پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ، ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے پرعزم ۔۔۔ لیکن کیا اہداف کے حصول میں کامیاب ہو پائے گا؟

ملک کے کچھ کامیاب بزنس مین چند ملین ڈالر اور 26 برس کا ایک نوجوان اہل وطن کو ماحول پر توجہ دینے کی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

1365

اس ساری کہانی کا آغاز معصومانہ طور پر اودبلائو سے ہوتا ہے۔ گزشتہ برس کے وسط میں برطانوی شہری بین گولڈسمتھ لندن میں قیام پذیر تھے اور اس سادہ سے سوال کے جواب کی تلاش میں پھنس گئے تھے کہ کیا پاکستان میں اود بلائو ہوتے ہیں؟

گولڈ سمتھ کوئی عام گورا نہیں ہے، اگر ان کے نام کا آخری حصہ آپکی سماعتوں کے لیے جانا پہچانا ہے تو آپ کو ان کی بڑی بہن جمائما گولڈ سمتھ یاد ہوں گی جو موجودہ وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ ہیں۔ ان کے ایک اور بڑے بھائی زیک گولڈ سمتھ ہیں جو 2016 میں کنزرویٹیو پارٹی کے امیدوار کے طور پر میئر کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہو گئے تھے (وہ لیبر پارٹی کے رُکن پاکستانی نژاد صادق خان سے ہارے تھے)۔

ہم نے یوں ان (بین گولڈ سمتھ) کا  پاکستان سے تعلق تلاش کر لیا ہے۔ لیکن پاکستانی قارئین غالباً اس حقیقت سے زیادہ واقف نہیں ہوں گے کہ گولڈ سمتھ خاندان کی ماحولیات میں ہمیشہ گہری دلچسپی رہی ہے۔ والد جیمز گولد سمتھ جینیاتی طور پر خوراک میں تبدیلی لائے جانے اور جوہری طاقت کے خلاف تھے۔ زیک گولڈ سمتھ اس وقت برطانیہ کے جونیئر وزیر برائے ماحولیات و انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ہیں۔ بین گولڈ سمتھ ماحولیاتی سرگرمیوں میں سکول کے زمانے سے سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں اور 2015 میں انہوں نے  مینہیڈن کیپیٹل کے نام سے ایک گرین انوسٹمنٹ ٹرسٹ قائم کی (جس کا نام مینہیڈن مچھلی کے نام پر رکھا گیا ہے جو سمندری پانی کو صاف کرتی ہے)۔

 لیکن دوبارہ اود بلائو کی طرف آتے ہیں، یہ جانور ایک دور میں شمالی امریکا میں کثرت سے پایا جاتا تھا جو بے دریغ شکار کے باعث اب ختم ہونے کے قریب ہے (اگرچہ اسے دوبارہ رفتہ رفتہ متعارف کروایا جا رہا ہے) اور اس کی بقاء غیر معمولی طور پر اہم ہے، بالخصوص جب پانی کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہو۔ دریائوں میں اس کی موجودگی دریا کے صحت مند ایکو سسٹم کی علامت ہوتی ہے۔

بین گولڈ سمتھ نے اس سوال کی جواب کی تلاش میں اپنے دوست فرخ خان کا رُخ کیا، وہ بھی لندن میں ہی رہتے ہیں اور  بی ایم اے کیپیٹل مینجمنٹ کے بانی پارٹنر اور سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔ وہ ایکومین میں بزنس ڈویلپمنٹ کے شعبہ کے سینئر ڈائریکٹر بھی ہیں، یہ ایک غیر منافع بخش انوسٹمنٹ فنڈ ہے جس کی توجہ ترقی پذیر ملکوں پر مبذول ہے۔ ان کا نام حال ہی میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کے اگلے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے طور پر لیا گیا ہے۔

فرخ خان اود بلائو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ لیکن کراچی سے تعلق رکھنے والے فرخ خان اپنے ایک پرانے دوست ارشاد آدم جی (فرخ خان کراچی گرامر سکول  اور ارشاد آدم جی کراچی امریکن سکول سے فارغ التحصیل ہیں،   دونوں کراچی کے ایک ہی سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو دہائیوں سے جانتے ہیں)۔ ارشاد آدم جی پیسیفک ملٹی پراڈکٹس کے منیجنگ ڈآئریکٹر ہیں، جو آدم جی گروپ کا ایک حصہ ہے اور ڈبلیو ڈبلیو ایف، پاکستان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رُکن بھی ہیں۔

کراچی میں اپنے دفتر میں پرافٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے دوستانہ مزاج کے حامل ارشاد آدم جی نے بے تکلفی سے اود بلائو کے بارے میں اپنے ابتدائی تاثر کے بارے میں آگاہ کیا: یہ ہوتا کیا ہے؟ کچھ دیر گوگل پر تلاش کرنے اور تحقیق کرنے کے بعد ان کو یہ معلوم ہوا کہ اودبلائو فطری طور پر پاکستان میں نہیں پائے جاتے۔

واقعات کی یہ مضخکہ خیز کڑی نہایت اہم ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے تین مردوں کے درمیان ماحولیات اور پاکستان کے موضوع  پر ایک بات چیت کا آغاز ہوا۔  اودبلائو سے شروع ہونے والی یہ کہانی آگے بڑھی تو سوال یہ پیدا ہوا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کے خلاف موثر اقدام کس طرح کیا جائے؟ کہانی میں صرف ارشاد آدم جی اور فرخ خان کے پاکستان میں وسیع نیٹ ورک ہی شامل نہیں ہیں بلکہ گولڈ سمتھ کے مکینسی میں رابطے اور ایک پرجوش پاکستانی وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی بھی اس کےاہم کرداروں میں شامل ہے۔

حتمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ قریباً پانچ ماہ بعد پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ (پی ای ٹی) نجی شعبے (اور ممکنہ طور پر حکومتی فنڈز) کے حصول کے لیے تشکیل پائی تاکہ پاکستان میں ماحولیاتی منصوبے شروع کیے جائیں، یہ محض آٹھ ہفتے پرانی کہانی ہے۔

کہانی میں مکینسی کی انٹری 

کہانی میں اس مرحلے پر پیشہ ورانہ رنگ نمایاں نظر آیا۔ اگرچہ تین لوگ اس حوالے سے غوروفکر کر رہے تھے کہ پاکستان کے لیے کیا کیا جائے جب گزشتہ برس جولائی میں بین گولڈسمتھ مشاورتی فرم مکینسی اینڈ کمپنی کے لندن آفس میں ایسوسی ایٹ پارٹنر سیف حمید ( دونوں ایک ہی ہائی سکول میں پڑھ چکے تھے) تک رسائی حاصل کی۔

اگرچہ سیف حمید 2012 سے مکینسی میں کام کر رہے تھے لیکن انہوں نے اس سے قبل اس سے کہیں زیادہ دلچسپ ذمہ داری ادا کی تھی۔ وہ 2009 سے 2012 تک حکومت پنجاب کے پبلک پالیسی کے حوالے سے مشیر رہے تھے اور دیگر شعبہ جات کے علاوہ ماحول اور ویسٹ مینجمنٹ کو بھی دیکھتے تھے۔

بین گولڈسمتھ نے سیف حمید کو کال کی اور کہا کہ عالمی بنک سے منسلک سینئر انوائرنمنٹل سپیشلسٹ ایڈریانا موریرا رات کے کھانے پر ان کے ساتھ تھیں۔ موریرا نے ان کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان گلوبل انوائرنمنٹ فسیلٹی کی جانب سے ملنے والے کلائمیٹ فنڈز کا بہت تھوڑا حصہ استعمال کرتا ہے، یہ فائونڈیشن 1992 میں قائم کی گئی تھی۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جس کی نیت صاف ہو (اور وہ حکومت سے منسلک ہو)۔ بین گولڈسمتھ نے سیف حمید سے پوچھا کہ کیا وہ کسی ایسے منصوبے کا جائزہ لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان میں قومی فنڈز کس طرح استعمال ہوتے ہیں؟

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا مشیر ماحولیات کو 2 ہفتوں میں‌الیکٹرک وہیکلز پالیسی کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کرنے کا حکم

سیف حمید کے لیے اس سے بہتر کال موصول کرنے کا کوئی دوسرا موقع نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ جون 2019 میں چند ہفتے قبل ہی انگیجمنٹ منیجر سے ایسوسی ایٹ پارٹنر بنے تھے جس کے باعث انہیں فراغت کے کچھ لمحات میسر آ گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کسی حد تک کچھ اپنا بھی کوئی کام کرنا چاہ رہے تھے تاکہ فرم میں کسی حد تک ان کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو۔

سیف حمید نے اس کال کے بعد ایک ایسے شخص کو کال کی جو مکینسی میں پبلک سیکٹر کے امور کے سربراہ تھے اور وہ جلد ہی مکینسی برطانیہ کی شراکت داری سے اس موضوع پر مفاد عامہ کا پراجیکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سیف حمید نے فیصلہ کیا کہ ان کے لیے معاون کے طور پر ایک اینالسٹ کافی رہے گا۔

26 برس کے مقیت ماجد بزنس اینالسٹ تھے جنہوں نے لندن آفس میں محض دو برس کام کیا تھا، انہوں نے حال ہی میں کولمبیا میں چھٹیاں گزارنے کے لیے ٹکٹس بک کروائی تھیں۔ وہ اسی جمعے کو سفر پر روانہ ہو رہے تھے جب کاریڈور میں دوڑ کر سیف حمید کے پاس گئے۔ سیف حمید نے ان سے کہا کہ وہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے مفاد عامہ کا ایک منصوبہ شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ کیا وہ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں؟

مقیت ماجد نے ناصرف اپنی چھٹیاں منسوخ کر دیں بلکہ جولائی میں پاکستان بھی آ گئے۔۔۔ انہوں نے کہا، یہ میرے لیے ایک مہم جوئی کے مانند تھا۔

برطانوی نژاد پاکستانی موسم گرما ہمیشہ آزاد کشمیر میں اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے گریجویٹ کا اپنی زندگی کو اس ڈھنگ پہ لانے کے تناظر میں اپنے خاندان کے حوالے سے ہمیشہ شکرگزاری  کا احساس رہا تھا۔ انہوں نے کہا، پاکستان کے عوام جن چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں، میں ان وجوہ کے باعث احساس جرم کا شکار ہو گیا تھا۔ یہ پراجیکٹ مقیت ماجد کے لیے احسانوں کا بدلہ چکانے کا ایک بہترین موقع تھا۔

مفادِ عامہ کے ابتدائی پراجیکٹ کی قیادت سیف حمید کر رہے ہیں اور ان کا ساتھ مقیت ماجد دے رہے ہیں جب کہ سیف حمید نے اپنے مینٹور ہائوکے اینجل سے رہنمائی بھی حاصل کی ہے، پراجیکٹ میں اس اَمر پر توجہ دی گئی ہے کہ ترقی پذیر ملک جیسا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور نائیجیریا ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے قومی فنڈز قائم کر سکتے ہیں۔ اگست میں منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوا۔

لیکن چوں کہ ٹیم کے ہر رُکن کے پاکستان میں گہرے تعلقات تھے جس کے باعث یہ منصوبے کے اگلے مرحلے کی بنیاد ثابت ہوئے۔ مقیت ماجد نے کچھ سلائیڈز تیار کیں جو مکینسی کے پراجیکٹ سے لی گئی تھیں اور پاکستان میں متعلقہ فریقین سے مشاورت کے ابتدائی مرحلے کے دوران استعمال ہونی تھیں۔

ٹیم کے مطابق، دستاویز میں حقیقی مسائل اور حقائق بیان کیے گئے تھے جو ہمارے کام کو آگے بڑھانے کے لیے بنیاد اور ویژن فراہم کرنے کا باعث ثابت ہوئے کہ ہم پاکستان میں کلائمیٹ ایکشن کو کس طرح آگے لے کر چلیں۔

سیف حمید، ارشاد آدم جی، فرخ خان اور بین گولڈ سمتھ نے ستمبر کے اوآخر اور اکتوبر کے اوائل میں  اپنے نیٹ ورکس سے رابطہ قائم کیا اور ان لوگوں کے گروپ کے ساتھ سامنے آئے جو پاکستانی کاروباری حلقوں میں جانے پہچانے تھے جن میں سائوتھ سٹریٹ ایسٹ مینجمنٹ کے آصف رنگونوالا، افینیٹی کے ضیا چشتی، جے ایس بنک کے علی رضا صدیقی اور نیا مینجمنٹ کے مسرور صدیقی شامل تھے۔ انہوں نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر نو تشکیل شدہ پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کا ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا۔ ٹرسٹ نے 10 یا زیادہ سرمایہ کاروں سے آپریشنل اخراجات کے لیے ڈھائی سے تین لاکھ ڈالر جمع کر لیے۔

ٹیم کی قیادت اب مقیت ماجد کر رہے ہیں جنہوں نے نومبر میں مکینسی سے اپنی ملازمت چھوڑ دی تھی اور وہ اب اسلام آباد میں پاکستان انوائرنمنٹل ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ سیف حمید (وہ اب بھی مکینسی سے منسلک ہیں) اور فرخ خان بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں۔ ارشاد آدم جی، فرخ خان، بین گولڈسمتھ، اینجیل اور موریرا یہ سب ایڈوائزری بورڈ میں شامل ہیں۔

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کا تصور

چناں چہ پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ درحقیقت کیوں تخلیق کی گئی اور اب ہی کیوں تخلیق کی گئی؟

پاکستان ان 10 نمایاں ملکوں میں سے ایک ہے جو ماحولیاتی مسائل کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ زیرِنظر حقائق کو مدِنظر رکھنے کی ضرورت ہے: ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی جانب سے 2017 میں مرتب کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ 50 برسوں کے دوران پاکستان کے سالانہ اوسط درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ پانچ فی صد اضافہ ہوا ہے اور رواں صدی کے اختتام تک پاکستان کا اوسط درجہ حرارت تین سے پانچ ڈگری سنٹی گریڈ تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔

اس کے ساتھ ہی گزشتہ 30 برسوں کے دوران شدید گرم دنوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ صدی کے دوران کراچی کے ساحل کے ساتھ سطح سمندر اندازاً 10 سنٹی میٹر بڑھا ہے۔

پاکستان انوائرنمٹ ٹرسٹ نے مثال کے طور پر کچھ مزید پریشان کن حقائق کا حوالہ دیا ہے: فضائی آلودگی ایک اندازے کے مطابق 50 ارب ڈالر کے معاشی دبائو کا باعث بن رہی ہے، آلودہ پانی کے باعث ہر برس 50 ہزار بچے ڈائریا کی بیماری میں مبتلا ہو کر جاںبر نہیں ہو پاتے، پاکستان میں کپاس کی فصل کی پیداوار میں چھ سے نو فی صد کمی کے خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے اور درجہ حرارت میں ایک فی صد اضافہ ہوا ہے اور ملک محض دو دہائیوں کے دوران 33 فی صد جنگلات سے محروم ہوا ہے۔

 ان خدشات کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے اگلے 40 برسوں کے دوران چھ سے 14 ارب ڈالر کے مجموعی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔

ان واضح خدشات کے علاوہ ماہرین کی اکثریت کہتی ہے کہ پاکستان ان خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 2021 میں اگرچہ نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی تشکیل دی گئی اور یہ پاکستان کی ماحولیاتی تبدیلی کے تناظر میں ایک رہنما دستاویز ہے لیکن 2011 سے 2015 تک پاکستان کے وفاقی بجٹ کا محض چھ اعشاریہ ایک سے آٹھ اعشاریہ پانچ فی صد بجٹ ہی ماحولیاتی تبدیلی سے متعلقہ اخراجات پر صرف ہوا۔ یہ بجٹ مجموعی طور پر آٹھ سے 15 فی صد کے درمیان ہونا چاہئے۔

 مزیدبرآں، نیشنل کلائمیٹ چینج پروگرام پر عملدرآمد میں ناکامی پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔ کچھ مبصرین اگرچہ یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ اس کی وجہ کسی حد تک 18 ویں آئینی ترمیم کے باعث پیدا ہونے والی کنفیوژن ہے جس کے باعث بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں اور یہ کنفیوژن پیدا ہوئی ہے کہ وہ کون سے اختیارات ہیں جو وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور وہ کون سے اختیارات ہیں جو صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ تنقید بھی کی جاتی رہی ہے کہ نیشنل کلائمیٹ چینج پروگرام طویل المدتی فریم ورکس کے بجائے قلیل المدتی پروگراموں پر توجہ دیتا ہے۔

کچھ مثبت خبریں بھی ہیں: پاکستان میں ماحولیات کے لیے کچھ فنڈز موجود ہیں۔ گرین کلائمیٹ فنڈ ایک تنظیم ہے جو 2010 میں اقوام متحدہ نے قائم کی تھی جسے ترقی یافتہ ملکوں نے 10 اعشاریہ تین ارب ڈالر دینے کے وعدے کیے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکا جا سکے  اور یہ دنیا کا سب سے بڑا کثیرالملکی کلائمیٹ فنڈ ہے۔ اس نے حال ہی میں نو اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کے مزید فنڈز حاصل کیے ہیں۔  لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بری خبر یہ ہے کہ پاکستان نے دستیاب فنڈز میں سے محض صفر اعشاریہ ایک ارب ڈالر ہی استعمال کیے ہیں جس کی بڑی وجہ گرین کلائمیٹ فنڈ کی توثیق کا نہ ہونا اور معاشی بہائو کی غیرموثر نگرانی ہے۔ پاکستان کے محض دو ادارے ہی گرین کلائمیٹ فنڈ سے توثیق شدہ ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کا منصوبہ بھی اب تک منظور نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: اگست میں پاکستان نے 48 فیصد بجلی ماحول دوست ذرائع سے حاصل کی

ایک اور بڑا مسئلہ آگہی کا فقدان ہے جس کے باعث درحقیقت ماحولیاتی تبدیلی کے تناظر میں کچھ کرنے کی خواہش موجود نہیں۔ جیسا کہ فرخ خان کہتے ہیں، ترقی پذیر ملکوں کی بسا اوقات بہت سی بنیادی ضروریات ایسی ہوتی ہیں جو پوری نہیں ہو پاتیں جیسا کہ تعلیم کا فقدان یا صحت کی سہولیات تک رسائی وغیرہ۔ وہ کہتے ہیں، آپ شمسی لالٹین ایک چھوٹے کسان کو فروخت نہیں کر سکتے جب وہ پہلے سے ہی اپنی بھوک مٹانے کے لیے پریشان ہے۔ اس کی کوئی معاشی منطق نہیں بنتی۔  لیکن آپ محض آگ بجھانے میں ہی مصروف نہیں رہ سکتے، آپ کو طویل المدتی اقدامات میں سرمایہ کاری کرنا ہوتی ہے۔

اسی طرح ارشاد آدم جی کہتے ہیں کہ پاکستان کا طبقہ اشرافیہ  تعلیم پر زیادہ توجہ دیتا ہے اور غریب طبقے کے مسائل کا حل بھی اس کے پیش نظر ہوتا ہے۔ لیکن جب ان سے ماحولیات کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ اسے ایک لطیفہ خیال کرتے ہیں۔

اور مقیت ماجد ان تمام مشکلات کی نشاندہی کرتے ہیں جو کلائمیٹ فنانسنگ کے حوالے سے درپیش ہیں۔ آپ کے پاس یہ تمام اعداد و شمار موجود ہیں لیکن ایک ترقی پذیر ملک کی اس جانب رہنمائی کرنا نہایت مشکل ہے۔

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ ان تمام مسائل کا جواب دینے کی ایک کوشش ہے۔ اس کا ایک مثالی مشاورتی بورڈ ہے اور بہ ظاہر اہل لوگوں پر مشتمل ایک ٹیم ہے جو غیر معمولی اعتماد کا مظہر بنے گی اور یہ عالمی سرمایہ کاروں، تنظیموں اور پاکستان کی حکومت کو آپس میں ملانے کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ اس شعبہ میں سرمایہ کاری کے تناظر میں ایک مشاورتی تنظیم بننے کا عزم رکھتی ہے۔

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کی دستاویزات کے مطابق، ماحولیات کے تحفظ کے لیے ملنے والی عالمی امداد حاصل کرنے والے اداروں کا روایتی طور پر ایک منظم خودمختار ڈھانچہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ مقامی طور پر فنڈز تقسیم کرتی ہیں۔ ہمارے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک خودمختار نیشنل انوائرنمنٹ فنڈ ان عوامل کو تشکیل دے سکتا ہے۔

ٹیم نے نشاندہی کی ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک قومی ادارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کی ذمہ داری پراجیکٹ بنانا اور جمع کروانا ہو جو بڑے عالمی امدادی اداروں جیسا کہ گرین کلائمیٹ فنڈ کے معیارات اور حکومتِ پاکستان کے متعین کردہ اہداف سے ہم آہنگ ہوں۔

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کے تین بنیادی اہداف ہیں:

الف: ملکی ترجیحات کی بنیاد پر فنڈ کیے جانے کے قابل منصوبوں کی شناخت کے ساتھ ان کو ڈویلپ کیا جائے اور جہاں ضرورت ہو، انہیں معاونت فراہم کی جائے۔

ب: مختلف ذرائع سے فنڈنگ حاصل کی جائے جن میں اکویٹی، گرانٹس اور قرضہ جات شامل ہیں۔

پ: عالمی مہارتوں اور سٹیک ہولڈرز کے تعلقات کو منظم کر کے منصوبوں کا دائرہ کار بڑھانے  کے لیے معاونت فراہم کی جائے۔

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کا پراجیکٹس کو فنڈ کرنے کے تناظر میں معاشی فرق ختم کرنے کے لیے ایک مربوط معاشی ماڈل ہو گا۔ ایک ممکنہ پراجیکٹ کو ابتدائی طور پر فلاحی گرانٹ کے ذریعے فنڈ کیا جا سکتا ہے، جس کے بعد ڈویلپمنٹ فنانس اور نجی شعبہ کی جانب سے قرضوں اور اکویٹی کی صورت میں فنڈ کیا جائے۔

حکومت سے روابط کا فروغ

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کی ٹیم نے سنجیدہ نوعیت کی شناخت حاصل کرنے کی غرض سے وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی کا رُخ کیا جس کے سربراہ ملک امین ہیں۔

پاکستان میں ملک امین کسی حد تک انوکھے بلین ٹری سونامی جنگلاتی پروگرام کے باعث مشہور ہیں۔ لیکن وہ عالمی بنک اور اقوامِ متحدہ کے لیے پرائیویٹ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور حقیقت میں نہایت متحرک ہیں۔

سیف حمید کی قبل ازیں پیرس میں چھٹیوں کے دوران ملک امین سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ملک امین کو اپنے آئیڈیا کے بارے میں بریف کیا۔ بعدازاں نومبر کے اوائل میں سیف حمید اور مقیت ماجد نے ملک امین سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کا رُخ کیا۔ یہ ملاقات نہایت مفید ثابت ہوئی: سیف حمید یاد کرتے ہیں کہ وہ ملک امین کی وقت کی پابندی کی عادت سے متاثر ہوئے (وہ بالخصوص جب پہلے  بھی حکومت میں کام کر چکے ہیں)، اور ملک امین مقیت ماجد کی سلائیڈز سے متاثر ہوئے۔ وہ تینوں چند ہی لمحوں بعد ان شعبوں کے بارے میں بات کر رہے تھے جن میں ممکنہ طور پر تعاون ممکن تھا۔

 گزشتہ برس اکتوبر میں ملک امین پانچ نکاتی گرین ایجنڈا پروموٹ کرتے رہے۔ ان میں 10 بلین سونامی ٹری، پلاسٹک پر پابندی، الیکٹرک وہیکل پالیسی، ایک صاف سبز انڈیکس اور ریچارج پاکستان (جو سیلاب سے پیش آنے سے متعلق ہے) شامل ہیں۔ انہوں نے یہ نکات میڈرڈ میں دو سے 13 نومبر تک جاری رہنے والی یواین کلائمیٹ چینج  کانفرنس یا سی او پی 25 میں بھی دہرائے۔

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ (لیکن منسلک نہیں) کے قریباً متوازی ہی حکومت نے  ایکوسسٹم ریسٹوریشن فنڈ (ای ایس آرایف) شروع کیا۔ یہ فنڈ  COP25 کے تحت ہی لانچ کیا گیا جس کے لیے عالمی بنک نے قریباً 120 ملین ڈالر فراہم کیے۔

ای ایس آر ایف ایک ایسا فنڈ ہے جو نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ کی جگہ پر قائم کیا گیا ہے، جو اس وقت بند کیا گیا جب اس کے پاس تین سو ملین ڈالر کے فنڈز موجود تھے جن کی اکثریٹ ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے فراہم کی تھی۔

اگرچہ اب بھی پیشرفت ہو رہی ہے اور ای ایس آر ایف اور این ڈی آر ایم ایف میں فرق واضح ہونا باقی ہے، بنیادی آئیڈیا یہ ہے کہ کچھ سرکاری فنڈز پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ بھی استعمال کر سکتi ہے۔

علاوہ ازیں، رواں برس گرین کلائمیٹ فنڈ کے شریک سربراہ ایک پاکستانی نعمان بشیر بھٹی ہیں جو بیلجئم میں قائم پاکستانی سفارت خانے میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن بھی رہ چکے ہیں۔ پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کا کردار 2020 میں شریک چیئرمین کے ایڈوائزر کا ہے، جس نے گرین کلائمیٹ فنڈ کی پالیسی سازی کے تناظر میں مدد فراہم کرنی ہے۔ پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کے مطابق، ممکن ہے کہ اس سے اضافی سرمایہ کاری کے حصول اور عالمی شراکت داریاں قائم کرنے میں مدد حاصل ہو۔

ملک امین کا جہاں تک معاملہ ہے، ان کے نزدیک ہر وہ پاکستانی قابل احترام ہے جو ماحول کا خیال رکھتا ہے۔ وہ کسی حد تک پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، میرا خیال ہے کہ یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ہمارے وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار ہے جس کے باعث وہ اس کہانی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ اور ملک امین کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ نہایت گہری ہو چکی ہے، یہ اس قدر گہری ہے کہ اب مقیت ماجد کا دفتر وزارت کلائمیٹ چینج کی عمارت کی پہلی منزل پر ہے۔ ان سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا یہ معاملہ بہ ظاہر سیاست زدہ نہیں ہو گیا؟ مقیت ماجد نے کہا کہ وہ پاکستان انوائرنمنٹل ٹرسٹ کی حکومت کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں چناں چہ دونوں کے اہداف میں نمایاں یکسانیت ہے، انہوں نے واضح کیا کہ وہ اسلام آباد میں اپنا دفتر قائم کر رہے ہیں۔

باعثِ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ نے یہ ذکر کیا کہ انہوں نے دیگر سیاسی فریقوں سے بھی غالباً پی ٹی آئی کے بعد بہتر تعلقات قائم کیے ہیں (انہوں نے اگرچہ نام ظاہر نہیں کیے)۔

کوئی ایسا گروپ جس کے ساتھ پاکستان انوائرنمنٹل ٹرسٹ نے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی یا ماحولیات کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے ساتھ کوئی تعلق قائم کیا ہو؟ ٹیم بہ ظاہر پریشر گروپس جیسا کہ کلائمیٹ ایکشن نائو میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، انہوں نے (مثال کے طور پر اس بارے میں سن رکھا ہے)  ذکر کیا کہ ان کی ایک بار رافع عالم سے بات چیت بھی ہوئی تھی (وہ انوائرنمنٹ کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک نمایاں وکیل ہیں اور لاہور سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ٹویٹر پر بھی فعال ہیں) لیکن انہوں نے اس حد تک ہی روابط قائم کیے ہیں۔

ذرائع اور ان لوگوں سے بات چیت کے بعد، جن کا یہاں ذکر ہوا تو مکینسی سب سے زیادہ نمایاں ہوئی۔ مثال کے طور پر ملک امین اور ارشاد آدم جی متاثر ہیں کہ سیف حمید اور مقیت ماجد کا تعلق مکینسی سے ہے۔ سیف حمید اور مقیت ماجد نے اپنی بات چیت میں مشاورتی زبان کا استعمال ترک کر دیا ہے، تاہم، پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کی سلائیڈز تک مکینسی کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کی گئی ہیں، ان میں ان جیسا فونٹ ہی استعمال ہوا ہے اور کچھ سیکشنز کے ڈیزائن بھی ملتے جلتے ہیں۔

مقیت ماجد کہتے ہیں، میں لازمی طور پر وہ ٹول کٹ اپنے ساتھ لایا ہوں جو میں مکینسی میں استعمال کرتا تھا۔ اس نوعیت کی تجزیاتی فکر جس میں مسائل کو الگ الگ کر کے دیکھا جا سکتا ہو تاکہ کسی منطقی نتیجے تک پہنچا جا سکے۔

یہ واضح رہے کہ پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ مکینسی کا منصوبہ نہیں ہے۔ لیکن پرافٹ نے اس اَمر پر توجہ دی ہے کہ بیرون ملک مقیم  پاکستانی متاثر کن اور ہمیشہ غیرملکی تعلیمی پس منظر اور تجربے کے حامل ہوتے ہیں ، اور وہ بنا کسی کے کہے ذمہ داری ادا کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں (پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ اس کی ایک مثال ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تانیہ ایدریس پاکستان کی ڈیجیٹل سپوکس پرسن ہیں، وہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں جو گوگل کے لیے کام کرتی رہی ہیں)۔ ان وجوہ کے باعث اکثر یہ الزام دہرایا جاتا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی حقائق سے آگاہ نہیں ہوتے۔

اور پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کی قیادت غیر ملکی شہری اور مراعات یافتہ طبقہ کر رہا ہے: اس کے بہت سے ارکان لندن یا واشنگٹن ڈی سی میں رہتے ہیں (یا آسانی کے ساتھ کراچی سے ان مقامات پر جا سکتے ہیں)، اور جب یہ مضمون لکھا جا رہا تھا تو مقیت ماجد خود لائبریریا سے بات کر رہے تھے (جہاں وہ گرین کلائمیٹ فنڈ کی مدد کر رہے تھے)۔

فرخ خان نے اس تشویش سے اختلاف کرتے ہوئے کہا، یہ زبردست ہو گا کہ اگر مقامی شہری یہ ذمہ داری اٹھائیں تو اس وقت بیرون ملک مقیم کوئی پاکستانی ان سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنے گا۔ ملک امین محتاط تھے۔ انہوں نے کہا، بیرونی ملک مقیم پاکستانی مکمل درستگی کی حامل سوچ کے ساتھ آتے ہیں جنہیں خود کو بسااوقات مختلف حقیقت کے ساتھ منسلک کرنا پڑتا ہے (جیسا کہ پاکستان میں کام کرنا)۔

لیکن سب سے مضبوط دفاع  مقیت ماجد نے کیا جو ٹیم کے کم عمر ترین رُکن ہیں اور اسلام آباد میں عملی طور پر کام کر رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے کچھ بناوٹی دکھائی دے سکتے ہیں لیکن دیکھئے، لندن سے اسلام آباد آکر کام کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے اور اس نوعیت کا کام کرنا نہایت چیلنجنگ ہے۔ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ آپ کو آئوٹ سائیڈر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے  کیوں کہ طویل عرصہ سے آپ یہاں موجود نہیں رہے۔

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ طویل عرصہ سے یہ سرگرمی انجام دے رہی ہے جیسا کہ ہر کوئی اس  بارے میں وضاحت چاہتا ہے۔

مستقبل کی جانب پیشرفت

پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کے کرنے کے لیے آگے کیا ہے؟ حقیقت میں کچھ چیزیں ضرور ہیں۔

سب سے پہلے تو پراجیکٹ کی تشکیل ہے: پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ ایک دو نہایت اہم، فنڈز کے قابل منصوبوں کے تصور کو شارٹ لسٹ کرے گا جس کے بعد رواں ماہ اعلیٰ معیار کا پائلٹ پراجیکٹ تیار کیا جائے گا اور اپریل میں بنیادی فنڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ منصوبے حکومت کے پانچ نکاتی ایجنڈے کے دائرہ کار میں آئیں گے۔

دوسرا مرحلہ انٹراپرینیورشپ کے مقابلے کا انعقاد ہے جس سے نہایت مفید منصوبوں کو مدد فراہم کی جا سکے گی جن کی توجہ بالخصوص زراعت، ویسٹ مینجمنٹ، توانائی اور پانی کے تحفظ پر ہوگی۔ یہ مقابلہ فروری 2020 میں ڈیزائن کیا جائے گا اور مارچ 2020 میں درخواستوں کی وصولی کا عمل شروع ہو جائے گا۔ ستمبر میں انٹریز کا جائزہ لیا جائے گا جب کہ فاتحین کا اعلان اکتوبر میں کیا جائے گا۔ فاتحین کو 40 ہزار ڈالر کا نقد انعام دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے تصور کو عملی جامہ پہنا سکیں۔

تیسرا، پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ دستاویزی فلموں کی سیریز تخلیق کرے گی۔ ایک پروموشنل ویڈیو مارچ اور سیریز متوقع طور پر جولائی میں لانچ کی جائے گی۔ 10 منٹ کی ہر قسط میں کچھ مخصوص ترجیحی شعبوں کو نمایاں کیا جائے گا جن میں زراعت، توانائی، جنگلات، ویسٹ مینجمنٹ، پانی کو محفوظ بنانے کے شعبہ جات شامل ہیں تاکہ آگہی پیدا کی جا سکے۔

اور آخر میں پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ سٹاف بھرتی کرنے جا رہی ہے تاکہ گرین کلائمیٹ فنڈ کے شریک چیئرمین کی مدد کی جا سکے اور یہ اسلام آباد سے کل وقتی سٹاف اور انٹرنز رکھے گا تاکہ مقیت ماجد کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں میں معاونت ہو سکے۔ ایک نمایاں کمپنی سے کم از کم ایک سینئر کنسلٹنٹ پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ کو مارچ میں جوائن کر رہے ہیں۔

اگر یہ اہداف مبہم دکھائی دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرسٹ فی الحال اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے، بنک اکائونٹ جنوری میں کھلا ہے اور کچھ دیگر قانونی شرائط تاحال پوری ہونی رہتی ہیں لیکن اگر 20 یا 50 یا 100 برسوں بعد پاکستان درحقیقت ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور حقیقت میں ایک ماحول دوست ملک بن جاتا ہے تو ہم سب کسی حد تک پاکستان انوائرنمنٹ ٹرسٹ اور اودبلائو کے شکر گزار ہو سکتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here