80 ارب روپے مالیت کے بقایا جات کی وصولی کا کوئی جواز نہیں، ایکسپورٹرز کی قومی اسمبلی کی کمیٹی کے روبرو شکایت

721

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس و ریونیو نے آگاہ کیا ہے کہ پاور ڈویژن ایکسپورٹرز کی جانب سے سنجیدہ نوعیت کے تحفظات کے باوجود 80 ارب کے واجبات کی وصولی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

پاور ڈویژن نے گزشتہ ماہ ایکسپورٹ کی حامل صنعتوں کو انڈسٹریل ٹیرف میں ٹیکس، سرچارجز اور پازیٹیو فیول ایڈجسٹمنٹ کے تناظر میں خط لکھا تھا۔

رُکن قومی اسمبلی فیصل اللہ نے کمیٹی کی صدارت کی اور انہوں نے مزید آگاہ کیا کہ سرچارجز کا شامل کیا جانا اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رُکن قومی اسمبلی علی پرویز ملک نے الزام عائد کیا کہ حکومت ایکسپورٹ سیکٹر کو حاصل سہولیات واپس لے کر مبینہ طور پر اپنی کارکردگی بہتر بنانا چاہتی ہے۔

انہوں نے اس خوف کا اظہار بھی کیا کہ اگر ایکسپورٹ پر ٹیکس عائد کیے گئے تو یہ مکمل طور پر بند ہو جائے گا۔

کمیٹی کے سربراہ فیض اللہ نے پاور ڈویژن کے حکام کی عدم موجودگی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس معاملے پر وزیراعظم عمران خان سے بات کی جائے گی جنہوں نے برآمدات میں اضافے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

وزارت خزانہ کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا گیس اور بجلی کے ٹیرف سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور یہ معاملہ پاور ڈویژن اور نیپرا کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری نے قبل ازیں کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ اس نے وزارت خزانہ پر زور دیا ہے کہ وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں فوراً سمری جمع کروائے جس میں ایس آر او 12 کے عملدرآمد کی درخواست کی جائے ( یکم جنوری 2019 سے) اور پاور ڈویژن کی جانب سے ارسال کیا گیا خط واپس لے (بتاریخ 13 جنوری، 2020) جس میں انڈسٹریل ٹیرف میں ٹیکسز، سرچارجز اور فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز شامل کیے گئے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ برآمداتی شعبہ بلنگ میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز شامل کیے جائے کے باعث ٹیکسوں، سرچارجز اور اضافی ٹیرف ادا کرنے کا پابند ہو جائے گا۔

اس اقدام سے صنعتی شعبہ کے لیے بجلی کی قیمت 11.70 روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 20 روپے فی یونٹ ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے برآمداتی شعبہ کے لیے مقرر کیے گئے ٹیرف میں قبل ازیں فنانشل کاسٹ سرچارج، نیلم جہلم سرچارج، ٹیکسز، فکسڈ سرچارجز اور پازیٹیو فیول ایڈجسٹمنٹ شامل نہیں تھی۔

ایف بی آر کی قائم مقام سربراہ نوشین جاوید نے کمیٹی سے کہا ہے کہ بجلی کے ٹیرف پر سرچارجز عائد کرنا وزارت توانائی (پاور ڈویژن) کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

پاور پرچیز ایجنسی کے چیف ایگزیکٹو افسر عابد لودھی نے اس لاحاصل گفتگو کے بعد کمیٹی کو ٹیرف چارجز کے نفاذ کے بارے میں بریف کیا۔ تاہم، پارلیمانی کمیٹی نے وزارت خزانہ کے ردِعمل پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے علاوہ متفقہ طور پر وزارت کو ہدایت کی ہے کہ وہ مستقبل میں عملدرآمد کے لیے بجلی کے ٹیرف کے معاملے کو اقتصادی رابطہ کمیٹی میں پیش کرے۔

ایکسپورٹ انڈسٹری، مقامی انڈسٹری اور تاجروں نے بجلی کے ٹیرف پر عملدرآمد کے تناظر میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔

10 فروری کو ہڑتال کرنے کا فیصلہ

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے نمائندے نے کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ اگر یہ معاملہ حل نہیں ہوتا تو ٹیکسٹائل سیکٹر 10 فروری کو ہڑتال کرے گا۔

قومی اسمبلی کی کمیٹی نے ایف بی آر کی جانب سے انکم ٹیکس ری فنڈز کے اجرا میں تاخیر کے باعث ایکسپورٹرز کو درپیش مسائل پر بھی بات کی۔

مزید برآں، فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے تاجروں نے کمیٹی کو ان رکاوٹوں کے بارے میں آگاہ کیا جو وہ خریداروں سے شناختی کارڈ کے حصول کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ موجودہ حالات کے باعث ملک بھر میں کاروبار تباہ ہو گیا ہے۔ ایف بی آر کی سربراہ نے تاجروں کو شناختی کارڈ کی شرط عائد کیے جانے کی وجوہ کے بارے میں آگاہ کیا۔

ایف بی آر کے رکن ان لینڈ ریونیو حامد عتیق سرور نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ قومی معیشت میں آٹھ کھرب کا حصہ ہونے کے باوجود تاجر محض 16 ارب روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، شناختی کارڈ حاصل کرنے کی شرط عائد کرنے کا مقصد فروخت کے حجم کا اندازہ مرتب کرنا ہے کیوں کہ کوئی تاجر بھی اپنی حقیقی فروخت کے حجم کے بارے میں آگاہ نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے کہا، اس وقت محض ساڑھے تین لاکھ  تاجر ہی ٹیکس  نیٹ کے دائرہ کار میں ہیں۔

پارلیمانی کمیٹی کی ہدایت پر تاجروں نے ایف بی آر سے متعلقہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here