جب ہم پنجاب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں کئی قسم کے نقش ابھر آتے ہیں۔ یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا سیاسی گڑھ ہے۔ شاہی دور میں برطانوی بھارتی فوج میں تقریبا ایک چوتھائی نمائندگی پنجاب سے تھی جنہیں جنگجو کہا جاتا تھا۔ آج بھی یہ صوبہ فوج میں بھرتی کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے۔
پانچ دریاؤں کی اس سرزمین میں زمینداری سے وابستہ افراد، جاگیردار طبقہ، سیاسی رحجانات اور فوج میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان قیادت کے ساتھ ساتھ اس کی پہچان یہاں کا کسان ہے۔ اس پنجابی کسان کو اشتہارات میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
قسمت کا دھنی مونچھوں والا کسان اپنے کھیتوں میں چلتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔ ہلکے رنگ کے کرتا اور دھوتی میں ملبوس کسان جسے ڈھول کی تھاپ پر ناچتے ہوئے مسرت ہوتی ہے۔ یہ تصور کسان کی زندگی اور اس کے مسائل کی عکاسی نہیں کرتا۔ لیکن پھر بھی مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں، انٹرنیٹ پر موجود تصاویر میں، اشتہارات اور ثقافتی میلوں میں اس صوبے کی نمائندگی اسی انداز میں کی جاتی ہے۔
ہمارا نیا فیچر: پنجاب کا رحجان زراعت کی بجائے کس جانب جا رہا ہے خصوصی ویڈیو
پنجاب ہمیشہ سے ہی ایک زرعی صوبہ رہا ہے جہاں پانچ دریا بہتے ہیں، جہاں کی زمین زرخیز ہے اور جہاں میلوں پھیلے ہوئے کھیت ہیں۔ یہ تصور ابھی بھی قائم ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اس حقیقت میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے ۔ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں اور دیگر رئیل اسٹیٹ کے منصوبوں کے باعث پنجاب کا زرعی رقبہ بتدریچ سکڑ رہا ہے۔
صوبہ پنجاب کا دارالخلافہ قدیم شہر لاہور جغرافیائی اور ثقافتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان تبدیلیوں کا بھی مرکز ہے۔ ایک وقت تھا جب لاہور کو جانے والی سڑکیں شیخوپورہ، قصور اور رائیونڈ کے کھیتوں میں سے گزر کر جاتی تھیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں گزشتہ دہائی میں یہ شہر اپنی زرعی اراضی سے محروم ہو گیا اور اس اراضی پر ہاؤسنگ سوسائیٹیز، صنعتوں، شادی ہالوں، یونیورسٹی کے کیمپس، سرد خانوں اور تمام قسم کے غیر زرعی منصوبوں کا آغاز ہو گیا۔ اس پر بس نہیں کہ ان علاقوں میں قائم فارم ہاؤسز کو بھی اسٹیٹ ڈویلپرز نے نئے سرے سے تعمیر کیا اور پراپرٹی ڈیلرز نے انہیں بیچ دیا۔ ان فارم ہاؤسز میں فارمنگ کے علاوہ سب کچھ موجود ہے۔
جو کھیت بقایا ہیں جہاں فصلیں کھڑی ہیں وہ بھی کمرشل خریداروں کو فروخت کیلئے تیار ہیں۔ اور جو مالکان اپنی زرعی زمین فروخت نہیں کرنا چاہتے انہیں بھی آئے دن فروخت کی نئی پیشکش موصول ہوتی رہتی ہیں۔
لاہور کے وسیع ہونے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اتنی ہی شدت سے پوش شہری آبادیاں دیہی علاقوں کی شناخت مٹاتی جا رہی ہیں جس کے باعث تاریخی اور معاشی لحاظ سے پنجاب کا زرعی مرکز بھی اپنی شناخت کھوتا جا رہا ہے۔ حکومت کی اس مسئلہ پر سنجیدگی کے نتیجے میں اس میں خرابی کی نشاندہی کر لی ہے۔ وزیراعظم اس مسئلہ سے نپٹنے کیلئے اپنی منصوبہ بندی کا اظہار کر چکے ہیں: رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ پر روک اور زراعت پر سبسڈی۔ لیکن کیا طویل مدت کے بعد مختصر منصوبہ بندی کافی ہوگی؟ پرافٹ نے بغور جائزہ لیا ہے کہ حکومت کی عملی منصوبہ بندی کیا ہوگی اور لاہور میں حالات کتنے خراب ہو چکے ہیں اور پنجاب کی بطور زرعی شناخت کس ڈگر جائے گی؟
اصل مسئلہ
بشرط نام کی پوشیدگی محکمہ زراعت کے حکام میں سے کوئی بھی پرافٹ سے گفتگو نہیں کرنا چاہتا تھا۔ گو اس کی وجہ غیبت، ڈر یا ادارے کے ماحول کی وجہ سے ہو سکتی ہے لیکن پھر بھی جن حکام نے نام نہ لینے کی شرط پر ہم سے گفتگو کی وہ وزیر اعظم کے اس منصوبہ بندی کے جوابی تاثرات سے کچھ خاص پرامید نہیں۔
یکم مارچ 2019ء کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں دیہی علاقوں میں شہری علاقوں کی تجاوزات کو روکنے کیلئے زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے قیام پر پابندی لگا دی۔ اس کے نتیجے میں ایک اور مسئلے نے جنم لے لیا۔
پاکستانی اکیڈیمکس کے 2016ء کے ایک مطالعہ کے مطابق پچھلے 42 سال میں لاہور کی تقریبا 3 لاکھ ایکڑ زرعی زمین شہری علاقوں میں تبدیل ہو گئی ہے اور اس کے خاطر خواہ حصہ پر 250 سے زیادہ ہاؤسنگ اسکیمز قائم ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں بحریہ ٹاؤن جیسی بڑی ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے قیام سے رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں نمایاں ترقی ہوئی۔
لیکن جیسا کہ پہلے تحریر کیا گیا کہ نئی ہاؤسنگ اسکیمز پر پابندی کے اقدام سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور حکام کے مطابق یہ جنگ بے سود ہے۔ محکمہ زراعت کے کے ایک عہدیدار نے کہا ’’جن لوگوں کی لاہور میں زرعی زمینیں ہیں زراعت ان کا واحد یا مرکزی پیشہ نہیں ہے۔‘‘
حکام کی یہ رائے وزیراعظم کی اس زرعی ایمرجنسی کے نتیجے میں ملنے والے تاثرات پر مبنی ہے جس کے تحت مخمہ زراعت گنے کی پیداوار کیلئے استعمال ہونے والے آلات و مشینری کی فراہمی کیلئے پنجاب کے 36 اضلاع سے کسانوں کی درخواستیں وصول کر رہا ہے۔
حکومت کی پیشکش کیا ہے؟
اس اسکیم کے تحت حکومت جو آلات و مشینری کسانوں کو فراہم کر رہی ہے ان میں چیزل پلو، درآمدی شوگرکین پلانٹر، ارلی ہل اپ شوگرکین ریجر اور گرینول پیسٹی سائیڈ ایپلیکیٹر شامل ہیں۔ محکمہ زراعت کے حکام کا کہنا ہے ’’کسان یا درخواست دہندگان ایک یا ایک سے زیادہ آلات یا مشینری کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔‘‘
سرگودھا، بھکر، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، چنیوٹ، منڈی بہاؤالدین، قصور، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور، بہاول پور، رحیم یارخان سمیت پنجاب کے 36 اضلاع سے درخواست دہندگان متعلقہ اسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت کو 15 جنوری تک اپنی درخواستیں جمع کروا سکتے ہیں۔
سبسڈائز آلات و مشینری کے حصول کیلئے درخواستوں کی چھانٹی کا عمل 23 جنوری تک مکمل ہوگا جس کے بعد 4 فروری کو خوش نصیبوں کا اعلان کیا جائے گا اور آلات و مشینری بک کروانے کی آخری تاریخ 20 فروری ہوگی۔
محکمہ زراعت کے ایک عہدیدار نے بتایا ’’قرعہ اندازی میں کامیاب کاشتکار 15 یوم میں منظور کردہ فرم سے مجوزہ زرعی آلات و مشینری بک کرانے کا پابند ہوگا۔‘‘
کسانوں کو آلات و مشینری فراہم کرنے والی منظور کردہ فرم کے بارے میں عہدیدار کا کہنا تھا ’’ان کے ناموں کی فہرست منظوری کیلئے سول سیکریٹریٹ بھیجی جا چکی ہیں اور ان ناموں کے بارے میں ابھی آگاہ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
درخواست گزار کیلئے ضروری ہے کہ وہ 12.5 ایکڑ تک نہری زمین یا 25 ایکڑ بارانی زمین کا ذاتی حیثیت میں مالک ہو یا مزارع یا ٹھیکیدار ہو اور کم از کم 50 ہارس پاور کے ٹریکٹر کا مالک ہو۔
تفصیلات کے مطابق زرعی رقبہ کی مشترکہ ملکیت کی صورت میں خاندان کا صرف ایک فرد اس سبسڈی اسکیم کیلئے درخواست جمع کرا سکتا ہے۔
اس حل کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟
تاہم بات یہ ہے کہ مشینری اس مسئلہ کا حل نہیں ہے اور خاص طور پر لاہور میں تو قطعی نہیں جہاں لینڈ ڈویلپرز پر لاگو پابندی بچے کھچے کسانوں کو ان کی زمین کا خطیر معاوضہ ملنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی خواہش پر ایک اور اعلیٰ عہدیدار نے پرافٹ کو بتایا کہ پورے پنجاب کی نسبت لاہور سے موصول درخواستوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ انہوں نے کہا ’’لاہور کا ایک بڑا زرعی رقبہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)، بحریہ ٹاؤن اور دیگر ہاؤسنگ سوسائیٹیز کی ملکیت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاہور میں ایسے کسانوں کی تعداد بھی بہت کم ہے جن کے پاس 12.5 ایکڑ یا اس سے زیادہ امین موجود ہے۔ ایک سروے کے نتیجے میں علم ہوا کہ لاہور میں 85 فیصد کسانوں کے پاس 5.5 ایکڑ سے کم رقبہ ہے۔ کئی چھوڑے اور اوسط طبقہ کے کسان یا تو اپنی زمین کا بڑا حصہ فروخت کر چکے ہیں یا فروخت کر رہے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک کسان بہاول خان جو اپنی زرعمی زمین کا 13 ایکڑ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو فروخت کر چکے ہیں کا کہنا ہے ’’میں نے اپنی زمین ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو بیچی تھی کیونکہ زمین کمرشل ہو چکی تھی اور انہوں نے مجھے اس کا اتنا معاوضہ دیا جتنا میں سالوں کھیتی باڑی سے بھی نہ کما سکوں۔‘‘
ہاؤسنگ ڈویلپرز بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے ایک جنرل منیجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’لوگ ہمیں اپنی زمینیں بیچتے ہیں کیونکہ ہم انہیں اس کی اتنی زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں جتنی وہ زراعت سے سالوں بھی نہ کما سکیں۔‘‘
ہر جگہ ایک ہی بات۔۔۔ حیرت انگیز
ایسا لگتا ہے کہ لاہور کے کسانوں کا مستقبل امید افزا نہیں ہے اور رئیل اسٹیٹ کے ایسے ابتدائی نتائج اور سمارٹ سٹی اسکیموں کا مستقبل بھلا نظر آتا ہے۔ تاہم ہمیشہ کی طرح اس سکیم کا فائدہ بڑے کسانوں کو ہی ہو گا اور چھوٹے کسان ہمیشہ کی طرح محرومی کا شکار رہیں گے۔
چنیوٹ کے رہائشی اور گنے کے کاشتکار سید عقیل حیدر نے پرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسے لگا جیسے پنجاب حکومت کے اس عظیم اقدام سے کسانوں کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ عقیل نے کہا ’’چیزل پلو کٹاؤ سے بچاتے ہوئے زمین تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔ چیزل پلو کے استعمال کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ وہ مٹی کے اوپری حصے میں فصل کی باقیات کو چھوڑتے ہوئے زمین تیار کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس اقدام سے گنے کے ان کاشتکاروں بھی مشینوں کا استعمال کر سکتے تھے۔‘‘
اسی قسم کے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے 2.8 ایکڑ رقبے کے مالک ایک چھوٹے کسان عباس خان لغاری نے پرافٹ کو بتایا کہ اس اقدام سے صرف بڑے جاگیردار ہی مستفید ہوں گے اور ہم جیسے چھوٹے کسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، ’’حکومت کو چھوٹے کسانوں کیلئے بھی کوئی اسکیم متعارف کروانی چاہیئے تاکہ وہ بھی گنے کی کاشت کیلئے جدید آلات اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر سکیں۔‘‘
عباس خان لغاری نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ سبسڈائزڈ نرخوں پر آلات و مشینری حاصل کرنے کے اصولوں پر نظر ثانی کی جائے۔