پلاسٹک کرہ ارض کی تباہی کا باعث۔۔۔ لیکن پلاسٹک انڈسٹری کو بچانا بھی اتنا ہی اہم

پلاسٹک بنانے والوں کے اقدامات ہرگز ماحول دوست نہیں اور نہ ہی وہ اس مسئلے کے حل کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں

2193

اگر سوچا جائے کہ فی زمانہ ہماری دنیا میں پلاسٹک اپنی جڑیں کتنی مضبوط کر چکا ہے تو دماغ چکرا کر رہ جائے گا۔ اگر صرف یہ مضمون پڑھتے ہوئے ہی آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو ہر دوسری چیز پلاسٹک کی بنی نظر آئے گی پھر چاہے یہ آپ کے پینے والا کپ ہو، یا ٹوائلٹ کی سیٹ، یا آپ کے موبائل فون کا پروٹیکٹر، یا آپ کے شیمپو یا سافٹ ڈرنگ کی بوتل اور خدا جانے کیا کیا۔
اگر پچھلی صدی سے کوئی آج کے دور میں آئے تو شاید نہ پہچان سکے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر اشیاء کس چیز کی بنی ہوئی ہیں۔ پلاسٹک پہلی مرتبہ کسی حد تک 17ویں صدی میں منظر عام پر آیا اور اس کے بعد صنعتی دور میں یہ باقاعدہ ہمارے استعمال کی شے بن گیا۔
لیکن صحیح معنوں میں پہلی جنگ عظیم کے بعد کیمیکل ٹیکنالوجی میں اصلاحات نے پلاسٹک کی بے بہا اقسام سے متعارف کروایا اور 40ء اور 50ء کی دہائی میں اس کی بڑے پیمانے پر پیداوار کا آغاز ہوا۔ 2018ء میں دنیا نے جنگ عظیم کے خاتمے کی 100 سالہ تقریبات انعقاد کیا گیا لیکن ان 100 سالوں میں پلاسٹک ہر چیز پر اتنا غالب آ گیا کہ ہم ایک مرتبہ پھر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔
یہ ایک ایسا عالمی مسئلہ ہے جس سے پاکستان بھی بھرپور متاثر ہوا۔ ہماری وفاقی حکومت اور کسی حد تک صوبائی حکومتیں بھی پلاسٹک بیگ کے استعمال کو کم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
پاکستان پلاسٹک مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے مطابق ہمارے ہاں تقریبا 8 ہزار ایسی صنعتیں اور یونٹس ہیں جو پلاسٹک کی بنی ہوئی اشیاء تیار کرتی ہیں۔ ان مینوفیکچررز میں بڑی تعداد ان کی ہے جو پولیتھن بیگ تیار کرتے ہیں۔
پی پی ایم اے کی ترجمانی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک بیگ تیار کرنے والی انڈسٹری کی اہمیت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد اس کی پیداوار پر ہزاروں ٹن ہے۔ فاسٹ فوڈز کی بڑی چینز اور شاپنگ مالز کو ہر مہینے 80 ٹن تک شاپنگ بیگز کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اس مضمون میں اسی مسئلہ کا ذکر کیا گیا ہے جو ہمارے ماہر ماحولیات دہراتے رہتے ہیں، پیچیدگیاں بھی وہی ہیں (جو اصل میں اتنا پیچیدہ نہیں)، اور اس کے حل کیلئے سفارشات بھی وہی ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
پاکستان میں ’پ‘ کا مطلب۔۔۔ پلاسٹک؟
اول الذکر یہ کہ اگر انڈسٹری کو کسی چیز سے خطرہ ہوگا تبھی تو انہوں نے اس بچنے کیلئے ہی ایک ایسوسی ایشن قائم کی ہوگی۔ اور اگر کسی انڈسٹری کو کسی چیز سے خطرہ ہے تو اس سے جڑی ہر چیز پر بھی یہ خطرہ کی یہ تلوار منڈلا رہی ہو گی۔
ہمارا نیا فیچر: پلاسٹک کرہ ارض کی تباہی کا باعث۔۔۔ لیکن پلاسٹک انڈسٹری کو بچانا بھی اتنا ہی اہم کی خصوصی ویڈیو

لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دوسری صنعتوں کی ایسوسی ایشنز کے پاس مختلف جواز موجود ہوں۔ مثال کے طور حکومت کسی بھی ضابطے کا اطلاق فوری نہیں کر سکتی۔ پلاسٹک کے معاملے میں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ کسی کیلئے بھی مفید نہیں ہے۔ اگر کوئی چیز پلاسٹک سے بنی اشیاء پر روک کے راستے میں رکاوٹ ہے تو وہ بڑی صنعتیں اور بغیر سوچے سمجھے اس کا استعمال کرنے والے صارفین ہیں۔ پاکستان میں اس راہ میں رکاوٹ ہماری صنعت کا حجم اور اس سے وابستہ لاکھوں لوگوں کا روزگار ہے۔
پی پی ایم اے کے ایک رکن زیشان شاہد ملک نے پرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے چھوٹی پلاسٹک کی فیکٹریوں میں بھی کم از کم 20 افراد کام کرتے ہیں جبکہ بڑی فیکٹریوں میں یہ تعداد سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے۔ پی پی ایم اے کے اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں تقریبا 63 ہزار دکاندار شاپنگ بیگ تھوک کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اگر حکومت نے پلاسٹک پر روک کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی تو قریبا 3 لاکھ خاندان متاثر ہوں گے۔
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ پلاسٹک کے ماحول پر ہونے والے اثرات ناقابل تلافی ہیں لیکن جب اس عمل میں روپیہ آ جاتاا ہے تو باقی مشکلات کے ساتھ ساتھ حکومتی پالیسیوں کا اطلاق بھی سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور جب بات ہو پلاسٹک جیسی بڑی صنعت کی تو بڑی تعداد میں ٹیکس کا حصول بھی آڑے آ جاتا ہے۔
پی پی ایم اے کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پلاسٹک کی صنعت پاکستان کی 5 بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ اور اس کا اندازہ کیسے لگایا گیا اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
گو کہ اس صنعت میں چھوٹی اور غیر قانونی طور پر پلاسٹک تیار کرنے والی فیکٹریوں کی نمایاں تعداد ہے پھر بھی یہ ایسی صنعت ہے جس سے قومی خزانے میں ہر سال کروڑوں روپے ٹیکس کی شکل میں جمع ہوتے ہیں۔
اس صنعت کے کرتا دھرتاؤں کا ماننا ہے کہ پلاسٹک درآمد کرنے کی مد میں حکومت تقریبا 60 ارب روپے ٹیکس وصول کرتی ہے جبکہ ٹیکس کے دیگر مندرجات کے تحت وصولیوں کا حجم 70 ارب سے زائد ہے۔
محمد ارسلان شیخ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں پلاسٹک دانے کے تاجر ہیں۔ حکومت کی پلاسٹک بیگز پر روک اور انہیں ماحول دوست بنانے کے اقدام پر وہ تشویش کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان بھر سے پلاسٹک کی صنعت سے وابستہ افراد کی اس صنعت میں مشینری، مارکیٹ اور عمارات کی مد میں قریبا 150 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہے۔
چونکہ پلاسٹک دانہ دبئی، ایران، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے اس لئے تاجر پہلے ہی کافی تعداد میں اسے درآمد اور ذخیرہ کر چکے ہیں۔ اسی طرح تاجروں کی ایک بڑی تعداد کے پاس پلاسٹک مشینیں اور پرنٹنگ مشینیں بھی موجود ہیں۔ محمد ارسلان شیخ جیسے تاجروں کو لگتا ہے کہ شاپنگ بیگز پر روک کا اقدام اس صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔
جی ہاں، آپ صحیح پڑھ رہے ہیں: اس ملک کو ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے نہٰیں بڑھنا چاہیئے کیونکہ موجودہ صنعتوں کے مالکان خود اپنے معیار کو بلند نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن ارسلان کے تمام تر خدشات کے باوجود پلاسٹک کے استعمال کو جاری رکھنے سے ہمارے قدرتی ماحول کو پہنچنے والا نقصان یقینی ہے اور گمان ہے کہ جلد ہی اس کے اثرات ہمارے قدرتی ذرائع اور وسائل پر بھی اتنی ہی شدت سے مرتب ہوں گے۔ اس کی وجہ سے انفراسٹرکچر اور ماحول پر منفی اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور ایک اندازے کے مطابق ہمارے ہاں تیار ہونے والے پلاسٹک بیگ کا 70 فیصد کچرے میں چلا جاتا ہے جسے اگر جلایا بھی جائے تو یہ ہوا کو آلودہ کرتا ہے اور اس عمل میں کئی قسم کی مضر صحت گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔
ایک مطالعہ کے مطابق ان بیگوں کی وجہ سے تقریبا 12 ارب ٹن کے قریب ناقابل تلف کچرا پیدا ہوتا ہے اور اگر یہ عمل جاری رہا تو 2050ء تک ہمارا کرہ ارض اس کچرے کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ یہ مسئلہ اتنا گمبھیر ہے کہ پی پی ایم اے اور پلاسٹک بیگ ایسوسی ایشن (پی بی اے) بھی اس سے انکار نہیں کرتیں۔ لیکن ان کا اس مسئلے کے حل کیلئے وہ کیا تجویز کرتے ہیں؟
عملی اقدامات؟
شاپنگ بیگز سے متعلق تحفظات ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے آکسو بائیو ڈی گریڈ ایبل (Oxo Biodegradable) ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی۔ پہلے تو اس صنعت کو ایسا لگا جیسے انہیں تحفظ مل گیا ہو۔ اس سے پہلے بھی کچھ ٹیکنالوجیز متعارف کروائی گئی تھیں لیکن یہ ابھی تک کی سب سے کامیاب اور عمل پذیر ٹیکالوجی ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی مدد سے پلاسٹک کو تلف ہونے کیلئے درکار سینکڑوں سال کا عرصہ مختصر ہو کر چند ماہ تک رہ گیا۔ اسی وجہ سے کنٹرولڈ لائف پلاسٹک ٹیکنالوجی کہا گیا۔ اسے پلاسٹک دانے کی شکل میں بھی تیار کیا جاتا ہے اور پلاسٹک تیار کرنے کے عمل میں اس میٹریل کی ایک مخصوص مقدار کا اضافہ کیا جاتا ہے جس سے یہ پلاسٹک ماحول دوست بن جاتا ہے۔
پاکستنا میں یہ ٹیکنالوجی یکم اپریل 2014ء میں متعارف کروائی گئی اور پنجاب اور اسلام آباد کے علاوہ باقی پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال کو لازمی قرار دے دیا گیا۔ دریں اثناء اس ٹیکنالوجی کا لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی استعمال شروع ہو گیا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر مسئلہ کی وجہ ہماری مارکیٹ اور اس کے جوابی تاثرات تھے۔
پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کے ڈسٹری بیوٹر عامر یوسف نے پرافٹ کو بتایا کہ پلاسٹک بیگز کو ماحول دوست بنانے میں یہ جدت ایک بڑا قدم ہے۔ پاکستان میں بڑی بین الاقوامی کمپنیاں اور پلاسٹک بیگ کے برآمد کنندگان اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں اور پہلے ہی سینکڑوں ٹن تیار کر چکے ہیں۔
دوسری جانب لاہور میں شیخوپورہ روڈ پر واقع ایک پلاسٹک فیکٹری کے مالک خالد زبیری نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی مفید ہے لیکن پلاسٹک میں اس کے استعمال کا مطلب پلاسٹک کی قیمت میں اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا ’’اس کی وجہ سے لوگ معیاری پلاسٹک خریدنے کی بجائے سستے پلاسٹک کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب تک اسے لازمی قرار دینے کی باقاعدہ قانون سازی نہیں کی جاتی پاکستان میں اس کی مارکیٹ بننا انتہائی مشکل ہے۔ جن صوبوں میں اس بارے میں قانون سازی کی جا چکی ہے وہاں پھل فروش بھی ڈی گریڈ ایبل بیگز کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘
بدقسمتی یہ ہے کہ پنجاب جیسے صوبے میں جہاں اسموگ پہلے ہی ڈیرے ڈال چکی ہے ہماری صوبائی حکومت تاحال اس متعلق قانون سازی کرنے میں کرنے میں ناکام رہی ہے۔
حکومت کا دخل
گزشتہ سال حکومت نے اسلام آباد سے پلاسٹک بیگز کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کا آغاز کیا۔ پلاسٹک بیگز پر یہ روک ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ جیسے لاہور کے پوش علاقوں میں بھی کیا گیا۔ مدعا یہ تھا کہ شاپنگ بیگز کے انفراسٹرچکر اور ماحولیات پر مہلک اثرات براہ راست ہمارے نکاسی آب کے نظام اور جنگلی و آبی حیات
پر پڑ رہے تھے۔ پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر نسیم الرحمان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ چھوٹے اور ناقص معیار کے شاپنگ بیگز ہیں۔
انہوں نے پرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’یہ قیمت میں سستے ہیں اور اس وجہ سے ان کا استعمال بغیر سوچے سمجھے کیا جاتا ہے لیکن اس کو دوبارہ قابل استعمال نہیں بنایا جا سکتا۔ آپ سارا دن لگا کر انہیں اکٹھا کریں تو بھی ان کا وزن 1 کلوگرام سے زیادہ نہیں ہو گا لیکن ماحول پر ان کا اثر انتہائی مضر ہوگا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’شاپنگ بیگز میں پلاسٹک کا کم تناسب اس کا ماحول پر اثر کم کرے گا اور دنیا بھر میں اپنایا گیا یہ طریقہ بہت اچھا ہے۔‘‘
دوسری جانب پی پی ایم اے کا مؤقف مختلف ہے۔ ان کی جانب سے پرافٹ کو بتایا گیا کہ ملک میں پلاسٹک بیگ بنانے کی صنعت چھوٹے کاروباروں کیلئے ریڑھ کی ہڈی خیال کی جاتی ہے۔ انہوں نے اس معاملے پر پی بی اے کی بنائی اسٹینڈنگ کمیٹی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا بھی اطہار کیا۔
’’اس کمیٹی نے حکومت کو اس مسئلہ کو مل کر اور ذمہ داری سے سلجھانے کیلئے متعدد تجاویز پیش کی ہیں۔ سرکاری حکام کے ساتھ حالیہ ملاقات میں اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ پلاسٹک بیگ کی موٹائی 45 سے 50 مائیکرونز ہو گی جبکہ ان کا سائز 12×15 انچ ہوگا۔ ہم یہ اقدام کر رہے ہیں گو کہ امریکہ، یورپ، کینیڈا سمیت پوری دنیا میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے پولیتھن بیگز کے استعمال کی اجازت ہے اور انہوں نے پلاسٹک بیگز کو ممنوع قرار نہیں دیا۔ اس کے برعکس انہوں نے انہی تجاویز پر عمل درآمد کیا جو ہم بحیثیت پی بی اے حکومت کو پیش کر رہے ہیں۔‘‘
’’کینیا کے علاوہ کسی ملک نے شاپنگ بیگز کو ممنوع قرار نہیں دیا۔ اس سے کینیا میں آمدن میں کمی، بیروزگاری اور صنعتوں کے بند ہونے جیسے مسائل نے جنم لیا۔ کیونکہ ان پاس بہت زیادہ جنگل ہیں اس لئے انہوں نے کاغذ کے بیگز بنانا شروع کر دیئے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت پی بی اے کی تجاویز پر غور کرے گی۔‘‘
ہونا کیا چاہیئے؟
پلاسٹک بیگ بنانے والوں کا ماننا ہے کہ ممنوع قرار دینے کی بجائے دوبارہ قابل استعمال بنانے کے طریقوں پر غور کرنا چاہیئے۔ انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ سنگاپور سمیت کئی ممالک میں پلاسٹک کے کچرے سے بجلی بنائی جا رہی ہے۔ اسی طرح سے اس کا دوسرا حل آکسو بائیو ڈی گریڈ ایبل ٹیکانلوجی ہے جو پہلے ہی کچھ جگہوں پر استعمال کی جا رہی ہے۔ تاہم اس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے جیسے مسائل درپیش آئیں گے جو اس صنعت کیلئے مفید نہیں۔
ایک فیکٹری کے مالک کا کہنا تھا کہ اگر ایک متاثر کن عوامی تشہیر کے ذریعے لوگوں تک یہ بات پہنچائی جائے تو اس مسئلہ سے نمٹا جا سکتا ہے کیونکہ صارفین کو قدرے مہنگے بیگز خریدنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ماہر ماحولیات اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ مقامی ایکٹوسٹ اور ریسرچر احتشام سہیل خان نے یہ تجویز دی کہ بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ شاپنگ بیگز کو ممنوع قرار دے دیا جائے لیکن یہ اگر آخری آپشن ہے تو حکومت کو پیپر بیگز پر رعایت دینی چاہئیے۔
’’چونکہ یہ مارکیٹ آزاد ہے تو آپ پلاسٹک بیگ بیچ سکتے ہیں مگر ان کی قیمت میں اضافہ کر دیا جائے اور ان کی نسبت کپڑے اور کاغذ کے بنے بیگز سستی اور بہتر آپشن ہو جائے گی۔‘‘
یہ تجاویز نہ تو نئی ہیں اور نہ ہی یہ بنیاد پرستی پر قائم ہیں۔ لیکن اگر تجاویز کا سلسلہ جاری رہا اور عمل درآمد نہ ہو سکا تو اس کے نتیجہ ہمارے اس کرہ ارض کے خاتمے کی شکل میں ہوگا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here