یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا چین کے ساتھ پہلا آزاد تجارتی معاہدہ یا فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) بالکل ناکام رہا۔ 2006ء میں اس معاہدے پر دستخط کئے گئے اور اس پر باقاعدہ کام کا آغاز 2007ء میں ہوا۔ ایف ٹی اے کے پہلے فیز سے پاکستانی برآمدات میں کچھ بہتری آئی لیکن ہمارے ہمسایہ ملک کے ساتھ ہماری تجارت بدترین خسارہ کا شکار ہو گئی۔
اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر سے اس معاہدے پر نظر ثانی کرنی پڑی اور اس ضمن میں چین کے ساتھ 7 سالوں میں تقریبا 11 اعلانیہ مذاکرات ہوئے۔ اس کا نتیجہ پاک چین فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے دوسرے فیز کی شکل میں سامنے آیا جسے 2019ء میں مکمل کیا گیا اور اس کا اطلاق یکم جنوری 2020ء کو عمل پذیر ہوا۔ اس نئے فیز کی معیاد 2024ء تک مقرر کی گئی ہے۔
اس امر سے ہر کوئی راضی نہیں۔ اس کے اطلاق کے بعد سے ہی فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) پاکستان کی ناقص اور بے معنی برآمدات کو مدنظر رکھتے ہوئے اندیشوں کا اظہار کر رہی ہے کہ کیا پاکستان اسی معاہدے سے بھرپور اسفادہ حاصل کر پائے گا۔ اس فیڈریشن کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ کسی فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کی بجائے ’’ہنگامی بنیادوں پر ایک مستحکم اور جامع پالیسی تیار کی جائے جو بڑے پیمانے پر صنعتی انقلاب کا باعث بنے۔‘‘
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں کم و بیش 60 سال پہلے اس قسم کی کسی صنعتی پالیسی کی جھلک موجود تھی تو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا یہ مطالبہ کرنے میں تھوڑی سی دیر لگا دی۔ لیکن جو نکتہ انہوں نے اٹھایا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے کہ آخر چین کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا پاکستانی ایکسپورٹرز کو واقعی اس سے کوئی فائدہ پہنچے گا یا یہ ایک مرتبہ پھر ناقص حکمت عملی سے تیار ایک اسکیم ہے جو صرف اخبارات اور ٹی وی کی خبروں میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہے؟
خوش قسمتی سے ہمارے پاس اس کا جواب دینے کیلئے ایک تحقیقی مطالعہ موجود ہے ’’پاک چین آزاد تجارتی معاہدہ کے دوسرا مرحلہ کا ابتدائی جائزہ China Pakistan Free Trade Agreement Phase II – A Preliminary Analysis‘‘ لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (LUMS) کی ماہر معاشیات نازش اختر اور نادیہ مختار کی تحریر کردہ اس رپورٹ کو پاکستانی بزنس کونسل (پی بی سی) اور انجمن ڈویلپمنٹ پالیسی ریسرچ نے منظور کیا ہے۔ (پی بی سی پاکستان کے بڑے کاروباری اداروں کا ایک لابنگ گروپ ہے جو 2005ء میں قائم ہوا۔) ان کی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ فی الحال اس کے نتائج کچھ بہتر نظر آتے ہیں البتہ اس میں کچھ اعتراضات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
پہلے مرحلے کی داستان
قابل فہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات کبھی بہتر نہیں رہیں۔ اگر ہماری مصنوعات کی مسابقت کی بات کی جائے تو معاشی مسابقتی انڈیکس میں پاکستان کا 94واں نمبر ہے۔ اسی طرح عالمی مسابقتی انڈیکس کے مطابق 140 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 107واں نمبر ہے۔ اور 2005ء سے 2018ء کے دوران پاکستان کی برآمدات اگر 47 فیصد بڑھی ہیں تو اسی دورانیے میں درآمدات میں اضافہ کا تناسب 140 فیصد رہا۔
ان بڑے عالمی اعداد و شمار میں پاکستان اور چین کی تجارت ہمیشہ غیر متناسب رہی ہے۔ قابل فکر بات یہ ہے کہ پاکستان کی اپنے سب سے بڑے تجارتی اتحادی چین کو برآمدات محض 7 فیصد ہیں باقی برآمدات یورپ اور امریکہ کو کی گئیں جبکہ دوسری جانب چین کا پاکستانی درآمدات میں حصہ 28.5 فیصد ہو گیا۔
ان مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے آزادہ تجارت کے اصل معاہدے پر غور اور دوراندیشی کی ضرورت تھی۔ پہلا مرحلہ 2007ء سے 2012ء پر محیط ہے جس میں 7500 سے زیادہ اشیاء پر ٹیرف کی چھوٹ تھی۔
اس معاہدہ کا اصل مقصد دو طرفہ تجارت کو فروغ دینا تھا۔ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق ’’2007ء سے 2018ء تک کے عرصے میں دو طرفہ تجارت میں 242 فیصد اضافہ ہوا جو کہ پاکستان کی باقی دنیا کے ساتھ تجارت میں اضافہ کی شرح سے 6 گنا زیادہ ہے۔‘‘ چین کے ساتھ معاہدے کے بعد مجموعی تجارت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا اور 2018ء میں اس کا حجم 16.4 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
ایف ٹی اے کے پہلے مرحلے نے پاکستان کی چین کو ہونے والی برآمدات کی نوعیت ہی تبدیل کر دی۔ 2007ء سے پہلے پاکستان چین کو زیادہ تر کچی دھاتیں، خام چمڑا، مشینری اور مکینیکل اشیاء، بیج کا تیل اور تانبہ برآمد کرتا تھا۔ لیکن ایف ٹی اے کے بعد پاکستان نے چین کو کپاس، پلاسٹک اور آرگینک کیمیکلز کی برآمدات میں اضافہ کر دیا۔ برآمدات میں کپاس کو سرفہرست قرار دینے کے ساتھ ساتھ رپورٹ میں تحریر ہے ’’2015ء سے 2018ء تک کے عرصہ میں چین کو ہونے والی برآمدات کا حجم 27 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 87 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔‘‘
تاہم، اور ’اس تاہم‘ کی ایک بڑی وجہ ہے، اس آزاد تجارتی معاہدے سے پاکستان کی نسبت چین بھرپور مستفید رہا۔ 2014ء سے 2018ء تک کے عرصہ میں پاکستان کی چین کو برآمدات میں سالانہ 7 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ چین سے درآمدات میں سالانہ 12 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی بات کو اگر ایک اور نظر سے دیکھا جائے تو 2007ء میں پاکستان کے مجموعی تجارتی خسارہ میں 25 فیصد حصہ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ کی وجہ سے تھا جو 2018ء میں بڑھتے ہوئے 38 فیصد یا یوں کہیے کہ 13 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔
آخر یہ سب ہوا کیسے؟ چین کی برآمدات میں اتنی رعایت نہیں تھی جتنی رعایت پاکستان کی برآمدات میں تھی۔ اگر پاکستان اور چین کی ترجیحی ٹیرف لائنز کے درمیان موازنہ کیا جائے تو چین کو ملنے والی ٹیرف پر چھوٹ 57 فیصد اور پاکستان کو ملنے والی چھوٹ صرف 5 فیصد تھی اور اس دوطرفہ تجارت میں پاکستان کا استحصال ہوتا رہا۔
رپورٹ کے مطابق ’’اس معاہدے سے پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں کپڑے، جوتے، آلات جراحی، پنکھے اور ربڑ کے ٹائر سمیت تیار چینی مصنوعات کا جیسے سیلاب امڈ آیا جس کے نتیجے میں پاکستان پیداواری قلت کا شکار ہو گیا اور جو حضرات مقامی طور پیداوار کر رہے تھے کم منافع کی وجہ سے ان کا معاشی سفر متاثر ہوا۔‘‘
چین کی جن مصنوعات کو ڈیوٹی فری رسائی دی گئی ان میں زیادہ تر سوتی بیڈ شیٹ، کرومیم، تانبہ اور دھاگہ جیسی کم قیمت مصنوعات تھیں (2017ء میں چین کی پاکستان کو برآمدات 40 فیصد تھیں)۔ ان صنعتوں کا پاکستانی معیشت میں انتہائی مختصر کردار ہے لیکن یہ چین کی تیار ملبوسات اور الیکٹرانکس جیسی مہنگی برآمداتی صنعتوں کیلئے خام مال فراہم کرتی ہیں۔
لیکن چین نے پاکستان کی اصل برآمدات جیسے چاول، فروزن فش، کیکڑے، خام چمڑا اور اونی کپڑے پر زیادہ رعایت فراہم نہ کی (2017ء میں پاکستان کی چین کو برآمدات محض 2 فیصد تھیں)۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور چین کے مابین پہلا آزاد تجارتی معاہدہ اس قسم کی غیر متوازن صورتحال سے بھرپور تھا اور اس قسم کا معاشی استحصال چین کا خاصہ رہا ہے۔
اس قسم کے تضادات کی وجہ سے پاکستان کا کاروباری حلقہ بھی بری طرح متاثر ہوا۔ رپورٹ میں کاروباری حلقہ سے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے ’’ان کا ماننا ہے کہ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کرنے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا گیا پھر چاہے وہ چین کو برآمد کی جانے والی مصنوعات کا انتخاب ہو یا چین سے درآمد کی جانے والی مصنوعات کا انتخاب ہو جس سے پاکستانی مارکیٹ میں زوال کا شکار ہوئی اور صنعتی بحران کے قریب لے آئی۔‘‘
اس معاہدے سے مستفید ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود یہ معاہدہ تھا۔ 2010ء میں چین نے ASEAN-China فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ACFTA) پر دستخط کئے۔ اس معاہدے کے تحت چین نے پاکستان کے سب سے بڑے حریف بنگلہ دیش سمیت ASEAN کے رکن ممالک کو بہتر ٹیرف فراہم کئے جس سے پاکستان کی مسابقتی برتری تباہ ہو کر رہ گئی۔ حتیٰ کہ ACFTA سے پاکستان کی چین کو برآمدات کے حجم میں ریکارڈ 80 فیصد کمی واقع ہوئی۔
اس امر سے ایک سوال نے جنم لیا کہ اگر کسی غیر متعلقہ آزاد تجارتی معاہدے کی وجہ سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہو آخر دو ممالک کے مابین ایسے معاہدے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
نیا اور بہتر آزاہ تجارتی معاہدہ
فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا دوسرا مرحلہ (FTA2) کیلئے مذاکرات ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کئے گئے ابتدائی تجزیے کی رپورٹ کے مطابق اس کی کامیابی کے امکانات ہیں اور ٹیرف اسٹرکچر بھی یقینی طور پر بہتر ہے۔
دوسرے مرحلے میں پہلے مرحلے کی نسبت پاکستان کو 8238 مصنوعات پر 46 فیصد تک رعایتی ٹیرف کی پیشکش کی گئی ہے۔
ان مصنوعات میں سے 45 فیصد یا 3707 مصنوعات کو ڈیوٹی فری رسائی کی پیشکش کی گئی ہے۔ جبکہ 30 فیصد مصنوعات کیلئے ڈیوٹی فری رسائی کی پیشکش 2030ء تک ہے۔ اس کے علاوہ 93 فیصد مصنوعات پر ٹیرف 10 فیصد یا اس سے بھی کم ہوگا اور اس معاہدے کے آخری سال مجموعی طور پر 75 فیصد مصنوعات پر زیرو ٹیرف ہوگا۔ 8238 میں سے صرف 9 مصنوعات پر ٹیرف 30 فیصد یا اس سے زیادہ ہوگا۔
آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں دیگر اصلاحات کے ساتھ ساتھ معیار کے مطابق حفاظتی شقوں بھی شامل ہیں جو دنیا بھر میں کئے جانے والے آزاد تجارتی معاہدوں کا حصہ ہے (حیران کن امر یہ ہے کہ ان شقوں کو پہلے کیوں شامل نہیں کیا گیا) اور اس کے علاوہ شفافیت کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے معلومات کا رئیل ٹائم الیکٹرانک تبادلہ بھی اس میں شامل ہے۔
اس رپورٹ کے دلچسپ اور موزوں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نہ صرف آزاد تجارتی معاہدے کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں ٹیرف کا موازنہ کیا گیا ہے بلکہ اس میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ اس معاہدے کا دوسرے مرحلہ مصنوعات کی 3 فہرستوں میں بیان کی گئی درجہ بندی پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے۔
پہلی فہرست میں وہ مصنوعات آتی ہیں جو پاکستان چین کو برآمد کرتا ہے جو کل ٹیرف لائن کا 5 فیصد ہے، دوسری فہرست میں ان مصنوعات کو شامل کیا گیا ہے جو پاکستان برآمد کرتا ہے اور چین درآمد کرتا ہے لیکن پاکستان تاحال چین کو وہ مصنوعات برآمد نہیں کرتا ٹیرف لائن میں ان کا حصہ 17 فیصد ہے اور تیسری فہرست میں وہ مصنوعات شامل کی گئی ہیں جو چین درآمد کرتا ہے لیکن پاکستان نے کھی انہیں برآمد نہیں کیا ان مصنوعات کا ٹیرف لائن میں حصہ 65 فیصد ہے۔
فری ٹریڈ ایگریمنٹ فیز ٹو سے ہم ان تینوں درجہ بندیوں سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔
(1) پہلی فہرست میں وہ پاکستانی مصنوعات شامل ہیں جن کی چین میں پہلے سے مارکیٹ موجود ہے اور اس طرح یہاں ہمارے پاس ترقی کے امکانات کافی روشن ہیں۔ ایف ٹی اے 2 کے مطابق اس فہرست میں مصنوعات کی تعداد 401 ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس نئے معاہدے کے آخری سال اس فہرست کی 835 مصنوعات کو چین تک ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہوگی اور 93 فیصد پر مصنوعات پر ٹیرف 10 فیصد یا اس سے بھی کم ہوگا۔ ایف ٹی اے کے دونوں مرحلوں کا موازنہ کیا جائے تو مجموعی طور پر 445 مصنوعات پر ٹیرف کم کیا گیا ہے۔
اگر اسے دوسری نظر سے دیکھا جائے تو تقریبا 11.5 ارب ڈالر یا پاکستان کی چائنہ کو کی جانے والی برآمدات کا 80 فیصد اب ڈیوٹی فری مصنوعات میں شمار ہوگا۔ جس سے پہلی فہرست کی متاثر ہونے والی مصنوعات کا حجم صرف 5.7 ارب ڈالر ہوگا۔
اس فہرست کی بڑی برآمداتی مصنوعات میں کپاس، پلاسٹک، گاڑیوں کے پرزے، جوتے، چمڑا اور کھانے پینے کی اشیاء مثلا فروزن سی فوڈ، بسکٹ، فروزن اورنج جوس کے علاوہ مشینوں کے پرزہ جات اور اسٹیل کے بنے پرزہ جات شامل ہے۔
(2) مصنوعات کی دوسری فہرست سے پاکستان بھرپور مستفید ہو سکتا ہے کیونکہ اس فہرست میں جو مصنوعات شامل ہیں پاکستان پہلے ہی عالمی مارکیٹ میں ان مصنوعات کیلئے برآمدی مسابقت رکھتا ہے اور چین میں بھی ان مصنوعات کیلئے درآمدی مارکیٹ موجود ہے۔ اس فہرست میں پہلے مرحلے نسبت 575 مصنوعات کے اضافے سے 1436 مصنوعات شامل ہیں۔
اب دوسرے مرحلے کے تحت اس دوسری فہرست میں درج 70 فیصد مصنوعات کو چین میں ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہوگی اور ان میں سے مجموعی طور پر 47 فیصد مصنوعات پر کم ٹیرف لاگو ہوں گے۔ اگر پاکستان ان مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کر لیتا ہے تو ڈیوٹی فری مارکیٹ میں 79.6 ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہے۔
اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو چین میں اپنے 5 سب سے بڑے حریفوں کے مقابلے میں دوسری فہرست کی 77 فیصد مصنوعات پر برابر یا بہتر ٹیرف دستیاب ہوں گے۔
اس فہرست کی بڑی مصنوعات میں مشینری اور مکینکل اشیاء، اسٹیل اور لوہا شامل ہیں۔
(3) تیسری فہرست میں وہ مصنوعات شامل ہیں جو پاکستان میں برآمدات کے نئے دروازے کھول سکتی ہیں اس کی بدولت ہم ’شروعات میں چین سے اور بعد ازاں دنیا بھر میں اپنی برآمدات میں اضافہ کر سکتے ہیں جس سے تجارت کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس فہرست میں سب سے زیادہ 5872 مصنوعات شامل کی گئی ہیں۔ جن میں 80 فیصد یا 4701 مصنوعات کو چین میں اس معاہدے کے آخری سال ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہوگی۔ تیسری فہرست کی 34 فیصد مصنوعات کو اس نئے آزاد تجارتی معاہدے کے تحت بہتر رسائی حاصل ہوگی۔
اگر ہم تیسری فہرست کی مصنوعات کی برآمد کا آغاز کر لیں تو اس فہرست کی ممکنہ بڑی مصنوعات موٹر گاڑیاں، ریفریجریٹرز، فریزرز، ہیٹ پمپس، کپاس سے بنے ٹراؤزرز اور بچوں کے کپڑے ہو سکتی ہیں۔
مدعا صرف ٹیرف نہیں
یہ تو ‘خوش خبری‘ ہے کہ پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے ٹیرف اسٹرکچر کو بہتر کر لیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس نئے آزاد تجارتی معاہدے کے تحت نہ صرف پاکستان پہلے سے ہی چینی مارکیٹ میں اپنی برآمدی مسابقت بڑھا سکتا ہے بلکہ برآمدات کے نئے مواقع بھی حاصل کر سکتا ہے۔
یہ خیال آنا معقول ہے کہ آخر چین کو اپنی برآمدات بڑھانے میں پاکستان کس چیز کا انتظار کر رہا ہے؟ مذکورہ رپورٹ میں برپاکستانی برآمدات کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے کچھ چین کی غلطی کی وجہ سے ہیں اور کچھ کی وجہ ہماری غلطیاں ہیں۔
اول الذکر یہ کہ چین کی مارکیٹ کے حوالے سے ہمارے ہاں بہت کم آگاہی پائی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی برآمد کنندگان چین کی نسبت یورپی اور امریکی مارکیٹوں سے زیادہ شناسا ہیں۔ اس امر کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہم چین کے ساتھ واضح لسانی فرق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی بات سمجھنے کیلئے ابھی مناسب ذرائع کی بھی عدم دستیابی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نا تو ہم چین کے مطلوبہ ضوابط سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ بڑآمدات کیلئے کس چینی کمپنی کے ساتھ شراکت داری کرنی چاہیے۔
جب بات چین کو برآمد کرنے پر آئے تو معلومات کا یہ فقدان ہچکچاہٹ کا سبب بنے گا۔ مثال کے طور پر رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے ’’چین کو اپنی مصنوعات برآمد کرنے والا پاکستان کا ایک نمایاں فوڈ مینوفیکچرر چین میں ڈسٹری بیوشن کیلئے شراکت دار اپنے چینی خریدار سے مطمئن نہیں تھا۔ اس واحد برے تجربے کے بعد انہوں نے دوبارہ ایک مناسب شراکت دار ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں کی۔‘‘
ہماری جانب سے بھی مسائل کچھ کم نہیں ہیں۔ پاکستانی مینوفیکچررز چین کی مطلوبہ مقدار پوری کرنے سے قاصر ہیں اور اس کی وجہ ان کی ذاتی کم آمدن اور اجرت پر کام کرنے والوں کی کمی ہے۔ پیداوار میں کمی کے اس رحجان کا مطلب ہے کہ پاکستانی برآمد کنندگان قیمتوں میں مسابقت برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔
سی پیک کے اور چین کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے خوش فہمیاں اپنی جگہ لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی سہولیات بہت کم ہیں۔ رپورٹ میں درج ہے ’’کئی برآمد کنندگان ابھی تک پاک چین مشترکہ بزنس کونسل سے انجان ہیں۔‘‘
اگر آپ برآمد کنندگان کو اجازت دے بھی دیں تو بعض اوقات روز مرہ کی جانچ جیسے عوامل ہی عدم استحکام کا باعث بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کی وجہ رپورٹ میں درج ہے کہ چین میں پاکستانی مصنوعات پر بھروسہ نہیں کیا جاتا اور پاکستانی مصنوعات کی غیر ضروری قسم کی جانچ کی جاتی ہے۔
رپورٹ میں تحریر ہے ’’پھلوں کا جوس برآمد کرنے والوں نے انکشاف کیا کہ جانچ کے انتہائی غیر مناسب عمل سے پیکجنگ متاثر ہوئی جو لیکج اور مصنوعات کی خرابی کا باعث بنی۔‘‘ مزید تحریر کیا گیا کہ پاکستانی کنٹینرز کو بعض اوقات انتظار اور پابندیوں جیسی زحمتیں درپیش ہوتی ہیں۔
پھر بھی پاکستانی مصنوعات کیلئے چین کی مارکیٹ میں کچھ جگ تو بلاشبہ موجود ہے۔ اس رپورٹ میں ایک تھیوری پیش کی گئی ہے کہ جوں جوں چین امیر ہوتا جائے گا مصنوعات کے حوالے سے اس کا معیار بھی بلند ہوتا جائے گا۔ کچھ معاملات (مثال کے طور پر پھل) میں پاکستانی مصنوعات کا معیار بہت بہتر ہوتا ہے۔ لیکن معلومات سے کم آگاہی (جس کی وجہ تشہیر کا فقدان ہے) کی وجہ سے یہ مصنوعات نمایاں نہیں ہو پاتیں۔
ان مسائل سے نمٹنے کیلئے رپورٹ میں کچھ تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔
ان میں سے ایک تجویز یہ ہے کہ چین میں ایمبیسی کے علاوہ ایک کمرشل قونصلیٹ قائم کی جائے جس کی واحد ذمہ داری چینی مارکیٹ کے حوالے سے ریسرچ ہو۔ یہ قونصلیٹ چین میں ڈسٹری بیوشن کیلئے چین کی ضرورت کو سمجھنے والے مناسب چینی شراکت دار تلاش کرنے میں پاکستانی برآمد کنندگان کو مدد فراہم کر سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان کی ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستانی مصنوعات کی برانڈگ اور تشہیر کیلئے رقم مختص کرے۔
ایک اور تجویز یہ ہے کہ حکومت پاکستان چینی حکام سے مل کر جانچ کے عمل کو بہتر کرنے کیلئے کام کرے تاکہ پاکستانی ترسیلات پر غیر ضروری جانچ ہو۔
اس رپورٹ میں حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپلائی چین مثال کے طور پر ’’پیداوار، تجارت اور کسٹم کی سہولیات تک رسائی اور چینی کمپنیوں سے رابطوں کیلئے ٹیکنیکل سپورٹ‘‘ کو بہتر کرنے میں برآمد کنندگان کی مدد کی جائے۔
رپورٹ میں حکومت پر بھی تنقید کی گئی ہے ’’حکومت کو چین کے دیگر مملاک کے ساتھ آزادہ تجارتی معاہدوں اور کوئی خصوصی ایکسپورٹ سہولیات پر بھی بغور نظر رکھنی چاہئیے۔‘‘ بنیادی طور اس میں ASEAN-China آزاد تجارتی معاہدوں کی جانب اشارہ تھا جو پہلے بھی بحران کا باعث بنا تھا۔
یہ تجاویز اتنی اہم کیوں ہیں؟ کیونکہ پاکستان کا چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ ہو جانا ہی کافی نہیں ہے۔ پاکستان کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے اور یہ کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ برآمد کنندگان چین کی مارکیٹ میں قدم جمانے کے قابل ہو جائیں اور کم ٹیرف کے ثمرات وصول کر سکیں۔ تب تک آپ جو بھی کر لیں یہ غیر متناسب تجارت کا رحجان تبدیل نہیں ہوگا۔