انجینئرنگ مصنوعات کی برآمدات کے لیے ایکسپورٹ پالیسی تشکیل دینے پر زور

792

اسلام آباد: ڈائولینس پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) عمر احسن نے تجویز دی ہے کہ حکومت ملکی انجینئرنگ سیکٹر کے لیے پانچ سالہ ایکسپورٹ پالیسی تشکیل دے اور غیر روایتی انجینئرنگ مصنوعات کی برآمد کے لیے فوائد کا اعلان کرے۔

پاکستان میں اس وقت محض ٹیکسٹائل اور آلاتِ جراحی کی ایکسپورٹ کے حوالے سے ہی پالیسی موجود ہے۔

مزید پڑھیں: برآمدات میں کمی کیوں ہوئی؟ وزارت کامرس کی دیگر وزارتوں،  ایف بی آر کیخلاف وزیراعظم کو شکایتیں

انہوں نے پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے کہا، حکومت کو ملک کی 10 سے 12 ارب ڈالر مالیت کی غیر روایتی انجینئرنگ مصنوعات کی ایکسپورٹ کا حجم بڑھانے کے لیے پانچ سالہ پالیسی تشکیل دینی چاہئے۔

عمر احسن نے کہا کہ ڈائولینس پاکستان نے یورپی یونین کو پانچ ہزار واٹر ڈسپنسرز ایکسپورٹ کیے ہیں اور چین اور دیگر علاقائی ملکوں کی مصنوعات کے مقابلے میں یہ کامیابی حاصل کی۔ تاہم، انہوں نے اس تاسف کا اظہار کیا کہ اس حوالے سے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے جس کے تحت غیر روایتی انجینئرنگ مصنوعات کی ایکسپورٹ کے حوالے سے موجود تمام مواقع سے فائدہ حاصل کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا، حکومت اگر نئی پالیسی میں فوائد کا اعلان کرتی ہے تو ہم واٹر ڈسپنسرز کی ایکسپورٹ میں نمایاں اضافے کے حوالے سے پرامید ہیں۔

ڈائولینس پاکستان کے سربراہ نے حکومت پر تمام سیکٹرز کو یکساں مواقع اور سرمایہ کاروں کے لیے دوستانہ کاروباری ماحول فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب متوجہ ہوں۔ انہوں نے کہا، اگرچہ کارپوریٹ ٹیکس  29 فی صد ہے تاہم، پاکستان میں اس سیکٹر پر مجموعی ٹیکس 40 فی صد سے زیادہ ہے جس کے باعث ملکی برآمدات کا خطے کے دیگر ملکوں جیسا کہ چین، تھائی لینڈ، انڈیا اور بنگلہ دیش کے ساتھ مقابلہ کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے کہا، سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے سے قبل ہمیشہ اس جگہ پر ٹیکسوں کے نظام کا جائزہ لیتے ہیں جہاں وہ سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے ٹیکس کریڈٹ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مصنوعات کا معیار بہتر بنانے کے لیے ترکش ماڈل اختیار کرے۔ عمر احسن نے مزید کہا کہ 20 برس قبل ترکی کی برآمدات کا حجم بھی پاکستان کے برابر تھا لیکن انہوں نے مختلف پروگرام شروع کر کے اپنی مصنوعات کا معیار بہتر بنایا۔

انہوں نے کہا، میں کل بزنس سمٹ میں یہ معاملہ اٹھائوں گا کہ پاکستان کو اپنی مصنوعات کا معیار بہتر بنانے کے لیے ترکش ماڈل اختیار کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں: ٹیرف کا تنازع، ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کا برآمدات روکنے پر غور

انہوں نے ترکی کے ساتھ مجوزہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر بات کرتے ہوئے کہا، اس حوالے سے طویل عرصہ سے مذاکرات جاری ہیں اور اگر حکومت ترکی کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کرتی ہے تو اسے معیشت کے تمام سیکٹرز کے لیے فوائد کی یقین دہانی ممکن بنانی چاہئے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here