لاہور: آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) پنجاب کے سربراہ عادل بشیر نے وزیر اعظم عمران خان، وزیر توانائی عمر ایوب خان اور وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود پر زور دیا ہے کہ وہ ایکسپورٹ سیکٹر کے لیے مقرر کیے گئے پاور ٹیرف میں شامل اضافی سرچارجز کا جائزہ لیں۔
انہوں نے یہ درخواست ملوں کی بندش اور ہزاروں محنت کشوں کو بے روزگار ہونے سے بچانے کے لیے کی ہے۔
اپٹما کے سینئر وائس چیئرمین عبدالرحیم ناصر بشیر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزارت توانائی (پاور ڈویژن) یکطرفہ طور پر پاور ٹیرف کو سات اعشاریہ پانچ سینٹ فی کلو واٹ (تمام سرچارجز وغیرہ کے ساتھ) سے بڑھا کر 13 سینٹ فی کلو واٹ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے تاکہ بہ ظاہر اپنی نااہلیت کو پوشیدہ رکھ سکے۔
انہوں نے مزید کہا، حالات کو مزید خراب کرنے کے لیے وزارت نے نیا ٹیرف جنوری 2019 سے گزشتہ ٹرانزیکشنز پر بھی لاگو کیا ہے۔ یہ وزیراعظم کی کمٹمنٹ کے علاوہ کابینہ اور اکنامک کوارڈینیشن کمیٹی کے فیصلوں کی حکم عدولی ہے۔
انہوں نے کہا، پاور ڈویژن اپنے ریکوری اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے ایکسپورٹ سیکٹر کو سزا دے رہی ہے۔
اپٹما کے سینئر رہنما نے کہا کہ ایکسپورٹ سیکٹر کو بجلی کے کنکشن کاٹنے کی دھمکی دے کر خوف زدہ کیا جا رہا ہے کہ اگر ایکسپورٹرز رعایتی نرخوں پر عائد کیے گئے سرچارجز ادا نہیں کرتے تو ان کے کنکشن کاٹ دیے جائیں گے۔
انہوں نے اس خوف کا اظہار کیا کہ سرچارجز کے نام پر بھاری رقوم کی وصول بڑے پیمانے پر دیوالیہ پن اور بے روزگاری کو فروغ دینے کا باعث ثابت ہو گی۔ پاکستان کا برآمدی شعبہ چین، بنگلہ دیش اور انڈیا کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہے گا جہاں پاور ٹیرف سات سے نو سینٹ فی کلو واٹ ہے۔
عبدالرحیم ناصر بشیر نے کہا کہ ٹیکسٹائل نے اس وقت سکون کا سانس لیا تھا جب وزیراعظم نے ایکسپورٹ سیکٹر کے لیے علاقائی تناظر میں بجلی کا مسابقی ٹیرف سات اعشاریہ پانچ سینٹ فی کلو واٹ یا 11.70 فی کلو واٹ (تمام سرچارجز سمیت) کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کے باعث نئی سرمایہ کاری ہوئی، بند پڑے ٹیکسٹائل یونٹ کھل گئے اور پانچ لاکھ اضافی ملازمتیں پیدا ہوئیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری بہتر کارکردگی دکھا کر اپنی کمٹمنٹ پر پورا اتری جیسا کہ گزشتہ برس گارمنٹس کی برآمدات میں مقداری اعتبار سے 30 فی صد اضافہ ہوا اور صنعت مکمل پر آپریشنل ہو گئی۔
تاہم، ٹیکسٹائل ملر نے کہا کہ مختلف سرچارجز عائد کیے جانے کے باعث ایکسپورٹ سیکٹر کا ٹیرف سات اعشاریہ پانچ سینٹ سے بڑھ کر قریباً 13 سینٹ فی کلو واٹ ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت توانائی نے حال ہی میں تقسیم کار کمپنیوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ صنعت سے لائن لاسز، بجلی کی چوری اور نااہلی کی قیمت وصول کرے، انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی خط میں تقسیم کار کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سرچارجز ٹیرف میں شامل کرے کیوں کہ وہ ایکسپورٹ انڈسٹری کے خصوصی ٹیرف کے لیے بجٹ مختص نہیں کر سکتی۔
اپٹما پنجاب کے چیئرمین نے کہا کہ انڈسٹری کے نمائندے خوف زدہ ہیں اور مزید سرمایہ کاری روک دی گئی ہے۔
عبدالرحیم ناصر بشیر نے کہا، ٹیرف میں اس غیر معمولی اضافے کے باعث واپڈا پر انحصار کرنے والے ٹیکسٹائل یونٹ اگلے تین ماہ میں بند ہو جائیں گے جب کہ دیگر ملیں بھی رواں برس جون میں مشکلات کا سامنا کریں گی۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایک سو ٹیکسٹائل یونٹ بند ہو چکے ہیں اور اگر ایکسپورٹ سیکٹر پر یہ سرچارجز عائد کیے جاتے ہیں تو آنے والے مہینوں کے دوران مزید یونٹ بند ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کو کسی بھی قسم کی تاخیر کے بغیر فوری طور پر حل کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا، پاور لومز ایسوسی ایشن پہلے ہی یکم فروری سے مکمل ہڑتال کا اعلان کر چکی ہے اور دیگر ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز بھی جلد ان کے ساتھ احتجاج میں شامل ہو جائیں گی۔ وزیر اعظم کو لازمی طو پر اس معاملے میں ذاتی طور پر مداخلت کرنی چاہئے اور حکومت کو ایکسپورٹ سیکٹر کے وسیع تر مفاد میں اپنی کمٹمنٹ کا احترام کرتے ہوئے سات اعشاریہ پانچ سینٹ فی کلو واٹ (تمام سرچارجز سمیت) ٹیرف برقرار رکھنا چاہئے۔