لاہور: محکمہ ایکسائز کے افسران کی ملی بھگت سے پراپرٹی ٹیکس میں چوری کی وجہ سے ہدف پورا کرنے کیلئے 50 فیصد شارٹ فال کا سامنا ہے تاہم پراپرٹی ٹیکس میں بے تحاشا چوری کے باوجود بھی رواں مالی سال 2019-20ء کی پہلی ششماہی کے اختتام تک پنجاب ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ 6.24 ارب روپے پراپرٹی ٹیکس جمع کرچکا ہے جو کہ اس کے ہدف (12 ارب روپے ) کا آدھا ہے۔
محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ذرائع نے بتایا کہ انٹرٹینمنٹ سیکٹر، گاڑیوں اور دیگر ذرائع سے ٹیکس وصولی میں واضح کمی ہوئی ہے کیونکہ محکمے کے افسران ٹیکس بچانے میں مدد کرتے ہیں اورانکی کارکردگی بھی ٹھیک نہیں۔
گزشتہ سالوں کے دوران شراب کے لائسنسوں اور انٹرٹینمنٹ ٹیکسز کی وجہ سے آمدن زیادہ تھی تاہم رواں سال کچھ قوانین کی وجہ سے یہ آمدن کم ہو چکی ہے۔ میوزک کنسرٹس اور انٹرٹینمنٹ کی سرگرمیاں بھی کم ہو چکی ہیں اس لیے بھی آمدن پر اثر پڑا ہے۔
مزید پڑھیں: 7 ماہ میں ایف بی آر کو 103 ارب روپے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا
کاروں کی فروخت میں کمی کی وجہ سے موٹر وہیکلز برانچ کو بھی ٹیکس وصولی میں کمی کا سامنا ہے ، اس لیے محکمے نے ٹیکس وصولی کا سالانہ ہدف پراپرٹی ٹیکس سے پورا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے والے اکثر اہلکار بدعنوان ہیں، وہ لوگوں کی جائیدادیں پوشیدہ رکھ کر، کمرشل پراپرٹیز کو رہائشی دکھا کر یا دیگر کیٹیگریز میں ڈال کر محکمے کو گمراہ کرتے ہیں اور لوگوں کو ٹیکس بچانے میں مدد دیتے ہیں، کمرشل پلازوں کے ٹیکس بھی مختلف ہتھکنڈوں سے کم کردیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا سیلز ٹیکس ریفنڈز میں مبینہ ملوث ایف بی آر افسر کیخلاف دوبارہ انکوائری کا حکم
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ محکمے کے اعلیٰ افسران پراپرٹی ٹیکس چوری روکنے کیلئے کچھ نہیں کرتے، اگر یہ چوری روک دی جائے تو پراپرٹی ٹیکس موجودہ ہدف سے دگنا وصول ہو سکتا ہے۔
پاکستان ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے ایکسائز ،ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول کے ڈائریکٹر رضوان شیروانی نے اس بات کی تصدیق کی کہ پراپرٹی ٹیکس چوری کی شرح کافی زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر کے 210 ملازمین بھی بیویوں ، رشتے داروں کے نام پر بے نظیر انکم سپورٹ سے ’مستفید‘، ادارے کا کارروائی کا فیصلہ
انہوں نے کہا ،’’ محکمے کو دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے، پہلا یہ کہ کچھ افسران کرپٹ ہیں، دوسرا مسئلہ شہروں کا بے ہنگم پھیلائو ہے، لاہور کو ہی لے لیں ،دور دراز علاقوں میں تعمیر ہونے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں میں کمرشل مارکیٹیں اور پلازے بن چکے ہیں ،اور انہیں رجسٹر ہونے میں وقت لگے گا۔‘‘
شیروانی نے مزید کہا کہ انہوں نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ پراپرٹیز کے جائزے کیلئے ایک تھرڈ پارٹی سروے کرایا جائے۔ یہ سروے اب شروع ہو چکا ہے اور جون میں مکمل ہوگا ، اس سے نئی اور پرانی پراپرٹیز کی تفصیلات اور کیٹیگری معلوم ہوسکے گی اور اسکے حساب سے ٹیکس وصولی میں بھی اضافہ ہوگا۔