کیا تانیہ ایدروس ڈیجیٹل پاکستان کا خواب پورا کر سکیں گی؟

1238

آج کل پاکستان میں ہر چیز کی شروعات واٹس ایپ فارورڈ سے ہوتی ہے۔ جمعرات 5 دسمبر کو سنگاپور میں مقیم پاکستانیوں کے ایک حلقے کے واٹس ایپ میں تانیہ ایدروس کا نام گردش کرتا نظر آیا۔ یہ اصل میں وزیراعظم آفس کے آفیشل یو ٹیوب چینل کا لنک تھا۔ پاکستانی وقت کے مطابق شام کے 5 بجے وفاقی دارالحکومت میں ڈیجیٹل پاکستان کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر متوقع تھی۔
پاکستانیوں کے ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے، بینکر حضرات، گھریلو اور حتیٰ کہ بزرگوں کے واٹس ایپ گروپ میں بھی یہ لنک جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل گیا۔ شام 5 بجے سے کچھ قبل پاکستان کے تمام نیوز چینلز پر سوالات اور قیاس آرائیوں کے لا متناہی سلسلے کا آغاز ہو گیا: تانیہ ایدروس کون ہے؟ وزیراعظم نے انہیں کس منصب کیلئے بلایا ہوگا؟
میرون رنگ کے روایتی لباس میں ملبوس تانیہ ایدروس نے 13 منٹ کی تقریر کی۔ ڈیجیٹل پاکستان پر ان کے اظہار خیال کو سننے والوں میں وزیراعظم عمران خان، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کے ساتھ ساتھ ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ پنجاب جہانگیر ترین (ہم جانتے ہیں کہ ٹیکنیکلی عثمان بزدار اس عہدے پر براجمان ہیں مگر پھر بھی۔۔۔ بحث بے سود) بھی شامل تھے۔ اس تقریر میں وائرل ہونے کیلئے تمام مصالحہ جات موجود تھے۔ ٹی وی چینلز کے علاوہ ایک دفعہ پھر واٹس ایپ گروپس میں یہ تقریر گردش کرتی رہی۔
اچانک ہی تانیہ ایدروس ایک حیرت انگیز طور پر گوگل کی نامعلوم مگر انتہائی قابل ملازم نکل آئیں جن کا انتخاب نیا پاکستان کے ڈیجیٹل وژن میں بطور مسیحا کیا گیا تھا۔ لیکن ڈیجیٹل دور کے آغاز میں رہنمائی کرنے والی تانیہ ایدروس کا بطور خود ڈیجٰیٹل دنیا سے کچھ دور ہی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ انسٹا گرام یا فیس بک استعمال نہیں کرتیں، زیادہ تر لنکڈ ان کا استعمال کرتی ہیں یا کبھی کبھار کوئی ایک آدھا ٹویٹ کر دیتی ہیں۔ انہوں نے سال 2018ء میں 12 مرتبہ اور سال 2019ء (تا دسمبر 5) میں 8 مرتبہ ٹویٹ کیا۔
اب تبدیلی آ گئی ہے۔ ان کے ٹویٹر پر فالورز کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ لوگ ان کی اردو یا ان کی سی وی سے لے کر ان کے نام کے عجیب حروف تہجی پر بھی آن لائن بحث کر رہے ہیں۔
آخر تانیہ ایدروس کون ہیں اور کیا وہ اپنے وعدے وفا کر پائیں گی؟
تانیہ ایدروس کے اپنے الفاظ میں وہ سب سے پہلے دل سے پاکستانی ہیں۔
پرافٹ/منافع کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا ’’میں پاکستان میں ایک خاص مقصد کیلئے آئی ہوں۔ مجھے اس ملک اور یہاں کے لوگوں میں موجود بھرپور صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے۔‘‘
کراچی سے تعلق رکھنے والی تانیہ نے سائنس میں بیچلرز ڈگری امریکہ کی برانڈیس یونیورسٹی (Brandeis University) سے حاصل کی اور ایم آئی ٹی سلوان سکول آف منیجمنٹ ( MIT Sloan School of Management) سے ایم بی اے کیا۔
کسی حکومت کے ساتھ کام کرنے کا ان کا یہ پہلا تجربہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی ایک واشنگٹن ڈی سی میں واقع ایک بڑی کنسلٹنگ کمپنی بوز ایلن ہیملٹن (Booz Allen Hamilton) میں ملازمت کے دوران امریکی حکومت سمعیت متعدد کمپنیوں کے لئے بطور کنسلٹنت اپنے فرائض سر انجام دینے چکی ہیں۔ تانیہ ایدروس کلک ڈائگناسٹک (ClickDiagnostics) جیسے اسٹارٹ اپ کی شریک بانی بھی ہیں جس نے گنجان آباد علاقوں سے تعلق رکھنے غریب مریضوں کو ڈاکٹر کی خدمات میسر کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
اس کے بعد 2008ء میں انہوں نے گوگل میں مستقل ملازمت اختیار کر لی جہاں وہ امریکہ میں گوگل کے زیر انتظام گلوبل بزنس آرگنائزیشن میں کام کرتی رہیں اور پھر 7 سال قبل وہ سنگاپور منتقل ہو گئیں۔
سنگاپور ایک ایسی جگہ تھی جہاں تانیہ خود کو گھر کے قریب محسوس کرتی تھیں۔ وہ ساؤتھ ایشیا فرنٹیئر مارکیٹس کی کنٹری منیجر کے اہم عہدے پر فائز تھیں جس سے انہیں پاکستان کے حالات کا قریبی جائزہ لینے کا موقع دستیاب ہوا۔ ان کی ذمہ داریوں میں انٹرنیٹ ایکو سسٹم، صارفین کی پیداواری عمل میں حصہ داری اور جدت کا فروغ شامل تھا۔
دوسری ٹیکنالوجی کمنپیوں کی طرح گوگل سنگاپور میں بھی پاکستانیوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے ہو سکتا ہے دوسرے ممالک کی نسبت یہاں ٹیلنٹ کا فروغ کم ہو۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ ٹیک کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ گو کہ پرافٹ/منافع نے کنٹریکٹ کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر گوگل کے حالیہ ملازمین کے کمنٹس شائع نہیں کئے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ تانیہ ایدروس کو منتخب کرنے کی وجہ ان کی قائدانہ صلاحیتیں ہے جس کی ایک دنیا معترف ہے۔
تیزی سے ترقی پاتے ہوئے وہ گوگل میں نیکسٹ بلین یوزرز (Next Billion Users – NBU) کی ڈائریکٹر پروڈکشن منیجمنٹ تعینات ہوئیں۔ این بی یو کی ٹیم کی توجہ کا مرکز نئی پراڈکٹس اور سروسز کی تیاری تھی جس کے ثمرات و اثرات میں ٹرینڈز سے آگاہی اور تیزی سے ترقی کرتی مارکیٹوں میں صارفین کی ضرورت شامل ہیں۔ ان کی انجام کردہ ذمہ داریوں کی فہرست میں سے ایک بھارت میں گوگل پے متعارف کروانا ہے جو پہلے تیز (Tez) کے نام سے جانی جاتی تھی۔
تانیہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’میں نے گوگل میں تقریبا 10 سال کام کیا لیکن پچھلے 3 سال سے میں نیکسٹ بلین یوزرز پر کام کر رہی تھی جس کی توجہ ادائیگیوں پر مرکوز تھی۔ میں نے بیشتر وقت ریاستوں میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور نقد سے ڈیجیٹل معیشتیں بننے کے سفر کو سمجھنے میں بھی گزارا۔‘‘
یہ تقریبا پچھلے سال کی بات ہے کہ وزیراعظم کی اصلاحاتی ٹیم کے ایک رکن نے انہیں ای میل کی اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ پاکستان حکومت میں ایک اہم کردار ادا کرنا چاہیں گی۔ مہینوں پر محیط اس عرصے میں کئی فون کالز، اسلام آباد کے متعدد دورے اور جہانگیر خان ترین کے علاوہ بذات خود وزیراعظم کی ملاقات بھی شامل ہے جس کا خلاصہ ہم سب نے قومی ٹی وی چینل پر خود بھی دیکھا۔
ڈیجیٹل پاکستان کا اقدام
ڈیجیٹل پاکستان کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے تانیہ نے جدت کیلئے لازم 5 بنیادی ستون کا تذکرہ کیا۔
تانیہ کہتی ہیں کہ جدت کا پہلا لازمی ستون رسائی اور روابط ہے۔ ہمارے دور کی عظیم جمہوریت میں روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورت پر زور دیا گیا جب کہ اس دور میں روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ انٹرنیٹ بھی لازم جزو بن گیا ہے۔
دوسرے ستون پر روشنی ڈالتے ہوئے تانیہ نے کہا کہ پاکستان میں نادرہ کے باعث پہلے ہی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر موجود ہے جہاں سرکار کے پاس پورے ملک کے لوگوں کی بائیومیٹرک تفصیلات موجود ہیں۔ انہوں نے دیگر شعبہ جات کی سروسز کے علاوہ ادائیگیوں کے نظام کو مربوط کرنے کیلئے نادرہ کی اہمیت پر زور دیا۔
تیسرے ستون کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے پروکیورمنٹ پر زور دیا جس پر پاکستانی حکومت سالانہ 3 ارب روپے خرچ کرتی ہے جس میں زیادہ خرچہ کاغذ کا ہے جبکہ ڈیجیٹلائزیشن کے بعد یہ صرف بچت ہوگی۔
چوتھا ستون مستقبل کی نسل کو تبدیلیوں کیلئے تیار کرنے سے متعلق ہے۔ اس بارے میں تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا ’’ہماری آئندہ نسل ڈیجیٹل اکانومی میں حصہ لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔‘‘
اور آخر میں پانچواں ستون۔ تانیہ کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، نئے کاروباروں کو سہولیات، ان کے اکاؤنٹس مرتب کرنے میں مدد اور کاروبار کو فروغ دینے کیلئے روپے کی فراہمی کو ممکن بنانا چاہیئے،۔
یہ تقریر پاکستانی حب الوطنی، سیلیکون ویلی سے متاثر اور پرانی روایات کے مرکبات سے بھرپور تھی۔ تمام تنقید کے باوجود تانیہ جو کچھ پاکستان کیلئے کرنا چاہ رہی ہیں اس کی ستائش بہت سہل ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ڈیجیٹل ہونے کا مطلب محض کمپیوٹرز کی زیادہ تعداد سے اخذ کیا جاتا ہے وہاں تانیہ ایدروس قومی سطح پر پاکستانی طریقے سے اپنا ڈیجیٹل بیانیہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ہمارے فہم کے قفل کو کھولنے کیلئے تانیہ ایدروس کا سوال تھا : ڈیجیٹل پاکستان کیسا دکھتا ہوگا؟
ڈیجیٹل پاکستان
پاکستان کی طویل مدتی ترجیحات کیا ہونی چاہیئں اور پاکستان کے پاس ایسا کیا ہے اور کیا ہونا چاہیئے؟ اس سوال کا احاطہ 2 نکات سے کیا جا سکتا ہے
پہلا نکتہ: اگر ڈیجیٹل انداز میں کہا جائے تو پاکستان کچھ مختلف ملک نہیں۔ جو بھارت، انڈونیشیا، تھائی لینڈ یا فلپائن میں ہو سکتا ہے وہ پاکستان میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان پاکستانی کچھ مغالطوں کا شکار ہیں: پاکستانیوں کو ایک بیانیے نے اپنی جکڑا ہوا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے مسائل کچھ وکھری قسم کے ہیں۔ ان میں سے اکثر مسائل جغرافیائی و سیاسی نوعیت کے ہیں جیسے پاک افغان تعلقات، اسی طرح مشرق وسطیٰ اور ایران کے ساتھ۔
یہ بات کیوں ضروری ہے؟ اس بیانیے کی مضبوط پکڑ کے باعث ہم بھول گئے کہ اپنے مسائل کے ادراک اور بہتر مستقبل کیلئے ہم مغرب کی طرف دیکھنے کی بجائے ہم مشرق کا رخ کر سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی مارکیٹ میں کسی قسم کی کمی تھی مگر اس جغرافیائی و سیاسی بیانیے کو حاصل تقویت کو ختم کرنا بہت مشکل تھا۔ اور اب جب باہر کے ممالک سے کمپنیاں واقعی پاکستان میں آنا چاہتی ہیں تو ان کیلئے یہ ماحول سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور اس لئے وہ رہنمائی کیلئے حکومتی بیانیے پر ہی انحصار کر لیتی ہیں۔
مسئلہ ہماری حالیہ حکومت کا اور اس پہلے کی حکومتوں کا بھی جو خود کا کوئی بیانیہ فراہم ہی نہ کر سکیں۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ آخری مرتبہ کسی حکومتی عہدیدار نے جنوبی مشرق کے ایشیائی ممالک سے کچھ سیکھنے کی بات کی ہو؟ تانیہ ایدروس نے اپنی تقریر میں حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا ’’جہاں انڈونیشیا 9-8 سال پہلے تھا پاکستان اس جگہ پر کھڑا ہے۔ پچھلے 10 سال میں انڈونیشیاء میں 5 ارب ڈالر سے زائد اثاثے رکھنے والی کمپنیاں وجود میں آئی ہیں۔ جبکہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں اگلے 5 سال میں 5 ارب ڈالر سے زائد رکھنے والی کمپنیاں نہ بن سکیں۔‘‘
اور پاکستانیوں کے ذہن میں جو ترقیاتی ماڈل نقش ہے وہ یا تو دبئی (جہاں پیسہ زمین سے نکلتا ہے) کا ہے یا پھر مغرب کا (جن کی خواہشات کا محور ابھی بھی نوآبادیاتی نظام ہے)۔
محور پرستی کو چھوڑ کر ڈیجیٹل مستقبل کی اصل تصویر ذہن میں کیسے لائی جائے۔ اور خاص طور پر اس وقت جب بات ڈیجیٹل تبدیلیوں کی ہو رہی ہو جیسا کہ دنیا کی دوسری مارکیٹوں میں ہو رہا ہے۔ ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی کئی رائیڈ شیئرنگ، ڈیموکریٹائزنگ ٹرانسپورٹ، ای کامرس اور ڈیجیٹل والیٹ جیسی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں کم و بیش ایک وہی طرح کی ہیں۔ پاکستان میں ان کی مثال اوبر/کریم، ایئرلفٹ/سویول، دراز پی کے، ایزی پیسہ/جاز کیش سے لی جا سکتی ہے۔
ایک ڈیجیٹل شہری کا مطلب کیا ہوتا ہے اس بارے میں طویل مدتی ڈیجیٹل مستقبل میں بحث کے کئی پہلو ہیں۔ 2009ء میں بھارت میں متعارف کروائی جانے والی آدھار (Aadhaar) کو اکثر اوقات بائیومیٹرک نشاندہی کی ہی ایک قسم سمجھا جاتا ہے جو ملک کو ڈیجیٹائز کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ گزشتہ سالوں میں آدھار کو ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا رہا۔ اب ان کمپنییوں (جو حکومت کی طرح جواب دہ نہیں ہیں) کے پاس شہریوں کا حساس ڈیٹا موجود ہے۔
پاکستان میں عوام کے ذہنوں میں اس قسم کے نظام کو اپنانے کا خیال ابھی موجود نہیں ہے۔ اس بات کے برعکس کہ پاکستان میں پہلے ہی شناخت کیلئے ایک ادارہ نادرہ موجود ہے جو تقریبا 20 سال پہلے وجود میں آیا۔ یہ ابھی تک 20 سال پرانی روش پر ہی گامزن ہے، کبھی بھی کسی حکومتی شخصیت نے یا ٹیکنالوجی کے شعبہ میں اور حتیٰ کہ نادرہ میں بھی کسی نے نادرہ کے اطلاق کی وجوہات یا بینکنگ اور دیگر مالیاتی نظام، صحت عامہ یا تعلیم کیلئے نادرہ کے استعمال کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
اور ایسا تب ہوگا جب پاکستان ڈیجیٹل عہد میں داخل ہو جائے گا۔ ڈیجیٹل پاکستان کا معنی ہرگز ایپلی کیشنز کے مینار تعمیر کرنا یا انٹرنیٹ رسائی نہیں ہے بلکہ اس سے پاکستان میں ایک بہتر اور آزاد ڈیجیٹل معیشت کا ماحول پیدا ہوگا جہاں ہر کسی کو بحیثیت ڈیجیٹل شہری اپنے حقوق سے آگاہی ہوگی۔
دوسرا نکتہ
یہ نکتہ ہمارے وسائل سے متعلق ہے۔ ڈیجیٹل پاکستان کے سفر میں پچھلے کچھ ماہ کافی دلچسپ رہے اور پھر اس کا افتتاح دسمبر میں کیا گیا جبکہ اس سے قبل نومبر میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نیشنل پیمنٹس سسٹم اسٹریٹجی متعارف کروائی۔
اس کا مفہوم سمجھنے کیلئے بارڈر پار نظر دوڑائی جائے تو کافی سہل رہے گا جہاں بھارت میں یو پی آئی (Unified Payments Interface) نظام موجود ہے۔ یہ محض ایک اتفاق ہے کہ تانیہ ایدروس نے گوگل میں ملازمت کے دوران بھارت میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام تیز (موجودہ گوگل پے) کیلئے کام کیا۔
یہ نظام رئیل ٹائم پیمنٹس (Real Time Payments) کی ہی ایک شکل ہے جس سے بینکوں کے مابین رقوم کی ترسیل کم قیمت پر کی جا سکتی ہے۔
نومبر 2019ء میں گوگل کی جانب سے جاری وائٹ پیپر کے مطابق رئیل ٹائم پیمنٹس کا نظام قائم کرنا ایک انتہائی مشکل امر ہے۔
اس پیپر کے مطابق ’’حکومتوں کو ضوابط پر دوبارہ کام کرنا چاہیئے، تکنیکی معیار وضع کرنے چاہیئں، ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیئے اور تاجروں خاص طور پر چھوٹے کاروباروں اور صارفین کی ضروریات کے مطابق مالیاتی ادارے منظم کرنے چاہیئں تاکہ جدت اور ترقی کیلئے اعتماد کی فضا قائم ہو سکے۔‘‘
بات بھی سہی ہے۔ اس پیپر میں درج اعداد و شمار کے مطابق ایک مستحکم نظام کی بدولت نئی ابھرنے والی معیشتوں کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح میں 3 فیصد سے زیادہ اضافہ ممکن ہے۔
گوگل کے مطابق تقریبا 54 ممالک میں رئیل ٹائم پیمنٹس کا نظام نافذ ہو چکا ہے اور 2020ء تک میں تعداد 70 تک پہنچ جائے گی۔
بھارت میں یو پی آئی 2016ء میں متعارف کروایا گیا تھا۔ اس نے ایک ایسی بنیاد فراہم کی جس پر ڈیجیٹل معیشت تیزی سے قائم کی جا سکے۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور سال 2019ء میں رقوم کی ترسیل کا حجم 8 گنا بڑھ گیا۔ 2025ء میں بھارت میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کا سالانہ حجم 10 کھرب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
یہ کامیابی ہی ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اسے نقل کرنے کے قابل سمجھا۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اعداد و شمار غیر معمولی ہیں۔ 2019 میں صرف 21.3 فیصد بالغ افراد کے ذاتی اکاؤنٹ رکھتے ہیں جن میں 7 فیصد خواتین ہیں۔ اور نقد کا نظام ہماری معیشت پر حاوی ہو گیا جسے کم و بیش تمام ہی ریٹیلرز اور سپلائرز ’’محفوظ‘‘ قرار دیتے ہیں۔

پاکستان میں رئیل ٹائم پیمنٹس کا ایک نظام ون لنک (1Link) پہلے ہی موجود ہے۔ لیکن ون لنک کا نظام بینکوں کی جانب سے وضع کیا گیا جس کا انتظام بھی وہی سنبھالتے ہیں اور اس کا بنیادی مقصد منافع ہے۔
مرکزی بینک ایک بالکل علیحدہ منافع کی بجائے مالیاتی اشتراک پر مبنی آر ٹی پی کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ آر ٹی پی برانچ لیس بینک ٹرانزیکشنز کیلئے مائیکرو پیمنٹ گیٹ وے ہے۔
مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق ’’مارکیٹ کو وسیع کرنے اور قانونی ضابطوں کا ماحول پیدا کرنے سے پاکستان میں تقریبا 7 کروڑ کے قریب بالغ افراد کو ٹرانزیکشن اکاؤنٹس فراہم کئے جا سکتے ہیں جبکہ 1 کروڑ کے قریب بالغ افراد ٹرانزیکشن اکاؤنٹس تک رسائی مالیاتی اشتراک کا نظام وضع کرنے سے ممکن ہے۔‘‘
مرکزی بینک پرامید ہے کہ ’’40 لاکھ نوکریوں یقینی بنا کر پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح کو تیزی سے 7 فیصد تک لے جایا جائے گا۔ 2025ء تک 36 ارب ڈالر کی ممکنہ مارکیٹ سے ذخائر میں 263 ارب ڈالر تک کا اضافہ ہوگا۔‘‘

یہ ممکنہ مستقبل ہو سکتا ہے۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ مرکزی بینک اور تانیہ ایدروس کا اشتراک کیسے ہوگا؟ اسٹیٹ بینک کا کام رئیل ٹائم پیمنٹس فراہم کرنا ہے اور تانیہ کا کام ان تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا ہدف مکمل کرنا ہے۔
آخر اب کیوں؟
بااعتماد اور پرعزم تانیہ کا کہنا تھا ’’ٹیکنالوجی اور پاکستان دونوں ہی میرے شوق اور ترجیحات رہی ہیں اور پچھلے کچھ سالوں میں ہم میں نے محسوس کیا کہ ہمارے ایکو سسٹم میں بہت کچھ سمٹتا جا رہا ہے۔ یہ ملک ترقی کے شاہراہ پر تیزی سے سفر کرنے کیلئے بالکل تیار ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’ہر شعبہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ حکومت کا کردار ترقی کی راہ ہموار کرنا ہے۔‘‘
ایک اور اہم نکتہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی نظر سے سوچنا بھی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اور ان کی صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کیمرے کا رخ ڈاکٹر رضا باقر کی جانب مڑ گیا جو ایک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی ہیں جو وطن عزیز میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ اب کیوں واپس آئی ہیں تو انہوں نے کہا ’’اگر سچ کہوں تو میرے خیال میں یہی صحیح وقت ہے۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ میری طرح کا ہر پاکستانی اس حکومت کے ساتھ کام کرنا چاہے گا۔ ہر جگہ ایسا ہی ہے۔ مجھے واقعی ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت ہر پاکستانی کے مستقبل کی پرواہ کرتی ہے اور صرف خاص کیلئے نہیں بلکہ عام آدمی کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہے۔ اس چیز نے مجھے متاثر کیا۔ یہ کچھ بھی کرنے کیلئے پہلا قدم ہے۔‘‘
’’وزیراعظم شوکت خانم کے تجربے سے شفافیت، احتساب اور بہتر کارکردگی کیلئے ٹیکنالوجی کی طاقت کو خود دیکھ چکے ہیں اور وہ (ٹیکنالوجی کی) اس طاقت سے بخوبی واقف ہیں۔‘‘
کیا یہ سب تحریک انصاف کی جانبداری محسوس نہیں ہو رہی؟ تانیہ آغاز میں ہی یہ کہہ چکی ہیں کہ ڈیجیٹل پاکستان کا آغاز سیاسی حدود سے پرے ہے۔ ’’یہ کوئی ون وومین یا ون مین شو نہیں اور ہم راتوں رات کچھ نہیں بدل سکتے لیکن اس بارے میں کہ ہماری ضروریات کیا ہیں اور میں اس کیلئے کیا کر سکتی ہوں میں بالکل واضح ہوں۔‘‘
حکومت کے اس اقدام نے بیرون ملک مقیم ہم وطنوں کے جوش کو مزید بڑھا دیا ہے اور یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے علاوہ بیرون ملک پی ٹی آئی کے کھلاڑیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
تانیہ کے کہنا ہے کہ اپنی تقریر سے لے کر اب تک انہیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ملازمت کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ ’’۔۔۔ اور ابھی محض 3 دن ہی گزرے ہیں۔‘‘
مستقبل میں کیا ہوگا؟
تو تانیہ ایدروس کیلئے مستقبل میں کیا ہوگا؟ ان کا ارادہ ہے کہ وہ پاکستان کی زیادہ تر شہروں کا دورہ کریں۔ انہوں نے دوران گفتگو کئی مرتبہ دہرایا کہ وہ سب کیلئے ایک ماڈل تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ایک ایسا مڈل جس میں تمام صوبوں پر یکساں توجہ دی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا ’’نہ صرف 3 بڑے شہروں کیلئے بلکہ پورے ملک کیلئے کچھ کرنا زیادہ اہم ہے۔‘‘
دوسرا ان کا ارادہ اپنی ٹیم تیار کرنے کا ہے۔ اس وقت یہ ٹیم 3 سے 4 لوگوں پر مشتمل ہے اور بنیادی طور پر یہ وزیراعظم کی اصلاحاتی ٹیم ہے جو انہیں یہاں لائی ہے اور ان کے ساتھ کام کرے گی۔
تانیہ کا کہنا ہے ’’ہمیں سب سے پہلے صحیح لوگ درکار ہوں گے جن میں جذبہ ہو، صلاحیتیں ہوں اور جنہیں خریدا نہ جا سکے اور ایسا اسٹرکچر درکار ہوگا جس سے ہمارے کام کی رفتار تیز ہو۔ ہمیں اُن پانچ ستونوں کے مطابق اسٹیک ہولڈرز بھی درکار ہوں گے۔ ہر ستون جس پر ہم کام کر رہے ہیں اس کیلئے طویل مدتی روڈ میپ تیار کرنے سے پہلے 3 سے 6 مہینے تک لگ جائیں گے۔‘‘
وہ پر امید ہیں کہ ان کی مستقبل کی ٹیم نہ صرف صنفی امتیاز سے بالاتر ہوگی بلکہ اس میں سماجی طبقات کی بھی قید نہیں ہوگی۔ ’’آپ پاکستانی کے ہر طبقے کی نمائندگی کے بغیر ان کے مسائل سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘
اور تیسرا یہ کہ تانیہ اور ان کی ٹیم عام چیٹ کا ایک ڈیجیٹل ورژن متعارف کروائے گی۔ ایک ماہانہ لائیو نشریات جہاں وہ اپنی اور اپنی ٹیم کی کارکردگی اور آگے بڑھنے کے اپنے خیالات سے آگاہ کریں گی۔
تانیہ کا کہنا ہے کہ بہتر کارکردگی کیلئے وہ 3 سے 6 ماہ تک سر جھکائے کام میں مصروف رہنا چاہتی ہیں۔ اگر وہ دوسری ترقی کرتے ہوئے ممالک کی طرح کے ڈیجیٹل معیشت کا ہاف حاصل کر لیتی ہیں تو تمام تحفظات، مسائل اور چیلنجز بھی اس کے ساتھ ہوں گے۔ کیا ہم اس مشترکہ ڈیجیٹل مستقبل کیلئے تیار ہیں؟

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here