور منگولیا شامل ہیں۔
تاہم ہر کوئی یہی امید رکھے گا کہ پاکستانی حکومت وائرس کی وجہ سے معاشی نقصان کو کنٹرول کرنے یا کم سے کم رکھنے کیلئے بہتر حکمت عملی کا مظاہر ہ کرے گی۔