رواں سال اپریل میں رائیڈ سروس اوبر نے اپنی حریف کریم کو 3.1 ارب ڈالر میں خرید لیااور دونوں کے مابین حتمی ڈیل جنوری میں طےپا جائے گی، اس کا مطلب تھا کہ پاکستان میں رائیڈ سروسز انڈسٹری پر اب ایک کمپنی کی اجارہ داری قائم ہونے جا رہی ہے۔ حال میں دونوں کمپنیوں کی انتظامیہ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ پہلے کی طرح دو الگ ایپس اور پلیٹ فارمز کے ذریعے ہی خدمات مہیا کرتے رہیں گے لیکن دونوں میں مسابقت نہیں ہوگی، یہ کمپنیاں ملکر کچھ ایسی منصوبہ بندی کر رہی ہیں کہ مستقبل میں دونوں مختلف ناموں کیساتھ ہی سہی لیکن ایک ہوجائیں۔
اوبر اور کریم پاکستان سے باہر بھی مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں کام کر رہی ہیں، عالمی سطح پر انضمام کیساتھ مسابقت کا مسئلہ پاکستان سے باہر بھی درپیش ہے جس کی وجہ سے صارفین میں بھی کئی طرح کے خدشات پائے جاتے ہیں اور مختلف ریگولیٹرز اور نگران ادارے اس انضمام کا جائزہ لے رہے ہیں۔
دوسرے ممالک اوبر اور کریم کے انضمام سے متعلق اور اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں رائے دے چکے ہیں، پاکستان ابھی تک اس سر اٹھاتی اجارہ داری کے طریقہ کار میں ہی اٹکا ہوا ہے، ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر پا رہے کہ اس انضمام کا مارکیٹ پر کیا اثر ہو گا، مسابقتی کمیشن اس کی اجازت دے گا یا نہیں ؟ اور اگر دے گا تو کن شرائط پر؟ اور صارفین کا ردعمل کیا ہوگا؟
اس انضمام سے مارکیٹ میں خلاء پیدا ہو گاجسے کوئی نیا کھلاڑی پر کرے گا، تاہم اوبر اور کریم کو موجودہ مقام پر کھڑا کرنے والے عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ شائد کہنا آسان اور کرنا مشکل ہو۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کی وجہ سے رائیڈ سروس کے شعبے میں نئی کمپنیوں کا امکان ضرور موجود ہے لیکن مالی طور پر اس امکان کو عملی شکل دینا شائد آسان نہ ہو۔
’’منافع‘‘ نے ان سب باتوں کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
کریم نے 2015ء میں سروس شروع کی جبکہ اوبر مارچ 2016 میں متعارف ہوئی، یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کمپنیوں کی آمد کے وقت اس شعبے میں پوٹینشل کی کمی تھی بلکہ بے شمار رکاوٹیں ضرور موجود تھیں، سکیورٹی اور اعتماد سب سے بڑا مسئلہ تھا، کریم اور اوبر کو ناصرف اپنے ’رائیڈرز‘ کو اعتماد میں لینا تھا کہ بلکہ اپنے ڈرائیورز یعنی ’کیپٹنز‘ کو بھی اس بات پر آمادہ کرنا تھا کہ یہ سروس انکی کمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہوگی۔
کیپٹن:
شروع میں یہ کمپنیاں اپنے کیپٹن کو بونس، منافع کیساتھ ماہانہ آمدن کی گارنٹی دیتی تھیں، رائیڈرز کو بھی فری رائیڈز، پروموشن کوڈز اور تحائف تک دئیے جاتے تھے، ’’منافع‘‘ نے کئی کپٹنز کا انٹرویو کیا جس سے معلوم ہوا کہ آغاز میں ان کی آمدن 80 ہزار تک بھی ہو جاتی تھی جس میں 50 ہزار خالص ان کے ہوتے تھے۔ اوبر،کریم، رومر اور دیگر ایسی کمپنیوں کو کیپٹنز کی رجسٹریشن کی سروسز دینے والی کمپنی کے مصدقہ اکائونٹ ہولڈر کیپٹن کو اوبر ابتدائی دنوں میں صرف ’’آن لائن رہنے‘‘ پر 500 روپے ادا کرتی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ڈرائیور کو بغیر کسی رائیڈ کے بس ایپ پر لاگ اِن رہنا تھا چاہے وہ ایک بھی رائیڈ نہ لے اور گھر سے قدم باہر رکھے بغیر وہ روزانہ 12 ہزار کما سکتا تھا۔ ابتدائی دنوں میں کریم بھی کم و بیش اپنے کپٹینز کو ایسے ہی بونس دیتی تھی۔
کریم کے ایک کیپٹن نے بتایا کہ ’’ہمیں ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے رائیڈز لینا ہوتی ہیں، یہ ٹارگٹ رائیڈز کی تعداد کے حساب سے بھی ہو سکتا ہے اور حاصل ہونے والے کرائے کی رقم سے بھی۔ ٹارگٹ پورا کرنے پر ہمیں ناصرف بونس ملتا ہے بلکہ ریٹنگ بھی مستحکم رہتی ہے۔ بعض اوقات کسٹمرز کو ریٹنگ کا کہیں تو وہ ناراض ہوتے ہین لیکن یہ ہمارے لیے اہم ہے کیونکہ جتنی ہماری ریٹنگ بہتر ہو گی اتنی زیادہ رقم ہمیں ملے گی۔‘‘
تاہم بعد میں آہستہ آہستہ ڈرائیورز کیلئے یہ بونسز اور انعامات کم ہوتے گئے اور اب دونوں کمپنیاں ایک ہو چکی ہیں، انضمام کے بعد یہ عمل مزید تیز ہو چکا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کہیں دونوں کمپنیاں پہلے ہی ایک دوسرے سے اشتراک میں تو نہیں چل رہی تھیں۔ تاہم ڈرائیورز میں کیے گئے ہمارے ایک سروے کے مطابق 2018ء میں ڈرائیورز کی اوسط آمدنی کم ہونا شروع ہوگئی تھی لیکن 2019ء میں ان کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اس دوران انہیں ملنے والے بونس اور انعامات وغیرہ میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں، کاروں کی دیکھ بھال کے اخراجات، ان پر سود کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ڈرائیورز کی آمدن اور منافع کم سے کم ہو رہا ہے۔
اسلام آباد میں 2006 ماڈل مہران سوزوکی چلانے والے کریم کے ایک کیپٹن نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’’اب مجھے پسماندہ علاقوں سے بمشکل ہی کوئی رائیڈ ملتی ہے۔ پہلے چھوٹی کاروں کے بھی بہت زیادہ کسٹمرز تھے اور شہر کے ہر کونے سے مل جاتے تھے۔ بلکہ میں اکثر دنوں میں ڈائیوو سٹیشن کے قریب ہوتا تھا تو اسلام آباد آنے والے مسافر لمبے فاصلے کی رائیڈز لیتے تھے۔ اب قیمتیں بڑھ چکی ہیں، میں ڈیفنس، کینٹ اور ڈپلومیٹک انکلیو سے لوگوں کو پِک کرتا ہوں، بہت سے لوگ چھوٹی کار کی بھی پرواہ نہیں کرتے، بلکہ کم پیسوں میں اپنی منزل پر پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘
کیپٹن کے مطابق شائد چھوٹی کاروں والوں کو قیمتیں بڑھنے کا فائدہ پہنچا ہے کیونکہ زیادہ پیسوں کی متوسط طبقہ کے لوگ چھوٹی کاروں کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ امیر رائیڈرز چھوٹی کاروں کی نسبت Go، Go+ وغیرہ کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
یہاں پڑھنے والوں کیلئے واضح کرتے چلیں کہ رائیڈز کی کم ہوتی تعداد کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کسٹمرز کم ہو چکے ہیں بلکہ پہلے کی نسبت ڈرائیورز زیادہ ہو چکے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جو کسٹمرز 2018ء میں ہفتہ وار پانچ رائیڈز لیتے تھے وہ اب دوگنا زیادہ لیتے ہیں۔
عمر فاروق اوبر اور کریم دونوں کیلئے 2017 ماڈل ہونڈا سوک چلاتے ہیں، وہ کہتے ہیں ’’ مجھے نہیں لگتا کہ قیمتیں بڑھنے سے بھی کسٹمرز کی تعداد کم ہوئی ہو، اوبر کیپٹن کو بھی کافی بہتر معاوضہ دیتی ہے۔‘‘
عمرفاروق نے مزید کہا کہ انہوں نے 2017 میں جب اوبر کیساتھ کام شروع کیا تھا تو بونس زیادہ تھے، کسٹمرز بھی زیادہ آتے تھے، تاہم وقت کیساتھ کسٹمرز مزید بڑھتے گئے اور دن کے اختتام ان کی کل آمدن پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ’’کریم ویٹنگ ٹائم دیتی ہے اور لوگوں نے جب مختلف جگہوں پرجانا ہو تو وہ کریم استعمال کرتے ہیں، دوسری جانب اوبر مقرر کردہ رقم لیتی ہے، میرے پاس کریم کی نسبت اوبر کے زیادہ کسٹمرز ہیں۔ اب کسٹمرز بھی کافی ہوشیار ہو چکے ہیں انہیں معلوم ہے کہ دونوں میں کونسی سروس بہتر ہے۔‘‘
تاہم عمر فاروق نے کہا کار کی دیکھ بھال وغیرہ کے اخراجات کافی بڑھ چکے ہیں، تاہم دونوں کمپنیوں نے اس لحاظ سے ڈرائیورز کیلئے بونسز اور رائیڈ ریٹ نہیں بڑھائے۔
کریم کے ایک اور کیپٹن نے نام ظاہر نہ کرنے کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’میں نے دبئی میں 11 سال ڈرئیورکے طور پر کام کیا، گزشتہ سال پاکستان آکر اوبر کیساتھ رجسٹرڈ ہوا، وہ کریم کی نسبت بہتر پیکج دے رہے تھے، ایک دن میرے بیٹے نے فون اٹھایا اور ایک ایسی خاتون کو میسج کر دیا جسے میں نے رائیڈ دی تھی، اس خاتون کی شکایت پر کمپنی نے میری رجسٹریشن منسوخ کردی، میسج کچھ بھی نہیں تھا بس بےمعنی الفاظ تھے، اب مجھے کار پر زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے، لیکن اپنی فیملی کیلئے کام کر رہا ہوں حالانکہ کریم اوبر سے زیادہ ادائیگی بھی نہیں کرتی۔
نعمان احمد اوبر اور کریم دونوں کی حمایت کرتے ہیں، ’’میں نے اوبر کیساتھ کام کیا ہے سو ان کے کام کے طریقہ کار کا علم ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی کمپنی کو کامیابی کیساتھ چلانے کے بعد مزید توسیع دے رہے ہیں، کس طرح کوئی توقع کر سکتا ہے کہ کمپنی صرف رقم ادا ہی کرتی رہے؟‘‘
کسٹمرز:
تمام رائیڈنگ سروسز کے کسٹمرز سے سروے اور انٹرویوز میں ایک پوائنٹ ک جانب ضرور اشارہ کیا کہ ’’قیمتیں زیادہ ہو رہی ہیِں اور اسکے ساتھ ہی سروس کا معیار گر رہا ہے، لیکن کسی اور قابل اعتماد متبادل ذریعہ کی دستیابی تک کسٹمرز انہی سروسز پر انحصار کرتے رہیں گے۔‘‘
انضمام کے بعد قیمتیں زیادہ بڑھیں ہیں۔ قیمتوں میں اضافے کے برعکس 2018اور 2019 کے دوران اور خاص طور پر انضمام کے بعد ان کمپنیوں کی اوورآل سروس، کاروں کی حالت، ہیلپ لائن کی سروس فراہمی کے معیار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سب کے باوجود کسٹمرز کسی بھی نئی سروس کیلئے زیادہ پرجوش نظر آتے ہیں۔ کم و بیش سروے میں آدھے کسٹمرز نے کہا کہ اگر کوئی نئی سروس شروع ہوتی ہے تو وہ اسے استعمال کرنا چاہیں گے۔
منصور آفتاب روزانہ رائیڈ سروسز کو استعمال لرتے ہوئے لاہور میں 35 کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ سہولت سے زیادہ ضرورت بن چکی ہیں۔ ’’گزشتہ چند سالوں کے دوران گو کہ دونوں رائیڈ سروسز کے کرایوں میں اضافہ ہوا ہے، میں پارکنگ کے مسئلے کی وجہ سے اپنی کار استعمال کرنے کی بجائے اوبریا کریم سے استفادہ کرتا ہوں۔‘‘
ایک چیز کی جانب منصور آفتاب اور پانچ دیگر کسٹمرز نے بھی اشارہ کیا کہ انہیں پیک فیکٹرز کی وجہ سے 50 روپے سے 100 روپے تک زیادہ ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ذاتی کار رکھنے والے کسٹمرز تو شائد یہ چیز برداشت کر سکتے ہیں لیکن جو شخص سہولت لینے سے زیادہ پیسے بچانے کیلئے ٹیکسی استعمال کرتا ہے اس کا کیا ہوگا؟
اسلام آباد میں ایک پرائمری سکول ٹیچر نزیہہ سیکندر نے بتایا کہ ’’جب میں سکول کے کسی فنکشن سے لیٹ ہو جائوں تو عموماََ GO+ یا بزنس کار منگواتی ہوں، میں اوبر کی ہیلپ لائن نہیں ہے، انکی ایپ بھی قدرے پیچیدہ ہے، اس لیے اوبر کی سروس استعمال نہیں کرتی۔‘‘
اسی طرح ایک دوسرا مسئلہ اوبر کے والٹ سسٹم کا نہ ہونا تھا جو حال ہی میں شروع کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی خاتون رات کو سفر کرے اور جلدی میں ہو، ریزگاری پاس نہ ہو تو کیا کرے گی؟ ’’ میں کوئی ایسی سروس استعمال نہیں کرونگی خاص طور پر رات کو، جو کہ کریم کی طرح جانی پہچانی اور محفوظ نہ ہو، مجھے کاروں یا ان کے ڈرائیوروں سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا صرف تحفظ ہی میرا مسئلہ ہےاور اس کے لیے زیادہ ادائیگی بھی کرسکتی ہوں۔‘‘
کراچی سے واصف کمیل کہتے ہیں کہ ’’ کراچی کی پرہجوم سڑکوں پر سفر کا آسان ترین ذریعہ میرے لیے تو کریم بائیک ہی ہے۔ اپنی ذاتی کار استعمال کرنے کی نسبت کریم بائیک پر کم خرچہ ہوتا ہے، چاہے موسم کتنا بھی گرم کیوں نہ ہو مجھے بائیک کار کی نسبت زیادہ بہتر محسوس ہوتی ہے کیونکہ کار کا اے سی شائد چلے یا نہ چلے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ لاہور اور اسلام آباد میں بائیکیا اور ڈیوو کیب کی سروسز استعمال کرچکے ہیں تاہم کریم کو سب سےبہتر پایا، ’’ڈائیوو کے پاس صرف بڑی کاریں ہیں، جو ایک ریگولر کسٹمر روزانہ کم ہی استعمال کرتا ہے، بائیکیا کا ڈلیوری ٹائم اور ٹریکنگ سروس اچھی ہے۔ تاہم میں ایک ہی ایپ استعمال کرتا ہوں جس سے سب کچ میسرجاتا ہے۔‘‘
انتظامیہ اوبر اور کریم کے انضمام کو کیسے ہینڈل کر رہی ہے؟
کم و بیش آدھے کسٹمرز کا یہ ماننا تھا کہ یہ انضمام نہیں ہونے دینا چاہیے تھا جبکہ باقی آدھے کسٹمرز کا کہنا تھا کہ وہ انضمام پر کچھ خاص پابندیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔
لیکن کسٹمرز کی رائے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پہلے مرحلے میں جائزہ لیتے ہوئے مسابقتی کمیشن نے اس انضمام کی اجازت دینے کے خلاف رائے دی تھی، اس حوالے سے مسابقتی کمیشن کے حکم کی جاری کردہ دستاویز میں لکھا ہے کہ’’ کمیشن کو معلوم پڑا ہے کہ مجوزہ ٹرانزیکشن متعلقہ مارکیٹ میں ایک غالب پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے مسابقت (مقابلہ کی فضاء)کو کم کریگی۔‘‘ اس کے نتیجے میں انضمام کا جائزہ لینے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔
قانونی طور پر مسابقتی کمیشن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اوبر اور کریم پر انضمام سے پہلے پابندیا لگا دے لیکن عملی طور پر کمیشن ایسا ہونے کی امید نہیں ہے، اسکی وجہ صرف یہ ہی نہیں کہ کمپنیاں بین الاقوامی سطح پر کام کر رہے ہیں اور انضمام کی صورت میں ٹرانزیکشن سی سی پی کے کنٹرول سے باہر ہوگی۔
سینیر قانونی معاون سید رضا حسن شاہ کہتے ہیں ’’دونوں کمپنیاں پاکستان سے باہر سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے مسابقتی کمیشن کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اگر مارکیٹ کی آپ بات کریں تو ہو سکتا ایک قسم کی اجارہ داری قائم ہو جائے یا شائد وہ بھی نہ ہو کیونکہ دیکھنا ہو گا کہ یہ کمپنیاں مارکیٹ میں کتنا شئیر رکھتی ہیں۔ اوبر کریم سے کم شئیر کی حامل ہے، کریم بھی سارے بڑے شہروں میں کام نہیں کر رہی جو اس کی اجارہ داری قائم ہو گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر اس انضمام کے حوالے سے سی سی پی کے اختیارات کی بات کی جائے تو کمیشن کے پاس کچھ اختیارات نہیں ہیں، زیادہ سے زیادہ وہ کمپنیوں کو سپیشل سروس کی کیٹیگری میں ڈال سکتے ہیں، یا ان کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ نئی اوبر کریم پر کسی قسم کا ایڈیشنل ٹیکس یا سروس چارجز لاگو کیے جا سکتے ہیں، جس سے الٹا فائدے کی بجائے کمیشن کو نقصان ہی ہوگا۔‘‘
اس حوالے سے تازہ ترین خبریں نیویارک سے آئیں جہاں اوبر کے سی ای او Dara Khosrowshahi نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرکے پاکستان میں پانچ لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کا اپنا منصوبہ شئیر کیا۔ اس حوالے سے مسابقتی کمیشن نے کسی قسم کی رائے کا اظہار کرنے سے انکار کردیا۔
تاہم کمیشن کی جانب سے کہا گیا وہ دیگر ممالک سے بھی بات چیت کر رہے ہیں جہاں جہاں اوبر اور کریم کام کرتی ہیں۔ قطر نے اوبر کی جانب سے کریم کو خریدنے کے عمل کو روک دیا تھا جبکہ مصر میں دونوں کمپنیوں کو کسی قسم کے انضمام کی صورت سے 28 ملین ڈالر جرمانے کی وارننگ جاری کی گئی تھی۔ صرف متحدہ عرب امارات میں ان دونوں کمپنیوں کو انضمام کیلئے گرین سگنل ملا ہے۔
مارکیٹ کا کیا ہوگا؟
شائد اس بات کا اندازہ لگانا ممکن نہ ہو کہ ڈرائیورز کے معاوضوں میں کس قدر کمی ہوئی ہے یا یہ بھی کہ اب اوبر اور کریم کتنا منافع کما رہی ہیں، کہیں نہ کہیں ڈرائیورز میں یہ اتفاق رائے موجود ہے کہ دونوں کمپنیاں ان کے مالی مفادات دبا رہی ہیں، دوسری جانب کسٹمرز میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کریم کی مددگار ہیلپ لائن اوبر کی طرح اب بے فائدہ ثابت ہو رہی ہے اور اوبر کے کم ریٹس جو فکس تھے وہ کریم کی طرح بڑھ رہے ہیں۔
ان تبدیلیوں سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اوبر اور کریم دکھانا چاہتی ہیں کہ وہ آزادانہ حیثییت میں ایک دوسرے کے مدمقابل کام کر رہی ہیں، سچ تو یہ ہے کہ مارکیٹ میں کوئی دوسری ایسی کمپنی نہیں جو اوبر اور کریم کو اپنی سروسز ڈرائیورز اور کسٹمرز کے موافق بنانے پر مجبور کرے۔ انضمام کے مارکیٹ پر مجوزہ اثرات کے حوالے سے اوبر یا کریم نے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔
تاہم اوبر کے سی ای او Dara Khosrowshahi کے مارچ 2019 میں کریم خریدنے سے قبل اپنے سٹاف کو ایک خط لکھا جو CNBC نے شائع کیا جس میں لکھا تھا کہ ’’دونوں کمپنیاں ایکوزیشن کے بعد بھی علیحدہ ہی چلیں گی۔‘‘ خط کے ایک اقتباس میں کہا گیا ہے کہ کافی سوچ بچار کے بعد موجودہ فریم ورک میں ہمیں نئی پروڈکٹس متعارف کرانے اور نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کا زیادہ موقع ملے گا کیونکہ ہمارے پاس دو پلیٹ فارم ہونگے، وقت کیساتھ اپنے نیٹ ورک کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر ہم زیادہ موثر طور پر اور کم وقت میں کام کر سکتے ہیں، زیادہ کپیسٹی کی گاڑیاں اور ادائیگی کے نئے طریقہ کار متعارف کروا سکتے ہیں۔‘‘ تاہم وہ آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی تک ریگولیٹری اٹھارٹیز کی منظوری ملنے کی توقع رکھتے ہیں نہ ہی آپریشنل سائیڈ سے کچھ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
کریم کے کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ’’پرافٹ اردو‘‘ کو بتایا کہ ’’ٹرانزیکشن مکمل ہو جانے پر کریم موجودہ ٹیم کے تحت ہی آزادنہ برانڈ کے طور پر کام جاری رکھے گی، کریم کے شریک بانی اور سی ای او مدثر شیخا کمپنی کی قیادت کرتے رہیں گے۔‘‘ مزید کہا گیا کہ ’’دونوں کمپنیاں (اوبر اور کریم) مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے مختلف پروڈکٹس اور سروسز فراہم کرتی رہیں گی۔‘‘ اس بات سے انکار نہیں کیا گیا کہ کریم کی ہیلپ لائن کسٹمرز کیلئے بند کر دی گئی ہے۔ کریم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سنکے کال سینٹر تک رسائی اب صرف GO+ اور اس سے اوپر کے کسٹمرز کیلئے ہوگی، ڈرائیورز کے لیے سروسز کے مسئلے سے بھی انکار نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ ہماری تمام پالیسیاں اور سروسز رائیڈرز یا ڈرائیورز کیلئے اوبر سے یکساں مختلف ہیں۔
خلاء موجود ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں:
اوبر کی جانب سے کریم کا انتظام سنبھالنے کے بعد کیا یہ اچھا وقت نہیں کہ اس خلاء کر پر کیا جائے؟ انڈسٹری میں انویسٹرز کو پیش آنے والے مسائل پر جب بات چیت کی جاتی ہے تو سب سے پہلے بنادی ڈھانچے کی قیمت پر بات ہوتی ہے۔ موبائل ایپلیکشن کے ماہر مقبول عالم کے مطابق اس بنیادی ڈھانچے کو اگر ایک انٹرنیٹ اپلیکیشن تصور کیا جائے تو اس پر زیادہ سے زیادہ اخراجات ڈیڑھ لاکھ تک ہو سکتے ہیں۔ ’’کریم جیسی ایپ کہیں سے بھی 50 ہزار سے لیکر اڑھائی لاکھ روپے تک میں تیار ہو سکتی ہے، تاہم ڈیٹا بینک اور سرورز پر اصل خرچ ہو گا جہاں سے آپ کی ایپلیکشن نے آپریٹ کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’بیک اینڈ کافی ڈیٹا اکٹھا ہو جاتا ہے جسے ناصرف استعمال کیا جاتا ہے بلکہ مستقل کے استعمال کیلئے محفوظ بھی رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ بنیادی آپریشنل اخراجات 40 لاکھ سے 50 لاکھ تک ہو سکتے ہیں تاہم یہ محتاط تخمینہ ہے۔‘‘
نعمان احمد بھی کم و بیش ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’’کوئی بھی شخص ایپ بنوا سکتا ہے، یہ انڈسٹری میں انٹری کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اصل مسئلہ ڈرائیورز اور کسٹمرز کو راضی کرنا اور اپنی کمپنی کی بطور برانڈ ایک پہچان بنانا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ کریم اور اوبر جب پاکستان میں آئی تھیں تو پہلے ہی ان کی ایک شہرت قائم ہو چکی تھی، اس کے باوجود دونوں کمپنیوں کو کسٹمرز کو اپنی جانب مائل کرنے کیلئے خاصی تگ و دو کرنا پڑی۔ ’’نئی کمپنیوں کو اوبر اور کریم کی نسبت کم قیمتوں پر اور زیادہ بہتر سروسز کیساتھ اس انڈسٹری میں آنا ہوگا۔‘‘
اس حوالے سے منصور احمد کہتے ہیں کہ وہ کم کرایہ دیکھ کر کمپنی تبدیل نہیں کرنا چاہیں گے بلکہ نئی کمپنی کی سروس سے مطمئن ہو کر ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔
پرافٹ اردو نے جن ڈرائیورز کے انٹرویوز کیے ان کی رائے اس حوالے سے قطعاََ مختلف تھی، تمام ڈرئیورز ہی نئی راہوں کی تلاش میں تھے، کم از کم آدھے اوبر کیساتھ کریم پر بھی کام کر رہے تھے تاہم ان میں سے کسی نے بھی مارکیٹ میں حال ہی میں آنے والی کسی کمپنی کیساتھ کام شروع نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر پلیٹ فارم تبدیل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ زیادہ تر کو یہی شکایت ہے کہ اوبر اور کریم ابتداء میں تو بہت اچھی ہیں لیکن وقت کیساتھ ساتھ تنگ کرنے لگتی ہیں۔ ’’دونوں کمپنیاں جب آئیں تو انہوں نے اپنے ڈرائیورز پر اچھی خاصی رقم نچھاور کی، صرف ایک گھنٹہ آن لائن رہنےپر اوبر اپنے ڈرائیورز کو 500 روپے ادا کرتی تھی۔ تصور کریں کہ صرف آن لائن رہنے پر آپ دن کے 12ہزار روپے کما سکتے ہیں۔ کریم بھی کسٹمرز بنانے کیلئے ابتداء میں کم و بیش اسی طرح کرتی تھی، تاہم جب انہیں مخصوص تعداد میں ڈرائیورز مل گئے تو ان کی توجہ توسیع کی جانب مائل ہو گئی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اب جو ڈرائیورز کام شروع کر رہے ہیں انہوں نے پرانی باتیں سن رکھی ہیں اب اس بات سے قطع نظر کہ وہ کیا کچھ حاصل کرتے ہیں، انہیں زیادہ آمدن ک ابھی امکان ہے لیکن موجودہ صورتحال ان کے موافق نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہ جب اوبر پاکستان میں قدم جما رہی تھی تو ’’تو کچھ فلیٹ مالکان اور کچھ انفرادی ڈرائیورز نے کام شروع کیا، فلیٹ مالکان کو کمپنی زیادہ معاوضہ دیتی تھی لیکن مقصد ایک ہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ ڈرائیورز بھرتی کرنے ہیں، لیکن آپ کب تک توقع کرسکتے ہیں کہ ایک کمپنی بس پیسہ خرچتی ہی رہے، اس لیے وقت کے ساتھ یہ تصور بھی بدل گیا۔‘‘
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ڈرائیورز زیادہ آمدن کو ترجیح دیتے ہیں ایک نئی کمپنی Timesaco ڈرائیورز کو ان کی کمائی میں سے 98 فیصد دینے کی پیشکش کر رہی ہے۔ اس کے برعکس کریم 25 فیصد اور اوبر 20 فیصد خود رکھتی ہے، (یہ اعدادوشمار اوبر اور کریم کے ڈرائیورز نے دیے ہیں)۔ ’’دراصل یہ 98 فیصد والی آفر مارکیٹنگ کی چال ہے، جو ہو سکتا ہے Timesaco کو کچھ فائدہ پہنچا جائے کیونکہ وہ ممبرشپ اور فرنچائز کی رقم حاصل کریں گے، لیکن یہ آمدن آئے گی کہاں سے؟ کیا کسٹمرز ان نئی سروسز کی جانب متوجہ ہونگے؟ یہ بنیادی سوال ہے۔
نئی کمپنیاں کیا آفر کر رہی ہیں؟
بہت ساری کمپنیوں پہلے ہی رائیڈ سروس فراہم کر رہی ہیں اور کئی ایک اب اس میدان میں آ رہی ہیں۔ شائد آپ نے ائیر لفٹ، سیارہ، براق، رومر وغیرہ جیسے نام سن رکھے ہوں۔ پرافٹ اردو کے سروے کے مطابق ائیرلفٹ ان تمام نئی کمپنیوں میں سب سے زیادہ کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں ان کمپنیوں ور انکے رائیڈرز اور کیپٹنز کو دی جانے والی سروسز کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ائیرلفٹ:
ائیرلفٹ کسٹمرز کے گروپس کیساتھ کام کرتی ہے۔ زیادہ مصروف روٹس پر کمپنی 18 سے 22سیٹوں والی Hiace وین اور کوسٹریں چلا رہی ہے، یہ بھی کار ٹیکسی سروس کی طرح ہے، مخصوص بس سٹاپ پر جانےکی بجائے کسٹمرز موبائل ایپ کے ذریعے اپنی مطلوبہ جگہ پر کوسٹر یا وین منگوا سکتے ہیں، عام روایتی ویگنوں کے برعکس ائیرلفٹ ہر مسافر کو سیٹ مہیا کرتی ہے، گاڑی میں ائیرکنڈیشنز اور لائیو ٹریکنگ کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ ابتداء میں کمپنی ایپ ڈائون لوڈ کرنے پر پانچ مفٹ رائیڈز کی سہولت دیتی رہی ہے، تاہم سروس کچھ مخصوص روٹس پر چلتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ صرف مخصوص اوقات اور مخصوص جگہوں سے مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کرایہ 50 روپے رکھا گیا ہے جو اسے اوبر یا کریم سے زیادہ پرکشش بناتا ہے۔
سیارا:
یہ اوبر یا کریم کا متبادل ہے، یہ کمپنی رواں سال جولائی میں شروع ہوئی تو اسکے ابتدائی فلیٹ میں دو ہزار کاریں شامل تھیں جنہیں کرائے اور کیٹیگری کے لحاظ سے اسی طرح تقسیم کیا گیا تھا جیسے اوبر یا کریم کی کاریں موجود ہیں۔ البتہ جو چیز زیادہ بہتر ہے وہ کم کرائے اور پیک فیکٹر کا نہ ہونا ہے، سروس ابھی کراچی میں دستیاب ہے اور مارکیٹ میں نام بنا سکتی ہے تاہم کچھ صارفین اس کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں، کسٹمرز زیادہ وصولی کی شکایت کرتے پائے جاتے ہیں اور کئی اپنی رقم واپس مانگتے نظر آتے ہیں، سیارا کی ہیلپ لائن بھی مددگار نہیں ہے۔
براق:
یہ سروس چینی کمپنی Timesaco نے متعارف کرائی ہے جو ایک ٹیکسی سروس سے شروع ہوئی، اوبر اور کریم کے برعکس یہ کمپنی ڈارئیورز کو 98 فیصد آمدن دیتی ہے، اسکے مالک ڈونلڈ لی کے مطابق ’’ہم 97 فیصد کیش کی صورت اپنے ڈرائیورز کو دیتے ہیں جبکہ ایک فیصد ان کے ڈرائیور فنڈ میں جاتا ہے جس سے انہیں میڈیکل، انشورنس اور ڈسکائونٹس ملتے ہیں۔‘‘ ڈونلڈ لی کہتے ہیں ’’میرا نہیں خیال کہ ہمارا کسی سے مقابلہ ہے، بلکہ ہم سب کو شراکت دار سمجھتے ہیں کیونکہ جتنی زیادہ کمپنیاں اس میدان میں آئیں گی اتنے زیادہ کسٹمرز آئیں گے اور مارکیٹ کو مجموعی طور پر فائدہ ہوگا۔‘‘
Roamer:
کسٹمرز شیفر پر متشمل اس کار سروس کو ایک ماہ کیلئے بھی اور ایک گھنٹے کیلئے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں یہ رینٹ اے کار کی طرح ہے، رومر کا ٹارگٹ ایسے کسٹمر گروپ ہیں جو کسی مخصوص اوقات کار کیلئے سروس حاصل کرتے ہیں، یوں یہ کار سروس رینٹ کار سروسز اور رائیڈ سروس کمپنیوں کی طرح ہی کام کر رہی ہے۔ اس میں ادائیگی اوبر یا کریم کے برعکس صرف ایک موبائل ایپ سے ہوتی ہے لیکن بہتر ٹریکنگ یا کم کرائے جیسی کوئی بات نہیں ہے صرف ایک ہی خوبی ہے کہ کسی مخصوص وقت کیلئے آپکو شیفر مل جاتا ہے۔
یہ فہرست مکمل نہیں ہے، Carruba اور مائی لفٹ جیسے بہت سے انٹرپرینیورز میدان میں ہیں۔ کمپنیوں کے مابین مسابقت بڑھ رہی ہے اور انہیں کسٹمرز کو متوجہ کرنے کیلئے نئے طریقے سوچنا ہوں گے۔
رپورٹ: سیدہ معصومہ