سی پیک کا دوسرا مرحلہ، پاکستان کے لیے ترقی کے نئے مواقع کھل گئے

960

اسلام آباد: چین پاکستان معاشی راہداری کے اربوں ڈالر مالیت کے دوسرے فیز کے شروع ہونے کے بعد پاکستان کو چین اور 60 سے زائد دیگر ملکوں کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) منصوبے پر تعاون کرنے کے مواقع حاصل ہو جائیں گے۔

انسٹی  ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس) میں منعقدہ پالیسی ڈائیلاگ بعنوان قومی زراعت اور فوڈ سکیورٹی میں شریک ماہرین نے کہا ہے کہ سی پیک کے باعث پاکستان کی چین کے علاوہ  بی آر آئی منصوبے میں شامل 60 سے زیادہ ملکوں کے ساتھ رابطہ بہتر ہو رہا ہے۔

پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے چیئرمین ڈاکٹر محمد عظیم خان نے تقریب، جو پاکستان ایگریکلچرل سائنٹسٹس فورم (پی اے ایس ایف) کے تعاون سے منعقد کی گئی، سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ہم سماجی شعبہ میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔ ملک کے زرعی شعبے کی ترقی پر غیرمعمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ترقی اور تجارت کے لیے بڑے پیمانے پر مواقع فراہم کرتا ہے۔

یونیورسٹی آف ہری پور کے وائس چانسلر اور پاکستان کونسل فار سائنس و ٹیکنالوجی کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر انوارالحسن گیلانی، فیصل آباد یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ ملک، آئی پی ایس کے ایگزیکٹو پریذیڈنٹ خالد رحمان اور پی اے ایس ایف کے صدر ڈاکٹر عبدالوکیل نے بھی تقریب سےخطاب کیا۔

ڈاکٹر عظیم خان نے پاکستان کے زرعی شعبے کا جائزہ پیش کرتے ہوئے زراعت کے متعدد ذیلی شعبوں کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا، جس کا مقصد محض ملکی فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے تحفظات دور کرنا ہی نہیں بلکہ اسے عالمی تجارت کے قابل بھی بنانا ہے۔

انہوں نے اس تاسف کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان 2013 تک اجناس برآمد کرنے والا ملک تھا لیکن اس کے بعد یہ خوراک درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔ تاہم، انہوں نے مشاہدہ کیا کہ سی پیک کا دوسرا فیز زرعی شعبے کی بحالی میں مدد فراہم کرنے کا اچھا موقع ہے، یہ قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ ترجیحات اور حکمت عملی کا احتیاط سے تعین کرے تاکہ آنے والے دنوں میں پیدا ہونے والے مواقع سے مستفید ہوا جا سکے۔

پی اے آر سی کے سربراہ کاروباری بنیادوں پر تشکیل دیے گئے ماڈل کی بنیاد پر زرعی شعبہ کو ترقی دینا چاہتے ہیں جو ان کے خیال میں محض اسی صورت میں ممکن ہے جب مصنوعات کا معیار بہتر بنایا جائے، مثال کے طور پر خام مواد کو معیاری کاروباری مصنوعات اور برانڈز میں تبدیل کرنے سے بھی یہ ہدف حاصل کرنا ممکن ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ سی پیک روٹ کے ساتھ مختلف اجناس اور مصنوعات بنائی جا رہی ہیں جس کے باعث اس حوالے سے نمایاں امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اناج، خوردنی تیل اور پام آئل کی پیداوار اور برآمد کرنے کی بڑے پیمانے پر صلاحیت موجود ہے جب کہ سرمایہ کاری کے لیے دالیں اور تیل کے بیجوں کی کاشت دیگر نمایاں شعبہ جات ہیں۔

تاہم، سپیکر نے نشاندہی کی کہ کاشت کاری کے بعد نقصانات کا ہونا باعث تشویش ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ پیداوار، تنوع، کاشت کاری کے بعد کی سرگرمیوں، پروسیسنگ، سرٹیفیکیشن اور ان کا معیار بہتر بنانے کے شعبوں پر توجہ دی جائے، ان تمام اقدامات کا مقصد زرعی پیداوار کو قیمتی مصنوعات میں تبدیل کرنا ہے اور اس قابل بنانا ہے کہ وہ عالمی تجارت کے معیار پر پورا اتریں۔

ڈاکٹر عظیم خان نے پرجوش انداز سے پاکستان میں کم خوراکی  کے موجودہ حالات پر بات کی اور کہا کہ یہ غیرمعمولی طور پر بہت زیادہ ہے جب کہ انہوں نے کہا کہ خوراک کے حوالے سے خودکفیل ملک پاکستان کے لیے کم خوراکی کو ختم کرنا اہم ترین ہدف ہونا چاہئے۔

ڈاکٹر امان اللہ ملک نے پاکستان کے زرعی شعبہ کی سی پیک کے نمایاں منصوبوں سے مناسبت کے تناظر میں اس کی اہمیت اور مواقع پر بات کی۔ انہوں نے متعدد زرعی مصنوعات کا ذکر کیا جن میں پاکستان دنیا کے دیگر ملکوں پر مسابقتی فائدہ حاصل کر سکتا ہے اور بالخصوص چین کے تناظر میں یہ اہم ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر انوارالحسن گیلانی نے کہا، چین فارم مصنوعات درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے جس کی درآمدات عالمی فارم مصنوعات کی تجارت کے 10 فی صد پر مشتمل ہیں۔ چین زرعی مصنوعات درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل ملکوں کے باعث اس کی درآمدات میں آنے والے دنوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گا۔

پاکستان بھی چین کو کچھ مصنوعات جیسا کہ سویابین، بارلے، مکئی، گندم اور دلیہ برآمد کر سکتا ہے۔ چین کو سب سے زیادہ چاول برآمد کیا جا رہا ہے لیکن اس حوالے سے بھی بہت سے امکانات موجود ہیں۔ پھلوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو چیری، انگور، آم، امرود اور مالٹے وہ مصنوعات ہیں جن پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ چین 70 فی صد زرعی اجناس امریکا، برازیل، جنوب مشرقی ایشیا، یورپی یونین اور آسٹریلیا سے درآمد کر رہا ہے اور ان ملکوں کے ساتھ مقابلہ کرنا مشکل ہو گا لیکن یہ ناگزیر ہے کہ ہم اپنی مصنوعات کا معیار ان ملکوں کے مطابق بنائیں۔

پاکستان کا زرعی ضروریات کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کے تناظر میں دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو یہ ان ملکوں سے بہت پیچھے ہے۔ ڈاکٹر گیلانی نے جدید ٹیکنالوجیکل نظام اور طریقہ کار کو استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تاسف کا اظہار کیا جو موجودہ عہد کے چیلنجز جیسا کہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی ہیں۔

انہوں نے مقامی اہلیت بڑھانے کے لیے منصوبے شروع کرنے اور ان پر سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ہی بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی۔ انہوں نے فصلوں کی غذائیت بڑھانے اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت بڑھانے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ فارم لینڈ کو تباہ ہونے سے بچانے، چھوٹے کاشت کاروں کو بااختیار بنانے، ڈی اربنائزیشن، پانی کو محفوظ بنانے، فصلوں، لائیو سٹاک کے ویسٹ کی ری سائیکلنگ اور عوامی آگاہی کی مہم کے ذریعے خوراک کے تحفظ پر زور دیا اور پاکستان کا اپنی فوڈ سکیورٹی کے خطرات سے نمٹنے کے تناظر میں ایسا کرنا ضروری ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here