کیا MiniSo کی فرنچائز آپکو راتوں رات کروڑپتی بنا سکتی ہے؟

1119

جاپانی جمالیات (Japanese aesthetics) سے پاگل پن کی حد تک لگائو رکھنے والے سکالرز سے اگر آپ اسکے متعلق پوچھیں تو وہ آپ کو جاپانی خوبصورتی کی ایسی کہانیاں سنائیں گے جو آپ نے کبھی نہیں سنی ہوں گی، وہ بڑے فلسفیانہ انداز میں آپ کو wabi اور sabi کی خوبصورتی بڑھا چڑھا کر بیان کریں گے اور yugen کی نزاکت کے بارے میں بتائیں گے۔

جدید تحقیق میں جاپان کے اس پہلو پر، خاص طور پر جاپانی آرٹس اور جمالیات کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے، شائد اس لیے کہ یہ تاریخ کا حصہ ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ جاپان کبھی کسی کی کالونی نہیں رہا، یہ مشرق کا وہ بیش قیمت موتی ہے جو یورپی سلطنتوں کیلئے نامعلوم رہا اور وہ اسے زیر نگین نہ لا سکے، البتہ جو کچھ بھی ہو جاپانی چیزوں کی اپنی ہی ایک دلکشی ہوتی ہے۔

جاپان سے متعلق سٹڈیز سے منسلک رہنے کی وجہ سے ایسے سکالر اپنے بارے میں ایک لفظ ضرور سننا پسند کرتے ہیں وہ ہے Weebs۔ یہ لفظ ایسے شخص کیلئے بولا جاتا ہے جسے جاپانی ثقافت سے اس حد تک لگائو ہوتا کہ وہ خود کو درحقیقت جاپانی ہی سمجھتا ہے۔

کسی چیز سے قطع نظر weeb لوگوں کی ایک قسم ہے، بڑی حد تک یہ امریکا سے درآمد شدہ لفظ ہے، یورپ میں Weeaboos ایسے یورپی لوگ ہوتے ہیں جو جاپانی کلچر اپنانا پسند کرتے ہیں، انہیں مضحکہ خیزسمجھ کر عام طور پر مذاق کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں weeb بننے کیلئے آپ کو ناصرف جاپانی کارٹونز، مصنوعات اور رسم و رواج میں دلچسپی ہونی چاہیے بلکہ اس ذیلی کلچر سے متعلق بھی کچھ جان پہچان ہونی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ چھوٹی سی سوسائٹی آخر اتنی اہم کیوں ہے؟ اس لیے کہ یہ لوگ ایک پوری مارکیٹ تشکیل دیتے ہیں جس کی بے حد ڈیمانڈ موجود ہے۔

پاکستان میں منی سو (MiniSo) کے نام سے ایک برانڈ جاپانی مصنوعات فروخت کر رہا ہے، ان کے سٹورز میں جائیں تو آپکو لگے کا آپ ٹوکیو کے کسی بڑے سٹور میں آ گئے ہیں، صاف شفاف اور سفید دیواروں پر سرخ بارڈر آپکو سائنس فکشن فلم کا سیٹ یاد دلا دیتے ہیں، یہاں صابن دانی، کلاک، کی بورڈ، تولیے، سلیپرز، کٹلری کا سامان، سپیکرز، سٹیشنری غرضیکہ  ہر چیز ملتی ہے اور ہر چیز جاپانی رنگ میں رنگی ہوتی ہے۔

منی سو پاکستانی مارکیٹ میں 2017 میں داخل ہوا تاہم چین میں 2013 سے کام کر رہا ہے، منی سو سٹورز امریکا، روس، کینیڈا، سنگاپور، یو اے ای، ملائیشیا، ہانگ کانگ، مکائو (چین) سمیت 60 سے زائد ممالک میں ہیں اور ان کی تعداد میں ماہانہ 80  سے 100 کے حساب کا اضافہ ہو رہا ہے، کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق صرف 5 سالوں میں منی سو نے دنیا بھر میں 3500 سٹور کھولے ہیں اور 2018 میں اسکا بزنس 2.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔

پاکستان میں 2017 میں کام شروع کرنے والے منی سو کے اب تک 45 سٹور کھل چکے ہیں۔

The Japanese aesthetic:

منی سو عالمی سطح پر جاپانی مصنوعات کا اکلوتا برانڈ نہیں ہے بلکہ دو اور برانڈز بھی یہی کام کر رہے ہیں تاہم وہ منی سو کی نسبت کافی چھوٹے ہیں۔ یہ دونوں برانڈز XimiVogue اور Latt Liv ہیں۔ یہ دونوں بھی جاپانی مصنوعات بیچتے ہیں تاہم ان کے ہیڈکوارٹرز چین میں ہیں، وہیں سے شروع ہوئے اور ابھی تک وہیں سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں، مصنوعات بھی چین میں تیار ہوتی ہیں۔ ان کے تمام یا کم از کم ایک شریک بانی  چینی شہری ہے، اس سب کے باوجود یہ تینوں برانڈ کہتے ہیں کہ وہ چینی نہیں ہیں۔

ریٹیل مارکیٹ میں کسی بھی برانڈ کا تشخص ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے کسٹمرز کو بتاتے ہیں کہ آپ چینی ریٹیلر ہیں اور چین میں ہی مصنوعات تیار کرتے ہیں تو وہ آپ کی مصنوعات کو سستا اور ناکارہ سمجھیں گے جیسا کی چینی مصنوعات کے بارے میں عام تاثر پایا جاتا ہے، اگر آپ انہیں یہ ظاہر کریں کہ آپ جاپانی مصنوعات فروخت کرتے ہیں تو کسٹمر فوری طور پر خریدے گا کیونکہ اس کے خیال میں جاپانی مصنوعات زیادہ پائیدار اور معیاری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ سے کہ یہ برانڈز وہی شناخت ظاہر کرتے ہیں جو ان کی مارکیٹنگ کیلئے بہترین ہوتی ہے۔

مثال کے طور منیسو خود کو ایک ’جاپانی ڈیزائنر برانڈ‘ کے نام سے ظاہر کرتا ہے لیکن اسکے زیادہ تر آپریشنز چین سے ہی سرانجام پاتے ہیں اور 2013 میں اس نے چین سے ہی کاروبار شروع کیا تھا۔ چند سالوں میں چین میں منی سو کی ایک ہزار سے زائد برانچز کھل چکی ہیں، ستمر 2013 میں ایک جاپانی ڈیزائنر Miyake Jyunya اور انکے چینی شراکت دار اور کمپنی صدر Ye Guo Fu نے اس کمپنی کی بنیاد جاپان میں ہی رکھی تھی۔ جاپان میں اپنا آفس  کھولنے کے بعد کمپنی کے بانی چین منتقل ہو گئے اور Guangzhou میں دفتر قائم کرلیا جو بعد میں کمپنی کا ہیڈکوارٹرز بن گیا۔ جاپان میں موجود برانچ صرف منی سو کا جاپانی تشخص قائم رکھنے کیلئے باقی رکھی گئی ہے۔

جاپان کا حوالہ دینے پر منی سو کو ہدف تنقید بھی بنایا جاتا ہے حالانکہ جاپان میں اس کے چند ایک ہی سٹور موجود ہیں جبکہ چین میں ایک ہزار سے زائد سٹور کھل چکے ہیں، سنگاپور کے اخبار The Straits Times کو انٹرویو دیتے ہوئے منیسو کے دونوں مالکان نے اس بات پر اصرار کیا کہ منی سو جاپانی ڈیزائنر برانڈ ہے، لیکن میڈیا رپورٹس کیمطابق جب منی سو چین میں شروع ہوا تو جاپان میں اسکا ایک بھی سٹور موجود نہ تھا۔ مالکان کوMiniSo کے نام کا بھی دفاع کرنا پڑتا ہے جو ایک دوسری جاپانی ریٹیلر کمپنی Daiso سے ملتا جلتا ہے اور اس کا لوگو Uniqlo سے ملتا ہے جو ایک مختلف ریٹیل برانڈ ہے۔

اسی طرح XimiVogue جو XimiSo کے نام سے بھی جانا جاتا ہے وہ بھی خود کو کورین برانڈ کے طور پر متعارف کراتا ہے جبکہ Latt Liv کے کرتا دھرتا اسے سکینڈے نیوین برانڈ کہتے ہیں۔

یہاں چینی سیاق و سباق اہم ہے، خاص طور پر لائف سٹائل سے متعلق مصنوعات کی کیٹیگری میں چینی خوردہ مصنوعات کی ساکھ کو دیکھتے ہوئے ، یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ یہ برانڈز خود کو ایسے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ نہیں ہیں۔ غیر معیاری ہونے کی وجہ سے چینی پروڈکٹس خاص طور پر پاکستان میں بدنام ہیں۔ اس لیے چاہے پروڈکٹس کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہوں یہ داغ ان کی مارکیٹ تباہ کر سکتا ہے۔ لیکن پرافٹ اردو کو اندرونی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ برانڈز دراصل چینی برانڈز ہی ہیں اور ان کی پروڈکٹس بھی ’’میڈ اِن چائنا‘‘ ہیں، اسے جاپانی برانڈ بنا کر پیش کرنا دراصل مارکیٹنگ سٹریٹجی ہے کیونکہ پاکستان سمیت عالمی مارکیٹ میں جاپانی مصنوعات اپنے شاندار معیار کی بدولت بہترین سمجھی جاتی ہیں۔ مناسب قیمتیں ان برانڈز کی پروڈکٹس کو پرکشش بناتی ہیں اور پروڈکٹس بھی خوشنما اور معیاری ہوتی ہیں، اندازہ لگائیں کہ اگر آپ جاپانی اشیاء دو اڑھائی سو کے حساب سے بیچیں تو کتنے کسٹمرز آپکے پاس آئیں گے۔

 بزنس ماڈل:

منی سو کا بزنس ماڈل وہی روایتی ریٹیلر ماڈل ہے، پروڈکٹس کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے کسٹمرز آپ کے پاس واپس آتے ہیں۔ زیادہ تر اِن ہائوس پروڈکشن ہوتی ہے اس کے علاوہ منی سو کی سپلائی چین بھی بہترین ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے کمپنی اپنا مارجن بھی کم رکھتی ہے۔ Forbes نے منی سو کے بانی Ye Guofo کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ منی سو صرف 8 فیصد gross margin حاصل کرتی ہے۔ تو ایسے میں وہ کونسی جادو کی چھڑی ہے جس کی وجہ سے کسٹمرز دوبارہ اسی کمپنی کی پروڈکٹس خریدنے چلے آتے ہیں؟

ہر منیسو سٹور پر محدود تعداد میں پروڈکٹس مہیا کی جاتی ہیں جن کا سٹاک بھی محدود ہوتا ہے۔ اس سے کافی فائدہ ہوتا ہے، اگر آپ منی سو پر کی کوئی پروڈکٹ پسند کریں تو یقیناََ آپ جلد از جلد اسے خریدنا چاہیں گے کیونکہ سٹاک ایک بار ختم ہو گیا تو وہ چیز شائد آپ کو دوبارہ نہ ملے۔ اسکی جگہ کئی نئی اور معیاری چیزیں آ جائیں گی۔

کیا منی سو کروڑوں کما رہا ہے؟

منی سو کے مالکان اسے ہمیشہ ذاتی کنٹرول میں رکھ کر چلانا پسند کرتے ہیں، دنیا بھر میں منی سو کے سینکڑوں سٹورز ہیں اور مالکان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جزوی طور پر اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں ہی رکھیں۔ تاہم پاکستان میں زیادہ تر منی سو سٹورز فرنچائزز کی صورت میں چل رہے ہیں۔

دسمبر 2018 میں Aurora Magazine کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں منی سو کے جنرل مینجر Kezhi Jiang نے بتایا تھا کہ دنیا میں زیادہ تر سٹور کمپنی خود چلاتی تھی تاہم تیزی سے توسیع دینے کیلئے منی سو نے فرنچائزنگ ماڈل نافذ کیا ہے۔

اگر پاکستان میں آپ فرنچائز لینا چاہتے ہیں تو آپ کو 3500 ڈالر کے حساب سے ناقابل واپسی مینجمنٹ فیس دینا ہوگی جو تین سال کیلئے ساڑھے دس ہزار ڈالر ہو گی۔ اسکے علاوہ ناقابل واپسی فرنچائز فیس 15 ہزار ڈالر ہوتی ہے، یہ فیس ٹیکسوں کے علاوہ ہوتی ہے، اسکے علاوہ قابل واپسی 15 ہزار ڈالر سکیورٹی  فیس دینا ہوتی ہے۔

 تزئین و آرائش کیلئے 200 ڈالر فی مربع میٹر، فرنیچر وغیرہ کیلئے 500 ڈالر فی مربع میٹر ایڈوانس فیس جبکہ گڈز فیس کی مد میں 8 ہزار ڈالر وصول کیے جاتے ہیں۔ یوں کل ملا کر ایک فرنچائز آپکو 2 لاکھ 10 ہزار 500 ڈالر سے 3 لاکھ 72 ہزار 500 ڈالر تک پڑتی ہے۔ اس میں حکومتی ٹیکس شامل نہیں ہوتے وہ فرنچائز خریدنے والے کو ہی ادا کرنا پڑتے  ہیں۔ اس سرمایہ کاری پر فرنچائز خریدنے والے کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ منی سو کے مطابق فرنچائز مالک خرچ کردہ رقم سے کہیں زیادہ کما لیتا ہے، منی سو کا دعویٰ ہے کہ تمام فرنچائز مالکان کو 35 فیصد سے 37 فیصد گراس پرافٹ مارجن دیا جاتا ہے اور ایک سے ڈیڑھ سال میں انکی سرمایہ کاری لوٹ آتی ہے۔

سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے منی سو ایک اچھا موقع ہو سکتا ہے۔ ایک انڈسٹری ایکسپرٹ نے بتایا کہ منی سو کی جانب سے فرنچائز مالکان کو دیا جانے والا مارجن کافی پرکشش ہے اور ان کی سرمایہ کاری کم سے کم سات ماہ جبکہ زیادہ سے زیادہ تین سال میں حاصل ہو سکتی ہے۔

ظاہر ہے ایسا نہیں ہے کہ منی سو سٹورز پر کسٹمرز کی تعداد کم نہیں ہوتی بلکہ منی سو اس حوالے سے کافی محتاط ہے اور انہی جگہوں پر سٹور کھولے جاتے ہیں جہاں کسٹمرز زیادہ آنے کا امکان ہو۔ حال ہی میں کمپنی نے 100 سے زائد ایسی جگہوں کی نشاندہی کی ہے جہاں سٹورز کھولے جائیں گے۔ فرنچائز دیتے وقت سٹور کی لوکیشن فریقین ملکر طے کرتے ہیں۔

ایک صنعتی ماہر نے پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منی سو جیسا کاروبار کے لئے ، ہر اس مارکیٹ کی جانچ کی جائے گی جہاں کمرشل سرگرمیاں زیادہ ہونگی اور وہاں سٹور کھولا جائیگا۔ مارکیٹ کی تجویز دونوں پارٹیاں بھی دے سکتی ہیں، فرنچائز خریدنے والے کو مختلف آپشن دئیے جاتے ہیں جس میں سے وہ سٹور کا انتخاب کرتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اچھی کمرشل لوکیشن نہ ہونے کی وجہ سے منی سو کئی فرنچائزز مسترد کرچکی ہے۔

فرنچائزز کی وجہ سے کمپنی کو اپنے توسیعی منصوبوں پر عمل پیرا ہونے میں مدد ملتی ہے۔ ملٹی پل فرنچائز کا مطلب ہے کہ سٹور کھولنے کیلئے سرمایہ کاری اسی تیز رفتاری سے متحرک رہتی ہے۔ پہلی آئوٹ لیٹ کھولنے کے بعد کئی مالکان نے مزید فرنچائزز کا معاہدہ بھی کیا ہے جو کہ اس بزنس سے حاصل ہونے والے منافع کا واضح ثبوت ہے۔ ایک دوسرا ثبوت کامیابی کا یہ بھی ہے کہ ابھی تک کسی فرنچائز مالک نے سیلز کی کمی کی وجہ سے نہ ہی اپنی فرنچائز بند کی ہے اور نہ ہی جگہ تبدیل کی ہے۔

ایک ماہر کے مطابق کمپنی کی مارکیٹنگ صرف اور صرف زبانی یا پھر اس کے آرٹ ورک سے ہوتی ہے، سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیا جاتا ہےاور حال ہی میں ڈسکائونٹ پر فرنچائز خریدنے سے متعلق تشہیر بھی سوشل میڈیا کے ذریعے کی گئی ہے حالانکہ ملکی معیشت سست روی کا شکار ہے۔

اپنے فرنچائز ماڈل کیساتھ منی سو ایک دوسری چینی کمپنی XimiVogue کو ٹکر دے رہی ہے، XimiVogue کے دنیا کے 80 ممالک میں 1500 سٹور موجود ہیں جو اس نے دس سالوں میں بنائے ہیں اور کمپنی کا کل سرمایہ 2018 میں 2 ارب چینی یوآن ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں اس کمپنی کے صرف 14 سٹور موجود ہیں اور رواں سال کمپنی اس نمبر کو 25 تک لے جانے کی خواہاں ہے۔

XimiVogue کی فرنچائز اگر آپ تین سالہ کنٹریکٹ پر حاصل کرنا چاہیں تو آپکو 15 ہزار ڈالر فرنچائز فیس، 10 ہزار ڈالر میجمنٹ فیس، قابل واپسی 10 ہزار سکیورٹی فیس، 200 ڈالر فی مربع میٹر سٹور کی تزئین و آرائش کا خرچ جبکہ ابتدائی طور پر چیزوں کے سٹاک کیلئے 600 ڈالر مربع میٹر کے حساب سے چارجز وصول کیے جائیں گے۔ یوں 93 مربع میٹر کے سٹور کیلئے آپ کو ایک لاکھ 32 ہزار 560 ڈالر ادا کرنا ہوں گے جس میں 76 ہزار 850 ڈالر مکمل سٹور کیلئے جبکہ 55 ہزار 800 ڈالر ابتدائی سٹاک کی مد میں ہونگے جبکہ حکومتی ٹیکس اس میں شامل نہیں ہیں۔ پاکستانی کرنسی کے حساب سے اگر ایک ڈالر 157 روپے کے برابر رکھا جائے تو کل رقم ایک کروڑ 68 لاکھ 35 ہزار 120 روپے بنتی ہے۔ ٹیکس اس کے علاوہ شامل ہونگے۔ منی سو سے تو یہ رقم کم ہے لیکن بات یہی ختم نہیں ہوتی، ایک فرنچائز مالک کو دکان کا کرایہ، سٹاف کی تنخواہ، ٹیکس، رجسٹریشن فیس اور ناجانے کون کون سے بل ادا کرنا ہونگے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں ایسے شاپنگ مالز بھی ہیں  جن کے کچھ مخصوص مطالبات بھی ہوتے ہیں اور اگر فرنچائز ایسی جگہ پر بنائی جائے تو قیمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ XimiVogue فرنچائز مالک کو 45 فیصد سے 49 فیصد تک مارجن دیتا ہے جو کہ منیسو سے 10-12 فیصد زیادہ ہے۔

تاہم مشاہدے اور سٹاف کے ساتھ بات چیت کے بعد ہم پر یہ منکشف ہوا ہے کہ کسٹمرز میں دونوں برانڈز مقبول ہیں، تاہم کسٹمرز منیسو کی جانب زیادہ کھنچے چلے آتے ہیں۔ حتیٰ کہ XimiVogue کے سٹاف نے بھی تسلیم کیا ان کی فرنچائز کیساتھ جہاں بھی منیسو کا سٹور ہوتا ہے وہاں انہیں گاہکوں کی کمی کا سامنا رہتا ہے، دوسری جانب Latt Liv باکل چھوٹے پیمانے پر کام کر رہا ہے اور پاکستان میں بہت کم سٹور کھلے ہیں، اسکا فرنچائز ماڈل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here