حکومت گاڑیوں کے معیار کو بہتر کرنے کےلیےنیشنل سٹینڈرڈ متعارف کرائے گی

1036

اسلام آباد (غلام عباس): پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری میں آٹو سٹینڈرڈ کو یقینی نہ بنانے کی وجہ سے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن اب مذکورہ وزارت نے آٹو سیکٹر میں نیشنل سٹینڈرڈ متعارف کرانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) سے 16 ماہ تک رہنمائی کے بعد آٹو انڈسٹری میں نیشنل سٹینڈرڈ متعارف ہونے جا رہی ہے اس حوالے سے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے انڈسٹری میں تمام سٹیک ہولڈرز سے اس مشکل عمل پر پیشرفت کرنے کےلیے مشاورت شروع کر دی ہے کیونکہ اس سے پہلے ملک میں گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ پر معائنہ یا معیار کی جانچ پڑتال نہیں کی جا رہی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سی سی پی کے ملک میں گاڑیوں کے بہترین معیار کو یقینی بنانے کے باوجود وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) نے کبھی بھی مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کے سٹنیڈرڈ کو وضع نہیں کیا ہے۔

مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کے صارفین اکثر ناکارہ کوالٹی اور سٹینڈرڈ کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں اور پاکستان میں گزشتہ 70 سالوں سے آٹو کمپنیوں نے کبھی صارفین کے مسائل کو سنجیدہ نہیں سمجھا ہے۔

تاہم وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک حالیہ سوشل میڈیا کے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز ایسوی ایشن (پی اے ایم اے) اور تمام بڑی آٹو موبائل کمپنیوں کے نمائندگان سے نیشنل سٹینڈرڈ اور انڈسٹری میں موجودہ مسائل کے حل کے لیے 26 فروری کو اجلاس بلایا ہے۔

پرافٹ اردو کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے پی اے ایم اے کے افسر نے اجلاس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بلایا جانے والا اجلاس 26 فروری کی بجائے 3 مارچ کو ہو گا۔

ذرائع کے مطابق یہ ملاقات حکومت اور سٹیک ہولڈرز کے مابین پہلی بار ہونے جا رہی ہے جس میں آٹو موبائل انڈسٹری سے متعلق نیشنل سٹینڈرڈ پالیسی متعارف کرائی جائے گی۔

اس سے قبل اکتوبر 2018 میں سی سی پی نے انڈسٹری میں مسائل کی نشاندہی کے ذریعے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کو ملک میں بنائی جانے والی گاڑیوں کے معیار اور ان کی سیفٹی سے متعلق تجاویز پیش کی تھیں۔

سیکرٹری سی سی پی نے 3 اکتوبر 2018 کو ایک خط کے ذریعے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو سٹینڈرائز گاڑیاں بنانے کے لیے اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here