اگست میں پاکستان نے 48 فیصد بجلی ماحول دوست ذرائع سے حاصل کی   

1235

یوں تو یہ بات متضاد نظر آتی ہے لیکن ہے سچ کہ اگست 2019 میں پاکستان نے بجلی کی کل پیداوار میں سے آدھی بجلی ایسے ذرائع سے پیدا کی جو گرین ہائوسز گیسیں خارج نہیں کرتے، نیپرا کے اعدادوشمار کے مطابق غیر کاربن ذرائع سے پیدا شدہ بجلی، جسے ہیڈرو الیکٹریسٹی بھی کہتے ہیں، نیوکلئیر، سولر اور ہوا سے پیدا کی گئی۔ یوں ان ذرائع سے مجموعی طور پر 47.7 فیصد بجلی پیدا ہوئی حالانکہ ملک بھر میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے اکثر ذرائع قومی گریڈ سے منسلک نہیں ہیں اور نیپرا ان کی پیمائش نہیں کرسکتا۔

رواں سال ہیڈروالیکٹرک پاور کی پیداوار عمومی پیداوار سے زیادہ رہی، اسکی وجہ یہ بھی قرار دی جا سکتی ہے کہ گرمیوں میں گلیشئیرز پگھلنے وجہ سے دریائوں اور ڈیموں میں پانی زیادہ ہوتا ہے اس لیے پن بجلی (ہیڈروالیکٹریسٹی) زیادہ پیدا ہو سکتی ہے۔

جے ایس گلوبل کیپٹل کے ریسرچ اینالسٹ علی ایچ زیدی نے 27ستمبر 2019ء کو اپنے کلائنٹس کیلئے جاری کردہ ایک نوٹ میں لکھا کہ ’’ حالیہ طوفانی بارشوں کی وجہ سے رواں مہینوں کے دوران ہیڈروپاور جنریشن میں اضافہ ہوا ہے اور اگست لگاتار چوتھا مہینہ تھا جب ہیڈروپاور کی پیدوار زیادہ رہی۔‘‘

لیکن اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں نان کاربن بیسڈ ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کافی بڑھ رہی ہے، 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال تک پاکستان نے کم و بیش 36.9 بجلی ایسے ہی ذرائع سے پیدا کی تھی جو ماحولیات پر منفی اثرات نہیں ڈالتے۔ نیپرا کے مطابق یہ گزشتہ دس سالوں میں سب سے زیادہ پیداوار تھی جو ماحول دوست ذرائع سے حاصل ہوئی۔

اس کے ساتھ ہی بجلی پیدا کرنے کیلئے پاکستان میں تیل اور کوئلے کا استعمال کم ہو رہا ہے، مالی سال 2019ء کے دوران کوئلے سے صرف 20 فیصد بجلی پیدا کی گئی جو کہ گزشتہ 10 سالوں میں کم ترین ہے۔ اسی سال کے دوران ہی 40 فیصد بجلی قدرتی گیس سے چلنے والے کارخانوں نے پیدا کی۔ تاہم ان اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مجموعی طور پر بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال ہونے والا ایندھن خواہ کسی حد تک صاف (نان کاربن)  بھی ہو لیکن اس کے مقابلے میں آلودہ ایندھن (کوئلہ اور تیل) ماحول کو زیادہ تیزی سے آلودہ کر رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے اقدامات پر اثرانداز ہو رہا ہے۔

خاص طور پر پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کیلئے کوئلے کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے۔ 2016 میں بجلی کی پیدا کرنے کیلئے محض 0.1 فیصد کوئلا استعمال ہو رہا تھا لیکن 2019  میں 13.3 فیصد استعمال ہو رہا ہے۔ جولائی اور اگست 2019 میں بجلی کی پیداوار میں کوئلہ سب سے زیادہ 27 فیصد استعمال ہوا حتی کہ ہیڈروپاور سے بھی پیدوار اس کی بسبت کم یعنی 23 فیصد رہی تھی، یوں کوئلے کا بڑھتا ہوا رجحان ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

2013 سے لیکر پاکستان میں توانائی کی  پیداوار میں تبدیلی دو طرح سے ہوئی ہے، 2015 تک تیل سے زیادہ تر بجلی کے کارخانے چلتے تھے تاہم انہیں بتدریج قدرتی گیس اور ایل این جی پر منتقل کیا گیا اور سی پیک کی آمد کے بعد ملک میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانے لگائے گئے۔

قدرتی گیس کے استعمال کسی حد تک قابل فہم ہے، لیکن جب پاکستان میں گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگے تو اسکی جگہ 2009 کے لگ بھگ تیل نے لے لی۔ ایل این جی امپورٹ ٹرمینلز بنے تو توانائی کے شعبے کو قدرتی گیس کا متبادل درآمدی گیس کی شکل میں مل گیا۔

امریکا کی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق قدرت گیس پر چلنے والے پلانٹس تیل پر چلنے والے پلانٹس کی نسبت 27.5 فیصد کم کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل کرتے ہیں۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان تیل سے چلنے والے پلانٹس کی جگہ صرف قدرتی گیس کے پلانٹس ہی نہیں لگا رہا بلکہ کوئلے کے پلانٹس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں بھی حالیہ سالوں میں کوئلے کے پلانٹس میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکا کی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس تیل کے پلانٹس سے 33.5 فیصد زیادہ اور قدرتی گیس کے پلانٹس سے 84 فیصد زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس فضا میں شامل کرتے ہیں۔

2015 سے 2019 کے دوران پاکستان نے تیل سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں پر انحصار 76 فیصد کم کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ایسے پلانٹس سے بجلی کی پیداوار 38 ہزار 402 گیگاواٹ آور (GWh) سے کم کرکے 9 ہزار 123 گیگا واٹ آور کردی ہے۔ اسی دوران گیس سے بجلی کی پیداوار میں 60.8 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 31215 گیگاواٹ آور سے بڑھ کر 50180 گیگاواٹ آور ہو چکی ہے۔ تاہم 2015 سے 2019 کے دوران کوئلے سے بجلی کی پیداوار 159 فیصد بڑھی ہے اور یہ 159 گیگاواٹ آور سے 16312 گیگاواٹ آور ہو چکی ہے۔

کوئلے، تیل اور گیس کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والے عوامل مین تھرمل انرجی انڈسٹری شامل ہے۔ نیپرا اور امریکی ایجنسی کے اعدادوشمار سے ’’منافع‘‘ نے تخمینہ لگایا ہے کہ پاکستان میں تھرمل انرجی انڈسٹری سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 2015 سے 2019 تک 0.6  فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس مدت کے دوران تھرمل ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں 8.5 فیصد اضافہ ہوا۔

دراصل تیل کی جگہ گیس سے بجلی پیدا کرکے کاربن کے اخراج کی ساری کوششیں اس وقت دم توڑ گئیں جب کوئلے سے چلنے والے پلانٹس لگائے جانے لگے۔  یہ پلانٹس یوں لگائےجاتے رہے تو کاربن کا اخراج بھی بڑھتا جائے گا۔

تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ فرنس آئل کے پلانٹس سے پیدوار میں کمی ہوئی ہے، جے ایس گلوبل کیپٹل کی ریسرچ میں بھی بتایا گیا ہے کہ فرنس آئل سے بجلی کی مجموعی پیداوار میں 69 فیصد کمی ہو رہی ہے اور کل پیدوار میں اس کا حصہ 12 فیصد کم ہو کر  فیصد رہ گیا ہے۔

بیس لوڈ سے مراد ایسے بڑے پلانٹس ہیں جو عام طور پر توانائی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے مستقل چلتے رہتے ہیں، جبکہ پیکرز ایسے پلانٹ ہوتے ہیں جنہیں بوقت ضرورت چلایا جاتا ہے۔

اسی دوران رواں مالی سال میں بجلی کی مجموعی طلب میں 8.2 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ معاشی سست روی کی وجہ سے جی ڈی پی مین بھی 10.3 فیصد ہوئی ہے۔  تاہم جیسے ہی میعشت بحال ہوگی تو اسے بجلی کی زیادہ پیداوار سے فائدہ ہوگا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here