سائبر سکیورٹی کے حوالے سے حکومتی غیر سنجیدگی، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برس پڑی

588

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بدھ کے روز سائبر سکیورٹی اور دیگر قوانین پر اجلاس ہوا لیکن یہ کسی بھی قسم کی گفتگو کے بغیر ختم ہو گیا کیوں کہ وزارتِ داخلہ کے نمائندگان اجلاس میں موجود نہیں تھے۔

کمیٹی کے ارکان نے ناخوشی کا اظہار کیا اور وزارت داخلہ کی عدم دلچسپی کی تحریری شکایت رسمی طور پر قائمہ کمیٹی برائے استحقاق میں جمع کروانے کا فیصلہ کیا۔

گفتگو میں تاخیر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی ، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کی اہلیت سے متعلق ہو رہی ہے اور ان کا تعلق سوشل میڈیا، پرائیویسی پر اثرانداز ہونے، ہتک عزت اور توہین آمیز کمپینز سے ہے۔

بنیادی معاملہ جو اجلاس کے دوران زیربحث آیا، وہ یہ تھا کہ پاکستان نے اب تک عالمی معاہدوں اور عہد ناموں پر دستخط نہیں کیے جس کی ایک مثال ایم ایل اے ٹی بھی ہے جو حکام کو اس قابل کرتی ہے کہ ذمہ داروں کو ہٹانے، ان کو بلاک کرنے یا ان سے تفتیش کرنے کا مطالبہ کر سکیں۔

ان معاہدوں پر دستخط کرنا یا ان سے الگ ہونے کا فیصلہ وزارت داخلہ نے کرنا ہے اور متعلقہ حکام کی جانب سے مستقل طور پر ان امور کو نظرانداز کیے جانے کے باعث قائمہ کمیٹی کچھ بھی کرنے سے قاصر ہو چکی ہے

پارلیمان کے بیش تر ارکان جن میں مخدوم زین قریشی، مائزہ حمید، ناز بلوچ اور کنول شوزب شامل ہے، ان سب نے وزارت کی جانب سے دلچسپی ظاہر نہ کیے جانے پر ناخوشی کا اظہار کیا۔

مخدوم زین قریشی نے کہا،یہ معاملہ محض اس کمیٹی تک محدود نہیں ہے لیکن وزارت کا ردِعمل اور کارکردگی کئی معاملوں میں غیر تسلی بخش رہی ہے، کمیٹی کو اس معاملے کے حل کے لیے سخت اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

کمیٹی میں بعدازاں الیکٹرانک ٹرانزیکشن ترمیمی بل 2019 زیربحث آیا جسے رکن قومی اسمبلی سید فخر امام نے پیش کیا تھا۔ متذکرہ بالا رُکن نے تفصیل سے ان اہداف کے بارے میں آگاہ کیا جو وہ اور دیگر قانون ساز اس بل سے حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں، جسے مختصرا کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ پارلیمان، حکومتی ارکان جنہیں عام انتخابات میں عوام نے ووٹ دیا، ان کو یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ قانون کو بنتے ہوئے دیکھیں، اس کے بجائے کہ وہ مخصوص قانون سازی ہی کر سکیں، (جیسا کہ ایس آر اوز یا آرڈینینسز وغیرہ)۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے وزارت قانون کے ڈپٹی لیجیسلیٹیو ایڈوائرر حسن محمود نے کہا کہ اگرچہ ارکان پارلیمان کو اختیار حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بھی قانون کے کچھ  پہلوئوں کا جائزہ لے سکیں، لیکن کچھ معاملات کے حوالے سے قانون سازوں کی عمومی رائے کے بجائے متعلقہ قانون سازوں کی مہارت اور پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا،ارکان پارلیمان کے تمام تر احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ مثال دی جا سکتی ہے کہ اگر پیوند کاری کا معاملہ درپیش ہو تو ایک طبی ماہر اس قانون کی پیچیدگیوں اور اثرات کے بارے میں پارلیمان کے ارکان کی نسبت زیادہ بہتر طور پر آگاہ ہوتا ہے۔

فخر امام نے کہا کہ اگرچہ تفویش شدہ قانون ساز نوعیت کے اعتبار سے جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں، تاہم معاملے کے حوالے سے اطراف کی جانب سے مضبوط دلائل پیش کیے جاتے ہیں اور اسی بنا پر یہ ارکان قومی اسمبلی کا استحقاق ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ حتمی طور پر کیا کیا جائے۔

کمیٹی کی سربراہی علی خان جدون نے کی اور کمیٹی کے کچھ ارکان کی درخواست پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے پر مزید بحث کی ضرورت ہے جس کے لیے انہوں نے ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔ نئی سب کمیٹی کے کنوینر زین قریشی ہوں گے جب کہ ارکان قومی اسمبلی مہیش کمار، کنول شوزب اور شیر علی ارباب اس کے ارکان ہوں گے۔

کمیٹی سائبر جرائمز سے متعلق شکایات کو رجسٹر کرنے اور ان کے حل کے لیے ایف آئی اے کے کردار کو زیرِبحث لائے گی جس کے بارے میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کہہ چکے ہیں کہ اتھارٹی میں اس وقت محض 10 فارنزک ماہرین کام کر رہے ہیں لیکن وہ جلد ہی مزید ماہرین کو ملازمت دینے جا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا،ہم نے 407 نئے افسروں کو آن بورڈ لیا ہے جو ماہرین ہی ہیں اور اپنی متعلقہ فیلڈ میں تعلیمی قابلیت رکھتے ہیں جن میں تفتیش کار، سافٹ ویئر و ہارڈویئر کے علاوہ فارینزک ماہرین بھی شامل ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here