اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کی شرح میں ریکارڈ اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستے عوام پر ماہانہ 25 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
حکومت نے یکم مارچ کوپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں پانچ پانچ روپے کم کی ہیں ، دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی کم کی گئی ہیں تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر عالمی سطح پر تیل کی گرتی قیمتوں کیساتھ موازنہ کیا جائے تو حکومت نے عوام کو بالکل ریلیف نہیں دیا بلکہ اب بھی ماہانہ 25 ارب روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جائیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے کی بجائے صرف پانچ روپے کمی کی گئی تاہم حکومت نے ہائی سپیڈ ڈیزل پر 25 روپے فی لٹر کے حساب سے پٹرولیم لیوی مقرر کردی ہے جس کا اصل بوجھ عام آدمی پر ہی آئے گا۔
ذرائع کے مطابق ملکی تاریخ میں ہائی سپیڈ ڈیزل پر آٹھ روپے فی لٹر سے زیادہ پٹرولیم لیوی کبھی مقرر نہیں کی گئی۔
اسی طرح پٹرول پر بھی ساڑھے تین روپے لیوی بڑھا دی گئی ہے، یہ ٹیکسز اگر نہ بڑھائے جاتے تو پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے کی بجائے نو روپے کمی ہو سکتی تھی ۔ مٹی کے تیل پر بھی ٹیکس میں نو روپے فی لٹر کے حساب سے اضافہ کردیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت کو پہلے ہی سے پٹرولیم مصنوعات پر نافذ مختلف ٹیکسوں کی مد میں 60 ارب روپے ماہانہ آمدنی کی متوقع تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ ٹیکسز میں اضافہ عالمی مالیاتی ادارہ(آئی ایم ایف) کے ایما پر کیا گیا ہے کیونکہ حکومت کو مقررہ اہداف کی نسبت ٹیکس میں شارٹ فال کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم کو ہدایت کی تھی کہ تیل کی عالمی منڈی میں گرتی قیمتوں کے تناظر میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے لٹر کمی کی جائے ۔
اسی دوران آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کو بیل آئوٹ پیکج کی تیسری قسط 45 کروڑ ڈالر جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کسی طرح وزیر اعظم کوپٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافے پرراضی کرلیا ۔