میگی نوڈلز کوئی چھوٹا نام نہیں ہے۔ کم از کم 2 دہائیوں سے اس نے پاکستانیوں کو اپنے ذائقے کے سحر میں جکڑے رکھا۔ پاکستان میں کھانے کا یہ برانڈ اب ختم کر دیا گیا ہے جس کی تصدیق میگی نوڈلز بنانے والی اور اس برانڈ کی ملکیتی نیسلے میں موجود ذرائع نے کر دی ہے۔ ذرائع نے پرافٹ کو بتایا کہ اب ملک میں انسٹنٹ نوڈلز کی کوئی تشہیر نہیں کی جائے گی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیسلے کے ایک عہدیدار نے بتایا ’’ہاں، ہم نے 2018ء سے میگی کو بند کر دیا ہے۔ یہ نیسلے کے ملٹی پراڈکٹ پورٹ فولیو کو منظم کرنے کی حکمت عملی ہے۔‘‘
نیسلے پاکستان نے اس معاملے پر کوئی اعلان نہیں کیا اور میگی نوڈلز ابھی بھی کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ تاہم یہ پراڈکٹ 2018ء کے سالانہ مالیاتی رپورٹ میں شامل نہیں تھی۔ جبکہ 2017ء کی رپورٹ میں میگی نوڈلز شامل تھا۔
1992ء میں جب پاکستان میں میگی نوڈلز متعارف کروایا گیا اس وقت یہ ملک میں نوڈلز کا پہلا برانڈ تھا اور اپنی پیداوار کے پہلے سال میں اس کی بلا شرکت غیرے اجارہ داری تھی۔ یونی لیور نے ایک سال بعد ہی 1993ء میں اپنے Knorr برانڈ کے انسٹنٹ نوڈلز متعارف کروائے لیکن پھر بھی میگی نوڈلز کی اجارہ داری نہ توڑ سکا اور میگی 2 دہائیوں تک مارکیٹ میں سرفہرست رہا۔
پچھلے 4 سال میں میگی برانڈ مارکیٹ میں پہلے نمبر سے ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔ کمپنی میں موجود ذرائع نے تصدیق کی کہ اسٹورز میں موجود میگی نوڈلز آخری اسٹاک میں سے ہے اور ایک مرتبہ ختم ہونے کے بعد مارکیٹ میں یہ برانڈ نہیں رہے گا۔
ہمارا نیا فیچر: میگی نوڈلز اب ہم میں نہیں رہے خصوصی ویڈیو
کئی صارفین اس خبر سے خوش نہیں ہیں۔
احمد عباس کھانے پینے کے شوقین ہیں جو لاہور میں قائم ایک نئے اور مہنگے ہوٹل رائل سوئس میں اکاؤنٹنٹ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ احمد کا کہنا ہے ’’میں نے اپنا بچپن میگی کے 2 منٹ میں تیار ہونے والے انسٹنٹ نوڈلز کھاتے ہوئے گزارا اور میں اس کی کمی محسوس کروں گا۔ یہ ہماری شام کی ہلکی پھلکی غذا اور اکثر سکول کی لنچ بریک کا حصہ تھا۔‘‘
ایسا کیونکر ہوا؟ ایک ہردلعزیز برانڈ کیسے ختم ہو گیا؟ کمپنی کی انتظامیہ اس کا جواب کارپوریٹ انداز میں دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کہ اس طرح کے حادثات اچانک نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سے نیسلے پاکستان کی انتظامیہ کیلئے یہ حادثہ واہگہ کے دوسری جانب رونما ہوا تھا۔
جنوبی ایشیا کا میگی کیلئے پیار
جنوبی ایشیا میں میگی کی ابتدا بھارت سے ہوئی۔ میگی کا آغاز 1884ء میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے جولیس میگی (Julius Maggi) نے سوئٹزرلینڈ میں کیا۔ میگی نے آغاز میں بولین کیوبز (bouillon cubes) کی فروخت شروع کی جنہیں پاکستانی مارکیٹ میں چکن کیوبز (chicken cubes) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1947ء کو نیسلے نے تیزی سے ترقی کرتی کمپنی میگی جی ایم بی ایچ (GmBH) جو پہلے ہی جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر میں پہچان رکھنے کو خرید لیا۔ نیسلے نے اس خطے میں 1912ء میں نیسلے اینگلو سوئس کنڈینس ملک کمپنی (Nestle Anglo-Swiss Condensed Milk Company) کے حوالے سے آغاز کیا۔
پاکستان میں متعارف کروانے سے قریبا ایک دہائی قبل 1983ء میں نیسلے نے بھارت میں میگی کو متعارف کروایا۔ حتی کہ صرف بھارت میں یونی لیور کا Knorr برانڈ نیسلے کیلئے حریف ثابت ہوا لیکن پھر بھی نیسلے 80 فیصد اور کبھی 90 فیصد حصص کے ساتھ مارکیٹ پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
پاکستان میں یہ پراڈکٹ 1992ء میں متعارف کروائی گئی اور (بھارت کی نسبت کم لیکن) پاکستان میں 3 دہائیوں تک میگی نوڈلز نے اپنی اجارہ داری قائم رکھی۔ اس سارے عرصے میں Knorr نے میگی کیلئے مقابلے کی فضا قائم رکھی اور پھر 2012ء میں شان فوڈز نے شوپ (Shoop) کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔
گو کہ دونوں حریفوں نے مارکیٹ کا کچھ حصہ حاصل کیا لیکن پھر بھی میگی انسٹنٹ نوڈلز میں سرفہرست رہا۔ انتظامیہ کے کہنے کے برعکس میگی کی خراب قسمت سے حریفوں کو براہ راست فائدہ پہنچا اور اس برانڈ کے خاتمے میں حریف کمپنیوں کا کوئی کردار نہیں۔
بھارت میں حفظان صحت کا خوف
پاکستان میں میگی نوڈلز کا زوال سنجے سنگھ سے ہوا جو بھارتی ریاست اترپردیش میں فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹر ہیں۔ بھارت سے شائع ہونے والے فنانشل اخبار منٹ کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2014ء میں سنجے نے نیسلے کے میگی میں مونوسوڈیم گلوٹامیٹ (monosodium glutamate) کی عدم موجودگی کے دعوے کو جانچنے کا فیصلہ کیا۔
سنجے نے گورکھ پور میں ایک حکومتی لیبارٹری میں نمونے بھیجے جس میں ایم ایس جی کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی۔ اس کے بعد سنجے نے کلکتہ میں سینٹرل فوڈ لیبارٹری میں کچھ اضافی نمونہ جات بھیجے اور ایک سال تک انتظار کیا۔
اپریل 2015ء میں کلکتہ سے رپورٹ واپس آ گئی جس میں درج تھا ’’ مونوسوڈیم گلوٹامیٹ موجود ہیں اور لیڈ کی شرح 17.2 پارٹس پر ملین (پی پی ایم) ہے۔‘‘ امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے کھانے پینے کی مصنوعات میں لیڈ کی شرح 50 پارٹس پر بلین مقرر کی ہے۔ نیسلے کے نمونوں میں یہ شرح 17 ہزار 2 سو پارٹس پر بلین تھی جو مقرر کی گئی شرح سے 340 گنا زیادہ اور نیسلے کے دعوے کے برعکس ایک ہزار گنا زیادہ تھی۔
اترپردیش کے فوڈ سیفٹی کمشنر نے نیسلے سے اس ٹیسٹ کے متعلق جواب طلب کیا اور نیسلے نے اپنا جواب 5 مئی 2015ء کو جمع کروایا۔ دو روز کے بعد اترپردیش کے مقامی اخبارات میں حفظان صحت سے متعلق خبریں شائع ہونا شروع ہو گئیں تاہم نیسلے نے اس بارے میں عوامی سطح پر کچھ نہ کہا۔
اگلے ہی ہفتے بھارت کے تمام اخبارات کی توجہ اس خبر کی جانب مبذول ہوئی اور انہوں نے میگی کے صحت پر نقصانات کے خدشات کا اظہار کیا لیکن بدستور نیسلے کی جانب سے خاموشی رہی۔ آخر کار فوڈ سیفٹی ٹیسٹ کے حوالے سے پہلی خبر شائع ہونے کے 2 ہفتے بعد 21 مئی کو نیسلے نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میگی نوڈلز مضر صحت نہیں ہیں۔
مزید کہا گیا ’’لیکن میگی سے متعلق حالیہ پیش رفت اور افواہوں نے صارفین کو تذبذب کا شکار کر دیا ہے۔‘‘
شاید ان کے بیانیے میں زیادہ طاقت نہیں تھی کیونکہ اس کے بعد نیسلے جیسی بین الاقوامی کمپنی کے ساتھ جو ہوا اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ملٹی نیشنل کارپوریشن ہونے کا پہلا اصول یہ ہے کہ حکومت اور صارفین کیلئے آپ کا معیار مقامی حریفوں کی نسبت بہتر ہوتا ہے۔ گو کہ یہ مناسب نہیں لیکن کیا کیا جائے ایسا ہی ہوتا ہے۔
لیکن نیسلے انتظامیہ نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اترپردیش اور کلکتہ کی لیبارٹریوں میں ہونے والے ٹیسٹ تسلی بخش نہیں ہیں اور کمپنی کی ساکھ خراب کی جا رہی ہے۔ وہ مسئلے کے حل کی بجائے اس بحث کو جیتنا چاہتے تھے۔
اس کے بعد نیسلے نے یہ بحث جیتنے کیلئے بڑا قدم اٹھایا۔ نیسلے کے گلوبل چیف ایگزیکٹو آفیسر پال بلک بھارت آئے اور حکام سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ’’یہ معاملہ وضاحت طلب ہے اور ہمیں اس پر افہام و تفہیم سے بیٹھ کر بات چیت کی ضرورت ہے۔ ہم صحت سے متعلق تمام خدشات پر غور کریں گے۔ ہم میگی نوڈلز میں مونوسوڈیم گلوٹامیٹ شامل نہیں کرتے، ہر جگہ ہمارا معیار ایک ہی ہے، ہم جو بھی کرتے ہیں اپنے صارفین کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں، ہم سے جو ہو سکا ہم کریں گے اور ہم حکام سے مکمل رابطے میں ہیں۔‘‘
پال بلک کے بھارت آنے اور پریس کانفرنس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا (ایف ایس ایس اے آئی) نے نیسلے کو تمام بھارتی مارکیٹ سے اپنی مصنوعات واپس لینے کا حکم دیا۔ اگلے 3 ماہ میں نیسلے نے مارکیٹ سے تقریبا 38 ہزار ٹن میگی نوڈلز واپس لیا اور اسے جلا دیا۔
اس کے باوجود بھی نیسلے انڈیا نے اپنی شکست تسلیم نہیں کی۔ انہوں نے اپنے اس اقدام کو رضاکارانہ قرار دیا اور ایک بیان جاری کیا جس میں درج تھا کہ ان کی مصنوعات سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کئے گئے۔ بیان میں کہا گیا ’’مضر صحت عناصر کی غیر موجودگی کے باوجود ہم نے مارکیٹ سے اپنی مصنوعات واپس لے لی ہیں۔‘‘ انہوں نے میگی صارفین سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے بعد مارکیٹ میں پھر نوڈلز کی واپسی ہوگی۔
ضدی انتظامیہ
نیسلے کی انتظامیہ سے اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ میگی نوڈلز کے حوالے سے صحیح تھے اور کچھ ہی مہینوں میں یہ بات ثابت بھی ہو گئی۔ نیسلے انڈیا یورپ اور شمالی امریکہ میں بھارتی تارکین وطن کیلئے میگی نوڈلز برآمد کرتی تھی۔ اگست 2015ء میں امریکی ایف ڈی اے کے برآمد کردہ نتائج سے ثابت ہوا کہ نیسلے پر لگے الزامات غلط تھے۔ میگی نوڈلز میں لیڈ کی مضر صحت مقدار موجود نہیں تھی۔
ایف ڈی اے کے ترجمان نے ٹائمز آف انڈیا کو ای میل ارسال کی جسے 12 اگست 2015ء کو شائع کیا گیا۔ اس ای میل میں درج تھا ’’نیسلے کے تیار کردہ اور امریکہ میں فروخت کردہ میگی نوڈلز میں لیڈ کی مبینہ مقدار کے حوالے سے سامنے آنے والی نیوز رپورٹس کی پیروی کے تناظر میں ایف ڈی اے نے لیڈ کی مقدار جانچنے کیلئے کچھ نمونوں پر تجربات کئے۔ ایف ڈی اے کے تجربات کے دوران ایسی کسی مقدار کا اندیشہ نہیں ہوا جو امریکی صارفین کیلئے مضر صحت ہو۔‘‘
اور جلد ہی بھارت کو اندازہ ہوا کہ ان سے غلطی سرزد ہوئی ہے۔ اگلے ہی 13 اگست کو بمبئی ہائیکورٹ نے ایف ایس ایس اے آئی کی جانب سے عائد میگی نوڈلز پر پابندی ختم کر دی۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اتر پردیش انتظامیہ اور ایف ایس ایس اے آئی نے جن لیبارٹریوں سے جانچ کروائی ہے وہ غیر قانونی اور بھارت کی نیشنل ایکریڈیشن بورڈ فار ٹیسٹنگ اینڈ کیلیبریشن لیبارٹریز (این اے بی ایل) سے منظور شدہ نہیں تھیں۔ لیکن نیسلے کی انتظامیہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے میں بری طرح ناکام رہی۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ان کی مصنوعات مضر صحت تھیں اور وہ جانتے تھے۔ مسئہ تھی اترپردیش کی حکومت اور اسی طرح کی دوسری اتھارٹیز جنہوں نے ان کی مصنوعات کو غیر معیاری سمجھا جس کا اثر عوام پر پڑا۔
مسئلے کا حل یہ نہیں تھا کہ بھارت کو بتایا جائے کہ وہ غلط ہیں بلکہ اس کا حل یہ تھا کہ عوام کے خدشات کو دور کیا جائے اور ان کی سوچ کو بدلا جائے۔
لیکن بھارتی حکومت سے بحث بے سود جیتنے کی کوشش کا الٹا اثر نہ صرف بھارت میں پڑا بلکہ اس کے اثرات پاکستان بھی پہنچ گئے۔
بھارت میں حفظان صحت کے خدشات کے پیش نظر نیسلے پاکستان نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا جس میں درج تھا ’’نیسلے پاکستان اپنی میگی پراڈکٹس بھارت سے درآمد نہیں کرتی۔ پاکستان میں فروخت ہونے والی میگی مصنوعات ملتان کے قریب کبیروالا فیکٹری میں تیار کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں تیار کی جانے والی مصنوعات صحت بخش اور حلال ہیں۔ نیسلے پاکستان اپنی تمام مصنوعات کی وقتا فوقتا جانچ کرواتی رہتی ہے۔ ہماری مصنوعات صحت کیلئے نقصان دہ ہرگز نہیں اور صارفین ہماری مصنوعات پر اعتماد کر سکتے ہیں۔
بس اتنا ہی۔ کمپنی نے سال بھر میں بس یہی کیا۔
پاکستان میں میگی کا زوال
اسی اثناء میں جب پاکستانی صارفین کو کمپنی کی جانب سے میگی نوڈلز پر اعتماد برقرار رکھنے کی معمولی سی کوشش کی جا رہی تھی تو پاکستانی صارفین سرحد پار سے موصول ہونے والی خبروں کے زیادہ زیر اثر تھے۔
اگرچہ کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کا برانڈ صحت کیلئے مضر نہیں پھر بھی لاہور میں مقیم ایک گھریلو خاتون فریحہ نجم نے پرافٹ کو بتایا ’’میں یہ خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں تھی آخر کار یہ میرے بچوں کی صحت کا معاملہ ہے۔ اگرچہ میرا بیٹا ارتضیٰ اور بیٹی کشف میگی نوڈلز کے گرویدہ ہیں تاہم اب ہم میگی کو چھوڑ کر Knorr نوڈلز خریدتے ہیں۔‘‘
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ زیادہ تر صارفین نوڈلز کے معاملے میں میگی کو ترجیح دیتے ہیں۔
پنجاب گروپ آف کالجز کی ایک سینئر مارکیٹنگ منیجر ہانیہ علی کا کہنا ہے ’’ایک جیسی قیمت ہونے کے باوجود میگی کی کوالٹی Knorr کی نسبت بہتر تھی۔‘‘ میگی نوڈلز خاص طور پر جس میں سبزیوں کے چھوٹے ٹکڑے شامل ہوتے ہیں وہ ہانیہ کے پسندیدہ ہیں۔ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی انسیہ Knorr کا چٹ پٹا فلیور سب سے زیادہ پسند کرتی ہے۔
ہانیہ سے اتفاق کرتے ہوئے ان کے ساتھ کام کرنے والی ایک اور خاتون آمنہ حسن نے اپنے بچپن کی کچھ یادوں کا اظہار کیا کہ انہوں نے ہمیشہ Knorr پر میگی کو ترجیح دی۔ انہوں نے کہا ’’ہم میگی نوڈلز کو بھولے نہیں ہیں۔ یہ ہمارے لڑکپن کا لازمی حصہ تھا۔‘‘
حتیٰ کہ کمپنی کا ابھی بھی یہی مؤقف ہے کہ سرحد پار ہونے والے تنازعہ کا پاکستان میں میگی کے زوال سے کچھ لینا دینا نہیں۔ نیسلے پاکستان کے ترجمان راحت حسین کا کہنا تھا ’’ان دونوں واقعات کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں فروخت کردہ میگی نوڈلز ملتان کے قریب ہماری کبیروالا فیکٹری میں تیار کئے جاتے ہیں اور بھارت میں تیار کئے گئے میگی نوڈلز کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ میگی نوڈلز سمیت نیسلے پاکستان کی تمام مصنوعات صارفین کی صحت کیلئے مضر نہیں۔ راحت نے کہا ’’ہم بھارت میں یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ میگی نوڈلز صحت کیلئے کبھی خطرہ نہیں رہے۔‘‘
تاہم نیسلے پاکستان میں میگی کی سیلز ٹیم کے سابقہ رکن نے بتایا کہ بھارت سے آنے والی خبر نے پاکستان میں میگی کی فروخت پر کافی اثر ڈالا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھارت میں میگی نوڈلز پر لیڈ کی مبینہ مقدار کا الزام لگا تو متعدد صارفین نیسلے کے میگی سے یونی لیور کے Knorr برانڈ پر منتقل ہو گئے۔
انہوں نے کہا ’’بھارت میں پیدا ہونے والی افراتفری کی صورتحال نے میگی برانڈ کی 3 دہائیوں پر مشتمل ساکھ کو نقصان پہنچایا۔‘‘
برانڈ کو بچانے کی کوشش
ایسا نہیں ہے کہ نیسلے نے اس برانڈ کو بچانے کی کوشش نہ کی ہو۔ مثال کے طور پر 2016ء میں کمپنی نے ایک بڑی اشتہاری مہم کا انعقاد کیا جس میں اس برانڈ کے اجزائے ترکیبی میں تمکیاتی اجزاء کی کمی کے ساتھ اسے زیادہ صحت بخش متعارف کروانے پر زور دیا گیا۔ کمپنی نے کم قیمت کا ’’میگی چھوٹو‘‘ بھی متعارف کروایا۔
خیال یہ ہے کہ شاید جب اس برانڈ سے متعلق صحت پر ہونے والے مضر اثرات کے خدشات اپنے عروج پر تھے یہ بہترین حکمت عملی ہرگز نہیں تھی جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ واقعی ہی پچھلے اجزائے ترکیبی میں کچھ خامی تھی اور اسی وجہ سے صارفین کا میگی پر عدم اعتماد بڑھ گیا۔
خاص طور پر وہ صارفین جن کے نزدیک نمک میں کمی کا مطلب ذائقہ پر اثر ہے۔ یہاں کے لوگ نوڈلز کے علاوہ اپنی روزمرہ خوراک میں نمک کا استعمال کرتے ہیں۔
اور اپریل 2018ء میں کمپنی نے پاکستان کے جسٹن بیبر مانے جانے والے گلوکار، شاعر اور اداکار عاصم اظہر کے ساتھ ایک اور معروف گلوکارہ آئمہ بیگ پر مبنی اشتہار کے ذریعے اپنے برانڈ میں ایک نئی روح پھونکنے کی کوشش کی جس کی ٹیگ لائن تھی ’’الجھا میگی سب سلجھائے‘‘ لیکن یہ بھی ڈوبتے برانڈ کے لئے کچھ زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوا۔
اس اشتہاری مہم کے کچھ ہی مہینوں بعد یہ برانڈ پاکستان میں ختم ہو گیا۔
میگی کے زوال کی کہانی کا ایک اور رخ
لیکن ہر کوئی اس بات سے متفق نہیں کہ پاکستان میں میگی نوڈلز کے زوال کا بھارت سے آنے والی خبروں اور اس برانڈ کے مضر صحت ہونے سے کوئی تعلق ہے۔ ایک حریف کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار کے مطابق میگی نے 2015ء سے قبل ہی Knorr کے مقابلے میں اپنا مارکیٹ حصہ کھونا شروع کر دیا تھا اور بھارت سے آنے والی میگی میں لیڈ کی مبینہ مقدار نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
انہوں نے کہا ’’یونی لیور کا Knorr برانڈ کے اجزائے ترکیبی اور فلیور پاکستانیوں کے ذائقہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں نیسلے کے برانڈ میگی کے اجزائے ترکیبی وہی ہیں جو بھارت میں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’یورپی کمپنیوں کے عہدیدار سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے عوام ایک ہی ذائقے کا کھانا کھاتے ہیں جبکہ ایسا قطعی نہیں۔‘‘
ایسا لگتا ہے کہ یونی لیور کی مصنوعات نیسلے کے مقابلے میں مقامی سطح پر بہتر طریقے سے پیش کی گئیں۔ جس کے نتیجے میں یونی لیور نے نیسلے کی مارکیٹ پر بھی قبضہ شروع کر دیا اور جس وقت میگی کا زوال تھا Knorr نوڈلز نے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی۔
کچھ بھی کہا جائے میگی کا خاتمہ ایک دھچکے سے کم نہیں اور ایسا نہ صرف کمپنی کے عہدیداروں کیلئے ہے بلکہ یہی مصنوعات تیار کرنے والی حریف کمپنیاں بھی اس سے متاثر ہوئیں۔ اس صنعت سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے ’’یہ یقینی طور پر ایک دھچکا ہے۔ میگی کو نیسلے کا مرکزی برانڈ سمجھا جاتا تھا۔ لازمی طور پر وہ نقصان کا سامنا کر رہے ہوں گے اسی لئے انہوں نے اس برانڈ کو ختم کر دیا۔ مقامی سطح پر کم آہنگی اور رابطہ کے فقدان نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا۔‘‘
Knorr اور شوپ کا عروج اور میگی کا زوال
پاکستانیوں نے میگی کی خرید تو روک دی لیکن نوڈلز کھانے سے خود کو نہ روک سکے۔ پاکستانی صارفین کے نوڈلز کی خرید پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ لگانا مشکل ہے لیکن 2016ء میں دی نیوز کی شائع کردہ رپورٹ میں نیسلے پاکستان کے حکام کے درج بیانات کے مطابق مذکورہ سال پاکستان میں نوڈلز مارکیٹ کا کل حجم 6 ارب روپے تھا۔
اور یونی لیور پاکستان فوڈز جو ایک بڑی پبلک لسٹڈ کمپنی کا ذیلی ادارہ ہے اور مقامی فوڈ کمپنی شان فوڈز نے اس حصہ پر قبضہ کی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس مارکیٹ پر نیلسن کے حالیہ مطالعہ کے مطابق یونیو لیور Knorr کا اب مارکیٹ میں حصۃ 55 فیصد ہے اور پچھلے سے ڈگمگاتے میگی کے حصص 35 فیصد تک پہنچ گئے جبکہ بقایا 10 فیصد حصۃ شان شوپ کیے پاس ہے۔
لاہور کے علاقے شادمان میں واقع سویرا اسٹور کے ایک ملازم غلام عباس نے کہا ’’اب زیادہ تر صارفین کا پہلا انتخاب Knorr نوڈلز ہیں۔‘‘
اس قسم کے تاثرات کا اظہار جلال سنز لاہور کے ایک کیشئر نے بھی کیا ’’ہمارے اسٹاک میں میگی نوڈلز ختم ہو چکا ہے۔ صارفین زیادہ تر Knorr نوڈلز خریدتے ہیں اور میگی کی مینوفیکچرنگ بند ہونے کے بعد ان کے پاس واحد انتخاب شان شوپ کا رہ جاتا ہے۔‘‘
چونکہ شوپ کا مارکیٹ میں حصہ سب سے کم ہے اس لئے میگی نوڈلز کے بند ہونے کے بعد پیدا ہونے والا خلا شان فوڈز پورا کرنے کیلئے پوری کوشش کر رہی ہے۔
شان شوپ کے ایک ڈسٹری بیوٹر کاشان رضا نے پرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’’شان اس اہم موقع کی نزاکت سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسی وجہ سے کمپنی اپنے برانڈ کی تشہیر اور ڈسٹری بیوشن کیلئے پورے ملک میں متحرک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’آپ ہر چھوٹے بڑے اسٹور پر شان شوپ کو ضرور پائیں گے۔‘‘
یہ بھی امکانات ہیں کہ نیسلے شاید پاکستان میں نوڈلز کا کاروبار مکمل طور پر بند کر دے۔ جب کمپنی سے اس بابت دریافت کیا گیا تو نیسلے پاکستان کے ترجمان راحت حسین نے کہا ’’اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہم ہر پیش رفت سے آپ کو آگاہ رکھیں گے۔‘‘
ستم ظریفی یہ کہ جس وقت نیسلے پاکستان میں میگی کی بقاء کیلئے جدوجہد کر رہا تھا اسی دوران بھارت میں یہ برانڈ اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر رہا تھا۔ اگست 2018ء میں بھارت کے سب سے بڑے فنانشل اخبار دی اکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق مذکورہ کمپنی نے کچھ سال کے زوال کے بعد بھارت میں مارکیٹ کا 60 فیصد حصہ حاصل کر لیا ہے۔
نیسلے انڈیا کی 2018ء کی آمدن تقریبا 1627 ملین ڈالر رہی جس کا 30 فیصد حصہ میگی کی مصنوعات سے کمایا گیا جو کم و بیش 488 ملین ڈالر بنتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ گورکھ پور، اتر پردیش اور کلکتہ میں جہاں کی لیبارٹریوں نے میگی پر الزامات لگائے اور افراتفری کا ماحول پیدا کیا وہاں آپ میگی نوڈلز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
دریں اثناء لاہور، کراچی اور گوجرانوالہ میں جہاں کسی قسم کی مبینہ لیڈ مقدار کی موجودگی نہیں وہاں میگی نوڈلز اب دستیاب نہیں۔