کیا الیکٹرک گاڑیاں پاکستان میں بگ تھری کی اجارہ داری کا خاتمہ کر سکیں گی؟

بگ تھری یعنی سوزوکی، ہونڈا اور ٹویوٹا اپنے مقابلے میں آنے والی ہر قوت کو زیر کرنے میں کسی نہ کسی طرح کامیاب رہی ہیں

1898

جاپان کے آٹو مینوفیکچررز نے طویل عرصے سے پاکستانی مارکیٹ میں اپنے قدم گاڑے ہوئے ہیں۔ بگ تھری یعنی سوزوکی، ہونڈا اور ٹویوٹا اپنے مقابلے میں آنے والی ہر قوت کو زیر کرنے میں کسی نہ کسی طرح کامیاب رہی ہیں اور پاکستانی عوام کو انہی چند مخصوص ماڈلز میں ہی الجھائے رکھا ہے۔ ان کی تقسیم سادہ ہے، سوزوکی متوسط طبقے کو اپنا ہدف سمجھتی ہے جبکہ ٹویوٹا اور ہونڈا نے کم قیمت (City-Corolla) اور لگژری سیڈان ماڈلز (Civic-Camry) ماڈلز تیار کرتی ہے۔
جاپان سے درآمد شدہ ری فربشڈ گاڑیاں کچھ عرصہ بگ تھری کیلئے مشکل حریف ضرور ثابت ہوئی تھیں۔ ان میں زیادہ تر گاڑیاں ٹویوٹا اور ہونڈا کی ہی تیار کردہ تھیں لیکن وہ مقامی طور پر تیار نہیں کی جاتیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے درآمدات کی حوصلہ شکنی نے نہ صرف جاپانی گاڑیوں کی بڑے پیمانے پر درآمد کو بظاہر ناممکن بنا دیا ہے بلکہ قوت خرید سے بھی باہر کر دیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے پاکستان میں اس بگ تھری کے قدم مزید مضبوطی سے جم گئے ہیں۔
کم قیمت گاڑیوں ائیر بیگز کی عدم موجودگی حفاظتی انتظامات پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ مارکیٹ میں محدود آپشنز ہیں اور پاکستان میں سماجی اور معاشی روایتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئی امپورٹڈ گاڑی خریدنے کا فیصلہ بہت مشکل کام ہے۔
آخر کون اس بگ تھری کی اجارہ داری کو ختم کر سکتا ہے؟ شاید اس کا جواب ہے الیکٹرک گاڑیاں اور شاید اس طرح سے ہم اس کرہ ارض کو بھی بچا سکیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کے کوششوں سے وفاقی حکومت نے آخر کار الیکٹرک وہیکلز پالیسی 2019 کی منظوری دے دی ہے۔
وزیر مملکت زرتاج گل وزیر شاید بہت سادہ لوح ہیں جو یہ مانتی ہیں کہ وزیراعظم کی اس کاوش کے پیچھے ماحول کو بچانے کی مہم کار فرما ہے۔ حالانکہ وزارت میں بیشمار ذہین لوگ موجود ہیں جو اس سادہ سی بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ الیکٹرک گاڑیاں ایندھن والی گاڑیوں کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔
یہ سوچ امید کی کرن ہے کہ پاکستان کو اب الیکٹرک گاڑیوں کی جانب بڑھ جانا چاہیئے۔ ایسا اس لئے نہیں کہ یہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ شاید اس سے ہمارے وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی آلودگی میں بھی کمی واقع ہو سکے گی۔
الیکٹرک گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک کچھ افراد کے مطابق حکومت کی الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق پالیسی ایک گیم چینجر ہے اور نئی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت میں پاکستان میں ٹراسپورٹ کے مکمل نظام کو تبدیل کرنے کے تمام اجزائے ترکیبی موجود ہیں۔

الیکٹرک وہیکل پالیسی کے اطلاق سے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ اور درآمد پر ٹیکس کی شرح کم ہے۔ نئی الیکٹرک گاڑییوں کیلئے پرزہ جات پر 1 فیصد سیلز ٹیکس اور 1 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد ہوگی جس سے ٹیکس کو واجب الادا قیمت میں میں کمی واقع ہوگی۔ استعمال شدہ گاڑیوں کیلئے ٹیکس کی شرح 15 فیصد ہوگی جو 25 سے لے کر 100 فیصد شرح ٹیکس سے بہت کم ہے۔
پالیسی کے اطلاق سے حکومت 7 سال تک مینوفیکچررز اور اسیمبلرز سے 1 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرے گی۔
لیکن پارلیمنٹ سے الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری کے باوجود اس مشورے کے روح رواں نے محتاط رہنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ چونکہ نئے آنے والے کھلاڑیوں کو اس میدان میں مسابقتی برتری حاصل رہے گی۔
فی الوقت پاکستان کی سڑکوں پر الیکٹرک گاڑیاں نظر نہیں آ رہی لیکن امین اسلم کا کہنا ہے کہ یہ کچھ ماہ کی بات ہے پھر آپ کو جا بجا الیکٹرک گاڑیاں نظر آئیں گی۔
کیا تیل کا مستقبل ماند پڑ جائے گا؟
فوربز میگزین میں بی این پی (Banque Nationale de Paris) پریباز (پیرس اور نیدرلینڈس کے بینک) کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق ٹراسپورٹ فیول کی مسابقتی دوڑ کیلئے تیل کی قیمت کو 10 سے 20 ڈالر فی بیرل تک لانا پڑے گا۔
بی این پی پریباز کی ریسرچ کے مطابق تجدید شدہ توانائی کے مقابلے میں تیل کی حالیہ قیمتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مقابلے کی فضا یک طرفہ رہے گی۔ اس رپورٹ کے مصنف عالمی استحکام کے سربراہ مارک لیوس کا کہنا ہے ’’تجدید شدہ بجلی کی لاگت نہ ہونے کے برابر ہے، یہ ماحول دوست ہے، اس کی ترسیل آسان ہے اور یہ تیل کی عالمی طلب میں 40 فیصد کمی کا باعث بنے گی۔‘‘

اور پاکستان میں الیکٹرک وہیکل پالیسی کے بعد لوگ اس مارکیٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں جس کے اثرات آہستہ آہستہ ملک بھر میں پھیل رہے ہیں۔ یہ لوگ پرامید ہیں کہ پاکستان کی عوام اس اہم تکنیکی تبدیلی کو قبول کرنے کیلئے تیار ہے۔
انجینئرنگ اور آئل فیلڈ سروسز کمپنی ایس ضیاء الحق اینڈ سنز گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر احتشام الحق کا کہنا ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی جو معاشرے کیلئے انتہائی مفید ہو اسے رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ایس زیڈ ایس ان چند گنے چنے گروپس میں سے ہے جو پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کے عملی آغاز کیلئے کوشاں ہیں اور احتشام الحق کو نئی قائم کردہ پاکستان الیکٹرک وہیکلز مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (PEVMA) کیلئے بھی منتخب کیا گیا ہے۔
احتشام کا کہنا ہے ’’اس سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں مدد حاصل ہوگی جو موسمیاتی تغیرات کی بڑی وجہ ہے۔ چونکہ الیکٹرک گاڑیوں سے ایندھن کی بچت ہوگی اور اس کے مرمتی اخراجات بھی معقول ہیں اس لئے ان صارفین کو یقینی طور پر فائدہ ہوگا۔ خام اندازے کے مطابق کم قیمت مرمتی اخراجات اور ایندھن کی بچت سے ایک عام صارف کو الیکٹرک گاڑی کے استعمال سے 80 سے 90 فیصد بچت ہوگی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’جب مقامی ٹرانسپورٹ کیلئے تیل کا استعمال کم ہو جائے گا تب تیل کی درآمد پر لاگو بلوں میں بھی کمی آئے گی جو ہمارے درآمدی اخراجات اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرے گا۔‘‘
دریں اثنا ملک امین اسلم نے کہا کہ اگر پاکستان پالیسی قواعد کی پابندی کرتا رہا تو سالانہ تیل کی درآمد میں 2 بلین ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ حکومت سے معاہدوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا نے الیکٹرک گاڑیوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ حتیٰ کہ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ قدم آٹو انڈسٹری کیلئے انتہائی مفید ہے۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (IEA) میں شائع گلوبل الیکٹرک وہیکل آؤٹ لک 2019 (Global EV Outlook 2019) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018ء تک عالمی طور پر الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد 51 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جو 2017ء کے مقابلے میں 20 لاکھ زیادہ ہے۔ 2017ء کی نسبت الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن تقریبا دو گنا بڑھ گئی۔ چائنہ 2018ء میں 11 لاکھ یونٹس بیچ کر الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کی فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر ہے جبکہ 2018ء میں الیکٹرک گاڑیوں کے کل 23 لاکھ یونٹس فروخت ہوئے۔
اس کے بعد یورپ کا نمبر آتا ہے جس نے 12 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں بیچیں اور پھر تیسرا نمبرا امریکہ کا ہے جہاں سال 2018ء میں 11 لاکھ گاڑیوں سڑکوں پر موجود ہیں۔ ناروے کا الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں سب سے پہلا نمبر ہے جہاں 2018ء میں 46 فیصد گاڑیاں فروخت ہوئیں جو دوسری بڑی مارکیٹ آئس لینڈ سے دوگنی اور تیسری بڑٰی مارکیٹ سویڈن سے تقریبا 6 گنا زیادہ ہے۔
دو پہیوں اور تین پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد 2018ء میں 30 کروڑ سے تجاوز کر گئی۔ ان میں سب سے زیادہ اکثریت چائنہ کی ہے جہاں ہر سال کروڑوں دو پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت دنیا بھر سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 2017ء کی نسبت 2018ء میں دنیا بھر کی سڑکوں پر ایک لاکھ اضافے کے ساتھ 4 لاکھ 60 ہزار سے زائد الیکٹرک بسوں کی موجودگی ایک نمایاں پیش رفت ہے۔
اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان ٹرانسپورٹیشن کیلئے الیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں شامل ہو جائے گا۔ بالآخر پارلیمنٹ سے الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری کے بعد ملک امین اسلم پر امید ہیں۔ انہوں نے پرافٹ/منافع سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی مہینوں کی محنت اور کوششوں پر محیط ہے اور اب وزارت کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے اور نہ قوم کے پاس۔ انہیں اس پالیسی پر اتنا یقین ہے کہ وہ مانتے ہیں کہ الیکٹرک گاڑیاں کچھ ماہ بعد ہی سڑکوں پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
ممکنات کا لامتناہی سلسلہ
اس جدید ٹیکنالوجی میں سب سے منفرد امر یہ ہے کہ عوام اس کا اتنا ضروری استعمال نہیں کرتی جتنا ہونا چاہیئے۔ ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ الیکٹرک گاڑیاں کچھ ماہ میں سڑکوں پر رواں دواں نظر آئیں گی۔ البتہ شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ ایک الیکٹرک گاڑی پہلے ہی لاہور کی سڑکوں پر موجود ہے جو نہ صرف بجلی پر چلتی ہے بلکہ یہ بجلی بھی مفت ہے۔
پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور ملٹی لائن انجینئرنگ کے سی ای او زبیر خالق نے 2016 میں الیکٹرک گاڑیوں کی باقاعدہ آمد سے بھی قبل نسان لیف (Nissan Leaf) گاڑی درآمد کی۔ اس کار کی درآمد پر کافی اخراجات آئے اور اس وقت زبیر خالق اپنے آفس کی چھت پر نصب سولر پینلز کی مدد سے اس گاڑی کو چارج کرتے ہیں اور یہ گاڑی بغیر کسی ایندھن کے چل رہی ہے۔
یہ گاڑی 5.7 کلومیٹر فی کلوواٹ سفر کرتی ہے۔ بجلی کی حالیہ قیمت 12 روپے فی کلوواٹ کے حساب سے نسان لیف سے سفر کرنے وقت 2.11 روپے فی کلومیٹر خرچہ آتا ہے اور یہ بھی تب جب اسے چارج کرنے کیلئے مقامی بجلی استعمال کی جائے۔ اگر پاکستان کی مقبول گاڑی ٹویوٹا کرولا کی بات کی جائے تو 12 کلومیٹر فی لٹر کے حساب سے چلتی ہے اور پیٹرول کی موجودہ قیمت 111.74 روپے فی لٹر کے حساب سے ٹویوٹا کرولا سے سفر کرتے وقت 9.31 روپے فی کلومیٹر خرچہ آتا ہے۔

امریکی کمپنی لکس ریسرچ () کے ایک تجزیہ کار کرسٹوفر روبن سن نے پرافٹ/منافع سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرک گاڑیاں مستقبل میں سفر کیلئے استعمال ہونے والی گاڑیاں ہوں گی لیکن اس کیلئے سولر جیسے مزید تجدید شدہ ذرائع توانائی بھی انتہائی ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا ’’ماحولیاتی اعتبار سے تجدید شدہ ذرائع توانائی ہی الیکٹرک گاڑیوں کیلئے سب سے مستحکم حل ہیں۔ مینوفیکچرنگ پراسیس اور سولر پینل کی تنصیب کے علاوہ یہ کسی موقع پر ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی اور کاربن کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہے۔ مالیاتی اعتبار سے شاید الیکٹرک گاڑیاں کم قیمت آپشن نہ ہوں۔‘‘
یقینا اس کی بھی وجوہات ہوں گی۔ کرسٹوفر نے کہا اگرچہ بیٹریوں کی قیمت ڈرامائی انداز میں گری ہے جو خام اندازے کے مطبق گزشتہ 10 برسوں میں 80 فیصد کم ہوئیں لیکن الیکٹرک گاڑیاں دیگر ایندھن والی گاڑیوں کی نسبت ابھی بھی مہنگی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ’’اگرچہ الیکٹرک گاڑیوں سے سفر کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں۔ چونکہ بجلی گیسولین سے نسبتا سستی ہے اس لئے ایندھن کی بچت بھی ہو جاتی ہے اور اس کے مرمتی اخراجات بھی کم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بس اور ٹیکسی چلانے والے ڈرائیور حضرات کیلئے الیکٹرک گاڑیاں مالیاتی اعتبار سے بہتر آپشن ہیں۔‘‘
کرسٹوفر رابن سن نے بات مکمل کرتے ہوئے کہا ’’آخری بات یہ کہ حکومت بیٹری سے چلنے والی الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ناروے اور چین جیسے ممالک میں جہاں الیکٹرک گاڑیوں کے رحجان میں سب سے زیادہ اضافہ ہے حکومتوں نے الیکٹرک گاڑیوں کی خرید کیلئے کچھ ٹیکسوں اور رجسٹریشن فیسوں کی چھوٹ سمیت کئی آسان سہولیات فراہم کی ہیں۔‘‘
تنقیدی نقطہ نظر
الیکٹرک وہیکل پالیسی کا چرچا تو بہت ہے لیکن آٹو انڈسٹری اور آٹو پارٹس بنانے والے اس میدان کے موجودہ کھلاڑی کچھ خاص خوش نہیں ہیں۔ وہ اکثر اس پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس معاملے میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔
پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) کے چیئرمین سہیل بشیر رانا کا کہنا ہے کہ اگرچہ کابینہ نے اس پالیسی کی منظوری دے دی ہے لیکن وزارت صنعت سے منظوری تک اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔
سہیل رانا نے سوالیہ انداز میں کہا ’’الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر کم ڈیوٹیز سے متعلق بیشمار تحفظات پائے جاتے ہیں۔ انجن اور ٹرانسمیشن کے علاوہ الیکٹرک گاڑی اور ایندھن سے چلنے والی گاڑی میں کوئی نمایاں فرق موجود نہیں ہے۔ اگر الیکٹرک گاڑیوں پر ڈیوٹیز کم ہوں گی تو آٹو انڈسٹری میں کیا تیار ہوگا؟ُُ
انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی ابھی نامکمل ہے اور وزارت صنعت کی جانب سے اس میں تبدیلی کا عندیہ دیا گیا ہے۔
دریں اثناء پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں فروخت کرنے والے واحد شخص عدیل غفور کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت قانونی ریگولیٹریز آرڈرز (ایس آر اوز) کا مسئلہ سلجھا نہیں لیتی یہ پالیسی تب تک ہی پرکشش رہے گی۔
عدیل غفور جواد کارپوریشن کے شراکت دار ہیں جو چائنہ کی الیکٹرک بائیکس درآمد کرتی ہے اور کراچی میں فروخت کرتی ہے جہاں ڈول مین مال میں ان کا شوروم بھی واقع ہے۔ ان کے کسٹم ڈیوٹیز سے متعلق تجربات کچھ خاص خوشگوار نہیں رہے اور وہ اکثر و بیشتر حکومتی ایجنسیوں کی انتظامی کارکردگی پر شکوہ کناں رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’’اگر اس پالیسی کا باقاعدہ اطلاق ہوتا ہے تو میں الیکٹرک (بائیک) 90 ہزار روپے میں فروخت کروں گا جبکہ اس کی حالیہ قیمت 1 لاکھ 40 ہزار روپے ہے۔‘‘
سرمایہ کار بینک اور سیکیورٹی فرم بی ایم اے (بسم اللہ) کیپیٹل میں ایک ریسرچ تجزیہ کار اسد علی یہ نہیں مانتے کہ مستقبل قریب میں الیکٹرک گاڑیاں کسی بھی طرح سے ایندھن والی گاڑیوں کیلئے مقابلہ کی فضا پیدا نہیں کر سکتیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’’جہاں لوگوں کو اپنی روزمرہ ضروریات کیلئے بجلی مشکل سے ملتی ہے وہاں الیکٹرک گاڑیاں کون خریدے گا اور کہاں سے انہیں چارج کرے گا؟ دوسری بات یہ کہ شمالی علاقہ جات میں الیکٹرک گاڑیوں کی مانگ ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ ڈھلوانی سطح پر چڑھنے اور اترنے کیلئے جس مخصوص قسم کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ الیکٹرک گاڑیوں میں ناپید ہیں۔‘‘
اسد کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس ادھوری پالیسی میں جب حکومت کی جانب سے ایس آر اوز میں کافی عملی تفصیلات شامل کی جائیں گی تو لوگوں کی الیکٹرک گاڑیوں کے کاروبار میں دلچسپی کم ہو جائے گی۔
ناگزیریت
تاہم ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی دو رائے کا اندیشہ نہیں اور الیکٹرک گاڑیاں کو اس لئے بھی ترجیح دی جائے گی کیونکہ یہ ماحول دوست ہے۔ اور جس کو اس بات کا اندازہ ہے اسے اس پالیسی سے اتفاق کرنے یا انکار کرنے یا پھر سوال کرنے کی فکر نہیں۔
انہوں نے اپنی بات پر زور ڈالتے ہوئے کہا ’’گاڑیوں میں ایندھن جلنے سے پیدا ہونے والی آلودگی کی اوسط مقدار دنیا بھر میں 20 فیصد ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ اوسط مقدار 40 فیصد ہے۔ یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے ملک میں کاربن کی بڑھتئی ہوئی فضائی مقدار میں کمی کیلئے اقدامات کئے جانے چاہیئں۔‘‘
کراچی میں واقع این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور الیکٹرک وہیکلز پر ریسرچ کے سربراہ سروش حشمت لودھی کا کہنا ہے کہ الیکٹرک گاڑیاں اب ناگزیر ہو چکی ہیں اور اگر کوئی آٹو انڈسٹری میں ٹیکنالوجیکل انقلاب کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کر رہا تھا تو وہ جرم کا مرتکب ہو رہا تھا۔ گو کہ کسی بھی پالیسی کی مخالفت غیر قانونی نہیں لیکن شاید پروفیسر صاحب کا یہ بیان استعاراتی ہے۔
ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے 2030ء تک 30 فیصد نئی گاڑیوں کی فروخت کے ہدف کو پورا کرنے کیلئے اس صنعت کے پرانے اور نئے سٹیک ہولڈرز اور مینوفیکچررز کو مل کر کام کرنا چاہیئے تاکہ کسی ایک روڈ میپ پر اتفاق ہو سکے۔
اسی دوران ہنڈائی نشاط موٹرز کے چیف فنانشل آفیسر نوریز عبداللہ حکومت سے کچھ مایوس ہیں کہ جب نئے کھلاڑی اس میدان میں آنے کیلئے زور آزمائی کر رہے ہیں حکومت نے بالکل ہی نئی راہ اختیار کر لی۔
نوریز کا کہنا ہے ’’انہیں ہمیں آگاہ کرنا چاہیئے تھا کہ وہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کی سمت ہی تبدیل کرنے جا رہے ہیں، شاید ہم اپنی حکمت عملی تبدیل کر لیتے۔ جب ہم ایندھن والی گاڑیوں کے اسمبلنگ پلانٹ پر سرمایہ کاری کر چکے تو اچانک ہی ایک مختلف پالیسی سامنے آ گئی جس سے اس انڈسٹری پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔‘‘

برآمدی مواقع
ملک امین اسلم کی الیکٹرک گاڑیوں میں دلچسپی کی صرف یہ وجہ نہیں کہ اس سے کاربن کے اخراج اور تیل کے درآمدی اخراجات میں کمی واقع ہو گی بلکہ وہ اس لئے بھی پرجوش ہیں کہ رائٹ ہینڈ ڈرائیو الیکٹرک گاڑیوں کو برآمد بھی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا ’’ہم چین سے اپنے بہتر روابط کا استعمال کرتے ہوئے رائٹ ہینڈ ڈرائیو الیکٹرک گاڑیوں کی بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ چین میں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو الیکٹرک گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں تو ہمارا ماننا ہے کہ ہم چین کے اشتراک سے پاکستان میں رائٹ ہینڈ ڈرائیو الیکٹرک گاڑیاں تیار اور برآمد کرنے کے ہدف کو پورا کر سکتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین سے بیٹریاں تیار کرنے کی ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہو چکا ہے اور ہم پرامید ہیں کہ ہم الیکٹرک گاڑیوں کیلئے پاکستان میں ہی بیٹریاں تیار کر سکتے ہیں۔
ملک امین نے کہا ’’اس میں بہت سی آپشنز موجود ہیں۔ سوائپ بیٹریاں بھی موجود ہیں اور شمسی توانائی سے چلنے والی بیٹریاں بھی موجود ہیں۔ ہمارے سامنے کافی آپشنز ہیں اور اس پر کام کریں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مقامی سطح پر الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنا ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔
’’ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کو مقامی سطح پر تیار کرنا انتہائی مشکل رہا ہے اور ہم نے کبھی اپنے اہداف پورے نہیں کئے لیکن اس کی نسبت الیکٹرک گاڑیوں کو مقامی سطح پر تیار کرنا زیادہ آسان ہے۔‘‘ مقامی سطح پر تیار کی گئی گاڑی کی کم از کم نصف قیمت اس کے درآمدہ پرزہ جات کی وجہ سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے کرنسی میں آنے والی تبدیلیاں گاڑی کی قیمت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
ان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب یہ کچھ مہینوں کی بات ہے یہاں لوگ سڑکوں پر الیکٹرک گاڑیاں دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آغاز میں ہماری توجہ دو اور تین پہیوں والی سواری کی جانب ہے جن کی تعداد (ملک میں ٹریفک کی موجودہ صورتحال کے مطابق) چار پہیوں والی 30 لاکھ گاڑیوں کے مقابلے میں 20 کروڑ ہے۔
انہوں نے کہا ’’ہمارا ہدف اگلے پانچ سالوں میں ہم سڑکوں پر 4 لاکھ موٹر سائیکل اور 1 لاکھ رکشوں (تین پہیوں والی سواری) کی موجودگی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اس کے علاوہ 1 لاکھ گاڑیوں (چار پہیوں والی سواری) کی سڑکوں پر موجودگی کو بھی یقینی بنائیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here