اپنی تمام کمپنیاں ایک کمپنی کے تحت لانے کے بعد بابر علی کی IGI Holdings  اب بینکنگ سیکٹر میں قدم رکھنا چاہتی ہے

987

کارپوریٹ کی دنیا میں ایک معقولہ ہے کہ اگر آپ نے ایک کمپنی کے تحت کافی سارے کاروبار شروع کر رکھے ہیں تو آپ ضرور کوئی بڑے ہاتھ مارنے والے ہیں۔

پاکستان میں گوکہ کاورباری مواقع کی کمی ہے، انضمام اور ایکوزیشن کے آپشن کم ہیں، لیکن مذکورہ بالا اصول پھر بھی وہی ہے، اگر آپ زیادہ تر اثاثوں کو کسی ایک کے تحت اکٹھا کردیں تو ہر سرمایہ کار بینکر آپ سے دوستی رکھنا چاہے گا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ یا تو کچھ خریدیں گے یا بیچیں گے اور انہیں یہ لین دین کرانے میں بھاری بھرکم معاوضہ مل جائے گا۔

اس لیے 2016 کے اواخر میں جب IGI Insurance  کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ اپنا نام تبدیل کرکے IGI Holdings  رکھ رہی ہے اور اس کی دیگر کمپنیاں اور مالیاتی ادارے اسی چھتری تلے چلیں گے تو سرمایہ کاروں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ آئی جی آئی کیا خریدنا یا کیا بیچنا چاہ رہی ہے۔

’’منافع‘‘ نے آئی جی آئی کی سرگرمیوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

بابر علی کا بھلایا گیا بچہ:

اگر آپ معیشت میں دلچسپی رکھنے والوں سے پاکستان کی کارپوریٹ تاریخ کی ممتاز شخصیات سے متعلق پوچھیں تو ہر کوئی بابر علی کو سرفہرست تین افراد میں شامل کرے گا، ہوسکتا ہے کچھ لوگ انہیں نمبر ون بھی کہیں۔

بابرعلی وہ شخص ہیں جنہیوں نے تن تنہا ایک صنعتی اور مالیاتی ایمپائر کھڑی کردی، جس کی اعتماد کی وجہ سے کئی بڑے بین الاقوامی کاروباری ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ نیویارک سے ایک سرمایہ کار نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’’پاکستان میں دو ایسے لوگ ہیں جن پر مکمل یقین کرکے آپ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں، وہ ہیں آغا خان اور بابر علی۔‘‘

گزشتہ ایک آرٹیکل میں ’’منافع‘‘ نے بابرعلی فیملی کے بیک گرائونڈ اور کاروبار سے متعلق لکھا تھا، انہوں نے پیکجز لمیٹڈ، ملک پیک لمیٹڈ، ٹرائی پیک فلمز اور آئی جی آئی گروپ بنایا اور اسے ترقی دی، ان کی وجہ سے نیسلے، ٹیٹراپیک جیسے عالمی کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی، وہ کوکا کولا پاکستان کے، سیمنز پاکستان اور Sanofi-Aventis کے بورڈ میں بھی شامل ہیں، اس سب کو بھول جائیں وہ پاکستان کی بہترین یونیورسٹی لمز کے بھی بانی ہیں۔

لمز، نیسلے، پیکجز وغیرہ کی وجہ سے یہ بات کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے کہ IGI Group بھی سید بابرعلی کی تخلیق ہے، یہ وہ بزنس میں جس مین انہیں کافی نقصان بھی اٹھانا پڑا، 2016 میں سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے انہیں مجبور کیا کہ وہ IGI Investment Bank  کے آپریشنز آہستہ آہستہ بند کرکے اس کے بقیہ اثاثے IGI Insurance  میں شامل کردیں۔

کیپٹل مارکیٹ میں AKD، KASB وغیرہ جیسے بڑے ناموں اور بڑی انشورنس کمپنیوں کی وجہ سے بھی شائد IGI   کو بھولنا آسان ہے، لیکن اس کے اثاثوں کے استحکام اور ان افواہوں کے بعد کہ کمپنی ایک انویسٹمنٹ بینک خریدنے کا ارارہ رکھتی ہے ہو سکتا ہے ملک کے معاشی ذمہ دار اس پر توجہ دیں۔

IGI کی اصل کہانی:

IGI کی کہانی سید بابر علی کے دیگر بزنس وینچرز سے پہلے شروع ہوتی ہے، دراصل یہ پیکجز لمیٹڈ سے بھی پہلے کی کہانی ہے۔ IGI Group کی پہلی کمپنی آئی جی آئی انشورنس کمپنی تھی جو سنہء 1953 میں قائم کی گئی اور آج پاکستان میں چوتھی بڑی انشورنس کمپنی ہے، دہائیوں تک یہ بابرعلی فیملی کی اکلوتی کمپنی تھی، اس گروپ کا اگلا قدم IGI Investment Bank کا قیام تھا 1990 میں قائم ہونےوالا یہ بینک قرضے اور ایکویٹی سکیورٹیز کیلئے سروسز فراہم کرتا ہے۔

امریکا اور برطانیہ کے برعکس پاکستان میں انویسٹمنٹ بینک مختلف اداروں اور افراد کے سرمائے سے اپنے ڈپوزٹس بڑھانے کے مجاز ہیں، انویسٹمنٹ بینک کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد 1994 میں آئی جی آئی گروپ نے کراچی سٹاک ایکسچینج میں IGI Securities کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جو اب ملک کی ایک بڑی بروکریج فرم بن چکی ہے۔ آئی جی آئی انویسٹمنٹ بینک کے پاس بھی سکیورٹیز بروکریج کا لائسنس موجود ہے لیکن 2007 میں IGI Securities  آئی جی آئی انویسٹمنٹ بینک کی ذیلی کمپنی بن گئی اور یوں دونوں لائسنس IGI Securities میں شامل ہو گئے۔

2007 میں گروپ نے کیپٹل مارکیٹ اپنا بزنس مزید بڑھاتے ہوئے ’’آئی جی آئی فنڈز‘‘ کے نام سے ایک کمپنی بنائی، یہ ایک ایسی انوسیٹمنٹ مینجمنٹ کمپنی ہے جو ریٹیل اور انسٹیٹیوشنل انویسٹرز کو میوچل فنڈز کی سہولت فراہم کرتی ہے، آئی جی آئی فنڈز آئی جی آئی انوسیٹمنٹ بینک کی ذیلی کمپنی تھی۔

’’آئی جی آئی فنڈز‘‘ گروپ کیلئے بڑی کامیاب ثابت ہوئی، اس کی وجہ سے کئی باصلاحیت لوگ پاکستانی کیپٹل مارکیٹ میں شامل ہوئے جن میں معروف فند مینجر ماہین رحمان بھی شامل ہیں، تاہم 2013 میں آئی جی آئی گروپ نے اپنا اثاثہ جات مینجمنٹ سے متعلق کاروبار بینک الفلاح کے ماتحت ادارے الفلاح جی ایچ پی انویسٹمنٹ مینجمنٹ لمیٹڈ کو 200 ملین روپے میں فروخت کردیا کیونکہ گروپ کو اس وقت آئی جی آئی انویسٹمنٹ بینک کیلئے رقم کی ضرورت تھی۔

اپریل 2014 میں آئی جی آئی گروپ MetLife Alico نامی کمپنی خریدنے کے قریب تھا، MteLife نیویارک سے تعلق رکھنے والی ایک لائف انشورنس کمپنی تھی جس نے Alico کو 2010 میں خریدا تھا۔ اس وقت آئی جی آئی کی جانب سئ دعوی کیا گیا کہ وہ لائف انشورنس کے کاروبار میں دوبارہ داخل ہو رہی ہے لیکن اسکی وجہ نہیں بتائی گئی کیونکہ کمپنی پلے ہی لائف انشورنس بزنس چلا رہی تھی۔ پاکستان میں تمام انشورنس کمپنیاں 1972 میں قومیا کر سٹیٹ لائف انشورنس میں ضم کردی گئی تھیں لیکن یہ واضح نہیں اس وقت حکومت کی جانب سے آئی جی آئی انشورنس کمپنی کو ضبط کیا گیا یا نہیں۔

کمپنیاں کا انضمام اور افواہیں:

2016 کے اواخر میں آئی جی آئی گروپ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ آئی جی آئی انشورنس کا نام تبدیل کرکے آئی جی آئی ہولڈنگ رکھ رہے ہیں اور اسے اپنی تمام مالیاتی سروسز سے متعلق کمپنیوں کیلئے ایک ہولڈنگ کمپنی میں تبدیل کررہے ہیں۔ وجہ اسکی یہ ہے: نئی کمپنی کے اثاثوں کی مالیت 2017 کے آخر میں 103 ارب روپے تھی، کمپنی کی بُک ویلیو (واجبات کے علاوہ اثاثے) 73.5 ارب روپے تھی جبکہ یہ ویلیو 30 جون 2019 تک 45.6 ارب روپے تک گر گئی۔

اس کمپنی سے مارکیٹ میں زیر گردش افواہوں میں اس وقت مزید تیزی آ گئی جب رپورٹس سامنے آئیں کہ MCB Bank اور بینک الفلاح کے سابق سی ای او عاطف باجوہ آئی جی آئی کمپنی کے ساتھ کام کررہے ہیں، یہ افواہیں اس وقت کسی حد سچ ثابت ہو گئیں جب عاطف باجوہ نے پیکجز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ آئی جی آئی گروپ ممکنہ طور پر ایک بینک خریدنے کیلئے عاطف باجوہ کیساتھ کام کر رہا ہے اور یہ تعاون باجوہ کے پیکجز بورڈ جوائن کرنے سے پہلے سے جاری ہے، چونکہ عاطف باجوہ دو بڑے بینکوں کے سربراہ رہ چکے تھے اس لیے آئی جی آئی گروپ کیلئے فطری تھا کہ وہ بینکنگ کے شعبے میں قدم رکھنے کیلئے ان کا انتخاب کرتا۔

آئی جی آئی گروپ کا ابھی ایک عارضی پرچیز پراسیس سے گزرنا ہے کیونکہ جب بھی کوئی ادارہ یا کمپنی یا شخص پاکستان میں بینک خریدنا چاہتا ہے تو وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو مطلع کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ واقعی آئی جی آئی بینک خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے یا نہیں۔ بہرحال ایک مضبوط بیلنس شیٹ اور بہترین ہولڈنگ سٹرکچر کی وجہ سے کمپنی خود ایک فنانشل پاور ہائوس ہے، لیکن پھر بھی دو سوال باقی ہیں: ایک یہ کہ کوئی ادارہ خریدنے کیلئے کمپنی کا بجٹ کتنا ہے؟ اور اس بجٹ سے وہ کیا خرید سکتی ہے؟

آئی جی آئی گروپ کی سینئر قیادت کیساتھ انٹرویو کوشش کے باوجود نہ ہوسکا تاہم ہم نے کمپنی کی فنانشل سٹیٹمنٹس کا تجزیہ کیا ہے جس سے ممکن ہے تصویر کچھ واضح ہو جائے۔

آئی جی آئی ہولڈنگ کا بجٹ کتنا بڑا ہے؟

سنہء 2019 کی دوسری سہ ماہی کے اختتام پر آئی جی آئی ہولڈنگ کی بیلنس شیٹ کے مطابق اس کے اثاثے 73 ارب روپے کے تھے، اس میں سے 1.8 ارب روپے کے اثاثے بانڈز کی شکل میں ہیں، 45.5 ارب روپے کی مختلف کمپنیاں ہیں،باقی اثاثے اس کے علاوہ ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے ان اثاثوں میں سے آئی جی آئی ہولڈنگ کسی ایکوزیشن (کسی ادارے یا کمپنی کو خریدنا) پر کتنی رقم لگا سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب کسی قدر پیچیدہ بھی ہے۔

آئی جی آئی ہولڈنگ کے 45.5 ارب روپے کے اثاثے پبلکلی لسٹڈ سٹاک کی صورت میں ہیں جس کا مطلب ہے کہ ضرورت پڑنے پر ان اثاثوں کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ یعنی وہ سٹاک مارکیٹ میں ایک ہی کاروباری دن میں فروخت کرکے کیش وصول کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ عمل ذرا پیچیدہ ہے، آئی جی آئی ہولڈنگ کی نوے فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری ان شئیرز کی صورت میں ہے کمپنی ’’نیسلے پاکستان‘‘ میں رکھتی ہے، تو پھر کسی چیز کے حصول کیلئے آئی جی آئی کیا کچھ فروخت کر سکتی ہے؟

31 دسمبر 2018 کی فنانشل سٹیٹمنٹس کے مطابق کمپنی نے اپنی نیسلے میں سرمایہ کاری کو ’’فروخت کیلئے دستیاب‘‘ کے طور پر پیش کیا تھا جس سے پتہ چلا کہ کمپنی کسی ایکوزیشن پر فنڈز لگانے کیلئے اپنے اثاثے ممکنہ طور پر فروخت کیلئے پیش کرنا چاہتی ہے۔ اس سارے تجزیے کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کسی ایکوزیشن کیلئے کمپنی کے پاس 47 ارب روپے ہیں، اس سے وہ کیا خرید سکتے ہیں؟ شائد پاکستانی مالیاتی سیکٹر کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کمپنی اس رقم سے ہر وہ چیز خرید سکتی ہے جو قابل فروخت ہو۔

آئی جی آئی ہولڈنگ کیا خرید سکتی ہے؟

’’منافع‘‘ نے پہلے ہی یہ رپورٹ کیا تھا کہ بینک الفلاح، فیصل بینک اور میزان بینک موقع دیکھ کر فروخت کیے جاسکتے ہیں، جسکا مطلب یہ ہے کہ ابھی ان بینکوں کے شئیر ہولڈرز خریداروں کو نہیں ڈھونڈ رہے بلکہ وہ درست خریدار ملنے پر کسی درست وقت میں فروخت کردیں گے۔

مثال کے طورپر اگر آپ میاں منشاء کے پاس گئے اور ان سے MCB خریدنے کے بارے میں بات کی تو وہ آپکو جانے کا کہہ دیں گے یا پھر قیمت اتنی زیادہ مانگیں گے کہ آپ خود اٹھ کر چل دیں گے۔ لیکن اگر آپ ابوظہبی گروپ کے پاس جائیں اور بینک الفلاح کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کریں تو ہوسکتا ہے وہ آپ کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کریں، مناسب قیمت طے کریں، ادائیگی کے طریقہ کار پر گفتگو کریں۔

ہم اس بارے میں کسی قسم کے ابہام کا شکار نہیں ہونگے کہ آئی جی آئی ہولدنگ کونسے بینک میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے، تاہم یہ دیکھنا زیادہ اہم ہے کہ کمپنی نیسلے میں موجود اپنے حصص فروخت کرتی ہے یا نہیں، کیونکہ نیسلے ان کمپنیوں میں سے ایک ہے جو بہترین سمجھی جاتی ہیں اور جن کی گروتھ بھی کافی اچھی ہے۔

یہ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی آئی جی آئی ہولڈنگ کو کوئی بینک خریدنا چاہیے؟ آئی جی آئی انویسٹمنٹ بینک کا تجربہ تو برا رہا تھا، یہ بینک بھی اس وقت دیوالیہ ہوا تھا جب سید بابر علی نے 2014ء میں کمپنی کی بیلنس شیٹ کو سہارا دینے کیلئے 285 ملین روپے نکالے تھے۔ انتظامیہ یہ قبول کرتی ہے کہ کمپنی دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔

پاکستانی بینکنگ سیکٹر کے مسائل:

اگر کوئی اور بینک فروخت کیلئے دستیاب ہوتے تو ہم کہتے کہ آئی جی آئی ہولڈنگ کو یہ بالکل نہیں خریدنے چاہیں، لیکن یہ تینوں بینک (الفلاح، فیصل اور میزان بینک) اچھے سمجھے جاتے ہیں،  مسئلہ پاکستان کے مالیاتی نظام پر بینکنگ سیکٹر کا مطلق غلبہ ہے۔

آئی جی آئی ہولڈنگ ملک کی بڑی نان بینکنگ فنانشل کمپنی ہے جو دو بہترین انشورنش کمپنیاں اور ایک بروکریج فرم بھی چلا رہی ہے، اگر یہ تینوں میں سے کوئی ایک بینک خرید لیتی ہےتو یہ ایک اور بینک ہولڈنگ کمپنی بن جائیگی۔

بابر علی کے سامنے اب یہ چوئس موجود ہے کہ آئندہ وہ جو کچھ کریں گے وہ ان کی زندگی کا شائد آخری سب سے بڑا کام ہوگا، کاروبار میں فیصلے محض اعدادوشمار پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ انسانی جذبات بھی کافی کردار ادا کرتے ہیں۔

مضمون نگار: فاروق ترمذی

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here