مارکیٹنگ کی نظریاتی جنگ: یوفون کے مزاحیہ اشتہارات کے عروج و زوال کی دلچسپ کہانی

2010ء کے بعد Tadpole فلمز اور فیصل قریشی اور عدیل ہاشمی پر مشتمل ٹیم کے تیار کردہ یوفون کے اشتہارات ایک ثقافتی حوالہ بن گئے تھے لیکن کیا کمپنی کو اس سے کچھ فائدہ پہنچا؟

2126

مزاحیہ ہونا آسان نہیں ہے، گزشتہ رات ڈنر ٹیبل پر جو لطیفہ آپ نے سنایا ہو، ہو سکتا ہے وہ بہت بہترین ہو اور آپ نے کافی داد پائی ہو لیکن لوگوں کی توجہ حاصل کرکے تو ہر کوئی یہ کام کر سکتا ہے، دراصل ہم یہاں لطیفے کی نہیں بلکہ اسے ’پیش‘ کرنے کے فن کی بات کر رہے ہیں جس کیلئے تحمل مزاجی کیساتھ کافی وقت تک پریکٹس چاہیے ہوتی ہے۔

آواز کا اتار چڑھائو، چہرے کے تاثرات، انداز بیان کی جادوگری سب ملکر مزاح کو پراثر بناتے ہیں۔ ہمارا نکتہ یہ ہے کہ مزاح لکھنا زیادہ مشکل ہے، لیکن سوچیں کہ ٹی وی کیلئے چٹکلے بنانا کتنا مشکل ہوتا ہو گا جو پوری قوم کے تخیل کو جکڑ لیتے ہیں۔

ہم میں سے ہر کوئی یوفون کے 2010 کے بعد آنے والے اشتہارات سے متعلق کچھ یادیں رکھتا ہے، اپنے اشتہاروں میں جواد بشیر، عدیل ہاشمی، فیصل قریشی، میکال ذوالفقار اور یکے بعد دیگر کئی خواتین کو کاسٹ کرکے یوفون نے یہ سب دکھایا۔ ’صاف آواز‘ کے تاثر کیلئے جہاز سے چھلانگ لگوائی گئی، گدھے کو اشتہار میں پیش کیا گیا، حریف کمپنی ٹیلی نار کی ٹیگ لائن ’’سچی یاری سب پہ بھاری‘‘ کو تبدیل کرکے ’’سچی یاری جیب پہ بھاری‘‘ کہہ کر طنز کا نشانہ بنایا گیا۔

یوفون کے اشتہارات ایک موقع پر ثقافتی حوالہ بن گئے تھے، جب بھی کوئی نیا اشتہار آتا تو ہر کوئی پرجوش ہو کر اسے دیکھتا تھا، اس کے بارے میں گفتگو ہوتی اور جلد ہی وائرل ہو جاتا تھا۔

مزاح نگاری مشکل ہے لیکن جب اسے پیسہ کمانے کی خاطر کمرشل پیغام کے طور پر استعمال کرنا ہو تو یہ کام مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ یوفون نے یہ دونوں کام کیے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یوفون کہ اشتہارات نہ صرف مزاحیہ تھے بلکہ ان میں ثقافت بھی جھلکتی تھی۔ بلکہ آج بھی مارکیٹنگ کے حلقوں اور کانفرنسوں میں کم ہی موقع ہو گا جب یوفون کے اشتہارات پر بات نہ ہوتی ہو۔ لیکن یوفون کی مارکیٹنگ سٹریٹیجی کس قدر کامیاب رہی اور کیا انہوں نے مطلوبہ ثمرات حاصل کیے؟ اس حوالے سے ’’منافع‘‘ نے جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

یوفون کی مارکیٹنگ کی تاریخ:

یوفون نے 2010ء میں مارکیٹنگ کیلئے مزاحیہ انداز اپنایا۔ یہ سال پاکستان کی ٹیلی کام انڈسٹری کیلئے کافی اہم تھا، موبائل فون اور سمیں عام ہو رہی تھیں، ٹیلی کام کمپنیوں کے کسٹمرز میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جو ٹین ایجرز والدین کے فونز کے ساتھ کھیلے تھے وہ 2010 تک ذاتی فون خریدنے کے قابل ہو چکے تھے اور جب نیٹ ورک کی بات آتی تو ہر کسی کا انتخاب یوفون ہوتا، اپنی بوریت زدہ کالوں اور میسجز کی وجہ سے جاز بڑوں کیلئے مخصوص ہو کر رہ گیا تھا۔ بہترین مارکیٹنگ کی وجہ سے نئی نسل کو اگر کوئی نیٹ ورک اپنے ساتھ جوڑ سکا تو وہ یوفون تھا۔

اگلے سال یعنی 2011 میں یوفون نے اپنی مارکیٹنگ کمپینز کی وجہ سے پاکستان ایڈورٹائزرز سوسائٹی ایوارڈ جیت لیا، 2015 کے ایوارڈز میں تین نامزدگیاں یوفون کے نام رہیں۔ اس کے بعد بھی کچھ سالوں تک اچھے اشتہارات آتے رہے لیکن اب شائد یہ عمل کم ہو چکا ہے۔

کسی بھی کامیاب مارکیٹنگ کمپین کے عام طور پر تین مقاصد ہوتے ہیں: کسٹمرز تک آپکا پیغام بالکل واضح طور پر پہنچنا چاہیے۔ وہ اسے لمبے عرصے تک یاد رکھیں۔ اور آپکے پیغام کی جھلک آپکی سیلز میں نظر آنی چاہیے۔

لیکن یوفون کے مزاحیہ اشتہارات لوگوں میں جس قدر مقبول ہوئے اس قدر میسج پہنچانے یا سیلز بڑھانے میں ناکام نظر آئے۔ دراصل یوفون کے حکام کا بھی یہی خیال ہے۔

یوفون کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ’’منافع‘‘ کو بتایا کہ بے پناہ مقبولیت کے باوجود TVCs کے ذریعے سیلز بڑھانے میں یوفون ناکام رہی اس لیے کمپنی نے ایسی وائرل مارکیٹنگ کمپینز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم ان الزامات کے جواب میں یوفون کے مزاحیہ اشتہارات کے کرتا دھرتا (عدیل ہاشمی) ناراض ہو گئے، انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے جتنے بھی مزاحیہ اشتہارات کیے، ان سے بھی مزاحیہ یوفون کی مارکیٹنگ ٹیم کے جوابات ہیں۔‘‘

یہ اشتہارات بنانے والی کمپنی Tadpole films کے کرتا دھرتا احسن رحمان نے کہا کہ ’’یہ سب سے بُری دلیل ہے، اگر آپ کہتے ہیں کہ لوگوں تک میسج نہیں پہنچ سکا تو دوسری کمپنیوں کے پیکجز وغیرہ آپ کیسے یاد رکھتے ہیں جو اشتہارات میں ہمارے جیسی بہترین تخلیقی صلاحتیں بھی استعمال نہیں کرتیں۔‘‘

احسن کے نزدیک ایڈورٹائزمنٹ کا مقصد کسی برانڈ کی اس طرح تشہیر کرنا ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں گھر کر جائے، ہماری کمپنی ایسے ہی اشتہارات بناتی ہے۔ ’’آپ کسی ٹیلی کام کمپنی کے بارے میں کیسے جانتے ہیں؟ اشتہارات کے ذریعے! مزاح اور خوشگوار یادوں کے حوالے سے لوگ یوفون کیساتھ جڑے ہیں، اس کے اشتہارات میں کسی قسم کی ناگوار، متشدد یا فحش چیز نہیں ہوتی اور ایڈوٹائزمنٹ کا یہی مقصد ہوتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’لوگ آج بھی یوفون کی طرح کسی دوسری کمپنی کا نام نہیں لیتے، یوفون کی مارکیٹنگ ٹیم کے پاس اپنی کارکردگی کے حوالے سے شائد کوئی دوسرا جواز نہیں تھا اس لیے یہ کہہ دیا کہ مطلوبہ پیغام مارکیٹنگ کی تخلیق کاری میں کہیں کھو گیا۔‘‘

2015ء میں یوفون نے پہلی بار عام روش سے ہٹ کر ایک اشتہار TVC کی بجائے پرنٹ کی شکل میں قومی اخبارات میں دیا، لوگوں نے اگلی صبح اخبارات دیکھا تو حیران رہ گئے کہ صفحہ اوّل کے آدھے حصے پر فیصل قریشی نہایت دلفریب انداز میں نیم دراز ہیں، اس سے قبل موبی لنک کے ایک اشتہار میں ایسا ہی پوز اداکارہ نرگس فخری نے بنایا تھااور یوفون نے اسکا جواب اپنے اچھوتے اور مزاحیہ انداز میں دیا۔ لیکن ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کو یاد ہے اس اشتہار میں یوفون نے پیغام کیا دیا تھا؟

یہ دراصل ایک سستے سمارٹ فون کا اشتہار تھا جس کی قیمت 6 ہزار روپے تھی، بھلے آپ کو وہ پروڈکٹ یاد نہیں رہی لیکن آپ کو اشتہار یاد ہے تو وہ یوفون کی واضح جیت تھی کیونکہ جو لوگ اس سے ملتے جلتے (موبی لنک کے) اشتہار پر بیزاریت اور غم و غصہ کا اظہار کر رہے تھے کمپنی نے بڑی مہارت سے اسی موضوع کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرلیا۔

احسن رحمان کے مطابق طویل مدتی فائدے کے طور پر اگر دیکھا جائے تو کیا یہ بات اہم ہے کہ اس فون کا کیا ہوا؟ بلکہ لوگ اس بات کو یاد رکھتے ہیں کہ یوفون ایک ایسی کمپنی ہے جو ہر بار کچھ نہ کچھ جدت سے پیش کرتی ہے اور اسکے پاس قابل لوگ ہیں۔

اتنی سنجیدگی کیوں؟

اس کے نتیجے میں یوفون نے مرکزی نقطہ نظر پر مبنی اشتہارات بنانے شروع کر دیئے، سپر کارڈ کمپین کو اسی انداز میں چلایا گیا، اس طرح کمپنی کو کامیابی بھی ملی اور مالی فائدہ بھی ہوا۔

البتہ یہ بات قابل بحث ہے کہ پہلے اشتہارات کی وجہ سے پروڈکٹ دب جاتی تھی اور لوگوں میں زیادہ مقبول نہیں ہو پاتی تھی یا اب پروڈکٹ ہی اتنی مضبوط ہے کہ وہ مارکیٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اگر کسی مارکیٹنگ کمپین بنانے والے کا موقف لیا جائے تو وہ کہے گا کہ پرانے مزاحیہ اشتہارات کی بجائے موجودہ اشتہارات معقول ہونے کی وجہ سے زیادہ موثر ہیں۔ اس بات کو احسن بھی تسلیم کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’’یہ پروڈکٹ بھی وہی ٹیم لیکر آئی جو ہماری مارکیٹنگ کمپین میں کام کر رہی تھی۔‘‘

سپر کارڈ میں صارفین کو سستہ ماہانہ پیکج دیا جاتا ہے جو کہ کمپنی اور کسٹمر دونوں کیلئے بہتر ہے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ اس تشہیر کا مقصد کیا ہے؟ ایک مقصد تو کم مدت میں سیلز میں اضافہ کرنا ہوا، دوسرا مقصد اپنی شناخت قائم کرنا ہے جسے برانڈ ایکویٹی کہتے ہیں۔ اگر یوفون کا مقصد دوسرا ہے تو یہ کام تو Tadpole Films بخوبی نبھا رہا تھی، لیکن اگر مقصد سیلز بڑھانا تھا تو بھی Tadpole ٹھیک کام کر رہی تھی۔

احسن اور عدیل جہاں اپنے کام کا دفاع کرتے تھے وہیں مارکیٹنگ کے دیگر ماہر بھی ان کی تائید کرتے نظر آتے ہیں کہ کام بخوبی کیا گیا، سٹارکام میڈیا ایجنسی (Starcom Media Agency) میں جونیئر ایسوسی ایٹ شمائل بٹ کہتے ہیں کہ ’’ میرے لیے کسی بھی دوسرے اشتہار سے زیادہ ان اشتہارات کی اہمیت ہے جو عدیل ہاشمی اور فیصل قریشی کیساتھ کیے، ٹیلی نار کے وہ اشتہار بھی یاد ہیں جس میں لوگ ناچتے گاتے دکھائے جاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کبھی کبھار ایسا ہوا ہو کہ مطلوبہ پیغام سے انحراف کیا گیا ہو لیکن کم از کم لوگ اشتہار پورا دیکھتے تھے۔ ’’وہ اشتہارات میمز بن کر سوشل میڈیا پر موضوع بحث اور پاپ کلچر بن چکے تھے حالانکہ اس وقت میمز کا رجحان بھی زیادہ نہیں تھا۔ اب سپر کارڈ کا پورا اشتہار بھی نہیں دیکھتا ہوں، لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ مزاح کی وجہ سے کم از کم لوگ پورا اشتہار تو دیکھتے تھے۔‘‘

ہیومن فیکٹر:

ان سب چیزوں کیساتھ انسانی جذبات جیسا اہم ترین عمل بھی شامل ہے۔ یہ احساس صرف یوفون کو نہیں کہ ’’بے فکری پورے مہینے کی‘‘ زیادہ موثر ثابت ہوگا بلکہ بہت سارے برانڈز ایسے ہی خیالات اور جذبات پر مبنی تشہیر کر چکے ہیں۔

Synsodyne ٹوتھ پیسٹ نے ’’sensitivity‘‘ کو ایک طبی مسئلے سے زیادہ رشتوں کی ’’نزاکت‘‘ کیساتھ جوڑ کر پیش کیا، ٹیپال نے چائے کے ذریعے رشتوں کی مضبوطی دکھانے کیلئے ماں بیٹے کے مضبوط رشتے کو اپنی تشہیر کا مرکزی نقطہ بنایا۔ اشتہارات میں مزاح البتہ زیادہ پیچدار اور شائد اثردار ثابت ہوا۔

ہم اکثر مزاحیہ اشتہار دیکھتے ہیں جو چہرے پر مسکراہٹ پھیلا دیتے ہیں، یوفون کے اشتہار ہمیشہ یہ کام کرتے رہے ہیں۔

جذبات کی بات کریں تو ان مزاحیہ اشتہاروں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں ناظرین کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان پر کافی تنقید کی۔

ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ یوفون اپنی مارکیٹنگ کمپنی تبدیل کر چکی ہے لیکن اس کے یادگار اشتہاروں کے کرتا دھرتا احسن رحیم، عدیل ہاشمی اور فیصل قریشی اب بھی اس سے جڑے ہیں۔

دوسری جانب ’’سپر کارڈ‘‘ صاف آواز یا سستے پیکجز کی اشتہاری مہموں سے زیادہ کامیاب رہا ہے اور یوفون کے نقاد بھی سپر کارڈ کو بہترین پروڈکٹ قرار دے رہے ہیں۔

یوفون کے مارکیٹنگ کے ذمہ داران اس بات سے متفق ہیں، انہوں نے کہا کہ عام طور پر موبائل فون سے متعلق یا وہ اشتہارات جن میں پیکجز کے بارے بتایا جاتا تھا کافی مشکل لگتے تھے، کسی پری پیڈ کسٹمر کیلئے ’’ 1200 آن نیٹ، 180 آف نیٹ منٹس پورے مہینے کیلئے‘‘  سمجھنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت وہ اس جھنجھٹ میں پڑے کہ کتنے روپے میں کتنے دنوں کیلئے کتنے فری منٹ مل رہے ہیں۔

سپرکارڈ کمپین کی وجہ سے 2019  میں یوفون کو Silver Effie Award  ملا، یہ ایوارڈ تین سال کامیابی سے چلنے والی اشتہاری کمپینز کیلئے دیا جاتا ہے اور سپر کارڈ یہ مدت پوری کرنے میں کامیاب رہا۔ مزاحیہ اشتہاروں کی وجہ سے یوفون کی شہرت بھی مزاحیہ ہو گئی تھی لیکن سپرکارڈ نے اس شہرت کو تبدیل کرکے یوفون کو ایسی کمپنی کے طور پر پیش کیا ہے جو صارفین کے آرام اور سہولت کا خیال رکھتی ہے۔

سپر کارڈ کا کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حریف کمپنیاں بھی ایسے کارڈ متعارف کروا رہی ہیں۔ ٹیلی نار کا ’’ایزی کارڈ‘‘ اسی قسم کی چیز ہے، جو صارفین کوآن نیٹ اور آف نیٹ منٹس اور میسجز کی سہولت دیتا ہےاور اسکی ٹیگ لائن’’ایزی کارڈ سے ایزی ہو جائو‘‘ بھی یوفون کے قریب قریب ہے۔

سپرکارڈ دراصل اشتہار کی بجائے مارکیٹنگ کا ایک الگ طریقہ ہے جو کسٹمرز کیلئے کافی پرکشش ہے، Tadpole  نے جو مارکیٹنگ کا طریقہ اپنایا وہ ذرا الگ تھا۔ دونوں  کی اپنی جگہ اور اچھے اور برے تجربات ہیں۔

(رپورٹ: سیدہ معصومہ)

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here