AkzoNobel Pakistan کیلئے گزشتہ چند سال قدرے مشکل رہے ہیں، اب کمپنی شائد آگے بڑھنے کیلئے تنظیم نو اور ایکوزیشنز پر غور کر رہی ہے۔ کمپنی کا کاروبار تاحال ٹھیک چل رہا ہے اور اب بھی مارکیٹ میں قدرے کی نگاہ سے دیکھے جانے والے پینٹس کے برانڈ کی ملکیت اسی کے پاس ہے، لیکن اس بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا جا رہا کہ کمپنی ان توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی جن کا اعلان کمپنی کی انتظامیہ نے 2012 میں آئی سی آئی پاکستان انڈسٹریل کیمیکل بزنس کے نتیجے میں کیا تھا۔
2012ء سے 2019 کی دوسری سہ ماہی تک ایکزو نوبل کا ریونیو 2.8 فیصد سالانہ کی معمولی شرح سے بڑھا ہے تاہم اسی دوران مہنگائی 6 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھتی رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ کمپنی کی مجموعی آمدن میں کمی ہوئی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے نتائج ایکزنوبل کی گلوبل انتظامیہ کی نظروں سے چھپے نہیں رہ سکتے۔ ذرائع کے مطابق ایکزونوبل پاکستان میں ملازمین کی تعداد بھی کم ہو چکی ہے، زیادہ تر نکالے گئے ہیں یا پھر تنظیم نو کے دوران چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ تنظیم نو کے دوران ایکزنوبل کے ہر مقامی یونٹ کو اس کے گلوبل یونٹ کیساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
ایکزونوبل کے سابق ملازم نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان میں کمپنی کے کچھ شعبے اب گلوبل ہیڈکوارٹرز کے ذریعے چلائے جائیں گے، مثال کے طور پر میٹل کوٹنگ (metal coating) کا شعبہ یو اے ای میں بیٹھی ٹیم چلائے گی جبکہ ڈیکوریٹو پینٹس کا بزنس نیدرلینڈز سے چلایا جائیگا۔
ایکزونوبل پاکستان کے سی ای او سعد محمود راشد نے ’’پرافٹ اردو‘‘ کو ایک انٹرویو کے دوران یہ تسلیم کیا کہ کمپنی کی تنظیم کی جارہی ہے، نئے ٹارگٹ مخصوص کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں کچھ غیر موثر عہدوں پر لوگوں کو فارغ کیا گیا ہے اور کچھ نئے مواقع پیدا بھی ہوئے ہیں۔ ’’اس کو یقینی بنانے کیلئے ہماری کمپنی پاکستانی پینٹس اور کوٹنگ کی مارکیٹ میں اولین ترجیح بن چکی ہے، ہم تبدیلی کیلئے اہداف منتخب کرنے کے علاوہ اپنے لوگوں اور ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں کمپنی میں کافی کچھ بدلا ہے، کئی نئے افراد کیلئے مواقع پیدا ہوئے ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے اور زیادہ مستحکم اور موثر ڈھانچہ تشکیل دینے میں مدد دیں گے۔‘‘
ایک باخبر ذریعے کے مطابق ری سٹرکچرنگ کی وجہ سے ایکزونوبل پاکستان کے سی ای او کے اختیارات کافی کم کر دئیے گئے ہیں، سعد راشد نے بھی ان رپورٹس کی تردید نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کمپنی کے کئی شعبے اب بھی مجھے جوابدہ ہیں، کچھ خاص شعبے ایسے ہیں جو اپنے اعلٰی عہدیدار کو جوابدہ ہوتے ہیں جو ان سے متعلق زیادہ سمجھ رکھتے ہوں۔‘‘
تنظیم نو کا خیال 2017ء میں امریکی کمپنی پی پی جی اندسٹریز کی ناکام بولی کے بعد سامنے آیا ہے، پی پی جی انڈسٹریز پینٹس اور کوٹنگ کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے جبکہ ایکزونوبل دوسرے نمبر پر ہے، گو کہ انضمام کی کی کوشش ناکام رہی تاہم اس نے ایکزونوبل پر ایک دیرپا اثر مرتب کیا۔
جب پی پی جی نے 83 یورو فی شئیر کی بولی لگائی تو اس وقت ایمسٹرڈیم کی یورو نیکسٹ سٹاک ایکسچینج میں ایکزونوبل کے حصص کی ٹریڈنگ 60 یورو فی شئیر کے حساب سے ہو رہی تھی۔ پی پی جی نے دو بار اپنی بولی بڑھائی، ایک بار 83 یورو سے 88.72 یورو فی شئیر جبکہ دوسری بار 96.75 یورو فی شئیر کردی، تاہم ایکزونوبل کے بورڈ نے یہ بولی دو وجوہات کی بناء پر مسترد کردی۔
پہلی وجہ یہ تھی کہ قیمت بہت کم لگائی گئی تھی۔ دوسری یہ کہ پینٹس بنانے والی دنیا کی دو بڑی کمپنیوں کے انضمام سے اداروں کی جانب سے چھان بین شروع ہو جاتی جس کی وجہ سے انضمام کے فوائد ملنا مشکل ہو جاتے۔
تاہم پی پی جی کی بولی مسترد کرکے ایکزنوبل کا بورڈ اپنے شئیر ہولڈرز کو یہ ثابت کرنے کا پابند ہو گیا وہ کمپنی کو اس ویلیو کا بنائیں گے جس کی پیشکش پی پی جی نے کی تھی۔
ایکزنوبل پاکستان کے سی ای او سعد راشد نے اس حوالے سے بتایا کہ پی پی جی نے انضمام کی آفر اس لیے کی تھی کیونکہ اسکی انتطامیہ کو لگتا تھا کہ وہ ایکزونوبل کے اخراجات کم کرکے شئیر ویلیو بڑھا سکتے ہیں تاہم بولی کی ناکامی کے بعد ایکزونوبل نے ترقی کرنے اور شئیر ویلیو بڑھانے کیلئے زیادہ بہتر حکمت عملی تیار کی جو 19 اپریل 2017 کو پیش کی گئی اور جو تمام
شئیر ہولڈرز کے مفاد میں بھی تھی۔ بعد میں وسیع پیمانے پر جائزوں نے بھی یہ ثابت کردیا کہ ایکزونوبل کی حکمت عملی پی پی جی کی نسبت زیادہ موثر تھی اور پی پی جی کے پروپوزل کی نسبت اس میں خطرات اور غیر یقینی بھی نہیں تھی۔ ایکزونوبل اسی حکمت عملی کے پر چلتے ہوئے پائیدار ترقی اور منافع کی جانب بڑھ رہی ہے۔
آئی سی آئی (ICI) کے شیئرز کی تقسیم:
2008 میں ایکزونوبل نے امپیریل کیمیکل انڈسٹریز (ICI) کی ایکوزیشن حاصل کی، پاکستان میں امپیریل کیمیکل انڈسٹریز کی تاریخ تقسیم سے بھی پہلے کی ہے، 1944ء میں پہلی بار اس کمپنی نے ضلع جہلم کے نمک کی کانوں والے علاقہ کھیوڑہ میں ایش سوڈا کی پروڈکشن شروع کی، تقسیم کے چند سال بعد آئی سی آئی نے پاکستان میں اپنی کمپنی کو کھیوڑہ سوڈا ایش کمپنی لمیٹڈ میں شامل کردیا جو 1952 میں قائم ہوئی، 1966ء میں اسے دوبارہ آئی سی آئی پاکستان کا نام دیا گیا، آئی سی آئی کی کم و بیش ایک ذیلی کمپنی جولائی 1957ء سے کراچی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہو چکی ہے۔
پاکستان میں آئی سی آئی نے دو طریقوں سے ترقی کی، ایک تو وہ روایتی طریقہ جس طرح ہر کمپنی ترقی کرتی ہے۔ دوسرا طریقہ ایکوزیشن کا اپنایا گیا۔ 1965ء میں لاہور کی Fuller Piants کو حاصل کرلیا جسے بعد ازاں Paintex کا نام دیا گیا۔ 1998ء میں پاکستان پی ٹی اے لمیٹڈ بھی بنائی گئی جو سنہء2000 میں علیحدہ ہو گئی۔
2008ء میں امپیریل کیمکلز انڈسٹریز(ICI) کو عالمی سطح پر پینٹس اور کیمیکلز کی ایک ولندیزی کمپنی AkzoBobel نے خرید لیا، یوں آئی سی آئی کے پاکستان میں موجود اثاثے بھی ایکزونوبل کا حصہ بن گئے۔ 2010ء میں ایکزونوبل نے فیصلہ کیا کہ اپنی عالمی پہچان کے مطابق صرف اور صرف پینٹس کا کاروبار کیا جائیگا اور کیمکل کا بزنس علیحدہ کردیا جائیگا۔
یہ علیحدگی 2012ء میں مکمل ہوئی جب گلوبل ایکزنوبل کے جھنڈے تلے دو کمپنیاں ایکزنوبل پاکستان اور آئی سی آئی پاکستان بنا دی گئیں۔ جون 2012ء میں آئی سی آئی پاکستان کیلئے خریدار کی تلاش شروع ہوئی اور بالآخر یونس برادرز گروپ نے آئی سی آئی پاکستان کو خریدنے کیلئے بولی جیت لی۔
اتفاقاََ امپیریل کیمیکل انڈسٹریز (آئی سی آئی) بھی 1926 میں چار مختلف کمپنیوں کے انضمام سے وجود میں آئی تھی جن میں سے ایک نوبل ایکسپلوسوز (Nobel Explosives) بھی تھی جونوبل انعام کے بانی الفریڈ نوبل کی کمپنی تھی، نوبل کی ایک دوسری ذیلی کمپنی بھی ایکزنوبل کا حصہ بن گئی۔
سعد راشد نے اس حوالے سے کہا کہ ’’آئی سی آئی، ICI Roundel، Dulux وہ ٹریڈ مارک ہیں جو ایکزونوبل پاکستان میں ابھی تک استعمال کر رہی ہے، ایکزونوبل جب بھی کسی ملک میں کوئی کمپنی خریدتی ہے تو وہ پینٹس بزنس رکھ کر باقی بزنس مقامی کمپنیوں کو فروخت کر دیتی ہے جیسا کہ آئی سی آئی کیسا تھ کیا جو کہ پاکستان میں یونس برادرز گروپ کو فروخت کردی گئی۔‘‘
ترقی کی جانب راستہ بناتے ہوئے:
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ ایکزونوبل پاکستان کے ریونیو میں 2012ء سے لیکر 2019 کی پہلی سہ ماہی تک محض 2.8 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی عرصہ میں مہنگائی 6 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھی ہے، منافع کی شرح بھی برقرار نہیں رہی اور اسکی اوسط شرح 1.8 فیصد سالانہ رہی۔
کمپنی کی کاکردگی سے متعلق سوال پر سعد راشد کسی قدر پر امید نظر آئے، انہوں نے کہا کہ ’’2012ء کے بعد ایکزونوبل کی سیلز ویلیو میں 22 فیصد جبکہ منافع میں 111 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ منافع میں زیادہ منافع اس حقیقت کا عکاس ہے کہ کمپنی کاروبار کو زیادہ توجہ اور موثر طور پر چلا رہی ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کاروباری ادارے مہارت نہ ہونے کے باجود ہر صنعت اور کام میں ہی قدم رکھ دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس ایکزنوبل نے ایسا نہیں کیا، یہ ان چند کمپنیوں میں سے ایک ہے جو پینٹس کے شعبے میں مہارت رکھتی ہیں، 2019ء کے ابتدائی چھ ماہ آمدن کافی جمود کا شکار رہی اس کے باوجود ہمارے منافع میں 10 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا ہے۔
ایکزنوبل کے ماضی کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے مائیکرواکنامک فیکٹرز کو الزام دیا، حالانکہ تب ملک میں تعمیراتی شعبہ سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کررہا تھا۔ ’’پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں معاشی اتار چڑھائو کسی بھی کاروبار پر اثرانداز ہوتے ہیں، 2012ء میں اپنے آغاز سے لیکر ایکزونوبل پاکستان نے ویلیو اور منافع دونوں لحاظ سے ترقی کی ہے۔ ہم نے وسط مدتی اور طویل المدتی مسائل پر توجہ دی ہے، ہمارا یقین ہے کہ مختصر المدتی چیلنجز، جیسے کہ کرنسی کی گراوٹ یا خام مال کی مہنگائی، کسی بزنس پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے۔‘‘
سی ای او نے مزید کہا کہ ایکزونوبل پاکستان کو ایک ایک ایسی ترقی پذیر مارکیٹ سمجھتی جو طویل المدتی منصوبوں کیلئے کیلئے زیادہ موزوں ہے۔ پاکستان کی چونکہ آبادی زیادہ ہے اور یہاں پینٹ کی کھپت علاقائی اورعالمی سطح پر اسکی کھپت کے عین مطابق ہے جس کی وجہ سے پینٹ بنانے والی کسی بھی کمپنی کیلئے یہاں ترقی کے واضح مواقع موجود ہیں۔ ’’جب پ ینٹ کی طلب بڑھ جاتی ہے تو ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ مارکیٹ میں ہم ایک واضح حصہ رکھتے ہیں، اس کے علاوہ ایکزونوبل نے 2016-18 کے دوران 600 ملین روپے کی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔‘‘
تاہم یہ واضح نہیں کہ ان باتوں میں کہاں تک سچائی ہے، اندسٹری ذرائع کہتے ہیں کہ ایکزنوبل مارکیٹ شئیر کھو رہی ہے، اور گزشتہ دس سالوں میں اس کے زیادہ تر کسٹمرز Brighto Paints کے طرف جا چکے ہیں، تاہم سعد راشد اس پر متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ منحصر کرتا ہے کہ آپ حجم کی بات کررہے ہیں یا مالیت کی، کیونکہ مارکیٹ شئیر کے لحاظ سے دونوں کے نتائج مختلف ہوتے ہیں، پریمیم کمپنی برانڈ ہوتے ہوئے ظاہر ہے ہمارا ویلیو مارکیٹ شئیر حجم کے لحاظ سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’مارکیٹ میں مختلف کمپنیوں کے مابین کافی زیادہ مسابقت پائی جاتی ہے، یہ کمپنیاں سائز کے لحاظ سے ایک دوسرے سے زیادہ مختلف بھی نہیں ہیں، پوٹینشل سے بھرپور مارکیٹ میں ہمارا نظر آئندہ پانچ سے دس سال میں نمبر ایک بننے پر ہے۔‘‘
ذرائع کے مطابق ملک کے جنوبی علاقوں میں ایکزونوبل کا شئیر سب سے زیادہ ہے جبکہ شمالی علاقوں میں کافی حد تک کم ہے، ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ شمالی علاقوں میں اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے ایکزونوبل ایک مقامی کمپنی کو خریدنے کیلئے بات چیت کر رہی تھی۔ سعد راشد البتہ اس بات سے متفق نہیں کہ انکی کمپنی کا پنجاب اور خیبرپختونخوا کی مارکیٹ میں شئیر ناکافی ہے۔ ’’ایکزونوبل پاکستان کے تمام علاقوں میں موجود ہے جبکہ دوسری کمپنیاں کچھ خاص جگہوں تک محدود ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے نئی کمپنی کیساتھ بات چیت کا اشارہ ضرور دیا، انہوں نے کہا کہ ’’ایکزونوبل آرگینک گروتھ اور ایکوزیشن دونوں طریقوں پر عمل پیرا ہے، 2018 میں ہم نے رومانیہ میں Fabryo حاصل کی، سپین میں Xylazel اور ملائشیا میں Colourland خریدی۔ ہماری علاقائی قیادت پاکستان کو بھی ایک گروتھ مارکیٹ تصور کرتی ہے ہم یہاں ناصرف آرگینک گروتھ پر توجہ دے رہے ہیں بلکہ ایکوزیشن پر بھی کام کر رہے ہیں۔‘‘
پینٹ انڈسٹری کی ترقی کا دور:
پاکستانی پینٹ انڈسٹری نفاست اور موثر سیلنگ پراسیس کے لحاظ سے ابھی کافی پیچھے ہے، اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سعد راشد نے کہا کہ ’’پینٹس کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ریڈی مکس (readymix) اور POST یعنی (point-of-sale-tinting)۔ ریڈی مکس پینٹ دکانوں پر بالکل تیار ملتا ہے، اگر کوئی کمپنی 60 رنگوں کے پینٹ تین سائز (ایک، چار اور سولہ کلو گرام) کے ڈبوں میں فروخت کر رہی ہے تو ڈیلر کو رینج مکمل کرنے کیلئے دکان پر ایک ہی وقت میں 180 ڈبے تو رکھنا ہوں گے، یوں وہ کسی بڑے کسٹمر یا زیادہ کسٹمرزکی ڈیمانڈ پوری کر پائے گا۔ پوسٹ (POST) پینٹ ایسے ہوتے ہیں جو بنیادی چار رنگوں کے امتزاج سے گاہک کی ڈیمانڈ پر تیار کردئیے جاتے ہیں، اس کیلئے ایک چھوٹی سی مشین لگانے کی ضرورت ہوتی ہے، کسٹمر جو بھی رنگ مانگے اسے فوری بنا کر دے دیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ ڈیلر کسی چھوٹی جگہ اور کم سٹاک کے ساتھ بھی کاروبار چلا سکتا ہے‘‘
ایکزنوبل پاکستان کے سی ای او نے کہا کہ بھارتی کی پینٹ انڈسٹری میں 70 فیصد پوسٹ پینٹ جبکہ 30 فیصد ریڈی مکس پینٹ فروخت ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں 95 فیصد ریڈی مکس جبکہ صرف پانچ فیصد پوسٹ پینٹ فروخت ہوتا ہے۔
آگے کیا ہوگا؟
سعد راشد کے مطابق حالیہ معاشی سست روی کی وجہ سے پینٹ انڈسٹری میں کچھ خاص قسم کی تبدیلیاں رونما ہوں گی جس کے نتیجے میں اس انڈسٹری سے وابستہ موجود بڑی کمپنیاں مزید بڑی ہو جائیں گی۔ ’’گزشتہ چند سالوں سے معیشت سست روی کا شکا ہے تو پینٹ انڈسٹری کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔ اس انڈسٹری میں 600 سے زیادہ مینوفیکچررز ہیں اور زیادہ تر بڑے ریٹیلرز کے اپنے برانڈز ہیں، موجودہ معاشی صورتحال اور بڑی کمپنیوں کے مزید بڑھتے ہوئے سائز کی وجہ سے آئندہ سالوں میں انڈسٹری استحکام کی جانب جائے گی۔ ہم دیکھیں گے کہ بڑی کمپنیاں ریٹیلرز برانڈز اور چھوٹی کمپنیوں کا شئیر حاصل کرکے مزید بڑی ہو جائیں گی۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ کوئی بھی پیشگوئی واضح طور پر نہیں کی جا سکتی، ایک وقت تھا جب Macro پاکستان میں آئی تو ہر جگہ یہ باتیں ہونے لگیں تو اب صرف سپر مارکیٹیں ہی چلیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔