اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا گردشی قرضہ 34 ارب روپے ماہانہ سے کم ہو کر 12 ارب روپے ماہانہ پر آ چکا ہے۔
سینیٹر فدامحمد کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس ہوا جس میں وزارت توانائی کے بجٹ اور اسکے استعمال کے بارے میں حکام نے سینیٹرز کو بریفنگ دی۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 802 ارب روپے گردشی قرضہ توانائی کمپنیوں کو واجب الادا ہے ، رواں سال 134 ارب روپے گردشی قرضہ مجموعی قرضے میں شامل ہوا اور اگر حکومت کی جانب سے اقدامات نہ کیے جاتے تو یہ 300 ارب روپے ہو سکتا تھا۔
کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں وزارت توانائی کے ترقیاتی کاموں کیلئے 75 ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ 226 ارب روپے صارفین کو سبسڈی دینے کیلئے مختص کیے گئے۔
کمیٹی نے ہدایت کی کہ ایسا طریقہ کار مرتب کیا جائے جس سے ٹیرف ریٹس میں یکسانیت پیدا ہوسکے۔
قائمہ کمیٹی کے ارکان کو مزید بتایا گیا کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو )کے اقدامات کی وجہ سے کنڈا کلچر میں کافی کمی آئی ہے جبکہ کورونا وائرس کی وجہ سے گوادر میں بجلی کے متعدد منصوبوں پر کام تین ماہ کیلئے روک دیا گیا ہے کیونکہ زیادہ تر انجنئیرز کا تعلق چین سے ہے۔
انرجی پرچیز پرائس اور اس سلسلے میں واجبات کے معاملہ کو اٹھاتے ہوئے کمیٹی نے زور دیا کہ تمام واجبات ملک کے باقی حصوں کی طرز پر ہی ادا کیے جائیں اور ٹیکسوں کی تفصیلات کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں۔
گدوں امن زئی کے علاقہ میں حال ہی میں قائم ہونے والے صنعتی یونٹس کو بجلی کنکشز کی عدم فراہمی کے حوالے سے وزارت توانائی کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ صورتحال میں بہتری کیلئے ایک نیٹ ورک قائم کیا جا رہا ہے جو کہ گرمیوں تک مکمل کر لیا جائے گا جس کے بعد لوڈشیڈنگ کی شکایات نہیں آئیں گی۔