اربوں روپے کے پینشن اسکینڈل کی کہانی ۔۔۔۔۔۔

لالچ، عمر رسیدہ افراد کے ساتھ برے سلوک کی روایت اور کام چوری نے کیسے دھوکا بازوں کی پوری ایک نسل کو پروان چڑھایا

896

روایتی عقل کہتی ہے کہ آٹومیشن (بینک ٹرانسفرز وغیرہ) کے ذریعے پینشن یا دیگر سرکاری مراعات پینشرز تک پہنچانے کے نام پر فراڈ اور دھوکا دہی کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن ایک نئی حکومتی سکیم جو تین سال تک اسی طرح کام کرتی رہی وہ اس مفروضے کو غلط ثابت کرتی ہے۔

سنہ 2016ء میں وزارت خزانہ نے فیصلہ کیا کہ یہ گریڈ 17 سے 22 تک اپنے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو ڈائریکٹ کریڈٹ کارڈ سکیم (DCS) کے ذریعے پینشن کی ادائیگی کرے گی۔ پینشرز کو پینشن بُک تھام کر گھنٹوں انتظار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ ان کی رقم باقاعدگی سے ہر ماہ ان کے اکائونٹ میں بھیج دی جائے گی۔

ڈی سی ایس سسٹم ویسے تو سادہ تھا لیکن اس کیلئے کچھ اقدامات کرنے پڑتے تھے جن پر وقت لگتا تھا، سب سے پہلا کام ریٹائر شخص کو یہ کرنا ہوتا کہ وہ نیشنل بینک سے اپنی ادائیگیوں کا سارا ریکارڈ نکلوائے، اس کیلئے اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کے دفتر سے ایک اتھارٹی لیٹر حاصل کرنا ضروری تھا، اس کے بعد پینشر کے اکاونٹ والے بینک سے ڈی سی ایس فارم کی تصدیق ہوگی۔

مصدقہ فارم اور ادائیگیوں کے ریکارڈ کے ساتھ پینشن پیمنٹ آرڈر بھی اکائونٹنٹ جنرل آّف پاکستان کے دفتر کو جمع کرانا لازمی تھا۔ اس کے علاوہ بینک کو بیس روپے کے اشٹام پیپر پر معاہدہ ابراء کا بانڈ جمع کرانا ہوتا تھا، اس کے بعد ساری دستاویزات کا ڈیپارٹمنٹ آف پینشرز سروسز (پی پی او) میں جائزہ لیا جاتا اور اس کے بعد پینشن کی رقم ہر ماہ متعلقہ شخص کے بینک اکائونٹ میں بھیج دی جاتی۔

نیشنل بینک کے اعلیٰ عہدیدار نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ’’منافع‘‘ کو بتایا کہ ’’قانونی طور پر نیشنل بینک آف پاکستان پینشرز کیلئے بینکنگ کی سہولیات فراہم نہیں کرتا، لیکن چونکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نینشل بینک کے ذریعے ادا کی جاتی ہیں، پینشنرز پہلے ہی طریقہ کار اور بینک سٹاف سے متعارف ہوتے ہیں تو اس لیے وہ اسی بینک کیساتھ ہی جڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘

ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم کے بیک وقت دو فائدے ہوئے: پینشنرز کو سہولت اور آسانی ہوئی اور حکومت کا اس عمل پر زیادہ موثر کنٹرول ہو گیا۔ تاہم یہاں پاکستانی کلچر کی بات بھی آتی ہے جس میں بزرگوں کا احترام اور انہیں سہولت فراہم کرنا شامل ہے۔

نیشنل بینک کے ایک ڈائریکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اکائونٹس میں براہ راست پینشن منتقلی کا سسٹم آنے سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں ’گھوسٹ پینشنرز‘ موجود تھے۔ ’’بزرگ پینشنرز کبھی کبھار پیشن وصولی کیلئے کسی فیملی ممبر کو ساتھ لے آتے تھے، جب بینک کا سٹاف پینشنر اور انکے فیملی ممبر سے واقف ہو جاتا تو فیملی ممبر کو دستخطی دستاویز لانے پر ادائیگی کردی جاتی اور اس کیلئے پینشنر کو خود بینک میں آنے کی زحمت نہ کرنا پڑتی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ اس طرح فراڈ کی روایت پڑی اور قومی خزانے کو بڑا نقصان پہنچا کیونکہ پینشنر کے مرنے کے بعد بھی اس کے خاندان کے لوگ جعلی دستخط کرکے بینک سے پینشن وصول کرتے رہے۔‘‘

نینشل بینک آف پاکستان کے حکام کے مطابق ڈی سی ایس سسٹم کی آنے سے مردہ اور جعلی پینشرز سارے نہیں تو زیادہ تر کا خاتمہ ایک ہی دفعہ میں ہو گیا۔ پھر جب اکائونٹس کی تصدیق کیلئے بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرایا گیا تو بقیہ جعلی پینشنرز بھی ختم ہو گئے۔ بائیو میٹرک سے متعلق اصل ڈیٹا سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری ہونا ابھی باقی ہے تاہم اس کی وجہ سے مزید جعلی پینشنرز آنے بند ہو جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ڈی سی اسی سسٹم نافذ ہوا تو کم و بیش چار سے پانچ لاکھ  ایسے پینشنرز سامنے آئے جن کے اکائونٹس ایکٹوویٹ نہ ہوسکے اور بینک نے انہیں جعلی یا مردہ قرار دے دیا۔ لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ سسٹم کو جدید بنانے سے جعلی پینشن ادائیگیوں کا مسئلہ کم نہیں ہوا۔

پاکستان میں پینشن سسٹم کام کیسے کرتا ہے؟

          سرکاری ملازم کی خدمات کے اعتراف میں صوبائی یا وفاقی حکومت اسے مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ایک مخصوص رقم مہیا کرتی ہے جسے پینشن کہتے ہیں، سرکاری ملازم کی دوران ملازمت یا ریٹارمنٹ کے بعد موت کی صورت میں اس کے فیملی ممبر (والدین، بیوی، بچے) اس پینشن کے قانونی حقدار بن جاتے ہیں تاہم اس حوالے سے کچھ شرائط ضرور ہوتی ہیں۔

سرکاری ملازم کی موت کی صورت میں اس کی پینشن کا پہلا دعویدار اس کی بیوی یا عورت ہونے کی صورت میں خاوند ہوتا ہے، اگرایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو وہ بھی حقدار ہوتی ہیں۔ پہلے حقدار کو پینشن کی کل رقم کا 75 فیصد ملتا ہے۔ اگر کسی مرد ملازم کی ایک سے زائد بیویاں  اور فیملی ممبر چار سے کم ہوں تو پینشن کی رقم سب میں برابر تقسیم کی جاتی ہے۔ لیکن اگر فیملی ممبر چار سے زیادہ ہوں تو ہر بیوہ کو ایک چوتھائی حصہ ملتا ہے اور بقیہ رقم کو فیملی ممبرز میں برابر تقسیم کردیا جاتا ہے، بیٹے اگر 21 سال سے کم عمر ہوں تو وہ بھی والد کی پیشن کے حقدار ہونگے، بیٹیاں غیر شادی شدہ، مطلقہ یا بیوہ ہوں تو جب تک وہ شادی نہیں کر لیتی ہیں تب تک انہیں پینشن کی رقم ملتی رہتی ہے۔

اگر کسی مرنے والے سرکاری ملازم کے قریبی رشتے دار یا بچے موجود نہیں تو اس کی بہو کو بھی دس سال تک پینشن کی رقم مل سکتی ہے۔ اگر اس کا پوتا زندہ اور 21 سال سے کم عمر ہے یا پوتی غیر شادی شدہ ہے تو انہیں بھی رقم مل جائیگی، اگر مندرجہ بالا افراد میں سے کوئی بھی موجود نہیں تو پینشنر کے والد کو اسکی موت تک پینشن ملتی رہے گی، اگر والد بھی زندہ نہیں تو اس کے بھائی کو ملے گی اگر اسکی عمر 21 سال کم ہے، یا پھر بہن اگر غیر شادی شدہ، مطلقہ یا پھر بیوہ ہے تو اسے ملے گی۔ بھائی اور بہن دس سال تک پینشن لینے کے حقدار ہونگے۔

اسکینڈل کو قانونی جواز دینا:

          کسی کو نہیں معلوم کہ چار سے پانچ لاکھ ’گھوسٹ پینشنرز‘ نے قومی خزانے کو کتنا نقصان پہنچایا، پہلے تو دیگر بہت سے اعدادوشمار کی طرح اس حوالے سے بھی سرکااری ریکارڈ موجود نہیں ماہانہ یا سالانہ پینشن کی مد میں کتنی رقم ادا کی جاتی ہے۔ اکائونٹنٹ جنرل پاکستان ریونیوز سے پوچھیں تو وہ کسی اور محکمے کی طرف بھیج دیتے ہیں، اکثر محکمے سرکاری ریکارڈ تک رسائی دینے سے انکار کردیتے ہیں، یا پھر اگے کسی کے پاس بھیج دیتے ہیں، اور یوں بندہ گھوم پھر کر دوبارہ اے جی پی آر آفس پہنچ جاتا ہے۔

اس لیے ہم آن لائن موجود ڈیٹا سے رقم کے تعین کی کوشش کریں گے، مالی سال 2017-18ء میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پینشن ادائیگیوں کیلئے کل 565 ارب روپے رکھے۔ جن میں سے وفاقی حکومت کا حصہ 342 ارب روپے تھا، اس میں سے وفاقی حکومت کے سول ملازمین کی پینشنز کیلئے 82.22 ارب روپے مختص تھے، وفاقی حکومت کے سول اور مسلح فورسز کے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشنز میں دس فیصد اضافہ بھی کیا گیا جس کے بعد سول پینشنرز کیلئے مختص رقم 90.44 ارب روپے ہوگئی۔

3 جولائی 2018ء کو فنانس ڈویژن کے جاری کردہ ایک سرکلر میں بتایا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کے سول ملازمین کی کم از کم پینشن 15 ہزار روہے مختص کی گئی ہے۔ پینشن فراڈ اور گھوسٹ پنشنرز کو دی جانے والی رقم کا تخمینہ لگانے سے قبل ہم فرض کرتے ہیں کہ اگر اوسطاََ ہر ایک پینشنر کو ماہانہ 10 ہزار روپے ادا کیے جاتے رہے ہوں تو چار لاکھ گھوسٹ پینشنرز کے حساب سے یہ رقم 4.5 ارب روپے ماہانہ بنتی ہے۔ ’لاکھوں روپے کے فراڈ‘ کا دعوٰی اس رقم کا عشر عشیر بھی نہیں۔ یہ فراڈ سالہا سال سے جاری رہا لیکن ااگر ایک سال کا تخمینہ لگائیں تو معلوم ہو گا کہ قومی خزانے کو صرف ایک سال میں 54 ارب روپے کا نقصان پہنچتا رہا۔

اس کہانی کا ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ کسی سرکاری ملازم کی موت کے بعد دو تہائی پینشن کی رقم اس کی بیوہ کو جاتی ہے، یا پھر 21 سال سے کم عمر بچوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، لیکن اگر کسی فوت شدہ ملازم کا 21 سال سے کم عمر بیٹا نہ ہو یا غیر شادی شدہ، مطلقہ یا بیوہ بیٹی نہ ہو تو خاندان زیادہ بہتر یہی سمجھتا ہے کہ موت کو پوشیدہ رکھا جائے، پینشن ہڑپنے کیلئے یہ فراڈ کئی طریقوں سے کیا جا رہا ہے، اور جب ڈی ایس سی سسٹم سے گھوسٹ ملازمین کو ختم کیا گیا تو فراڈ کے باقی طریقے بہرحال اب بھی موجود ہیں۔

سسٹم میں اب بھی مسائل باقی ہیں:

          مثال کے طور پر اگر نیشنل بنک پینشنرز کیلئے مشترکہ اکائونٹس کی سہولت ختم کردے لیکن اے ٹی ایم کارڈز اور ڈیبٹ کارڈز بدستور جاری رہیں تو اسکا مطلب یہ ہو گا جس کسی کے پاس کسی پینشنر کا کارڈ اور پن نمبر ہوگا وہ پینشن کی رقم نکلوا سکے گا۔

اس قسم کے فراڈ سے بچنے کیلئے ایک قانون موجود ہے، ہر چھ ماہ بعد پینشنر کے بارے میں ثبوت فراہم کرنا کہ وہ زندہ ہے، اور اگر وہ مر گیا ہے تو اس کی بیوہ سے متعلق ثبوت پیش کرنا کہ اس نے دوبارہ شادی نہیں کی، تاہم دیگر قوانین کی طرح یہ قانون بھی صرف نام کی حد تک ہے اس کا بھی سختی سے نفاذ نہیں کیا گیا۔

نیشنل بینک کے ہی ایک دوسرے اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ’’میرے سابق بینک میں یہ قانون نافذ تھا، اگر کوئی پینشنر ہر چھ ماہ بعد مصدقہ قانونی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کراتا تھا تو اس کا اکاوئنٹ خود کار طور پر بلاک ہو جاتا تھا۔تاہم نیشنل بینک میں چیزیں زیادہ کڑی نہیں ہیں، لیکن یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم ایک بڑی آبادی کو ڈیل کرتے ہیں اور ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو تمام مطوبہ دستاویزات فراہم کرنے میں متامل ہوتے ہیں۔ ‘‘

لیکن کیا یہ این بی پی نااہلی اور سستی ہے یا یہ اپنے برانچ سٹاف کو نوازنے کا طریقہ ہے؟ جیسا کہ بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک پینشنر نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے سنا کہ بینک کا کچھ سٹاف فوت شدہ پینشنرز کے لواحقین سے قوانین میں نرمی برتنے کا کہہ کر منتھلیوں کو مطالبہ کرتا ہے۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ فوت شدہ پینشنر کے بچوں یا بیوہ کو رقم دینا بینک سٹاف کو گراں گزرتا ہے بلکہ بعض دفعہ رقم ہے آدھی دی جاتی ہے۔ اس لیے زیادہ تر فوت شدہ پینشنرز کے رشتہ دار ان کی موت کی خبر نہیں کرتے۔

لیکن دوسری طرف وہ لوگ بھی ہیں جو قانون کی پابندی کرتے ہیں اور سسٹم کو چلتا رہنے دینا چاہتے ہیں۔ احمد خان نیازی کچھ عرصہ قبل فوت ہونے والے اپنے والد کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع کروا رہے تھے، ان کے والد گریڈ 20 کے سرکاری افسر تھے، انہوں نے کہا کہ ’’ میں یہاں مطلوبہ کاغذات جمع کرانے آیا ہوں لیکن اس بات سے متفق ہوں کہ زیادہ تر لوگ اس کا تردد نہیں کرتے۔ لیکن اس سے بینک کے کسٹمر کو بھی ویسا ہی تحفظ ملتا ہے جیسے بینک یا حکومت کی رقم کو حاصل ہوتا ہے۔‘‘

یہاں یہ کلیدی نکتہ سمجھنا چاہیے کہ اب ڈی ایس سی سسٹم کی وجہ سے ناصرف جعلی پینشنرز ختم ہو چکے ہیں بلکہ عشروں سے جمع ہو چکے گھوسٹ اکائونٹس بھی ختم ہو گئے ہیں۔ بائیو میٹرک تصدیق کی وجہ سے اس صفائی مہم میں مزید اچھا اثر ہوا ہے۔ تاہم صرف قانون بنا دینا کسی مرض کی دوا نہیں ہوتی اور نا اس سے فراڈ روکے جا سکتے ہیں، اب بھی اس کا امکان تھوڑا بہت موجود ہے لیکن پہلے کی طرح نہیں کہ کوئی شخص پینشن کا دعویدار ہی بن جائے۔ سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کو فوت شدہ پینشن یافتگان کے لواحققین کیلئے کوئی واضح پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے یہ سر اٹھاتا مسئلہ قابو سے باہر ہو جائے۔

 

(سیدہ معصومہ)

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here