سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ایئر مارشل (ر) ارشد ملک کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے عہدے سے برطرف کیے جانے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے یہ وضاحت پیش کی کہ ایئر مارشل (ر) ارشد ملک کے دور میں قومی پرچم بردار ایئرلائن کی مالی کارکردگی بہتر ہوئی تھی اور اس کے آپریشنل نقصان میں 75 فی صد کمی آئی جب کہ ریونیو میں 44 فی صد اضافہ ہوا۔
وفاقی حکومت نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ ایئر مارشل (ر) ارشد ملک کی تعیناتی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اس لیے اپیل دائر کی گئی کیوں کہ انہوں نے قومی ایئرلائنز کی یونینز سمیت عملے کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے۔
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایئر مارشل (ر) ارشد ملک پاکستان ایئرفورس کے سینئر عہدے پر فائز رہے ہیں اور پی آئی اے کے سربراہ کے طور پر ان کی تعیناتی عدالت عظمی کے تین اگست 2018 کے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تعیناتی کے حوالے سے دیئے گئے فیصلے کے خلاف ہے۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کو گزشتہ برس 11 ارب روپے کم نقصان ہوا، وزیر برائے ہوا بازی
تاہم، وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست درحقیقت بدنیتی پر مبنی تھی اور ایئر مارشل (ر) ارشد ملک کو جب پی آئی اے کا قائم مقام سی ای او تعینات کیا گیا تھا تو اس وقت قومی ادارے کی حالت ایسی تھی کہ یہ کبھی بھی ختم ہو جاتا۔
رپورٹ میں ایئرمارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پی آئی اے کے ان دو سربراہوں کے بعد سے قومی ایئرلائن مسلسل زوال پذیر ہے۔ رپورٹ میں یونینز کے منفی کردار کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:اعجاز مظہر پی آئی اے کے قائم مقام چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات
یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ برس 31 دسمبر کو ایئر مارشل (ر) ارشد ملک کو قومی ایئر لائن کے سی ای او کے طور پر کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں کے علاوہ ملازمین کے تبادلے اور ان کی برطرفیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی جس کے بعد ایئر مارشل (ر) ارشد ملک نے سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا اور انہوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ میں جمع کروائی گئی درخواست میں وفاقی حکومت، کابینہ ڈویژن اور وزارت ہوا بازی کو فریق بناتے ہوئے یہ استدعا کی تھی کہ انہیں عہدے پر واپس بحال کیا جائے۔