اسلام آباد: چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت پانچ سالوں کے دوران 32 منصوبے مکمل کر لیے گئے۔
چینی سفارتخانے کی ایک دستاویز میں بتایا گیا ہے 5 سالوں میں پاکستان اور چین نے باہمی تعاون سے سی پیک کے تحت جن 32 منصوبوں کو مکمل کیا ہے ان میں ٹرانسپورٹ، روڈ انفراسٹرکچر اور توانائی کے اہم ترین منصوبے شامل ہیں۔
ان منصوبوں نے پاکستان کی مجموعی داخلی پیداوار (GDP) میں ایک سے دو فیصد حصہ ڈالا ہے اور پاکستانیوں کو 75 ہزار نوکریاں ملی ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ 32 منصوبوں کی تکمیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی پیک پاکستان میں سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے عوام کا معیار زندگی بہتر بنا رہا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان ریلوے، چائنا ریلوے اور نیسپاک انجنئرنگ سروسز کیساتھ ملکر ایم ایل وَن منصوبے کے ابتدائی ڈیزائن کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
ایم ایل وَن کی تجویز 2016ء میں سامنے آئی تھی، مئی 2017ء میں اسکا ابتدائی ڈیزائن تیار کیا تھا اور اپریل 2019 میں اس کو نظرثانی کے بعد منظور کر لیا گیا تھا۔
’’اس پروجیکٹ کے حتمی ڈیزائن اور منصوبے کی منظوری کے بعد عالمی معیار کے مطابق اسکدی بڈنگ کی جائے گی، پاکستان کی ضرورت اور یہاں کے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پروجیکٹ کیلئے اخراجات کو ایڈجسٹ کیا جائیگا۔‘‘
مذکورہ ڈاکومنٹ میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے قرضوں سے متعلق کافی کچھ میڈیا پر نشر ہوتا ہے لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ سی پیک کے 5.8 ارب ڈالر کے قرضے پاکستان نے صرف 2 فیصد شرح سود کے حساب سے 20 سے 25 سالوں میں واپس کرنے ہیں اور یہ ملک کے کل بیرونی قرض کا صرف 5.3 فیصد بنتے ہیں۔
سی پیک کے تمام منصوبوں کو عالمی معیار کے مطابق جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے تحفظ ماحولیات کے قوانین کو مدنظر رکھ کر پایہ تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے۔
چینی سفارتخانے کی دستاویز کے مطابق سی پیک کا ہر منصوبہ شروع کرنے سے قبل پاکستان اور چین ملکر اس سے متعلق نہایت باریک بینی سے تحقیق کرتے ہیں اور ملکر ہی اسے عمل میں لاتے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ چینی حکومت ہمیشہ اپنے ملک کی کمپنیوں کو مقامی قواعدوضوابط کی پاسداری پر زور دیتی ہے اور سی پیک پر کام کرنے والی تمام کمپنیاں ہی عالمی شہرت رکھتی ہیں۔
دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ سی پیک کا سارا منصوبہ عالمی قوانین کے مطابق کھلا اور شفاف ہے، شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان میں بھی متعلقہ اداروں سے رابطہ رکھا جاتا ہے اور ان اداروں نے بھی سی پیک منصبوں کو شفاف ترین قرار دیا ہے۔