اسلام آباد: آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے مبینہ طور پر اپنے موجودہ چیئرمین اور ایل این جی سکینڈل کے دیگر ملزمان کو نیب کیسز میں اپنا دفاع کرنے کیلئے سرکاری طور پر وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ سکینڈل میں ملزمان جس وکیل کی خدمات حاصل کرینگے اسے فیس ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ادا کی جائے گی۔
اوگرا کی موجودہ چیئرمین عظمیٰ عادل پر ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی کو دینے کا الزام ہے اور 12 دسمبر 2019 کو نیب نے انکے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
عظمیٰ عادل نے 19 دسمبر 2019ء کو سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو خط لکھ کر سرکاری طور پر وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت مانگی تھی۔
بعد میں 26 دسمبر کو اوگرا انتظامیہ کا ایک اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اتھارٹی کے کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ ملازم کیخلاف کسی قسم کی تحقیقات یا کارروائی ہوتی ہے تو اسے مکمل قانونی مدد فراہم کی جائے گی۔
پاکستان ٹوڈے اور پرافٹ اردو کے پاس اوگرا کے مذکورہ فیصلے کی ایک کاپی موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’اوگرا کا کوئی حاضر سروس یا سابق ملازم کسی قانونی مسئلے کا شکار ہوتا ہے تو وہ اپنے خلاف کیس میں اتھارٹی کے خرچ پر اپنی مرضی کے وکیل کی خدمات حاصل کر سکتا ہے، 20 لاکھ روپے تک اسکی فیس اوگرا ادا کرے گی اور اگر ملازم خود سے مقدمے کے اخراجات اٹھا رہا ہے تو وہ مذکورہ رقم کے برابر ریفنڈ حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
تاہم اس فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے مستحق افراد اس بات کا خیال رکھیں کہ مقدمہ کس نوعیت کا اور کس فورم پر چل رہا ہے اس کے حساب سے اپنے وکیل کی وکیل کم زیادہ کر سکتے ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی ادارہ اوگرا کے کسی ملازم کیخلاف تحقیقات کر رہا ہے تو وہ (ملازم) اتھارٹی کے سرکاری ریکارڈ سے مستفید ہو سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر مذکورہ ملازم (حاضر سروس یا سابق) اعلیٰ ترین عدالتی فورم پر بھی مقدمے میں مجرم قرار پا جاتا ہے تو اسے وہ رقم واپس کرنا ہوگی۔
سرکاری ریکارڈ تک رسائی دینے کے حوالے سے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ موجودہ چیئرمین اوگرا عظمیٰ عادل اور انکے شریک ملزمان اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور سرکاری دستاویزات میں ردوبدل کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں کسی سکیںڈل میں ملوث ملازمین کو سرکاری ریکارڈ تک رسائی نہیں دی جاتی تھی، اب خصوصی طور پر اسکی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جس ملزم کیخلاف نیب ریفرنس دائر چکا ہے اسے کیسے سرکاری ریکارڈ تک رسائی دی جاسکتی ہے؟
اپنے خط میں عظمیٰ عادل نے نیب کیسز لڑنے کیلئے سرکاری طور پر اوگرا میں ایک قانونی مشیر بھرتی کیلئے بھی کابینہ ڈویژن کی رائے مانگی تھی تاہم کابینہ ڈویژن نے کہا تھا کہ چونکہ کیس چیئرمین اوگرا کیخلاف ہے اس لیے اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہی اپنا دفاع کیا جائے۔
اسی حوالے سے ایڈوکیٹ عمار سہری کہتے ہیں کہ فیصلہ اوگرا آرڈینینس کی خلاف ورزی ہے، کسی سرکاری ملازم کے ذاتی فعل کی صورت میں اسکا دفاع کرنے کیلئے ریاست اخراجات ادا نہیں کرسکتی، سرکاری ادارے بھی اپنے ملازمین کو کسی غلط کاری کی صورت میں بچانے کا حق نہیں رکھتے۔
عمار سہری کے مطابق اوگرا کے قواعدوضوابط بھی اتھارٹی کو ایسے اخراجات برداشت کرنے کی اجازت نہیں دیتے، اوگرا انتظامیہ کی جانب سے ٹیکس دہندگان کا پیسہ اپنے ملازمین کو مقدمات سے بچانے پر استعمال کرنے کے الزام میں نیب یا ایف آئی اے مزید تحقیقات شروع کر سکتے ہیں۔
سابق ملازمین بھی میدان میں:
اوگرا کے سابق ملازمین نے کابینہ ڈویژن میں چیئرمین اوگرا کی سرکاری ریکارڈ تک رسائی کے اختیار کو چیلنج کردیا ہے۔
26 دسمبر کو اوگرا انتظامیہ نے ایل این جی سکینڈل میں کے ملزمان بشمول موجودہ چیئرمین اوگرا کو نیب میں کیس لڑنے کیلئے سرکاری وکیل کی خدمات لینے اور سرکاری ریکارڈ سے استفادہ کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم 14 جنوری کو اوگرا کے 2 سابق ملازمین نے کابینہ ڈویژن کو خط لکھ کر کہا ہے کہ چیئرمین اوگرا سمیت ایل این جی سکینڈل کے دیگر ملزمان کی سرکاری ریکارڈ کے اختیار کو ختم کیا جائے تاکہ شفاف ٹرائل ممکن ہو سکے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری کابینہ ڈویژن معاملے کو نیب کیساتھ اٹھائیں تاکہ ٹرائل کی شفافیت کو یقینی بنانے کیساتھ ان ملزمان کو بھی مناسب سہولت ملے جو اوگرا کے ملازم نہیں رہے۔
سابق ملازمین نے اوگرا کے ہی پرانے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 2012ء میں منصور مظفرعلی کے خلاف کیس میں نیب اور کابینہ ڈویژن نے ان کی سروس معطل کردی تاکہ وہ کسی گواہ یا متلعقہ سرکاری ریکارڈ کے ذریعے کیس پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔
اسی طرح خط میں میر کمال مری کیس کا حوالہ بھی دیا گیا کہ ’’10 اکتوبر 2013ء کو نیب نے کابینہ ڈویژن کو میر کمال مری کی بطور ممبر فنانس اوگرا تعیناتی سے روک دیا تھا کیونکہ اس وقت انکے خلاف مقدمہ چل رہا تھا۔‘‘
اس سے قبل 9 جنوری کو بھی سابق ملازمین نے مذکورہ فیصلے پر اوگرا آرڈی نینس 2002ء کے مطابق نظرثانی کرنے بصورت دیگر عدالت جانے کا کہا تھا۔