اسلام آباد: طورخم کسٹمز سٹیشن سے بغیر ڈیوٹیز اور ٹیکس ادائیگی 115 کنٹینرز کلئیر کیے جانے کا انکشاف ہوا ہےجس سے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچا ہے۔
ذرائع نے پاکستان ٹوڈے کو بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن نے قائم مقام چیئرمین فیڈرل بورڈف ریونیو (ایف بی آر) کو مطلع کیا کہ دسمبر 2019ءمیں طور خم بارڈر سے 355 کنٹینرز میں سے 115 کنٹینرز کو گڈز ڈکلیئریشن فارم بھرے بغیر اور امپورٹ ایکسپورٹ ڈیوٹیز اور ٹیکس ادا کیے بغیر گزرنے دیا گیا۔
اس سے قبل اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے 355 کنٹینرز کو بغیر ٹیکس ادائیگی گزارے جانے کا انکشاف ہوا تھا جس پر وزیراعظم عمران خان نے ممبر کسٹمز آپریشنز جواد آغاز اور پانچ کلیکٹرز کو برطرف کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
اس کے بعد ، چیف کلکٹر کسٹمز (شمالی) ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ایف بی آر چیئرمین کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ڈی جی کسٹمز انٹیلی جنس کی رپورٹ کی تحقیقات کیں ، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 355 میں سے 240 کنٹینرز سے 130 ملین روپے کی ڈیوٹیز اور ٹیکس وصول کیے گئے ۔
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام کنٹینرز کو بغیر ٹیکس ادائیگی گزارے جانے کی بات میں سچائی نہیں ہے کیونکہ افغانستان میں رجسٹرڈ کوئی بھی گاڑی کابل میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ پاس کے بغیر نہیں گزر سکتی۔
ذرائع کے مطابق ڈی جی کسٹمز انٹیلی جنس نے اپنی رپورٹ کا دفاع کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر کو کہا کہ انکوائری رپورٹ میں اصل صورتحال کو چھپایا جا رہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں کسٹمز انٹیلی جنس نے درجنوں ایسے ٹرکوں کو قبضے میں لیا ہے جن پر پھل سمگل کیے جا رہے تھے تاہم یہی ٹرک ہی بعد ازاں نیلام کردئیے گئےاور اس حوالے سے WeBOC سسٹم پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ نیشنل لوجسٹک سیل (این ایل سی) اور پاکستان ریونیو آٹو میشن (پرائیویٹ) کے سٹاف کا کردار بھی اس حوالے سےمشکوک دکھائی دیتا ہے اور اس سلسلے میں بھی تحقیقات کی جانی چاہییں۔
دوسری جانب سینئر کسٹمز حکام نے کہا کہ اپریسمنٹ پشاور (Appraisement Peshawar) اور کسٹمز انٹیلی جنس کے مابین اس جھگڑے کی وجہ سے محکمے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے حالانکہ انٹیلی جنس کی سکینڈل کی تحقیقات سے متعلق رپورٹ کسی افسر کیخلاف نہیں بلکہ قومی مفاد میں ہے۔