پشاور: پاکستان تحریکِ انصاف کی پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ برآمدات کو ناکامی سے بچانے کی کوششیں درست معنوں میں بارآور ثابت نہیں ہو رہیں۔
فرنٹیئر کسٹم کلیئرنس کے صدر ضیاء الحق نے کہا ہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں دوطرفہ تجارت کے فروغ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے طورخم بارڈر پر 24 گھنٹے تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا لیکن اس کے باوجود صورت حال میں نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔
پاکستان ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف محکموں کے عملے کی تعداد میں اضافے اور سرحد پر دیگر سہولیات کی فراہمی کے باوجود بہ ظاہر دونوں ملکوں میں تجارتی حجم نہیں بڑھا۔
پاکستان ادارہ برائے شماریات کے گزشتہ مالی سال کے اعداد و شمار کے مطابق، برآمدات میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا جیسا کہ مالی سال 2018 میں برآمدات کا حجم 122 ارب روپے تھا جو مالی سال 2019 میں بڑھ کر 128 ارب روپے ہو گیا۔
ادارہ برائے شماریات کے اعداد و شمار میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سمندر سے محروم افغانستان کو مجموعی برآمدات کا حصہ سات سے کم ہوکر چھ فی صد رہ گیا ہے۔
تاجر اور کاروباری برادری یہ یقین رکھتی ہے کہ سیاسی تنائو، نامناسب سرحدی انتظام، رقم کی غیر قانونی طور پر وصولی، سکیورٹی کا سخت نظام اور دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان پاکستان اور افغانستان کی معیشتوں میں بہتری کے تناظر میں سودمند ثابت نہیں ہو رہا۔
ضیاء الحق کے مطابق، دوطرفہ تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ دونوں جانب سے سرحد کی نامناسب مینجمنٹ ہے اور اب تجارتی سرگرمیوں کا حجم 2.5 ارب ڈالر سے کم ہو کر محض 55 ملین ڈالر رہ گیا ہے۔
اپنی دلیل کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے کہا، دو ہزار ٹرک روزانہ سرحد عبور کیا کرتے تھے لیکن سرحد کے اطراف میں سہولیات کی عدم فراہمی اور رات کے اوقات میں اس کے بند رہنے کے باعث عموماً ٹرکوں کو کلیئر ہونے کے لیے اگلے دن کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک افغان بارڈ کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا، سرحد پر ایک ٹرک سے 50 سے 70 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں کیوں کہ کلیئرنس ایجنٹ محکمہ کسٹمز کے بجائے نیشنل لاجسٹک کمپنی (این ایل سی) سے ٹرانسپورٹرز کی جانچ کے تناظر میں تحفظات کا اظہار کرتے ہیں جس کے باعث بہت سا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، پاکستان کو خیبرپختونخوا میں حال ہی میں شامل کیے گئے اضلاع اورعلاقے میں امن اور حکومتی رٹ کی بحالی کے باعث افغانستان کے علاوہ دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ بھی دوطرفہ تجارت کا شاندار موقع حاصل ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں افغانستان جانے کے لیے 20 سے زیادہ روایتی کراس پوائنٹس موجود ہیں۔
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر وائس پریذیڈنٹ شاہد حسین کہتے ہیں، دونوں ملکوں کو ان مسائل پر قابو پانے کے لیے افغانستان اور پاکستان ٹرانزٹ و ٹریڈ ایگریمنٹ (اے پی ٹی ٹی اے) 2010 کی ازسرنو نظرثانی کی ضرورت ہے کیوں کہ ان میں بہت سی خامیاں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لیے انڈین سبسڈی اور سی پیک منصوبوں کے ختم ہونے کے بعد پاکستان ایک بار پھر افغانستان کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا۔
یونیورسٹی آف پشاور میں ایک ماہ قبل ہونے والے سیمینار بعنوان ’’پاک چین اکنامک ٹرانزٹ پراجیکٹ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر یو ژونگ نے کہا تھا کہ چین سی پیک کا دائرہ کار بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور پاکستان سے جلال آباد تک ریلوے ٹریک کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
چینی سفیر نے مزید کہاتھا کہ پاک افغان سرحد کو 24 گھنٹے کھلا رکھنا ایک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت پشاور مقامی تجارت کا اہم مرکز بن جائے گا۔
ماہرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر دونوں ملک سرحد کی نامناسب مینجمنٹ، غیر قانونی طور پر وصول کیے جانے والے چارجز، سکیورٹی کی چیکنگ کے سخت نظام اور مصنوعات کی سست روی سے کلیئرنس کی طرح کے مسائل پر قابو پا لیتے ہیں تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔