سنہء 2014 میں ملک بھر میں ٹیلی کام سپیکٹرم کی اس نیلامی کا چرچا تھا جس نے پاکستانیوں کو تھری جی اور فور جی سے متعارف کرایا جس کی وجہ سے تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت میسر آئی، پورا پاکستان اس مثبت تبدیلی کے عمل سے گزرا لیکن گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پیچھے رہ گئے۔
ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ 1976ء میں ان دونوں پہاڑی علاقوں میں پاکستانی فوج نے سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (SCO) بنائی جو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام کو ٹیلی کام کی سہولتیں مہیا کرتی ہے، تھری جی اور فورجی نیلامی صرف نجی ٹیلی کام کمپنیوں کیلئے تھی، ایس سی او کیلئے نہیں۔
ان علاقوں کے باسیوں کا تھری جی اور فور جی سے متعلق انتظار ختم ہو چکا ہے اور آئندہ سال کے شروع میں سرکاری طور پر ان علاقوں میں یہ انٹرنیٹ سروسز مہیا کردی جائیں گی، تاہم یہاں ’’سرکاری‘‘ لفظ قابل توجہ ہے۔
شائد وہاں کے لوگ اکتا چکے ہیں کہ ہر بار انہیں پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس بار بھی پاکستان نے انہیں بھلا دیا خاص طور پر ایک ایسی چیز کی وجہ سے 1976ء میں ہوئی۔ ظاہر ہے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام بھی باقی پاکستانیوں کی طرح زیادہ تر موبائل براڈ بینڈ انٹرنیٹ کرنا چاہتے ہیں، اب کچھ کمپنیوں نے ان علاقوں میں تھری جی اور فورجی سروسز بہر حال شروع کردی ہیں۔
یہ 2019ء ہے اور دنیا اب آپکی انٹرنیٹ سپید کے ساتھ چلتی ہے، کیونکہ یہ ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے اور ایسے میں شمالی علاقہ جات کے عوام کیساتھ ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے، لیکن ٹیلی کام کمپنیاں بھی پابند تھیں۔
اس مسئلے کا ذرا گہرائی میں جا کر جائزہ لیں تو معلوم پڑیگا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے سرکاری طور پر تھری جی اور فورجی سروسز حکومت 2020ء میں مہیا کریگی۔
آغاز:
سنہء 1976 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سرکاری دورے پر گلگت اور کشمیر گئے تو انہوں نے خود کو دنیا سے کٹا ہوا پایا کیونکہ تب تک کشمیر اور گلگت ٹیلی فون کے ذریعے باقی دنیا سے منسلک نہیں تھے، اس بات نے وزیر اعظم کو شدید غصہ دلایا، بھٹو صاحب نے فوج کو ان علاقوں میں ٹیلی کام کا مسئلہ حل کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نجی سیکٹر ہی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ٹیلی کام کے مسائل حل کرتا لیکن جب نجی شعبہ آگے نہیں آیا تو وزیراعظم بھٹو کو یہ ذمہ داری بھی فوج کو سونپنا پڑی، اس وقت سرکاری طور پر ٹیلی کام سہولیات کی فراہمی T&Ts یعنی پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپارٹمنٹ اور SCO کی ذمہ داری تھی جو وزارت دفاع کے ماتحت تھے اور سول اور فوجی صارفین کو سروسز مہیا کرنے کے ذمہ دار تھے لیکن بنیادی طور پر ان کی ذمہ داری سرکاری حکام کو اور فوج کو سہولتیں فراہم کرنے کی تھی۔
1976ء میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کی ذمہ داری تن تنہا SCO کو دے دی گئی۔ اُسی سال پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپارٹمنٹ کو پاکستان ٹیلی کام کارپوریشن (PTC) بنا دیا گیا جس کے تحت چار ادارے تھے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(PTA)، فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ (FAB)، نیشنل ٹیلی کام کارپوریشن (NTC) (سرکاری محکموں کیلئے) اور پاکستان ٹیلی کام کارپوریشن لمیٹڈ (PTCL) (ریٹیل کسٹمرز کیلئے پبلک لمیٹڈ کمپنی)۔ یہ چاروں ادارے اس وقت پاکستان ٹیلی کام کارپوریشن کے تحت کام کرتے تھے۔
80 کی دہائی کے اواخر میں حکومت نے نجی شعبے کو آزاد کشمیر اور گلگت میں آپریٹ کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیاتاہم اس کے باوجود شمالی علاقوں میں ٹیلی کام پر SCO کا بطور سب سے بڑی کمپنی غلبہ ہو چکا تھا، اسکے اختیارات بھی پاکستان ٹیلی کام ایکٹ 1996 کی شق 40 کے تحت محفوظ تھے۔
لیکن اس کے بعد ٹیلی کام کے شعبے میں پہلا انقلاب موبائل سروسز سے برپا ہوا، انسٹا فون اور پاک ٹیل نے پاکستان میں موبائل سروسز متعارف کرائیں اور 1998ء میں موبی لنک بھی انکے ساتھ شامل ہو گئی۔ 2000ء میں گلوبل سسٹم فار موبائل کمیونیکیشن (GSM) سے منسلک ہونے تک تینوں مذکورہ کمپنیوں نے پاکستان میں ایڈوانس موبائل فون سسٹم (AMPS) سروسز شروع کیں۔
اسکے بعد سنہء 2001 میں یوفون آئی، 2004ء میں وزارت آئی ٹی نے ایک نئی موبائل سیلولر پالیسی کا اعلان کیا تاکہ سیلولر موبائل سیکٹر میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
اسی سال آزاد کشمیر اور گلگت میں SCO نے SCOM کے نام سے جی ایس ایم سیلولر سروس شروع کی، مزید ایک سال میں ٹیلی نار وار وارد جیسی بین الاقوامی کمپنیوں نے پاکستان میں سروسز شروع کردیں لیکن گلگت اور کشمیر میں scom کے علاوہ کسی کمپنی کو کام کرنے کی اجازت نہ تھی۔
زمینی حقائق کیا ہیں؟
سب ٹھیک چل رہا تھا، SCO بھی اپنی جگہ اطمینان سے چل رہی تھی لیکن جس چیز نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا وہ تھ نیکسٹ جنریشن موبائل نیٹ ورکس سروسز (NGMN) یعنی تھری جی اور فورجی۔ جیسا کہ زونگ نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ گلگت اور آزاد کشمیر میں سروس شروع کرہی ہے جبکہ ٹیلی نار پہلے ہی SCO کیساتھ ملکر ان علاقوں میں کام کر رہی ہے، مزید کمپنیاں بھی اس میدان میں آنا چاہتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سروسزکے لیے جتنی مقابلے کی فضاء موجود ہیں اتنی ہی مخالفت بھی موجود ہے۔
گلگت بلتستان میں کسی کمپنی کی سروس فراہمی کیلئے نیلامی نہیں ہوئی اس لیے وزیراعلٰی حفیظ الرحمٰن SCO کیساتھ پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔
اسی دوران اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ لائسنس اور نیلامی وغیرہ کے مسئلے حل ہونے تک تمام کمپنیاں اپنی سروسز جاری رکھیں، تاہم SCOM کی خراب سروس کی وجہ سے شمالی علاقہ جات کے کسٹمرز مطمئن نہیں ہیں۔
لیکن اس سارے مسئلے کی جڑ پیسہ ہے، SCOM کہتی ہے کہ گلگت اور کشمیر میں آپریٹ کرنے کیلئے محدود اختیارات کی وجہ سے اسے سالانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، بلتستان حکومت نیلامی کی رقم سے محروم کی وجہ سے غصے میں ہے جو کہ وزیراعلٰی کیمطابق اربوں روپے بنتی ہے۔
آزاد کشمیر میں ٹیلی کام کا مسئلہ 2005ء میں شروع ہوا جب پی ٹی اے نے آزاد کشمیر کونسل کیساتھ لائسنس کی فیس آدھی آدھی کرنے کا معاہدہ کیا اور نجی آپریٹرز کو کام کی اجازت دی۔ ظاہر ہے رقم کے حصول کیلئے پی ٹی اے پہلے ہی لائسنس جاری کرچکی تھی، اب چونکہ کوئی متبادل بھی موجود نہیں اور موجودہ آپریٹرز کی قیمتیں بھی زیادہ ہیں اس لیے کسٹمرز لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں۔
نیلامی:
اس مسئلے میں بار بار سامنے آنے والا مسئلہ تھری جی اور فور جی کی نیلامی سے متعلق ہے۔ پورے ملک میں تمام آپریٹرز نے بولیوں کیلئے پی ٹی اے کا طریقہ کار اپنایا، نیلامی کیلئے کنسلٹنٹ کمپنیوں کا انتخاب بھی پی ٹی اے کی مرضی سے ہوا، اس کے بعد بولی میں حصہ لینے والی کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا جس کے بعد منتخب ہونے والی کمپنیوں کو مارکیٹ میں تھری جی اور فورجی سروسز فراہمی کی اجازت ملی۔
تاہم گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اسطرح کی کوئی نیلامی نہیں کی گئی، اور اگرچہ اس مسئلے کا حل بظاہر واضح نظر آرہا ہے لیکن حقائق پیچیدہ ہیں۔ SCO کا موقف ہے کہ اسے کسی قسم کی نیلامی کی ضرورت ہے نہ ہی کسی نیلامی کا حصہ بننے کی اجازت ہے۔
SCO کے ڈائریکٹر ریگولیٹری افئیرز (ہیڈ کوارٹر) کرنل غلام حسین انجم نے بتایا کہ ’’سنہ 2016 میں آزادکشمیر کونسل اور وزارت آزاد کشمیر نے کہا تھا کہ وہ اس علاقے میں تھری جی اور فور جی سروسز چاہتے ہیں۔ اس وقت کی نواز شریف حکومت نے فیصلہ کیا کہ چونکہ SCO حکومت کی ملکیت ہے لہذا اگر وہ کشمیر میں آپریٹ کرنا چاہتی ہے تو حکومت خود اسے ادائیگی کریگی، اسی لیے SCO کو لائسنسوں کی نیلامی میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘
پی ٹی اے کی نیلامی متنازع کیوں بن گئی؟ یہ ایک الگ کہانی ہے جو تین سال پیچھے جاتی ہے، پہلی بار ستمبر 2015ء میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تھری جی اور فورجی سروسز فراہم کی جائیں۔
اس وقت کے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان چودھری برجیس طاہر کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں پی ٹی اے کے چیئرمین ڈاکٹر اسماعیل، ممبر ٹیلیکام وزارت آئی ٹی مدثر حیسن، وفاقی سیکریٹری برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان عابد سعید، ایڈیشنل سیکریٹری آزاد کشمیر کونسل امیر اشرف۔ جوائنٹ سیکریٹری گلگت بلتستان کونسل اجمل گوندل اور دیگر اعلٰی حکام نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اس پر عمل درآمد 2016 کے آغاز تک شروع نہ ہو سکا۔
بعد ازاں پی ٹی اے نے اعلان کیا کہ نیکسٹ جنریشن موبائل سروسز کیلئے نیلامی 16 مئی 2016 کو ہوگی، نیلامی کے طریقہ کار، قواعد وضوابط اور اوقات کار کے بارے میں ایک یادداشت شائع کی گئی جس میں بیس پرائس 295 ملین ڈالر بتائی گئی۔ تاہم گلگت بلتستان کو اس نیلامی میں شامل نہیں کیا گیا۔ اسکا نمبر آئندہ سال آیا، اگست 2017 میں پی ٹی اے نے اعلان کیا کہ وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تھری جی اور فورجی سپیکٹرم کی نیلامی کرنے جا رہے ہیں، اس سلسلے میں ایک پالیسی جاری کی گئی جس میں لائسنس کے لئے مختلف فریکوئیسز کی پیشکش کی گئی تھی اور ان میں سے ایک SCO کیلئے متعین تھی۔ پی ٹی اے نے حتمی فیصلہ دو کمپنیوں کے حق دیا اور دعویٰ کیا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں فروری 2018 تک تھری جی فورجی سروسز شروع کردی جائیں گی۔
اس حوالے سے تفصیلات البتہ مبہم ہیں کیونکہ پرافٹ کے کسی بھی سوال کا جواب پی ٹی اے کی جانب سے نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سے ہمیں پہلے سے جاری کردہ لائسنسوں کی فیس وغیرہ کی تفصیلات پر اکتفا کرنا پڑا، تاہم اس نیلامی کے فوری بعد زونگ کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ وہ 5 مئی 2018ء کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نیکسٹ جنریشن سپیکٹرم سروسز متعارف کرائی گی۔
۔ اس سے قبل کہ پی ٹی اے کا فیصلہ ثمر آور ہوتا SCO نے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 کے آرٹیکل 71 کے تحت اپریل 2018 میں ایک پٹیشن دائر کر دی جس میں پی ٹی اے کے اقدام کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس درخواست میں گلگت بلتستان کونسل، پی ٹی اے، فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ اور حکومت گلگت بلتستان سے جواب طلبی کی گئی تھی، درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مذکورہ پہاڑی علاقوں میں تھری جی اور فورجی سروسز کی فراہمی صرف اور صرف SCO کا اختیار ہے۔ اس مقدمے سے پہلے ہی پی ٹی اے اور SCO کے مابین ایک جھگڑا چل رہا تھا جب پی ٹی اے نے ایس سی او کو ملک بھر میں سروسز کی فراہمی کیلئے ایل ڈی آئی (Long Distance International) لائسنس جاری کرنے سے انکار کردیا تھا، وزارت آئی ٹی کے مطابق مذکورہ لائسنس جاری کرنا پی ٹی سی ایل اور ایتیصالات کے مابین معاہدہ کے خلاف تھا اور اس کی وجہ سے بھاری جرمانہ دینا پڑتا۔
پی ٹی اے نے کہا کہ مذکورہ لائسنس کے حصول کیلئے دی گئی درخواست میں SCO نے ضروری لوازمات پورے نہیں کیے، جواب میں SCO کہا کہ اسے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں آپریٹ کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے لیکن اس کے باوجود پی ٹی سی ایل ان علاقوں میں کام کر رہی ہے تو ہمیں بھی ملک کے باقی حصوں میں کام کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ یہاں یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا کہ حالیہ تنازع بھی گزشتہ جھگڑے کا تسلسل ہے، لیکن نتیجہ اس نزاع کا یہ نکلا کہ آزاد کشمیر اور گلگت کے شہریوں کیلئے پہلے تھری جی اور فورجی سروسز بند کی گئیں اور بعدازاں بحال کردی گئیں۔ اس کیس سے متعلق SCO کے ایک عہدیدار نے پرافٹ کو بتایا کہ 2017ء میں حکومت نے انہیں رقم فراہم کی اور انہوں نے آزمائشی طور پر علاقے میں چھ ماہ تک مفت سروس فراہم کی، جب پی ٹی اے نے نیلامی کا فیصلہ کیا تو انہوں نے ایس سی او کو روکنے کی کوشش کی۔ اسکی وجہ صرف یہ تھی کہ پی ٹی اے کی نیلامی مطلوبہ نتائج نہ دے سکی کیونکہ ایس سی او پہلے ہی وہ سروسز علاقے میں دے رہی تھی۔
اسی لیے وزیراعظم آزاد کشمیر نے خود SCO سے کہا کہ سروس بند نہ کی جائے، اس کے بعد پی ٹی اے نے حکومت آزاد کشمیر تک رسائی حاصل کی، اس وقت برجیس طاہر وفاقی وزیر اور پیر بخش جمالی سیکریٹری تھے، انہوں نے پی ٹی اے کو ہدایت کی کہ وہ ایک این او سی جاری کریں اور SCO کو علاقے میں تھری جی اور فورجی سروسز فراہم کرنے سے نہ روکیں۔ تاہم ہمارے ذرائع نے تسلیم کیا کہ اسی وقت نجی کمپنیوں نے فورجی سروس شروع کردی، حالانکہ ان کے پاس ابھی ٹو جی لائسنس تھے اور مطلوبہ اجازت بھی نہیں ملی تھی، لیکن ان کے پاس علاقے میں اپنا انفراسٹرکچر موجود تھا جس کو کام میں لاتے ہوئے انہوں نے فور جی سروس شروع کردی۔
آزاد کشمیر کی سابق حکومت نے آزاد کشمیر کونسل کو ختم کردیا، اس کونسل کو وفاق کی جانب سے چار ذمہ داریاں دی گئی تھی جس میں کمیونیکیشن، ڈیفنس، کرنسی اور امور خارجہ شامل ہیں۔ SCO عہدیدار نے بتایا کہ’’کمیونیکیشن کا محمکہ کونسل کے خاتمے کے ساتھ ہی دوبارہ وفاقی حکومت کے پاس چلا گیا، گلگت میں بھی اب یہ محکمہ وزیر اعظم پاکستان کے تحت ہے، 2018ء کے بعد دونوں علاقوں کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی ٹیلی کام آپریٹر کو لائسنس جاری کرسکیں۔‘‘
کم و بیش یہی کچھ SCO کی پٹیشن میں بھی شامل تھا جس میں دیگر آپریٹرز کی جانب سے تھری جی اور فورجی سروسز فراہم کرنے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ درخواست دہندہ نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی اے کی جانب سے روکی گئی نیلامی دراصل SCO کی آزمائشی سروس کو روکنے کی کوشش ہے۔ اس مقدمے اور SCO کے دعوئوں کے بارے میں وزارت آئی ٹی نے بتایا کہ مذکورہ فوجی کمپنی ہرسال وزارت کا 80 فیصد بجٹ لے جاتی ہے، اسکے ساتھ ہی وہ مفت لائسنس، انکم ٹیکس ٰاور کسٹمر ڈیوٹیز سے بھی استثنا مانگتی ہے،
اب عدالت SCO کو آزمائشی سروس جاری رکھنے کیساتھ دیگر کمپنیوں کو بھی اجازت دے چکی ہے۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم اورSCO کے الزامات کے بعد ٹیلی نار پاکستان کے چیف کارپوریٹ افئیرز آفیسر کمال احمد نے کہا ہے کہ ’’ہم پہلے ہی آزاد کشمیر اور گلگت میں ڈیٹا سمیت دیگر ٹیلی کام سروس مہیا کررہے ہیں اور ہمارا لائسنس دونوں علاقوں سے متعلق ہے، آزاد کشمیر ہائیکورٹ بھی ہمیں سٹے آرڈر جاری کرچکی ہے، اس لیے ہمارا قانونی حق ہے کہ ہم اسی لائسنس کے تحت گلگت بلتستان میں بھی ڈیٹا سروسز فراہم کریں۔‘‘ دوسری جانب الزامات کے جواب میں SCO کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے ماتحت ہیں، اگر وہ لائسنس فیس بھی ادا کریں تو وہ حکومتی خزانے سے آتی ہے اور واپس وہیں جاتی ہے، اس لیے کسی نیلامی میں حصہ نہ لینے سے یا لائسنس کی فیس نہ دینے کی وجہ سے سرکاری خزانے کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
تازہ ترین رپورٹس یہ ہیں کہ ستمبر 2019ء سے ٹیلی نار نے گلگت بلتستان میں فورجی سروس شروع کردی ہے اور ایک مقامی اخبار کے مطابق زونگ بھی کچھ علاقے میں سروس فراہم کر رہی ہے، اب جب کہ سب کہا اور کیا جا چکا ہے تو کوئی بھی شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں نجی ٹیلیکام کمپنیاں قانونی حیثیت میں یا SCO کی اجارہ داری جاری ہے۔
تاہم ، مارکیٹ کے نقطہ نظر سے اور شاید مقامی برادریوں کی حالت زار کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن جدید دور میں صارفین کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنا یہ فراہم کرنے والوں کے لئے منافع بخش کاروبار ہے۔ اس طرح ٹیلی کام میں اجارہ داری منصفانہ مسابقت اور سروسز کی ورائٹی کے آگے ایسا آپشن ہے جس کی بہت کم حمایت کی جاسکتی ہے، قطع نظر اس فیصلے کے جو 1976 میں کیا گیا تھا۔
رپورٹ: سیدہ معصومہ