پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی، خلاء پُر کرنے کیلئے نجی کمپنیاں میدان میں، کیا ائیرلفٹ موثر پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کر پائیگی؟

وفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور ائیرلفٹ نے ایک ایم او یو پر دستخط کیے ہیں جس کے مطابق دونوں ملکر پاکستان میں بیٹری سے چلنے والی بسیں بار متعارف کرائیں گے

1571

نقل و حمل کیلئے بسوں کا استعمال ہر لحاظ سے قابل فہم ہے، گلوبل وارمنگ کا مسئلہ درپیش ہو تو بہترین  پبلک بسیں چلا دیں مسئلہ حل ہو جائیگا، نوکریوں کی ضرورت ہے؟ تو بسوں میں کنڈکٹر اور ڈرائیورز جبکہ ٹرانسپورٹ اتھارٹی میں کام کیلئے کلرکوں وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے، یہ مسئلہ بھی حل۔ کاریں مہنگی اور سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں؟ تو بس کی سواری کیجئے سستی بھی پڑیگی اور ٹوٹی سڑک پر بھی سفر کار کی نسبت آرام دہ گزرے گا۔

لیکن ان سب سہولتوں کے باوجود بسوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے، مثال کے طور پر پنجاب میں سپیڈو بسوں کو ہی لے لیں، یہ بسیں سڑکوں پر آئیں تو اور ہر بس پر شہباز شریف کی تصویر چسپاں دیکھی گئی تو ہرکوئی بڑبڑانے اور ناراضگی کا اظہار کرنے لگا،’’صحت کے شعبے کا کیا ہوگا؟ نظام تعلیم کے مسائل کون دور کرےگا؟ کیا حکومت کی ترجیح بسیں ہیں؟ جو الیکشن سے عرصہ قبل چلا دی گئی ہیں؟‘‘

حقیقت یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے بس سب سے اہم اور سستا ترین ذریعہ ہے جو کوئی حکومت سبسڈی دیکر اپنے عوام کو مہیا کر سکتی ہے، ایک عام تاثر جو کہ غلط بھی ہے، یہ پایا جاتا ہے کہ ہر عوامی منصوبہ منافع بخش بھی ہونا چاہیے، لیکن اس کے برعکس بسیں کاروباری لحاظ سے منافع بخش کی بجائے نقصان کا باعث بنتی ہیں، لندن کی بسوں کی مثال ہی لے لیں جو ٹیوب کے مقابلے میں منافع بخش کاروبار بھی نہیں لیکن اس کے باوجود حکومت عوام کی سفری سہولت کیلئے بسوں کی حمایت کرتی ہے۔

ایک پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم جس قدر اچھا کام کرتا ہے اتنا سمجھا نہیں جاتا، لیکن ایسے میں کہ جب جنگلہ بس کا بیانیہ بکثرت نظر آتا ہے اور میٹرو بسوں کی سبسڈی ختم کی جاچکی ہے تو پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ایک مضبوط نظام کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اور جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا کہ جب پبلک سیکٹر ناکامی سے دوچار ہو جاتا ہے تو پرائیویٹ سیکٹر اس کا خلاء پر کرنے کیلئے آگے آتا ہے اور ظاہر ہے اس سے پیسہ بھی کماتا ہے۔

  پاکستان کے ٹرانسپورٹ سیکٹر میں انقلابی اقدامات کیلئے ایسا ہی ایک سٹارٹ اَپ Airlift میدان میں ہے، پرافٹ اردو نے ائیرلفٹ ٹیکنالوجیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید مہر حیدر کے ساتھ ایک نشست رکھی اور پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ان کے عزائم اور مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بات چیت کی۔

ائیر لفٹ کا ماسٹر پلان کیا ہے؟

ائیرلفٹ کے دفتر میں جائیں اور آپکو معلوم نہ ہو کہ کس  سے ملنا ہے تو سوٹڈ بوٹڈ عثمان گل سے ملیں، اپنی بہترین کارپوریٹ ڈریسنگ کے علاوہ یہ لاہوری لڑکا Denison University  کا پڑھا ہوا ہے، ماسٹر کارڈ کے لیڈرشپ ڈویلپمنٹ پروگرام میں بطور اینالسٹ اور امریکا میں سب سے بڑی فوڈ ڈلیوری کی کمپنی ڈور ڈیش (DoorDash) میں بطور سینئر مینجر کام کرچکا ہے، ائیرلفٹ کے پیچھے بھی انہی صاحب کا دماغ کارفرما ہے۔

سید مہر حیدر ۔۔۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ائیرلفٹ

  امریکا میں تعلیم اور کامیاب کیرئیر کے بعد 2018ء میں عثمان گل پاکستان لوٹے تو انہوں نے ایم بی اے کیلئے INSEAD Pakistan میں داخلہ لے لیا، ائیرلفٹ کا آئیڈیا بھی ان کے دماغ میں یہاں ہی آیا، اس ادارے میں پڑھائی کے دوران انہوں نے ایک تھیسز تیار کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ اگر گاڑی کا سائز بڑھا دیا جائے تو رائیڈ شئیرنگ سروس تمام پارٹیز (مالکان، کسٹمرز وغیرہ) کیلئے زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہے، اس خیال کا آنا تھا کہ انہوں نے ایم بی اے درمیان میں چھوڑا اور اپنے تھیسز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوشش شروع کردی۔

ان کے آئیڈیا کے ساتھ اتفاق کرنے والے دیگر افراد احمد ایوب، اواب خاکوانی، محمد اویس، ذوہیب علی اور مہر فرخ، تمام لمز کے ہی سٹوڈنٹ تھے، نے عثمان گل سے رابطہ کیا اور ان کے سٹارٹ اپ میں شمولیت کا پوچھا۔

ائیرلفٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید مہر حیدر یونیورسٹی آف ٹورنٹو جانے سے قبل ایچیسن کالج لاہور میں پڑھتے رہے، انہوں نے کم وبیش ایک عشرہ تک سلیکون ویلی سمیت PLOS، Esurance اور AugmentCare جیسی کمپنیوں میں ہیومن ریسورس اور بزنس ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں کام  کیا۔

ائیرلفٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے سید مہر  حیدر نے کہا کہ ’’ہمارا سٹارٹ اَپ خالصتاََ پاکستانی ہے، اس میں کام کرنے والے باصلاحیت لوگ پاکستانی ہیں، دنیا بھر سے کئی کمپنیوں نے پاکستان آکر بڑا اچھا کام کیا ہے لیکن ہمارا تصور یہ ہے کہ ہم بطور پاکستانی کمپنی پوری دنیا میں جا رہے ہیں، کئی میڈیا ہائوسز نے ہماری سٹوری کورکی ہے، لاہور میں موجود ہماری کمپنی کا نام اب بھارت اور سان فرانسسکو تک پہنچ چکا ہے اور جلد ہی یہ ہر جگہ پہنچے گا۔‘‘

ائیرلفٹ کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے سید مہرحیدر نے کسی قسم کا کریڈٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ میرا آئیڈیا نہیں بلکہ میں صرف ٹیم کا حصہ ہوں، ہماری کمپنی چھ آٹھ ماہ قبل شروع ہوئی جب عثمان گل کو لگا کہ پاکستان کو ایسی سروس کی ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’آغاز میں رائیڈز کی تعداد ناہونے کے برابر تھی، لیکن کچھ ہی دنوں میں یہ تعداد 500 فی دن اور پھر 1500 فی دن ہو گئی، یہ ترقی حیران کن تھی۔‘‘

فنڈنگ کے پہلے مرحلے کے دوران، ائیرلفٹ نے فاطمہ گروپ اور گوبی وینچرز اور انڈس ویلی کیپٹل سے 2.2 ملین ڈالر سرمایہ کاری حاصل کی اور اس کےلیے انہوں نے لنکڈ اِن کے سابق سینئر ایگزیکٹو عاطف اعوان اور فاطمہ گوبی وینچرز کے مینجنگ پارٹنر علی مختار کا اعتماد حاصل کیا۔

دوسرے مرحلے میں انہیں 12 ملین ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری ملی، یہ کسی پاکستانی سٹارٹ اپ کی جانب سے حاصل کی جانے والی سب سے بڑی فنڈنگ کی رقم تھی۔ اس حوالے سے سید حیدر نے بتایا کہ ’’ہمیں ملنے والی سرمایہ کاری کے اعدادوشمار حیران کن تھے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سرمایہ کاری سے فائدہ کیسے اٹھایا جائے۔ پاکستان کا سٹارٹ اپ ایکوسسٹم دن بدن ترقی کی جانب گامزن ہے، کئی ایک سٹارٹ اپ مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں، ہم نے ملکی سٹارٹ اپ ایکوسسٹم میں اپنی نوعیت کی مثال قائم کی، لیکن پہلے مرحلے میں ایک وینچر کیپیٹل فنڈ وہ ہوتا ہے جو اوبر جیسے سٹارٹ اپس میں سرمایہ لگاتا ہے، اب اسی سطح کے ادارہ جاتی سرمایہ کار پاکستانی سٹارٹ اپس میں شرمایہ لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو کہ ہمارے سٹارٹ اپ ایکوسسٹم کیلئے نہایت ہی مثبت اشارہ ہے۔‘‘

’’ ہماری کسٹمر 47 فیصد خواتین ہیں، یہ دوسری چیز ہے جس پر ہمیں فخر ہے، عدم تحفظ کے مسائل کی وجہ سے خواتین پبلک ٹرانسپورٹ میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی ہیں تاہم ہماری سروس پر خواتین کا اعتماد بڑھ رہا ہے، ہمارے پاس اپنے ڈرئیورز اور بسوں کی ٹریکنگ کے بہترین سسٹم موجود ہے۔‘‘

لیکن اس سارے منظر نامے میں حقیقی کشش تو اس سروس کی قیمت میں ہے، آپ انکے کسی بھی سٹاپ سے ائیرلفٹ پر بیٹھیں اور آرام دہ ائیر کنڈیشنڈ بس میں سفر کرتے ہوئے صرف 50 روپے خرچ کر شہر کے کسی بھی حصے میں اتر جائیں، شائد اسی کم قیمت کی وجہ سے ہی زیادہ تر لوگ ائیرلفٹ کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔

حالیہ کچھ عرصہ میں پاکستان میں شروع ہونے والی کم وبیش تمام رائیڈ سروسز یہ دعویٰ کرتی نظر آتی ہیں کہ ان کے مقاصد میں خواتین کو آرام دہ اور محفوظ سفری سہولتیں دینا بھی سامل ہے اور انکا کرایہ بھی کم ہے، تاہم ائیرلفٹ پہلی اور واحد کمپنی ہے جو ’’کلینر اینڈ گرینر‘‘ (صاف اور سبز) کے ٹیگ کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔

کلینر اینڈ گرینر کا آئیڈیا کہاں سے آیا، اس حوالے سے سید مہر حیدر نے بتایا کہ ’’مختلف مسائل کو حل کرنا ہمیشہ سے ہمارا مشن تھا، ہم ایسے علاقوں میں ٹرانسپورٹ کی سہولت دینا چاہتے ہیں جہاں دیگر کمپنیاں یا پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں نہیں جاتی ہیں، ہم اپنی سروس خواتین کیلئے قابل اعتماد اور آرام دہ بنانا چاہتے ہیں اور یہ سب کچھ ہم ماحول دوست طریقے سے ہی بنانا چاہتے ہیں۔‘‘

 حال میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور ائیرلفٹ نے ایک میمورنڈم آف انڈرسٹینڈنگ (ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں جس میں یہ شق بھی شامل ہے کہ دونوں ملکر پاکستان میں بیٹری سے چلنے والی بسیں پہلی بار متعارف کرائیں گے۔

فزیبلٹی رپورٹ:

ائیرلفٹ کے وعدے اور اصول تو اچھے ہیں لیکن کوئی کمپنی جو امیج اپنا بنانا چاہ رہی ہے صرف اس سے متاثر ہو جانا بیوقوفی ہوگی، کیونکہ موجودہ دور میں یہ ہمیشہ پوچھا جاتا ہے کہ کمپنی کو آمدنی کس طرح ہوگی۔

سید مہر حیدر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ روایتی بسوں کے استعمال سے ٹریفک کا اژدہام کافی حد تک کم ہوگا، انہوں نے کہا کہ ’’روایتی بسوں کے استعمال سے صرف ٹریفک کا دبائو ہی کم نہیں ہو گا بلکہ اس کے ساتھ کاربن کے اخراج میں بھی کمی ہوگی، انہی دو مسائل کا پاکستان کو ان دنوں سامنا ہے، ہم ایک ترقی کرتا ہوا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ بیک وقت کام کرکے مخقلف نوعیت کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔‘‘

ائیرلفٹ نے ابھی تک بیٹری سے چلنے والی بسوں کے ای ٹی اے (Electronic Travel Authorization)  کا فیصلہ نہیں کیا، لیکن انہیں معلوم ہے کہ وہ اس عرصہ کے دوران مارکیٹ کو کیسے چلانے جا رہے ہیں، ان کا نقطہ آغاز وہ لوگ نہیں ہیں جو پہلے ہی کم دستیاب اور پرہجوم پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس ذاتی ذرائع موجود ہیں یا جو اوبر اور کریم استعمال کرتے ہیں۔

سید مہر حیدر کے مطابق ’’پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ٹاپ 20 فیصد مارکیٹ اوبر اور کریم کے پاس ہے، نیچے والی 20 فیصد بائیکیا کے پاس ہے جبکہ درمیان والی 60 فیصد آبادی باقی رہ جاتی ہے، اسی طرح ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولت نا ہونے کے برابر ہوتی ہے حتیٰ کہ لاہور جیسے بڑے شہروں میں بھی، پبلک ٹرانسپورٹ بھی وہاں تک نہیں جاتی، یہی وہ علاقے یہیں جہاں سے ہم آغاز کرنے جا رہے ہیں۔‘‘

ائیرلفٹ تقریباََ سائنسی ماڈل اپناتی دکھائی دے رہی ہے، کم از کم سید حیدر کے بقول تو ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ جو اعدادوشمار انہوں نے بتائے ہیں وہ بلاوجہ نہیں بلکہ حقیقی ہیں۔ لیکن اگر ائیرلفٹ کی ٹارگٹ مارکیٹ ’’مڈل اور اپر مڈل کلاس‘‘ ہے تو پھر شائد 50 روپے کرایہ گمراہ کن ہو۔

تاہم اگر ائیرلفٹ میں کرائے کیلئے صرف کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ ہی استعمال ہو سکتے ہیں تو اس سے صرف بینک اکائونٹ رکھنے والے اور کارڈز استعمال کرنے کی شناسائی رکھنے والے ہیں فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اسکے علاوہ صارفین کے پاس انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کی سہولت موجود ہونا ضروری ہے۔ حیدر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ ابھی ہم کارڈ سسٹم استعمال کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہم دیگر طریقوں پربھی غور کر رہے ہیں اور انہیں متعارف کرائیں گے، اب کرایہ بھی پچاس روپے ہے سفر چاہے جتنا بھی ہو، تاہم وقت کیساتھ ہم فاصلے کے حساب سے کرایہ کا نظام لیکر آئیں گے تاہم اُس صورت میں بھی ہمارا کرایہ دیگر سروسز سے کم ہی ہوگا۔‘‘

ڈرائیورز سے متعلق کمپنی کچھ زیادہ معلومات دینے کو تیار نہیں، بلکہ اسکی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ براہ راست ڈرائیورز سے رابطے کی بجائے صرف ٹرانسپورٹ مینجرز سے رابطہ رکھتے ہیں، ائیر لفٹ کی جنرل  مینجر حوریہ افتخار نے بتایا کہ ’’ہم یقینی بناتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ مینجرز آن بورڈنگ پروٹوکول کے مطابق کام کریں، اس سے ہمیں اس سارے عمل کو بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘‘

حیدر نے اس حوالے سے  بتایاکہ ’’اعدادوشمار کانفیڈینشل ہیں، اتنا بتا سکتا ہوں کہ ہم صرف کسٹمرز اور سپلائیرز کیساتھ رابطے میں رہتے ہیں، یہاں سپلائیرز سے مراد ٹرانسپورٹ مینجرز ہیں، ہمارا ایک مخصوص پیکج ہوتا ہے جس کے مطابق یہ ٹرانسپورٹ مینجرز کام کرتے ہیں، میں یہ میڈیا کیساتھ شئیر تو نہیں کرسکتا، لیکن یہ ٹرانسپورٹ مینجرز جب منتخب کیے جاتے ہیں تو تفصیلی سوالات اور سکریننگ کے عمل سے گزرتے ہیں اور پھر ڈرائیورز کو بھی اسی عمل سے گزارتے ہیں، ہم یقینی بناتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ مینجرز ہمارے مطالبات پر عمل کریں اور ڈرائیورز سے کروائیں تاہم اگر بزنس ماڈل اور رقم کی بات کریں تو ابھی ہم اس پر توجہ نہیں دے رہے۔‘‘

اس کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ بھی ہے کہ گاڑیاں کم ہیں تو ڈرائیورز اس سے بھی کم ہیں، بسوں کی وجہ سے یہ تو ہوتا کہ آپکو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ لوگوں کو مسئلہ ہو گا کہ ان کی کار کو زیادہ چلایا جا رہا ہے یا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، کیونکہ رائیڈنگ کمپنیوں کو کاریں دینے والوں کو یہی مسئلہ درپیش رہتا ہے۔

اپنے تمام تر کام اور مستقبل کے لائحہ عمل سے ائیرلفٹ بہرحال اپنے موجودہ حریفوں کیلئے پریشانی کا باعث ضرور بن رہی ہے۔

کچھ عرصہ قبل پرافٹ اردو نے روشنی رائیڈز کی سی ای او حَنا لاکھانی کا انٹرویو کیا تو انہوں نے ائیرلفٹ کے بارے میں کافی غلط چیزوں کی نشاندہی کی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ائیرلفٹ صرف اور صرف اپنا برانڈ منوانے کیلئے پیسہ ضائع کر رہی ہے جبکہ اسکی بسیں خالی دوڑ رہی ہیں، انہوں نے ائیرلفٹ کی ٹیکنالوجی پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کافی نقائص موجود ہیں ور ان کا ٹریکنگ سسٹم کام نہیں کر رہا۔

یہ سب سوالات جب سید مہر حیدر کے سامنے رکھے گئے تو انہوں نے بڑے پر سکون اندازمیں جواب دیا کہ ’’فیڈبیک دینے کیلئے روشنی رائیڈز کا شکریہ، ہمارا ٹیکنالوجی دن بدن بہتر ہو رہی ہے، ہم اپنے کسٹمرز کے تمام تحفظات دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہر انکوائری اور شکایت سنی جاتی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس کا جواب دیا جاتا ہے، ہمارا ٹریکنگ سسٹم بھی بہترین ہے، تاہم اگر کوئی کسٹمر مزید بہتری کی جانب توجہ دلاتا ہے تو ہم ان کی تجاویز پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ حد مختصر وقت میں ہماری ٹیکنالوجی کافی بہتر ہوئی ہے اور مزید بہتری کی جانب گامزن ہے، لیکن جہاں تک روشنی رائیدز کی سی ای اوکے سوالات کا تعلق ہے میں یہ کہوں گا کہ ہماری کمپنی کا فارمولا صرف اور صرف کسٹمرز فیڈبیک پر قائم ہے، ہم خود اپنی بسوں میں جا کر لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں، ہماری ایپ پر ریٹنگ سسٹم موجود ہے، لوگ ہماری ہیلپ لائن پر ہم سے مخاطب ہو سکتے ہیں یا ہمیں ای میل کر سکتے ہیں، اس لیے جو کچھ بھی کسی کے تحفظات یا تجاویز ہیں ہمیں خوشی ہوگی کہ ہم وہ سنیں اور اپنے سسٹم میں بہتری لے کر آئیں۔‘‘

اس سوال پر کہ ائیرلفٹ حضرات کیلئے زیادہ موثر ہے، حیدر نے کہا کہ ان کی آدھی کسٹمرز خواتین ہیں اور انکا ٹریکنگ اور سکیورٹی سسٹم خواتین کیلئے سروس کو مزید آرام دہ اور محفوظ بنانے  میں لگا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ائیرلفٹ کی سروس جتنی مردوں کیلئے ہے اتنی ہی خواتین کیلئے بھی ہے۔ پاکستان میں تحفظ اور ہراسانی کا مسئلہ خواتین کو درپیش رہتا ہے اسی لیے وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر نہیں کرتی ہیں، لیکن ہم نے چیک اینڈ ٹریکنگ سسٹم کیساتھ ڈرئیورز کا ڈیٹا بیس بنا رکھا ہے پھر ہمارے کنٹرول روم سے ہر حرکت مانیٹر کی جاتی ہے تو اس طرح ہم کوشش کرتے ہیں کہ پک اپ پوائنٹ سے لیکر ڈراپ پوائنٹ تک ہم خواتین کیلئے محفوظ سروس مہیا کریں۔

پبلک سیکٹر کا کیا ہوگا:

اس قسم کے خدشات سامنے آر ہے تھے کہ شائد ائیرلفٹ یا دیگر رائیڈ شئیرنگ کمپنیاں پبلک سیکٹر پر چھا جائیں گی، کیونکہ پبلک سیکٹر ہمیشہ سے حکومت کی ذمہ داری رہا ہے، تاہم وفاقی حکومت کی وزارت آئی ٹی کیساتھ ائیرلفٹ کے ایم او یو ان خدشات میں کسی قدر کمی آئی ہے اور مہر حید رنے بھی ان کی تردید کی کہ کوئی نجی کمپنی پبلک سیکٹر پر حاوی ہونے جا رہے بلکہ انہوں نے کہا کہ ایسا تبھی ممکن ہے اگر پورے سیکٹر کی نجکاری کردی جائے، ’’ہم حکومت کیساتھ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں صرف انکی مدد کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں ناکہ کسی کی جگہ لینے کیلئے۔ ہمارا مقصد پاکستان میں اس شعبے میں انقلاب برپا کرنا ہے، اور جس طرح حالیہ عرصہ میں ہمیں سرمایہ کاری ملی ہے اس طرح ہمارے لیے مزید راہیں کھل گئی ہیں۔‘‘

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیرونی ذرائع سے فنڈنگ حاصل کرنے والی کمپنی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ وہ موثر سروسز مہیا کرسکے گی؟

اس کے جواب میں حیدر نے کہا کہ ’’ کسی بھی بزنس کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہی ہوتا ہے اور ہمارا مقصد بھی یہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ منافع کمانے کا طریقہ کیا ہے، اس پر ابھی ہم کام کر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ابھی ہماری توجہ صرف کمپنی کی ترقی پر ہے، سرمایہ کاری ملنے پر اس کی رفتار یقینی طور پر بڑھے گی، میں ابھی ساری مالی تفصیلات تو ظاہر نہیں کرسکتا تاہم کچھ عرصہ تک ہم اپنا بزنس ماڈل اور دیگر معاملات کو ضرور منظر عام پر لائیں گے۔‘‘

رپورٹ:  سیدہ معصومہ

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here