اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسابقتی کمیشن پاکستان کی سربراہ وادیا خلیل کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کا نوٹیفیکشین منسوخ کر دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا ایک اور نوٹیفیکیشن بھی منسوخ کیا ہے جو کمیشن کے دیگر دو ارکان محمد سلیم اور ڈاکٹر شہزاد انصاری کو ان کے عہدوں سے ہٹائے جانے سے متعلق تھا جو کمیشن کے دو نہایت اہم ارکان ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے فیصلہ پڑھ کر سنایا جس کے مطابق، حکومت قواعد و ضوابط پر عمل کیے بغیر سرکاری حکام کو ان کے عہدے سے برطرف نہیں کر سکتی۔
وادیا خلیل اور کمیشن کے برطرف ہونے والے دیگر ارکان نے فنانس ڈویژن کے اس نوٹیفیکیشن کو چیلنج کیا جو 15 اکتوبر 2018 کو جاری کیا گیا تھا۔
یہ فیصلہ چار اکتوبر کو وفاقی کابینہ کی منظوری سے ہوا تھا۔
ڈاکٹر وادیا خلیل کو 14 اکتوبر 2017 کو تین برس کی مدت کے لیے مسابقتی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ محمد سلیم اور ڈاکٹر شہزاد انصاری کو چار دسمبر 2017 کو تین برس کی مدت کے لیے ہی تعینات کیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی برسرِاقتدار حکومت کے اس وقت وزیراطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا تھا کہ وادیا خلیل اور کمیشن کے دیگر ارکان کو غیر قانونی طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔
فواد چودھری نے یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں بنکوں اور سرکاری محکموں کے متعدد اعلیٰ افسروں کو ان کے عہدوں سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے کیوں کہ صرف کابینہ کو ہی ڈائریکٹرز اور محکموں کے سربراہ تعینات کرنے کا اختیار ہے۔
یہ ذمہ داری غیر قانونی طور پر اسحاق ڈار نے ادا کی جو پاکستان مسلم لیگ نواز کی سابقہ حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔
عہدوں سے ہٹائے جانے والے سرکاری حکام میں نیشنل بنک آف پاکستان کے صدر سعید احمد، فرسٹ وومن بنک کی صدر طاہرہ رضا، زرعی ترقیاتی بنک لمیٹڈ کے صدر سید طلعت محمود اور ایس ایم ای بنک کے صدر احسان الحق خان شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں تعینات ہونے والے چار دیگر افسروں ڈپٹی گورنر آف سٹیٹ بنک جمیل احمد، ڈپٹی گورنر آف سٹیٹ بنک شمس الحسن اور مسابقتی کمیشن کے حکام محمد سلیم اور ڈاکٹر شہزاد انصاری شامل ہیں۔