اسلام د آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں ملکی قرضوں میں 11ہزار 610 ارب روپے اضافہ ہو گیا ہے جس سے پاکستان کا مجموعی قرضہ بڑھ کر 34 ہزار 241 ارب روپے ہو گیا ہے۔
جمعے کو ملکی قرضوں کے حوالے سے پارلیمان میں پیش کیے گئے پالیسی بیان میں وزارت خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال 2019-20ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران حکومت نے ایک ہزار 533 ارب روپے کا قرضہ لیا جس کے بعد ستمبر 2019ء تک پاکستان کا مجموعی قرضہ 34 ہزار 241 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
جون 2018ء میں ملک کا مجموعی بیرونی قرض 24 ہزار 953 ارب روپے تھا، جولائی 2018ء سے ستمبر 2019 تک اس میں 11 ہزار 610 ارب روپے اضافہ ہوا۔
وزارت خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران مقامی قرضہ بھی ایک ہزار 918 ارب روپے بڑھا جبکہ اسی مدت کے دوران حکومت نے مالی خسارہ کم کرنے کیلئے بھی مقامی طور پر 308 ارب قرضہ لیا، اسی طرح کیش بیلنس کیلئے بھی حکومت نے ایک ہزار 610 ارب روپے قرضہ لیا۔
وزارت خزانہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک سے مزید قرضہ نہ لینے کے عزم کےتناظر میں سرکاری ضروریات پوری کرنے کیلئے کچھ رقم رکھی جا رہی ہے، کرنٹ اخراجات میں تیزی سے اضافے اور ریونیو میں کمی کی وجہ سے مالی سال 2018-19ء کے معاشی اعشاریے متاثر ہوئے اور حکومت کو جی ڈی پی کے 3. 4 فیصد تک خسارہ برداشت کرنا پڑا جبکہ مجموعی ملکی خسارہ 8.9 فیصد رہا، اسی طرح ریونیو خسارہ بھی 5.6 فیصد رہا۔
وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ مالی سال 20-2019 میں ایک غیر متوقع اور یکطرفہ عنصر وفاقی مالیاتی خسارے کی مد میں جی ڈی پی کا 2.25 فیصد رہا۔
اس میں ٹیلی کام لائسنس کی تجدید، ریاستی اثاثوں کی فروخت میں تاخیر اور توقع سے زیادہ کمزور ٹیکس ایمنسٹی جی ڈی پی کا ایک فیصد رہی۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے منافعوں کی منتقلی کا شارٹ فال جی ڈی پی میں 0.5 فیصد رہا۔
وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران شرح سود میں اضافے (39 فیصد) کی وجہ سے اخراجات میں 21 فیصد اضافہ ہوا۔
فسکل رسپانسی بیلیٹی اینڈ ڈیٹ لیمیٹیشن ایکٹ کے مطابق حکومتی قرضے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھنے چاہیں لیکن وزارت خزانہ نے بتایا کہ جون 2018 میں مجموعی سرکاری قرضہ پاکستان کے جی ڈی پی کے 72.1 فیصد تک پہنچ چکا تھا جبکہ جون 2019 کے اختتام پر یہ جی ڈی پی کے 76.6 فیصد تک جا پہنچا۔