یہ سب معیشت سے متعلق ہے (اور تھوڑا بہت فاشزم سے متعلق)

700

سال 2019ء کا اختتام دھماکہ دار تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی خواہش تھی کہ ایسا کچھ ہو جسے ہر کوئی یاد رکھ سکے۔ مسلم لیگ ن شاید اپنی اس خواہش کا اظہار ملکی معیشت پر ایک خشک، ٹیکنیکل اور ایک مشکل تجزیہ کے ذریعے کرنا چاہتی تھی۔
’’مسلم لیگ ن اکنامک کانفرنس‘‘ کے عنوان سے 17 دسمبر کو پارٹی کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال کی زیر قیادت ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں سابق چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ محمد زبیر، سابق وزیر کامرس اور معیشت دان ڈاکٹر عائشہ پاشا سمیت دیگر ن لیگ کی معاشی مشاورتی کونسل کے اراکین نے شرکت کی۔
اسی دوران مریم اورنگزیب ٹویٹر کے ذریعے اس کانفرنس کا پرچار خوب زور شور سے کرتی رہیں۔ جو یقینا ہدایات پر مبنی تھی اور انہیں ہدایات کے پیش نظر انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو کانفرنس میں جاری کردہ وائٹ پیپرز کی تردید کی دعوت بھی دے دی۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اس ساری کانفرنس کو مگرمچھ کے آنسوؤں سے مناسبت قرار دے دیا۔
اور پھر اس پریس کوریج کے بعد وائٹ پیپر کو شاید سب نے ہی فراموش کر دیا کیونکہ اس کانفرنس کے روح رواں احسن اقبال کو ایک ہفتے بعد ہی نیب نے کرپشن کے الزامات میں گرفتار کر لیا اور گفتگو کا رخ ہی بدل گیا۔
آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ پرافٹ/منافع وائٹ پیپرز کے مسئلے کو اجاگر کیوں کر رہا ہے؟ (فکر کی کوئی بات نہیں پرافٹ کے منیجنگ ایڈیٹر بھی اسی امر سے متعلق حیران دکھائی دیئے تھے۔)
اس کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ کہ اس وائٹ پیپر میں شامل اصل مواد اگرچہ دلچسپ ہے لیکن وائٹ پیپرز کی مناسبت سے اتنا اہم بھی نہیں ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کے مابین ہونے والی گفتگو ہرگز کوئی بیانیہ یا اسیٹبلشمنٹ، سپانسر شپ یا فوج کا بیانیہ نہیں بلکہ یہ ریاست کے موجودہ زرمبادلہ ذخائر اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت خرچ کئے گئے زرمبادلہ سے متعلق سوال ہے۔
مسلم لیگ ن کا جاری کردہ یہ وائٹ پیپر بنیادی طور پر گزشتہ دو سالہ کارکرگی کی ایک جھلک ہے جس میں معاشی حالات سے متعلق گفتگو، یا عالمی مالیاتی ادارے، یا ٹیکسوں کی بھرمار سمیت ایسے قومی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے جس کا سامنا عوام کو شاید پہلی مرتبہ کرنا پڑ رہا ہے۔
اور یہی امر اہم ہے کیونکہ کوئی مانے یا نا مانے اس پیپر میں ایسے امور کا احاطہ کیا گیا جن کی پہلے نشاندہی نہیں ہو سکی۔ یہ فنانشل صحافت، جمہوریت اور پہلے سے زیادہ آگاہ عوام کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔
دوسری وجہ یہ کہ وائٹ پیپرز کے دو مخصوص صفحات میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو فاشسٹ تصور کیا گیا ہے اور یہ بات ناقابل فراموش ہے۔ ٹویٹر اور دیگر بائیں بازو کے حلقوں کے علاوہ کیا پہلے کبھی کسی نے حزب اختلاف کی کسی جماعت کی جانب سے حکومتی جماعت کو کھلم کھلا فاشسٹ کہتے ہوئے سنا ہے؟
کم و بیش اس کانفرنس کی تمام کوریج میں اس بات کی اہمیت کو بہت پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ جبکہ یہ مدعا بھی قابل غور ہے۔
معیشت
یہ وائٹ پیپر جس کا عنوان ’’کلیریون کال، ریسکیو اکانومی (معیشت بچانے کیلئے اہم نکات)‘‘ تھا میں پیپر کی کمی سب نے محسوس کی کیونکہ یہ پاور پوائنٹ کی 11 سلائیڈز سے زیادہ مشابہہ تھی۔ اگرچہ بھارت کے مقابلے میں تحریک انصاف کی معاشی ناکامیوں کے اظہار کیلئے ایک معقول وقت تھا لیکن بیشتر وقت عمران خان کی معاشی حکمت عملی پر تنقید میں گزرا۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے ’’عمران خان کی حکومت میں 21 کروڑ پاکستانی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، نیشنل سیکیورٹی اور معاشی پالیسی تباہ کن انتظامی نا اہلی کا شکار ہیں، اس دور حکومت میں عوام کی ترقی کی شرح میں کمی رہی اور پاکستانیوں کے شہری حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘‘
مسلم لیگ ن کے وائٹ پیپرز جاری کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے اعتبار سے معیشت کا حجم ہے۔ پیپر کے مطابق 2018ء میں مسلم لیگ ن کے دور کے اختتام پر جی ڈی پی کا حجم 315 بلین ڈالر تھا جبکہ عمران خان کی حکومت کے پہلے سال میں ہی یہ حجم 275 بلین ڈالر رہ گیا۔
اس پیپر کے مطابق ’’عمران خان کے دور حکومت میں جی ڈی پی کی شرح 3 فیصد سے بھی نیچے گر گئی جبکہ ن لیگ دور میں یہ شرح 5.8 فیصد تھی۔‘‘
دوسری وجہ یہ کہ افراط زر کی شرح جو جون 2018ء میں 3.9 فیصد تھی بڑھ کر نومبر 2019ء میں 12.7 فیصد تک پہنچ گئی۔ مسلم لیگ ن نے قبول کیا کہ ان کے دور حکومت میں بھی یہ شرح 3 فیصد سے نیچے گئی تھی (30 جون 2016ء میں یہ شرح 2.9 فیصد تھی)۔ پیپر کے مطبابق افراط زر کی شرح میں اضافہ پہلے سے موجود مسائل میں ایک بڑا اضافہ ہے۔
باعث پریشانی امر یہ کہ افراط زر کی بلند شرح کے باعث ملک میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ اس پیپر میں دعویٰ کیا گیا ہے ’’محض 16 مہینوں میں 80 لاکھ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے پہنچ گئے ہیں۔‘‘ مسلم لیگ ن کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوا کہ جون 2020 تک غربت کی شرح 40 فیصد تک جا پہنچے گی۔
تیسری وجہ یہ کہ جیسے مسلم لیگ ن نے کہا کہ مالی خسارہ بلند ترین شرح 8.9 فیصد کی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ’’یہ پاکستان کی 40 سالہ تاریخ میں مالی خسارہ کی بدترین صورتحال ہے۔‘‘
وائٹ پیپر میں ٹماٹروں کے ذکر کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ اور ڈی فیکٹو وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھی تنقید کی گئی۔ وائٹ پیپر میں درج کیا گیا ’’ٹماٹر کی قیمت میں ناقابل یقین حد تک 437 فیصد اضافہ کیا گیا‘‘ اور ’’اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ مشیر خزانہ ٹماٹروں کی بڑھتی قیمت سے بے خبر نکلے۔ جب انہوں نے ٹماٹر کی قیمت 17 روپے فی کلو ہونے کا دعویٰ کیا اس وقت مارکیٹ میں ٹماٹروں کی قیمت 350 روپے فی کلو تھی۔‘‘
ٹماٹروں کی بات کو ایک جانب رکھ کر دیکھا جائے تو علم ہوگا کہ مذکورہ بالا اعداد و شمار کسی حد تک ٹھیک ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے آخری سال کا مقابلہ تحریک انصاف کے پہلے سال سے کر رہی ہے جس میں اس امر کو فراموش کر دیا گیا کہ ہر پاکستانی حکومت پھر چاہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہو، پاکستان مسلم لیگ ن ہو یا پھر پاکستان تحریک انصاف کو بدحال معیشت ہی ورثہ میں ملی۔ اور یہ بات 2008ء، 2013ء اور 2018ء پر صادق آتی ہے۔ یہ باعث افسوس امر ہے کہ پاکستان میں ہم کسی سیاسی جماعت کی معاشی پالیسی کے بارے میں یقین سے کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ اس کی بجائے ہمیں فیصلہ کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیئے کہ ماضی کی کسی جماعت نے کتنی مہارت اور تیزی سے معاشی خسارے پر قابو پایا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے پیش کردہ تجزیے میں ایک بات تو بلاشبہ درست تھی ’’پاکستان تحریک انصاف ہماری معاشی خامیوں کو اس خوش اسلوبی سے درست نہیں کر رہی جس طرح ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی کی خامیوں کو درست کیا تھا۔‘‘
اگر دیکھا جائے تو اس وقت مسلم لیگ ن نے صحیح کام کیا تھا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ملے گئے موروثی معاشی مسائل کی نشاندہی ضروری تھی۔ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح تقریبا 3.5 فیصد تھی اور بیرون ملک زرمبادلہ کے ذخائر لگ بھگ 6.5 بلین ڈالر کے قریب تھے۔ مسلم لیگ ن کی پالیسیوں نے اس صورتحال کو بہتر کیا تھا۔
سب سے پہلے انہوں نے وہی کیا جو تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے آغاز میں کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس گئے اور 3 سالہ مدت پر 6.68 بلین ڈالر کا قرض لیا تاکہ ڈوبتی معیشت کو سہارا مل سکے۔ دوسرا انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر خاطر خواہ توجہ دی جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں پر زیادہ سرمایہ کاری کی گئی۔
بدقسمتی سے یہاں تصویر کا مثبت رخ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ملک کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کی بجائے اسے ایک صارف ملک بنا دیا۔ حتیٰ کہ شرح سود کی کم شرح بھی معیشت کی کشتی اس طرح پار نہ لگا سکی جیسا کہ امید کی جا رہی تھی اور اس کی ایک وجہ نجی شعبے کی جانب سے سرمایہ کاری میں عدم دلچسپی تھی۔
اور جس فعل نے سب سے زیادہ گڑبڑ پھیلائی وہ روپے کی قدر میں بدترین کمی تھی۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے وائٹ پیپر جاری کرتے ہوئے پوری گفتگو کے دوران تمام اعداد و شمار تو گنوا دیئے مگر روپے کی قدر میں کمی کے مسئلے کو زیادہ وقت نہ دیا ہو۔ البتہ انہوں نے بہادرانہ یا احمقانہ طور پر ہی سہی لیکن ڈالر کی قیمت میں 44 روپے کے اضافے کو ایک ’بڑا بلنڈر‘ کہا۔
پیپر میں تحریر کیا گیا’’روپے کی قدر میں تباہ کن حد تک کمی ہوئی، برآمدات میں کمی ہوئی، افراط زر میں اضافہ ہوا اور بیرون ملک سے درآمدات کے باعث صنعتوں کو نقصان پہنچا۔‘‘ مزید لکھا گیا ’’پاکستانی روپے کی قدر میں 40 فیصد تک کمی کے باوجود مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری سال مثبت 12.8 فیصد کے مقابلے برآمدات میں منفی 1.3 فیصد کمی ہوئی۔‘‘
روپے کی قدر میں کمی کا رحجان مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے وراثت میں ملا جسے پاکستان تحریک انصاف درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
دراصل پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے پیپر میں خود ہی اپنے سوال کا جواب دے دیا ’’اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کو بہتر کرنے کا مثالی انداز یہ ہے کہ اپنی برآمدات میں اضافہ کیا جائے جبکہ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔‘‘ اگر ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو بدقسمتی سے تاحال پاکستان تحریک انصاف اس میں ناکام رہی ہے۔
فاشزم (فسطانیت)
پاکستان کی سیاسی فضا میں اس لفظ کے بارے میں سوچنا ہی پریشان کن ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہمارے پڑوسی ملک کی حکومت ایسی پالیسیاں تیار کرنے میں مصروف ہے جس کا موازنہ ہم فسطانیت سے کر سکتے ہیں اور جہاں عام طور پر دائیں بازو کی جماعتوں کی حکمرانی ہے۔
یقینا یہ ایک بھرپور دنیا ہے۔ پہلے ہم فاشزم یا فسطانیت کی درسی کتابوں میں بیان کی گئی تعریف پر نظر ڈالتے ہیں ’’ایک سیاسی فلسفہ، تحریک یا حکومت جو اکثر نسل کے اعتبار سے لیکن قومیت کو فوقیت دے، فرد سے بالاتر ہو اور ایک آمرانہ حکومت کی سربراہی میں ایک مرکزی خود مختار حکومت کا حامی ہو جہاں سخت قسم کی معاشی اور گروہ بندی ہو اور اپوزیشن کی فضا نہ ہو۔‘‘
اگر آپ حزب مخالف ہیں تو آپ کو پاکستان تحریک انصاف ایک فسطانی جماعت لگ سکتی ہے جس کی سربراہی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے جمہوری طور پر منتخب ایک آمرانہ سوچ رکھنے والا لیڈر کر رہا ہے جو طاقت کے زور پر حزب مخالف کو کچلنا چاہتا ہے۔
اسی وجہ سے پیپر میں درج کیا گیا ’’عمران خان کی حکومت کے پہلے سال میں میڈیا مکمل سینسر شپ کا شکار رہا جس کا علم تمام دنیا کو ہے اور تمام صحافتی تنظیموں کی جانب سے متعدد مرتبہ اس کے خلاف مظاہرے بھی کئے گئے۔‘‘
اس پیپر کے مطابق چینلز کو آف ایئر کیا گیا، پاکستان مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویوز نشر ہونے سے روکے گئے۔ مریم نواز کی ریلیوں کی میڈیا کوریج سے بھی روکا گیا۔
اور سب سے اہم ’’پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حتک آمیز رویہ، دھمکیاں اور تنقید پر گالی گلوچ کو بہت تقویت ملی۔‘‘
آخر پرافٹ/منافع میں اس بات پر چرچا کیوں کی جا رہی ہے؟ سب سے پہلی بات کہ بطور ایک اشاعتی ادارہ ہم ملک، امور خزانہ اور دیگر مدعوں پر اظہار رائے کی آزادی رکھتے ہیں۔ دوسری بات کہ سب آزادی رائے کا یہ حق محفوظ رکھتے ہے کہ کوئی مسلم لیگ ن کی بات مانے یا نہ مانے لیکن یہ امر بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں پریس پر اشرافیہ اور حکومت کا دباؤ ہے۔
اور سب سے اہم غیر یقینیت کا ماحول ہے یا ایسا ماحول جہاں انصاف کا فقدان ہو یا میڈیا پر سینسر شپ ہو جو کہ معیشت کیلئے بالکل اچھا نہیں۔
معیشت پر گفتگو کا دائرہ کار صرف اعداد و شمار کی کمی بیشی تک محدود نہیں۔ بلکہ ٹیکس چوروں یا نہری نظام پر لاگو آبیانہ ٹیکس میں خرابیوں یا ہمارے شوگر مافیہ کے بارے میں بات کرنا بھی اس کا حصہ ہے۔ اور یہ سب آزادی اظہار کا ماحول پیدا کرنے پر منحصر ہے پھر چاہے تحریک انصاف، ن لیگ یا پیپلز پارٹی کی حکمرانی ہو۔
اگر تحریک انصاف اسی طرح معاشی نظریے کے متبادل نظریے پر چلتی رہی تو یہ مجموعی طور نہ معیشت کیلئے بہتر ہوگا نہ ہی عوام کیلئے۔
اختتام
سو اس سب کا نتیجہ کا نکلا؟ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ اس وائٹ پیپر کے جاری ہونے کے ایک ہفتے بعد ہی نیب نے اسپورٹس کمپلیکس میں کرپشن کے الزامات پر احسن اقبال کو حراست میں لے لیا۔
اگر آپ تحریک انصاف کے حامی ہیں تو یہ نئے پاکستان میں ایک اور دن کے علاوہ کچھ بھی نہیں جہاں آخر کار ایک حکومت کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب کر رہی ہے۔ اگر آپ مسلم لیگ ن کے حامی ہیں تو یہ بھی نئے پاکستان میں ایک اور دن ہے جہاں ہر لحاظ سے معزز سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کی حامل ایک فسطانی انتظامیہ کے زیر اعتاب آئے ہوئے ہیں۔
اور اس گڑبڑ میں ہماری معیشت ایک مکے برسانے والے بیگ کی مانند ہے جس پر دونوں حریف اپنی حکومت کے کم مالی خسارے کے دعووں کے پرزور مکے برسا رہے ہیں۔
در حقیقت ’معیشت‘ اور ’سیاسی آزادی‘ دونوں ہم قدم چلتی ہیں۔ پاکستان میں اکثر دونوں کا تذکرہ الگ الگ حلقوں اور فورمز پر کیا جاتا ہے جو دونوں کیلئے ہی نقصان دہ ہے۔ اور اسی وجہ سے وائٹ پیپرز کا مطالعہ اور جائزہ کرنا ہر سیاسی جماعت اور شہری کیلئے اہم ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here