گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی اصل کہانی کیا ہے؟

کیا واقعی ہی پی ٹی آئی حکومت نے 208 ارب روپے معاف کرکے اپنے ’پسندیدہ‘ صنعتکاروں کو نوازنے اورعوام کے پیسے پر ’ڈاکا‘ ڈالنے کی کوشش کی؟

867

        پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے حال ہی میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کی مد میں کچھ ’بارسوخ‘ صنعتکاروں کو 208 ارب روپے معاف کیے جن کیلئے صدارتی آرڈینینس کا سہارا لیا گیا، (بعد ازاں میڈیا میں تنقید ہونے پر یہ آرڈی نینس واپس لے لیا گیا)، معاف کردہ 208 ارب روپے میں 92 ارب روپے سود کی رقم بھی شامل کی جائے تو صنعتکاروں کو 300 ارب روپے کا فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی۔

        جی آئی ڈی سی سکینڈل پر مختلف سطحوں پر کافی بحث و تمحیض ہوچکی ہے، وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان نے ایک آرڈینینس کی منظوری دی اور دستخط کرنے کیلئے صدر مملکت کو بھجوا دیا، اس معاملے پر شور اٹھا تو وزیر اعظم نے مذکورہ آرڈی نینس واپس لینے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ کے سپرد کریں۔

        سوشل میڈیا پر طرح طرح کی ’تفصیلات‘ اور ’تھیوریاں‘ گردش میں رہیں، ٹی وی پر گرما گرم بحث جاری رہی اور اسے عوام کیساتھ دھوکے سے تعبیر کیا گیا، معروف صحافی رئوف کلاسرا تو دیگر تجزیہ کاروں سے دو قدم آگے بڑھ  گئے، انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ وزیراعظم عمران خان نے عوام کے 300 ارب روپے پر ’ڈاکا‘ ڈالا ہے۔

        یہ الزامات بھی کچھ اُسی نوعیت اور انہی الفاظ میں تھے جس طرح وزیر اعظم عمران خان اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے سے پہلے اپنے مخالفین پر لگاتے تھے۔ تاہم معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر لوگ رئوف کلاسرا کی باتوں سے اتفاق کرتے نظر آئے۔

        لیکن جی آئی ڈی سی اور مذکورہ آرڈی نینس کی بہت ساری باریکیاں عوامی غصے اور میڈیا کے شوروغل میں کھو گئیں، کیا واقعی ہی ٹیکس دہندگان کی رقم پر 300 ارب روپے کا ڈاکا ڈالا گیا؟ آرڈی نینس کی خبریں آنے تک شائد اکثریت کو ’جی آئی ڈی سی‘ کا بھی پتہ نہیں تھا۔

        کسی قسم کا نیتجہ نکالنے سے قبل یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم (عوام) واقعی ہی کسی قسم کا سیس (محصول) ادا کرتے ہیں؟ کیا بڑی کمپنیاں (جنہیں 208 ارب معاف کیے گئے) بھی سیس ادا کرتی ہیں؟ یا اس کہانی کا کوئی تیسرا رخ بھی ہے؟

گیس سیس (cess) کیا ہے؟

        عام تاثر شائد یہی پایا جاتا ہو کہ یہ سیس بھی ایک طرح کا ٹیکس ہے، لیکن سیس اور ریگولر ٹیکس میں کیا فرق ہے؟ اور حقیقتاََ جی آئی ڈی سی کیا ہے؟

سیس دراصل وہ ٹیکس ہے جو حکومت کسی خاص مقصد کیلئے عائد کرتی ہے، مثال کے طور پر جی آئی ڈی سی (گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس) ایسا ٹیکس ہے جو پاکستان بھر میں گیس سے متعلقہ ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونا ہے، سادہ الفاظ میں اسکا مطلب یہ ہے کہ حکومت کچھ منصوبوں کیلئے رقم جمع کرنے کیلئے ٹیکس لگاتی ہے۔

        گیس انفرسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس 2011 میں پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے ابتدائی طور پر ’منی بل‘ کے طور پر متعارف کرایا تھا۔ جس کا مقصد ان گیس منصوبوں کی تعمیر کیلئے فنڈز جمع کرنا تھا جو پاکستان اور کسی دوسرے ملک کے اشتراک سے بن رہے تھے، اس میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن، تاپی پروجیکٹ، ایل این جی پروجیکٹس(اینگرو الینجی ٹرمینل پرائیویٹ لمیٹڈ اور پاکستان گیس پورٹ کارپوریشن کے ذریعے چلائے جا رہے) شامل تھے۔

        یہ سیس فرٹیلائزر سیکٹر، سی این جی، آئی پی پیز، سی پی پیز(captive power producers) اور ہر اس سیکٹر پہ نافذ کیا گیا جو صنعتی گیس کا کنکشن رکھتا تھا، اس لیے یہ براہ راست عوام پر لاگو نہیں کیا گیا، لیکن ان تمام انڈسٹریز اور سیکٹرز نے گیس بل بڑھا کر عوام سے ہی یہ سیس وصول کیا،  عام تاثر کے برعکس ان تمام سیکٹرز نے گیس کی قیمتیں بڑھنے کیساتھ اپنی سیلنگ پرائسز نہیں بڑھائیں کیونکہ معاشی اصول ہے کہ کسی چیز کی براہ راست قیمت بڑھانے سے اس کی ڈیمانڈ میں کمی آ جاتی ہے۔ مختصراََ یہ کہ اگر یہ سیکٹرز سیس کا بوجھ صارفین پر لادتے تو یقینی طور پر انکی سیلز اور منافع کم ہو جاتا۔ اس لیے سیس کو غیر آئینی قرار دیا گیا کیونکہ یہ ایک منی بل کے ذریعے لاگو کیا جا رہا تھا۔

اس بل کو غیر آئینی قرار دلوانے کیلئے سندھ ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا، بعد میں معاملہ سپریم کورٹ بھی پہنچ گیا، دونوں ہائیکورٹس نے کمپنیوں کے حق میں حکم امتناعی جاری کردیے۔ جس کے بعد جی آئی ڈی سی کا ریٹ 13 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے 100 روپے ایم ایم بی ٹی یو بڑھانے کیلئے ان کمپنیوں نے سندھ ہائیکورٹ میں کیس دائر کردیا اور بعد میں اس اضافے پر سٹے آرڈرز حاصل کرنے کیلئے اپیلیں بھی دائر کردیں، تب حکومت نے سی پی پیز (Captive power plants) کیلئے ایک بار پھر سیس 200 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ کردیا جس اطلاق یکم جولائی 2014 سے ہوا۔

        سپریم کورٹ نے بھی پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور قرار دیا کہ سیس ایک ’فیس‘ ہے اور یہ منی بل کے ذریعے لاگو نہیں ہو سکتا اور آئین کے خلاف ہے۔ یعنی سیس کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا۔ 24 اکتوبر 2014 کو حکومت نے جی آئی ڈی سی آرڈی نینس جاری کرکے اس کے نفاذ کی کوشش کی تاہم اسے بھی عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا، جس پر حکومت نے مئی 2015 میں پارلیمان کی منظوری سے جی آئی ڈی سی ایکٹ نافذ کردیا۔ لیکن اس ایکٹ کو بھی عدالت میں چیلنج کرکے سٹے آرڈر حاصل کر لیا گیا، تاہم اس ساری عدالتی جنگ کی وجہ سے حکومت جنوری 2012 سے دسمبر 2018 تک جی آئی ڈی سی کی مد میں جمع ہونے والے رقم حاصل نہیں کر پائی۔ مختلف کمپنیوں نے 200 سے زیادہ کیسوں پر حکم امتناعی حاصل کر رکھے ہیں۔

28 اگست 2019کو پی ٹی آئی حکومت نے ایک صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے 50 فیصد جی آئی ڈی سی معاف کردیا، جس میں 100 فیصد سود بھی معاف کیا گیا، صدارتی آرڈی نینس کے مطابق سی این جی سیکٹر، فرٹیلائزر سیکٹر سی پی پیز، کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی، جینکوز، آئی پی پیز، سوئی ناردرن گیس اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں کیساتھ آرڈینیس کے نفاذ کے 90 دن کے اندر ایک معاہدہ کریں گے اور 22 مئی 2015 سے 31 دسمبر 2018 تک واجب الادا رقم کا آدھا ادا کریں گے اور ان واجبات کی ادائیگی دو قسطوں میں ہو گی، پہلی ادائیگی معاہدے پر دستخط کے 30 دن کے اندر اور دوسری تین ماہ کے اندر ہو گی۔

اب فرٹیلائزر سیکٹر کو دیکھا جائے تو اس کی گیس کی کھپت فیڈ اور فیول کی مد میں 80 اور 20 کی شرح سے ہوتی ہے۔ یعنی 80 فیصد گیس کھاد بنانے کیلئے جبکہ 20 فیصد کھاد سازی کے پلانٹ کو چلانے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔

صدارتی آرڈی نینس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نئے فرٹیلائزر پلانٹس (جو سیس کے نفاذ کے بعد بنے) کیلئے سیس ریٹ زیرو ہوگا، اور پرانے فرٹیلائزر پلاٹنس، سی این جی سیکٹر، آئی پی پیز، کے الیکٹرک، اور جینکوز کیلئے ریٹ آدھا ہوگا، اسی طرح ایکسپورٹ اندسٹری کیلئے بھی سیس ریٹ زیرو ہوگا۔

کس کے ذمہ کتنا پیسہ واجب الادا تھا؟

2015 میں جب جی آئی ڈی سی ایکٹ متعارف ہوا تو کل رقم 147.2 ارب روپے ہو چکی تھی، لیکن یہ ذہن میں یہ رہے کہ یہ وہ رقم تھی جو منی بل کے ایکٹ میں تبدیل ہونے سے پہلے کی تھی۔ 2015 میں جی آئی ڈی سی ایکٹ کے بعد دسمبر 2018 تک یہ رقم مجموعی طور پر 416.3 ارب روپے ہو گئی۔

جی آئی ڈی سی ایکٹ سے پہلے فرٹیلائزر کمپنیوں کے ہاں ایندھن کی مد میں کل واجب الادا رقم تھی جبکہ پرانے فرٹیلائزر پلانٹس کے ذمے 15.1 ارب روپے اور نئے پلاٹنس کے ذمے ساڑھے 8 ارب روپے تھے۔ 0.9 ارب روپے

اسی طرح انڈسٹری کے ذمے 20.7 ارب، آئی پی پیز کے ذمے 9.6 ارب، کے الیکٹرک کے ذمے 25.3  ارب روپے کیپٹو پاور پلانٹس کے ذمے 28 ارب روپے، ریجن وَن کے سی این جی سٹیشنز کے ذمے 21.2 ارب، ریجن ٹو کے سی این جی سٹیشنز کے ذمے 18 ارب روپے کے واجبات تھے۔ یہ سارے واجبات جی آئی ڈی سی ایکٹ کے نفاذ سے پہلے کے تھے۔ اس ایکٹ کے بعد سے دسمبر 2018 تک فرٹیلائزر کمپنیوں کے ذمے ایندھن کی مد میں 1.5 ارب، پرانے فرٹیلائزر پلاٹنس کے ذمے 57.5 ارب، نئے پلاٹنس کے ذمے 54.5 ارب، انڈسٹری کے ذمے 21.8، آئی پی پیز 2.5 ارب، کے الیکٹرک 32.1 ارب، سی پی پیز 63.4 ارب، سی این جی ریجن وَن 22.6ارب، سی این جی ریجن ٹو 18.3 ارب روپے تھے۔

اس طرح جی آئی ڈی سی ایکٹ کے نفاذ سے پہلے کے کل 147.2 ارب اور ایکٹ کے نفاذ سے دسمبر 2018 تک کے کل 269.1 ارب واجبات ملا کر کل رقم 416.3 ارب روپے بنتی ہے۔ ایک سرکاری دستاویز کے مطابق جنوری 2012 سے دسمبر 2018 تک صارفین سے 701 ارب روپے اکٹھے کیے گئے جس میں صرف 285 ارب قومی خزانے میں جمع ہوئے باقی رقم کمپنیوں کے ذمے واجب الادا ہے۔

کھاد ساز کمپنیوں نے کسانوں سے 400 روپے فی بوری زیادہ وصول کیے، ابھی تک اس میں سے بہت تھوڑی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی گئی ہے عام تاثر یہی ہے کہ یہ بڑی مچھلیاں باقی رقم ادا کرنا نہیں چاہتی ہیں، عدالتوں کے کیس اور سٹے آرڈرز بھی ادائیگی میں رکاوٹ ہیں۔

لیکن ایسا نہیں ہے، جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ صنعتوں نے اس سیس کو غیر آئنی، غیر معقول اور امتیازی قرار دیا تھا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ سیس شروع میں عام عوام پر لاگو نہیں کیا گیا تھا جیسا کہ ہمیں بتایا جاتا رہا ہے۔

فرٹیلائزر سیکٹر کا اعتراض ہے کہ حکومت نے سیس ریٹ کافی زیادہ یعنی 300 فی ایم ایم بی ٹی یو تک بڑھا دیا تھا، اسی طرح باقی صنعتوں کیلئے 150 ایم ایم بی ٹی یو تھا، اس واضح امتیازی  سلوک کے باوجود شائد فرٹیلائزر سیکٹر نے 129 ارب روپے قومی خزانے میں جی آئی ڈی سی سیس کی مد میں جمع کرائے۔ جنوری 2012 میں سیس لاگو ہونے سے قبل کھاد ساز کمپنیاں کسانوں کو کھاد 1580 روپے فی بوری فروخت کرتی تھیں، جولائی 2019 تک گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کھاد کی قیمت بھی 1958 روپے فی بوری تک جا پہنچی۔ اب اگر فی بوری پر 405 روپے جی آئی ڈی سی سیس وصول کیا جائے تو یوریا کی قیمت 2363 فی بوری ہو جاتی ہے، اس میں سیلز ٹیکس اور دیگر اخراجات شامل نہیں ہیں، اب اگر یوریا 1840 روپے فی بوری میں فروخت ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ فرٹیلائزر انڈسٹری جی آئی ڈی سی لاگو نہیں کر رہی۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی سی این جی سیکٹر کو جی آئی ڈی سی کی مد میں کچھ رعاتیں دیں اور کافی فنڈز ختم کر دئیے، اسی مثال پر عمل کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت نے جی آئی ڈی سی (ترمیمی) آرڈی نینس 2019 کا اعلان کیا، یا یوں کہنا چاہیے کہ پھنسے ہوئے پیسے کی واپسی کیلئے صنعتکاروں کیلئے ایمنیسٹی سکیم پیش کی۔

        دلیل اس کے دفاع میں یہ پیش کی جاتی ہے کہ اگر حکومت قانونی چارہ جوئی سے یہ پیسہ واگزار کرانے کی کوشش کرے تو فیصلہ حکومت کے خلاف بھی جا سکتا ہے اور حق میں بھی، لیکن اس کی بجائے کم از کم آدھی رقم تو ہاتھ لگ رہی ہے، یہی کافی ہے۔

لیکن حکومت کی جانب سے 208 ارب روپے کی ممکنہ معافی کے بعد کچھ صنعتکاروں نے وزارت خزانہ کو خطوط لکھے کہ مزید 100 ارب معاف کیے جائیں، لیکن عوام اور اپوزیشن کا شکریہ جنہوں نے اس آرڈی نینس پر عملدرآمد رکوا دیا۔

آگے کیا ہوگا؟

آرڈی نینس کے اعلان کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، کچھ نے اس اقدام کو عوامی دولت پر عمران خان کی جانب سے ڈاکا زنی تو کسی نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو نوازنے سے تعبیر کیا اور سابق حکومتوں کی تعریف شروع کردی کہ انہوں نے ان صنعتکاروں کے مطالبات نہیں مانے تھے۔

        لیکن ایک منٹ کیلئے رکیے اور سوچیئے کہ کیا مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایسی ہی رعایت سی این جی سیکٹر نہیں دی تھی؟ اور کیا پیپلز پارٹی نے بغیر کسی مشاورت اور قانون سازی کے یہ سیس متعارف کروایا؟

پی ٹی آئی حکومت نے البتہ نقصان کی بھرپائی کیلئے حتیٰ المقدور کوشش کی اور رائے عامہ کو تبدیل کرنے کیلئے اجلاس منعقد کیے، بریفنگز دیں اور وضاحتیں جاری کیں، یہاں تک کہ وزیر اعظم نے خود کہا کہ آرڈی نینس کا مقصد کسی اپنے کو نوازنا ہر گز نہیں، بلکہ عدالت سے باہر اس معاملے کو کچھ اس طرح حل کرنا ہے کہ پھنسی ہوئی رقم میں کم از کم آدھی تو قومی خزانے میں آ جائے۔

        بہرحال شدید ردعمل کے بعد ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے آرڈی نینس کو واپس لینے کا فیصلہ کیا، قطع نظر اس بات کے کہ وزیر اعظم صدر کا جاری کیا گیا آرڈی نینس واپس لینے کا مجاز نہیں ہوتا۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا وزیر اعظم عمران خان نے جی آئی ڈی سی کے حوالے سے صدارتی آرڈی نینس واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس معاملے کی فوری سماعت کیلئے اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ معاملہ قانونی اور آئینی طور پر جلد از جلد نمٹایا جا سکے کیونکہ ملک کو رقم کی ضرورت ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ فیصلہ کسی کے بھی حق میں آ سکتا ہے، حکومت کو پوری رقم مل بھی سکتی ہے اور اس سے بھی ہاتھ بھی دھونا پڑ سکتے ہیں۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ مسئلہ جی آئی ڈی سی معافی کا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے آرڈی نینس خفیہ رکھا اور بالا بالا ہی سب کچھ نمٹانا چاہا اور جمہوری تقاضوں کی خلاف ورزی اور پارلیمان کو پس پشت ڈالتے ہوئے صدر سے آرڈی نینس جاری کروا دیا۔

اب کڑوا سچ یہ ہے کہ جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھے ہونے والے اربوں روپوں میں سے ملک میں گیس کے ترقیاتی منصوبوں پر ابھی تک ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوسکی، پورٹ قاسم پر ایل این جی ٹرمینل نجی سرمایہ کاری سے قائم ہوا لہٰذا جی آئی ڈی سی سے کسی قسم کا فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔

(مضون نگار: ایلائزر بھٹی اور احمد احمدانی(

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here