پچھلے 5 سالوں سے گل احمد کی انتظامیہ سب کو یہی کہہ رہی ہے کہ یہ کمپنی مقامی ریٹیل کے شعبے پر روایتی برآمدات سے زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ اور کیونکہ یہ کمپنی اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہی ہے تو پاکستان میں حالیہ معاشی بحران اور روپے کی قدر میں گراوٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا اگر ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ رواں سال مذکورہ کمپنی کی برآمدات ریٹیل کاروبار سے بہتر رہی ہیں۔
ایک سیکیورٹی بروکریج فرم ان سائٹ سیکیورٹیز سے تعلق رکھنے والے ایک ریسرچ اینالسٹ سعد حنیف نے 11 دسمبر کو اپنے کلائنٹس کو جاری کئے گئے ایک نوٹ میں لکھا ’’مقامی سطح پر فروخت ہونے والے برانڈ آئیڈیاز کی شرح ترقی سست روی کا شکار ہونے کی وجہ سے 4 فیصد مقامی فروخت کی نسبت برآمدات کے شعبے میں 30 فیصد اضافہ کے ساتھ گل احمد ٹیکسٹائل ملش لمیٹڈ کی مجموعی آمدن میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘
گزشتہ 3 سال میں مقامی سطح پر گل احمد کی اپنی مصنوعات کی فروخت میں 26 فیصد اضافہ ہوا اور اس فروخت میں کمی کی وجہ حالیہ معاشی حالات ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ سہ ماہی میں فروخت میں کمی کی وجوہات میں سے ایک ضرور ہو سکتی ہے۔ تاہم معاشی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ٹیکس نظام میں تبدیلی کے حکومتی فیصلہ کے بعد ریٹیلرز کو درپیش صورتحال بھی اس کی ایک وجہ ہے۔
حنیف نے لکھا ’’ہمارا ماننا ہے کہ مقامی فروخت پر 13 فیصد سیلز ٹیکس کا اس شعبہ پر منفی اثر پڑے گا۔‘‘
ان سائٹ سیکیورٹیز کے اس نوٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے ریٹیلرز پر عائد جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 13 فیصد بیان کی گئی ہے جبکہ حکومت کے ڈیجیٹل معاشی نظریہ کے پیش نظر اپنے کاروبار کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں رجسٹر کروانے والے ریٹیلرز کیلئے سیلز ٹیکس کی شرح نسبتا کم ہے۔ نئے قوانین کا زیادہ اثر گل احمد جیسے بڑے ریٹیلرز پر پڑے گا۔
جیسا کہ ایکسپریس ٹریبیون میں شہباز رانا نے ’’درجہ اول کے ریٹلرز‘‘ کو یوں بیان کیا ہے ’’ایسے ریٹیلرز جن کی کسی بڑے ائیر کنڈیشنڈ شاپنگ مال، پلازہ یا کمرشل عمارت میں قومی یا بین الاقوامی اسٹورز کی چین ہے، ایسے ریٹیلرز جن مسلسل 12 مہینے بجلی کا بل 6 لاکھ روپے سے زائد ہو اور ایسے ریٹیلرز جو ہول سیلرز اور عام صارفین کیلئے بڑی مقدار میں روزمرہ استعمال کی اشیاء درآمد کرتے ہیں۔‘‘
پھر بھی نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے گل احمد کے اندرون ملک عام آدمی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بڑی چین قائم کرنے کے منصوبہ میں کچھ رکاوٹ کا باعث ضرور بنا ہے حالانکہ بیرون ملک بین الاقوامی برانڈز کو بھی کپڑا برآمد کیا جا سکتا ہے جس میں منافع یقینی ہے لیکن اس منافع کا بڑا حصہ برانڈ کے مالک کے پاس چلا جاتا ہے اور ایک مختصر منافع مینوفیکچررز کے پاس آتا ہے۔
ریٹیل کی طرف جھکاؤ کا خیال کوئی نیا نہیں بلکہ انتظامیہ کافی عرصے سے اس پر کام کر رہی تھی۔ پاکستان کے دوسرے کپڑے کے برآمد کنندگان کے برعکس کئی دہائیوں سے گل احمد کا پاکستانی مارکیٹ میں اپنا مقامی برانڈ موجود ہے۔ آئیڈیا کی دکانیں تقریبا 10 سال سے قائم ہیں۔ اب اگر کچھ نیا ہے تو وہ یہ خیال ہے کہ یہ کمپنی اپنی آمدن کا زیادہ تر حصہ مقامی سطح پر فروخت سے حاصل کر سکتی ہے۔
اس فیصلے کے پیچھے گل احمد کے بانی بانی بشیر علی محمد کے بیٹے اور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر زکی بشیر کا نظریہ کار فرما ہے جو ٹیکسٹائل کی دنیا میں ایک معروف نام ہے، ان کا خاندان 1940ء سے کپاس کے کاروبار سے وابستہ ہے اور کئی دہائیوں سے اس خاندان کے زیر ملکیت پاکستان کی سب سے بڑی پیپسی بوٹلنگ کمپنی ہے۔
امریکہ کے بیبسن کالج (Babson College) کے گریجوایٹ زکی بشیر نے 2005ء میں گل احمد میں شمولیت اختیار کی جہاں 2014ء میں سی ای او بننے سے پہلے انہوں نے اپنے والد کے زیر تربیت تمام کاروباری امور پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ ریٹیل کا کاروبار کمپنی کیلئے زیادہ سودمند ثابت ہوگا۔
یہ وہ وقت تھا جب اپنے مینوفیکچرنگ یونٹس چلانے کیلئے قدرتی گیس کی عدم فراہمی یا بندش کے باعث ٹیکسٹائل کے مینوفیکچررز ایک ابتر دور سے گزر رہے تھے۔ قدرتی گیس کا طویل تعطل بھی گھنٹوں دیری کا باعث بنتا تھا جس کی وجہ سے ایکسپورٹ آرڈرز کو بروقت مکمل کرنا انتہائی مشکل تھا۔
مرد کے کندھے سے کندھا ملا کر جب خواتین نے بھی کام کا بیڑہ اٹھایا تو مقامی سطح پر ریٹیل کے کاروبار نے تیزی سے پھیلنا شروع کر دیا۔ 2001ء سے 2013ء کے دوران ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد 16 فیصد سے بڑھ کر 24 فیصد تک پہنچ گئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریبا 90 لاکھ خواتین نے ملازمتیں اختیار کیں۔ ان خواتین نے ملازمتوں کا طور ہی بدل دیا۔ ملک کے کارپوریٹ شعبہ میں اپنی خدمات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین نے ایسے کام بھی کئے جس کیلئے شاید ہو پہلے آزاد نہیں تھیں۔
جیسے جیسے ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد بڑھتی گئی ویسے ویسے دوران کام پہننے والے کپڑوں کی ضرورت بھی بڑھ گئی اور اس کے بعد خواتین کے تیار ملبوسات کے ڈیزائنرز کی مانگ میں تیزی سے اضافہ شروع ہو گیا۔ اور ملازمت پیشہ خواتین کیلئے مناسب لباس کیلئے ’’لان‘‘ ہی زیادہ تر کا انتخاب ہوتا ہے جو کپاس سے تیار کردہ کپڑے کی ایک ہلکی قسم ہے اور نسبتا سستی اور جاذب نظر بھی ہے۔
جہاں لان دفاتر میں ملازمت کرنے والی خواتین کیلئے سستے ملبوسات کا بہترین انتخاب ہے وہیں امراء کی بڑی میں پارٹیوں میں شرکت کیلئے امیر طبقے کی خواتین اسی کپڑے کے مہنگے ملبوسات زیب تن کرتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ کپڑے کی مارکیٹ کا ایک وسیع المقاصد حصہ ہے جس سے ایک ٹیکسٹائل کمپنی غالبا ملک کی تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کی کپڑوں کی ضروریات پورا کر سکتی ہے۔ اور پاکستان میں ملازمتوں میں خواتین کی شمولیت اور معاشی طور پر بااختیار بننے کیلئے مزید خواتین بھی آگے آنا چاہتی ہیں۔
کھاڈی اور جنید جمشید جیسے ریٹیلرز مقامی مارکیٹ میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے منافع بخش کاروبار کر رہے تھے۔ گل احمد جو لان کے حقیقی مینوفیکچررز ہیں وہ اس رحجان کا حصہ کیوں نہ بنتے۔
مقامی سطح پر فروخت میں یہ حالیہ کمی گل احمد کیلئے کوئی بڑا دھچکا نہیں جسے وہ پورا نہ کر سکیں۔ کمپنی کی انتظامیہ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ وہ مقامی سطح پر اپنے کام میں سرمایہ کاری جاری رکھیں جو ان کی پالیسی بھی رہی ہے۔