’2020ء نوکریاں دینے کا سال‘ وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان کتنا حقیقت پر مبنی ہے؟

937

لاہور: وزیر اعظم عمران خان نے 2020ء کو پاکستان کی معاشی خوشحالی اور نوکریاں دینے کا سال قرار دیا ہے تاہم معاشی تجزیہ کار وزیر اعظم کے اس خیال کو غیر حقیقی قرار دیتے ہیں ۔

پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے معاشی ماہر اور پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق نے کہا کہ وہ وزیر اعظم عمران خا ن کے مذکورہ بیان سے متفق نہیں ہیں۔ ’’بدقسمتی سے 2019 میں پاکستان  بیوروکریسی (ایڈمنسٹریٹو سروس ،جسے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے )کو آگے آتے دیکھا گیا ، اس لحاظ سے  2020ءبھی گزشتہ سال سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔‘‘

سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے بھی ندیم الحق کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا کہ 2020ء میں حکومت نوکریاں  دے سکے گی، ’معاشی ترقی اور روزگار میں براہ راست تعلق ہوتا ہے لیکن پاکستان کے معاشی حالات ہی ٹھیک نہیں تو نوکریاں دینا کیسے ممکن ہے؟‘

محمد زبیر نے کہا کہ پاکستان کی مجموعی پیدوار (جی ڈی پی) 2.3 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے ، اگر یہ شرح اتنی ہی کم رہی تو خطرہ مزید لوگ بیروزگار ہو نے کا خطرہ ہے ۔

معاشی ماہر اور ٹیکس مشیر ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ معیشت جمود کا شکار ہے، مہنگائی دوگنا ہو چکی ہے، سود کی شرح بڑھ چکی ہے، ایسی صوت میں نئی نوکریاں پیدا کرنا بے حد مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ کاروبار مشکلات سے دوچار ہیں اور ادارے ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں ، ایسے ماحول میں نوکریاں پیدا کرنا ممکن نہیں ، معاشی ترقی اور روزگار پیدا کرنے کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق پاکستان میں 20 لاکھ نوجوانوں کو روزگار چاہیے لیکن اس کیلئے جی ڈی پی کو کم از کم چھ فیصد پر لے کر جانا ہو گالیکن جو حالات چل رہے ہیں ان میں یہ محض اڑھائی فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔

انہوں نےکہا ،’حکومت کے پاس جی ڈی پی یا روزگار کے موقع بڑھانے کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں، محض خواہشات سے کچھ نہیں ہوگا۔‘

تاہم معروف معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر قیس اسلم وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو ایک ایسی قوم کیلئے حوصلہ افزاء قرار دیتے ہیں جس کی اکثریت نوجوان ہے  لیکن بیروزگاری کا سامنا کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 

خواتین کو گھر چلانے کیلئے ایک گائے ،ایک بھینس اور تین بکریاں دیں گے:  وزیر اعظم عمران خان

پاکستان معاشی خوشحالی کی راہ پر گامزن ، ترقیاتی اخراجات میں اضافہ ،روپے کی قدر مستحکم ہوچکی: وزیر اعظم عمران خان

ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں ،’یہ ایک اچھا شگون ہے، خاص طور پر جب ملک میں مہنگائی 12.5 فیصد سے 14.6 فیصد کے درمیان ہے اور معاشی سست روی کی وجہ سے دس لاکھ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت کم از پچاس لاکھ نوکریوں کی ضرورت ہے، تیس لاکھ ان افراد کیلئے جو حالیہ معاشی بحران کے نتیجے میں روزگار سے نکالے گئے ہیں اور بیس  لاکھ ان نوجوانوں کیلئے جو اپنی نوکری کرنے کی عمر میں داخل ہو رہے ہیں۔

قیس اسلم کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.9 فیصد کے قریب ہے جوکہ جی ڈی پی کے حالیہ لگائے گئے تخمینوں کی نسبت 0.3 فیصد زیادہ ہے، پائیدار ترقی کیلئے جی ڈی پی کی شرح نمو آبادی کی شرح نمو سے دوگنا یعنی کم از کم چھ فیصد ہونی چاہیے۔

مالی سال 2018-19ء میں پاکستان کی مجموعی پیداوار میں خدمات کے شعبے نے 60 فیصد ، زرعی شعبے نے 19 فیصد جبکہ مینو فیکچرنگ سیکٹر نے 21 فیصدحصہ ڈالا،اس حساب سے دیکھا جائے تو زرعی ملک ہوتے ہوئے سب سے زیادہ بیروزگار ی زراعت کے شعبے میں ہے۔

اس کے بعد کسی بھی ملک کی آمدن میں بنیادی کردار بڑی صنعتوں کا ہوتا ہے اور اسے آمدن ، روزگار اور پیداواریت کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان کا یہ شعبہ بھی چند وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہے۔

وزیر اعظم بارہا کہہ چکے ہیں کہ حکومت غربت کے خاتمے، ہائوسنگ سیکٹر اور تعلیم کے میدان میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہتی ہے اور ان کی ترجیح 2020ء میں زیادہ سے زیادہ نئی نوکریاں پیدا کرنا ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر قیس کہتے ہیں کہ ہائوسنگ سیکٹرمیں سرمایہ کاری سے اس سے جڑا نجی شعبہ یعنی سیمنٹ ، آئرن اور دیگر انڈسٹری بھی اوپر اٹھے گی ، رئیل اسٹیٹ ترقی کرے گی اور زیادہ سے زیادہ افراد کو کام ملے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here