چھوٹے سے سرمایہ کار ادارے سے شروع ہونے والا میزان بینک اسلامی بینکنگ سیکٹر میں پہلے نمبر پر کیسے آیا؟

ہر پاکستانی بینک میزان بینک کو  اسلامی بینکنگ سے محروم کرنا چاہتا ہے لیکن کامیاب کون سا بینک ہو سکتا ہے؟

1929

پاکستان میں کوئی بھی مالیاتی ادارہ جب ترقی کی حکمت عملی کے بارے میں سوچتا ہے ہر چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) صرف اور صرف ایک نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اسلامی فنانس بزنس متعارف کرایا جائے۔ اور جب پاکستان میں اسلامی بینکنگ کی بات کی جاتی ہے تو میزان بینک سے آگے دکھائی دیتا ہے، 2002 میں قائم ہونے والے میزان بینک نے اپنے قیام کے محض ایک سال بعد 2003 میں اسلامی بینکنگ کے شعبے میں خود کو یکتا ثابت کردیا۔

اب اگر کوئی بھی بینک یا ادارہ اسلامک بینکنگ سیکٹر میں طبع آزمائی کرتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اسے میزان بینک کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپکی بیلنس شیٹ کس قدر کامیاب ہے اور آپ مارکیٹ کا کتنا بڑا نام ہیں، اسلامی فنانس مارکیٹ بالکل ایک مختلف چیز ہے اور اس میں میزان کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔

عرفان صدیقی میزان بینک کے بانی سی ای او ہیں، وہ بینکنگ سیکٹر کا بہترین تجربہ رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ مالیاتی ادارے ان کے بینک کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں لگے ہیں اور بہت سارے کافی قریب بھی پہنچ چکے ہیں اور اگر میزان بینک محتاط نہ رہا تو اسلامی بینکنگ اسے اپنی ٹاپ پوزیشن کھو دینے کا اندیشہ ہے۔

وجہ اسکی یہ ہے کہ اسلامی فنانس بالکل سادہ اور پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول مالیاتی شعبہ ہے، 2002 میں جب میزان بینک شروع ہوا تو اس کے علاوہ اسلامی بنینکنگ فراہم کرنے والا صرف ایک ادارہ موجود تھا تاہم اب 20 سے زیادہ ادارے ہیں، اب صرف پاکستان میں صرف جے ایس بینک باقی بچا ہے جس کی اسلامی بینکنگ ڈویژن موجود نہیں اس کی وجہ بھی شائد یہ ہے کہ وہ اسلامی بینکنگ کے حوالے سے بینک اسلامی پاکستان میں تھوڑے سے حصص رکھتا ہے۔

اسلامی بینکنگ:

ہر بینک کا سی ای او اسلامی فنانس میں اس لیے آنا چاہتا ہے کیونکہ پاکستان کے مالیاتی نظام کا یہ وہ حصہ ہے جو سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے، سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق 2003 سے 2018 تک کے 15 سالوں کے دوران روایتی پاکستانی بینکنگ سسٹم میں ڈپوزٹس 20.2 فیصد سالانہ کے حساب سے 1.8 کھرب روپے سے 13.4 کھرب ہو چکے ہیں۔

یہ اعدادوشمار اس وقت تک متاثر کن نظر آتے ہیں جب تک آپ اسلامی بینکنگ کے گروتھ ریٹ پر نظر نہیں ڈالتے، ’’منافع‘‘ نے سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار بینک کی فنانشل سٹیٹمنٹس کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ اسلامی بینکنگ نے سالانہ 65 فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے اور یہ 2.2 کھرب روپے سے بڑھ کی 14.4 کھرب روپے ہوچکی ہے، اس مدت کے دوران مہنگائی میں 8.8 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوا ہے۔

مزید تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ 15 سال کے دوران روایتی بینکنگ کے شعبے میں ڈپوزٹس 6.3 گنا کے حساب سے بڑھے جبکہ اسلامی بینکنگ میں 151 گنا اضافہ ہوا۔ 2003 میں اسلامی بینکنگ سیکٹر میں مجموعی ڈپوزٹس کا صرف 0.8 فیصد تھے جبکہ 2018 کے اختتام پر یہ 16.2 فیصد ہو چکی ہے۔ اس کامیابی کی وجہ کیا ہے؟

گلوبل ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے دو تجزیہ کاروں کے مطابق اسلامی بینکنگ میں زیادہ تر وہ لوگ آ رہے ہیں جنہوں نے پہلے بینکنگ سیکٹر استعمال نہیں کیا ہوتا اس لیے وہ بینکوں کے لیے آمدنی کا نیا ذریعہ بن رہے ہیں۔

مختصراََ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اب پاکستان میں کوئی بینک اسلامی مالیاتی نظام کے بغیر گزارا نہیں کر سکتا، 2017 میں عالمی بنیک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا گیا تھا کہ 79 فیصد پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس موجود نہیں ہیں، چونکہ پاکستان کی 97 فیصد آبادی مسلم ہے اس لیے زیادہ تر لوگ اسلامی بینکنگ سسٹم کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ البتہ یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ کتنے فیصد پاکستانی اسلامی بینکنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق 2018ء میں 30.3 فیصد لوگوں نے اسلامی بینکنگ کو جبکہ 69.7 فیصد افراد نے روایتی بینکنگ نظام کو ترجیح دی۔

میزان بینک نےمارکیٹ پر غلبہ کیسے پایا؟

میزان کی سب سے بڑی کامیابی اسلامی بینکنگ سیکٹر میں نمبر ون بننا ہے، 1990 میں پاکستان میں صرف دو اسلامک انویسٹمنٹ بینک یعنی میزان انویسٹمنٹ بینک اور فیصل انویسٹمنٹ بینک تھے دونوں کو خلیج کے عرب سرمایہ کار چلار ہے تھے، 2002 میں دونوں بینک کارپوریٹ سے ریٹیل کی جانب چلے گئے تاہم میزان بینک نے اپنی اسلامک بینکنگ کی شناخت قائم رکھی، یہی فیصلہ اس کی بہترین کارکردگی اور کامیابی کی بنیاد بنا۔

یہ 1997 میں المیزان انویسٹمنٹ بینک کے نام سے شروع ہوا اور اس کے پاس محدود طور پر کارپوریٹ اور انوسیٹمنٹ بینکنگ فرنچائزز قائم کرنے کا لائسنس تھا، آغاز میں صورتحال یہ تھی کہ بینک کے پاس فل ٹائم سی ای او بھی موجود نہ تھا۔

اس زمانے میں عرفان صدیقی پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں بطور جنرل مینجر کام کر رہے تھے انہوں نے 30 رکنی ٹیم کیساتھ میزان میں بھی کام شروع کردیا، بعد ازاں جب کسی کو بھی میزان بینک آگے بڑھتا نظر نہیں آرہا تھا تب عرفان صدیقی نے اس بات کو بھانپ لیا تھا۔

1979 میں کیرئیر شروع کرنے والے عرفان صدیقی نے زیادہ تر مشرق وسطیٰ میں کام کیا تھا، انہوں نے ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی، ابوظہبی انویسٹمنٹ کمپنی اور کویت انویسٹمنٹ اتھارٹی میں کام کیا، اسکی وجہ سے ناصرف ان کے وسیع پیمانے پر روابط قائم ہوئے بلکہ خلیج فارس کی ریاستوں میں اسلامی بینکنگ سسٹم کے حوالے سے بھی ان کی تعریف ہوئی۔

میزان بینک کے قائم ہوتے ہی عرفان صدیقی نے اپنے تعلقات استعمال کیے اور اسلامی ترقیاتی بینک، سعودی پاک انڈسٹریل اینڈ ایگریکلچرل انویسٹمنٹ کمپنی، بحرین کے شامل بینک اور کویت اوقاف کو میزان بینک میں سرمایہ کاری پر اکسایا۔

آج میزان بینک میں 49 فیصد حصص نور فنانشل انویسٹمنٹس کمپنی کے  ہیں، کویت کی یہ کمپنی وہاں کے امیر ترین افراد کی دولت کا انتظام سنبھالتی ہے۔

میزان بینک کے ابتدائی دنوں میں اس کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان میں اسلامی بینکنگ کیلئے کسی قسم کا ریگولیٹری انفراسٹرکچر نہیں تھا، عرفان صدیقی اور انکی ٹیم نے سٹیٹ بینک کے ساتھ ملکر اسلامی بینکنگ سے متعلق قوانین بنائے اور یوں 31 جنوری 2001 میں میزان بینک کو پہلے اسلامک بینک کا لائسنس مل گیا۔ اسی دن میزان بینک نے اعلان کیا کہ وہ فرانسیسی مالیاتی ادارہ Societe Generale کی پاکستان برانچ کا انتظام سنبھالے گا۔

2003 پورا سال میزان بینک کیلئے کافی مشکل اس لیے تھا کیونکہ کارپوریٹ کلائنٹس اس بطور بینک سنجیدہ نہیں لیتے تھے۔ تاہم جیسے ہی اس کی تھوڑی بہت تشہیر ہوئی تو بڑے کارپوریٹ کلائنٹس اور کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے قرضوں کیلئے درخواستیں دے دیں۔ آغاز میں بینک نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور کمپنیوں کیساتھ تعلقات استوار کیے جن کے مالکان مذہب کی جانب مائل تھے۔ ان میں سے بہت سے افراد نے پہلے کبھی بینک کی سروسز استعمال اس لیے نہیں کی تھیں کیونکہ وہ سود کو خلاف شریعت سمجھتے تھے۔ ایسے کلائنٹس کی تشفی میزان بینک نے کرادی، اس نے نہ صرف اپنی مارکیٹ بڑھائی بلکہ اسلامک فنانس کو بھی ترقی دی۔ کوئی دوسرا بینک فل ٹائم اسلامک فنانس متعارف نہیں کراسکا، اسلامک فنانس کی پوری انڈسٹری کو ترقی دینے کیلئے میزان بینک نے دوسرے بینکوں کو بھی کنسلٹنٹ سروسز فراہم کرنا شروع کردیں۔

میزان بینک نے کلائنٹس کیساتھ معاہدہ کرنے کا بھی نیا طریقہ متعارف کرایا، اپنی پروڈکٹس کو عربی نام دیا تاکہ کلائنٹس کو اس کے اسلامی ہونے کا ’یقین ‘ ہو جائے، کار لیز کیلئے ’اجراء‘ جبکہ مینوفیکچرنک بزنس کیلئے قرضے کو ’مرابحہ‘ کا نام دیا۔

میزان بینک اسلامی بینکنگ میں سب سے آگے:

وقت گزرنے کیساتھ پاکستانی اسلامک بینکنگ سیکٹر میں میزان بینک سب سے آگے نکل گیا، 2018 میں اسکا مارکیٹ شئیر 36.2 فیصد تھا۔ گزشتہ دس سالوں میں میزان بینک کا اوسط گروتھ ریٹ 27.3 فیصد جبکہ میزان کی اسلامک بینکنگ میں ترقی کی شرح 27.6 فیصد رہی۔ میزان بینک کی سٹیٹمنٹس اور سٹیٹ بینک آّف پاکستان کے ڈیٹا کو دیکھا جائے تو میزان کے منافع میں پچاس فیصد حصہ اسلامک بینکنگ سے آیا۔ 2018 میں میزان بینک کو ایکویٹی پر 23.8 فیصد ریٹرن ہوا جبکہ دیگر بینکوں کیلئے یہ شرح 10.5 فیصد رہی، اسی طرح دیگر بینکوں کی اسلامک بینکنگ ڈویژنوں میں ریٹرن آن ایکویٹی کی شرح 9.9 فیصد رہی۔

سال 2018 کے دوران پوری بینکنگ انڈسٹری کیلئے نیٹ انٹرسٹ مارجن 2.8 فیصد رہا جبکہ اسلامک بینکنگ 3.2 فیصد رہا، تاہم اسلامک بینکنگ میں ڈپوزٹس کی شرح 3.1 فیصد تک کم رہی جبکہ پوری بینکنگ انڈسٹری میں ڈپوزٹس کی شرح 3.7 فیصد رہی۔ اسلامک بینکنگ میں قرضے دینے کی شرح 6.3 فیصد جبکہ باقی بینکنگ سیکٹر میں 6.5  فیصد رہی۔

حکومت چونکہ ناکافی اسلامی بانڈز جاری کرتی ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر اسلامک بینکوں کو اپنی دولت رکھنے کیلئے سرکاری بانڈز کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اسلامک بینکنگ کے بڑھتے ہوئے حریف:

کنوینشنل بینکوں کی اسلامک بینکنگ ونڈوز میزان بینک کیلئے کس حد تک خطرہ ثابت ہو رہی ہیں۔ ’’منافع‘‘ نے پاکستانی بینکوں کی مالیاتی سٹیٹمنٹس کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ گزشتہ عشرے کے دوران میزان کے علاوہ صرف چار بینکوں کی ایکویٹی پر ریٹرنز کی شرح 10 فیصد سے زیادہ رہی اور دن چاروں بینکوں میں اسلامک بینکنگ کی برانچیں قائم ہیں، منافع کے لحاظ سے ان چاروں بینکوں کی درجہ بندی کچھ یوں ہے: حبیب بینک، سٹینڈرڈ چارٹرڈ، بینک الحبیب، بینک الفلاح۔ یہ چاروں میزان بینک کی اسلامک بینکنگ کیلئے قدرے کی نشاندہی کر رہے ہیں، ’’منافع‘‘ نے ان بینکوں کے کمزور اور مضبوط پہلوئوں کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے:

بینک الفلاح:   سب سے کمزور حریف ہے، گزشتہ عشرے میں اس کی ایکویٹی پر ریٹرن کی شرح 12.6 فیصد سالانہ رہی۔  اسلامک ڈپوزٹس کے حساب سے بینک الفلاح ملک میں پانچویں نمبر پر ہے، باقی بینکنگ سیکٹر کی نسبت اس میں شرح نمو قدرے سست رفتار رہی، گزشتہ دس سالوں میں باقی انڈسٹری میں ڈپوزٹس کی شرح 27.6 فیصد جبکہ بنک الفلاح میں 14.1 فیصد رہی۔ اسکی اسلامک بینکنگ برانچز کا نیٹ انٹرسٹ مارجن 3.8 فیصد ہے۔

بینک الحبیب: اس کی بیلنس شیٹ پاکستان کے تمام بینکوں میں سب سے بہترین ہے۔ یہ صرف اپنے پرانے کلائنٹس کو قرضے دیتا ہے جس کی وجہ سے نان پرفارمنگ قرضوں کی شرح سب سے کم رہی ہے۔

گزشتہ دس سالوں کے دوران بینک الحبیب کے ڈپوزٹس میں 39.7 فیصد کی تیز ترین شرح سے اضافہ ہوتا رہا ہے اور اسلامک بینکنگ میں اس کا نیٹ انٹرسٹ مارجن 2.9 فیصد رہا ہے جبکہ گزشتہ دس سالوں کے دوران ایکویٹی پر ریٹرن کی شرح 15.9 فیصد رہی ہے۔

سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک پاکستان: پاکستان میں اسلامک بینکنگ متعارف کرانے والے اولین مالیاتی اداروں میں سے ایک سٹینڈرڈ چارٹرڈ بھی ہے جو 2004 میں شریعہ کے مطابق (Shariah-compliant)  آپریشنز متعارف کروا کر ملک میں پہلا بینک بن گیا، گزشتہ دس سالوں کے دوران اسکی اسلامک ڈپوزٹس کی شرح 25.2 فیصد رہی ہے، سٹینڈرڈ چارٹرڈ صادق اس کی اسلامک بینکنگ ڈویژن کا نام ہے اور اس کا نیٹ انٹرسٹ مارجن 5.3 فیصد کی شرح کیساتھ پوری بینکنگ سنڈسٹری سے زیادہ ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران اسکی ایکویٹی پر ریٹرنز کی شرح 29.6 فیصد رہی ہے۔

حبیب بینک: پاکستان کا سب سے بڑا بینک اور اسلامک بینکنگ میں دوسرے نمبر پر ہے، اور میزان بینک کیلئے یہی سب سے بڑا حریف ثابت ہو رہا ہے۔ تاہم اسکا اسلامک بینکنگ میں نیٹ انٹرسٹ مارجن بہت کم یعنی 2.4 فیصد ہے تاہم روایتی بینکنگ کا بڑا ادارہ ہونے کی وجہ سے اب ہر برانچ میں اسلامک بیکنگ متعارف کروا رہا ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران اس کے ڈپوزٹس میں حیران کن طور پر 153 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا ہے۔

دیگر حریف:

یہ قدرے غیر معمولی حقیقت ہے کہ پاکستان کے اسلامک بینکنگ سیکٹر کا تجزیہ کرتے وقت بنک اسلامی، دبئی اسلامک بینک، البراکہ اسلامک بینک اور ایم سی بی اسلامک بینک کا تذکرہ ہی نہیں کیا جاتا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام بینک ابھی تک نہ صرف اپنے ڈپوزٹس بڑھا رہے ہیں بلکہ آپریشنز بھی مناسب طور پر چلانا باقی ہیں۔

ان چاروں کا نیٹ انٹرسٹ مارجن کم ہے، قرضوں کی شرح زیادہ ہے جس کی وجہ سے منافع بھی کم ہے، ان کی گروتھ ریٹ بھی میزان بینک اور دیگر روایتی بینکوں سے کم ہے جسکا مطلب ہے کہ وہ مارکیٹ شئیر کھو رہے ہیں۔ صرف ایک صورت میں یہ چاروں میزان کیلئے کسی قسم کا خطرہ بن سکتے ہیں وہ صورت یہ ہے کہ یہ چاروں آپس میں ضم ہو کر ایک بڑا اسلامک بینک بنا لیں شائد تب جا کر میزان کی انتظامیہ انہیں اپنا حریف مانے۔

مضمون نگار: فاروق ترمذی

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here