بظاہر تو یہ ایک واضح غلطی نظر آتی ہے کہ کچھ ماہ پہلے یوفون پہلی پاکستانی تھی جس نے فور جی سروسز فراہم نہیں کیں اور اس فیصلے کی وجہ سے کمپنی کو کافی نقصان ہوا اور مدمقابل کمپنیاں منافع میں اس سے کہیں آگے نکل گئیں۔
عملاََ تو کہانی خود ہی خود کو لکھتی ہے۔ 1947ء سے لیکر 1989ء تک ملک میں ٹیلی کام سروسز کی فراہمی پر پی ٹی سی ایل کی اجارہ داری قائم تھی اور 2015ء تک پی ٹی ایل آمدن کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی تھی، لیکن بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی سے متعلق کنزیومرز کی ڈیمانڈ پوری کرنے میں ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دور میں سب سے بڑی سرکاری کمپنی اپنے مدمقابل نئی تیز رفتار نجی کمپنیوں کا مقابلہ نہ کر سکی۔
اس بیانیے میں بھی کسی قدر سچائی موجود ہے لیکن خاص طور پر اگر حقائق کی بات کریں تو وہ زیادہ پیچیدہ ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اپنے بہترین انفراسٹرکچر کی وجہ سے یہ قومی مواصلاتی رابطے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی لیکن جب پاکستان میں موبائل ٹیلی کام انڈسٹری پروان چڑھی تو پی ٹی سی ایل پیچھے رہ گئی۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی سی ایل چونکہ مختلف طور پر کھیل رہی تھی اس لیے موبائل انڈسٹری والی گیم ہار گئی۔
لیکن کیا پی ٹی سی ایل کی یہ حکمت عملی درست ہے؟ کیا روز افزوں تبدیل ہوتی ٹیکنالوجی کے دور میں (خاص طور پر جب چینی ٹیکنالوجی کمہپنی زونگ پاکستان میں فائیو جی سروسز متعارف کرانے جا رہی ہے) یہ کمپنی اپنی بقاء قائم رکھ سکے گی؟ شائد اایسا ہو سکے لیکن پی ٹی سی ایل کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ دراصل کس طرح کی کمپنی بننا چاہ رہی ہے۔
پاکستان میں موبائل انڈسٹری کی تاریخ:
پاکستان میں موبائل انڈسٹری کی کہانی 1989ء سے شروع ہوتی ہے، جب حکومت نے پہلی بار موبائل آپریٹرز کو لائسنس جاری کیے تھے۔ اس دور میں دو کمپنیوں پاک ٹیل اور انسٹا فون نے سپیکٹرم کی بولی جیتی اور دونوں نے کم و بیش ایک ہی وقت میں سروسز متعارف کروائیں، انسٹافون سویڈن کی ٹیلیکام کمپنی ملی کام اور عارفین گروپ (کراچی کا تجارتی اور صنعتی گروپ) کے اشتراک سے بنی، جبکہ پاک ٹیل یو کے کے ایک گروپ ’’کیبل اینڈ وائرلیس‘‘ اور حسن گروپ آف کمپنیز کے اشتراک سے معرض وجود میں آئی۔
تاہم دونوں کمپنیوں نے پاکستان میں اس وقت کام شروع کیا جب فی کس آمدن کافی کم تھی، اور عالمی سطح پر بھی ٹیلی کام انڈسٹری چھوٹی ہونے کے سبب کوئی واضح تبدیلی نہیں لا سکی تھی۔ پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر کیلئے مارکیٹ 1998ء تک کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی، 1998ء میں موبی لنک نے بالآخر اپنی سروسز فراہم کردیں۔ موبی لنک موٹرولا اور سیف گروپ (لکی مروت سے تعلق رکھنے والا معروف سیاسی خاندان) کے اشتراک سے قائم ہوئی۔
موبی لنک کو سب سے بڑا فائدہ بہترین وقت کے انتخاب کا ہوا، جب یہ قائم ہوئی تو مواصلاتی آلات (موبائل فون اور سیلولر ٹاور سے متعلق انفراسٹرکچر) سستے ہونا شروع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے مارکیٹ کافی وسیع ہو رہی تھی، موبی لنک نے اپنی سروسز کا آغاز’’GSM‘‘ (Global System for Mobile Communications) سے کیا، یہی معیار یورپ سے شروع ہوا تھا اور بالآخر پوری دنیا میں کمیونیکیشن کا یہی معیار ٹھہرا۔
سنہ 2000ء میں مصر کی Orascom Holdings نے موبی لنک میں ایک بڑا حصہ خرید لیا اور صرف بڑے شہروں کی بجائے کمپنی کی قومی سطح پر توسیع کیلئے اقدامات شروع کر دیے۔ اُس زمانے میں پاکستان کی ٹیلی کام مارکیٹ میں آمدن اور کسٹمرز کے حساب سے 50 فیصد حصہ صرف موبی لنک کے پاس تھا، پاکستان میں موبائل انڈسٹری متعارف ہونے کے ایک عشرے بعد سنہ 2001 میں پی ٹی سی ایل نے یوفون کے ساتھ انٹری دی اور بڑی تیزی سے مارکیٹ کا ایک بڑا شئیر حاصل کر لیا، صرف پانچ کے عرصہ میں 2006ء تک یوفون 21.7 فیصد سبسکرائبرز اور17.9 فیصد ریونیو حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ اس زمانے میں شائد یہ یوفون کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
دوسری جانب پاکستان میں موبائل فون انڈسٹری کی بانی کمپنی پاک ٹیل اور انسٹافون دودناک موت مرنے لگیں، انسٹافون کو تو نقصان اس لیے اٹھانا پڑا کیونکہ اس نے GSM کو چھوڑ کر Digital-AMPS technology کو اپنا لیا لیکن اس وقت تک تو شمالی امریکا میں جہاں سے AMPS ٹیکنالوجی شروع ہوئی تھی وہاں بھی GSM غالب آ چکی تھی۔ پاک ٹیل نے 2004 میں GSM پر منتقل ہو کر خود کو بچانے کی کوشش کی لیکن تب سے پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا تھاْ۔
اسی دوران مارکیٹ میں دو نئی کمپنیاں داخل ہوئیں، ناروے کی ٹیلی کام کمپنی ’’ Telenor‘‘ نے مارچ 2005ء میں پاکستان میں سروسز شروع کیں، اور پھر جون 2005ء میں ابوظہبی کے حکمران نہییان خاندان کے افراد کو کمپنی ’’Warid‘‘ پاکستان ٹیلی کام مارکیٹ میں وارد ہوئی۔ دوڑ جاری تھی لیکن یوفون کو معلوم ہی نہ ہوا اسے کس چیز نے ہٹ کیا ہے۔
سنہ 2008ء کے وسط میں ٹیلی نار اور یوفون کا سبسکرائبرز کی تعداد کے حوالے سے تنازع ہوا، شائد ٹیلی نار کیلئے اس وقت سب سے موثر چیز یہ تھی کہ اس کی فی صارف آمدن یوفون سے زیادہ تھی۔ 2008 ء میں ہی ٹیلی نار نے زیادہ صارفین کی تعداد کے حوالے سے یوفون سے دوسری پوزیشن چھین لی جو یوفون دوبارہ کبھی حاصل نہ کرسکا۔
سنہ 2008ء میں ہی China Mobile نے پاکستان میں زونگ متعارف کرائی، زونگ نے جنوری 2007ء میں پاک ٹیل کے 88.9 فیصد شئیرز 284ملین ڈالر میں خرید لیے جبکہ مئی 2007ء تک پاک ٹیل کے سارے شئیرز خرید لیے۔
اور یوں پاکستان میں پانچ موبائل آپریٹرز کاایک دور شروع ہوا جو کم و بیش ایک عشرہ تک چلا، اس ساری مدت کے دوران یوفون کافی کامیاب کمپنی رہی۔
یوفون کی مشکلات کا آغاز:
مارکیٹ میں جب نئی کمپنیاں آ رہی تھیں تب بھی یوفون کی مالی پوزیشن کافی مستحکم تھی، کمپنی نے 2011ء میں عروج دیکھا جب اس کے پاس انڈسٹری کی کل آمدن کا 21.9 فیصد حصہ تھا، 2003ء سے 2011ء تک آٹھ سال کے دوران یوفون کی آمدن میں سالانہ 46.6 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا، 2003ء میں کمپنی کی آمدن 2.7 ارب روپے تھی جو 2011ء میں 60.5 ارب روپے ہو گئی، دوسری جانب ٹیلی کام اندسٹری 2003ء میں 19.8 ارب روپے سے ترقی کرکے 2011ء میں 263 ارب روپے کی مارکیٹ بن گئی اور اسکی آمدنی میں سالانہ اضافہ 38.2 فیصد کی شرح سے ہوا لیکن یوفون نے پوری اندسٹری کی زیادہ کی اوسط کیساتھ ترقی کی۔
اس کے بعد یوفون کی گروتھ رکی ہوئی ہے، 2011 سے 2018 تک یہ سالانہ محض 0.5 فیصد کے حساب سے بڑھی، جبکہ انڈسٹری کی ترقی کی شرح سالانہ 5.5 فیصد رہی، 2018ء کے آخر تک یوفون کے صارفین کی تعداد بھی 15.6 فیصد کم ہوئی۔
اس ساری تبدیلی کی وجہ کیا بنی، گیم کے قوانین تبدیل ہو گئے، جس سے لگتا ہے کہ یوفون اور وارد دونوں کمپنیاں ہی متاثر ہوئیں، وارد کو بعد ازاں موبی لنک نے خرید لیا جبکہ یوفون اپنی بقاء کی کوششوں میں لگی ہے، لیکن اگر آپ ماضی میں ان کے فیصلوں پر نظر دوڑائیں تو لگتا ہے کہ یوفون کو غلطیاں نہیں کرنا چاہیئے تھیں۔
سپیکٹرم کی نیلامی:
پاکستان میں تھری جی اور فور جی متعارف ہونے کے کچھ سال بعد اپریل 2014ء میں حکومت نے بالآخر موبائل ٹیلی کمیونیکیشن کی اگلی سٹیج کی اجازت دے دی۔ یہ ایک نیلامی تھی جس کا مقصد پاکستان میں موبائل آپریٹرز کی تعداد کو محدود کرنا تھا کیونکہ امریکا جیسے ملک مین بھی چار موبائل آپریٹرز زیادہ سمجھے جاتے ہیں لیکن پاکستان جیسے چھوٹے ملک میں پانچ موبائل آپریٹر کمپنیاں کام کر رہی تھیں۔
اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا وہ تھری جی کے صرف چار اور فور جی کے دو لائسنس نیلام کرے گی۔ ایسے وقت میں جب اکثریت کے پاس فیچر فون تھے اور بہت کم لوگوں کے پاس سمارٹ فون تھے تو ان کے پاس ٹو جی کنکشن تھا ایسے میں تھری جی کا آنا صارفین کیلئے ایک بڑی تبدیلی تھی۔
دوسرے الفاظ میں موبائل کمپنیوں کیلئے یہ بات بالکل منطقی ہوگی کہ تھری جی سپیکٹرم حاصل کرنا ہی کافی ہوگا اور مہنگے فور جی کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ تھری جی لائسنس کی بھی قیمت 295 ملین ڈالر تھی، ہر کوئی جانتا تھا کہ صارفین کی تعداد اور مالی صورتحال کے لحاظ وارد چھوٹی کمپنی تھی اور نیلامی میں شامل ہونے کیلئے اس کے پاس رقم نہیں ہو گی، جبکہ دیگر تین کمپنیوں نے تھری لائسنس بیس پرائس پر ہی خرید لیے۔
دیگر تین کمپنیوں کی نسبت زونگ کے پاس کوئی دوسرا ہی آئیڈیا تھا۔ اسکی پیرنٹ کمپنی چائنا موبائل پاکستانی مارکیٹ میں اپنے طور کھیل کا رخ بدلنے میں دلچسپی لے رہی تھی، 2014 تک زونگ تیسری بڑی کمپنی بن چکی تھی، لیکن یہ کم قیمت آپشن کے طور پر دیکھی جا رہی تھی، مارکیٹ شئیر حاصل کر رہی تھی لیکن منافع کی قیمت پر۔
زونگ نے ڈیٹا کو مستقبل کا گیم چینجر سمجھا اور کسی شطرنج کے کھلاڑی کی طرح فیصلہ جو بازی اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ زونگ نے تھری جی سپیکٹرم کیلے سب سےزیادہ 307 ملین ڈالر بولی لگائی یہ رقم فورجی سپیکٹرم کی قیمت 210 ملین ڈالر سے بھی زیادہ تھی۔ (کوئی بھی کمپنی صرف فور جی کیلئے بولی نہیں لگا سکتی تھی بلکہ اسکے ساتھ اسے تھری جی کیلئے بھی بولی لگانا پڑتی تھی)۔ چائنا موبائل نے 517 ملین ڈالر (52 ارب روپے) سے تھری جی اور فورجی سپیکٹرم حاصل کیے جبکہ ان کی مدمقبل کمپنیوں یوفون اور ٹیلی نار نے بمشکل بیس پرائس پر تھری جی سپیکٹرم کی بولی لگائی۔
نیلامی کے فوری بعد ایک اور حیران کن بات سامنے آئی۔ وارد نے نیلامی میں کسی وجہ سے ہی حصہ نہیں لیا تھا۔ جب وارد نے 2004ء میں حکومت سے سپیکٹرم خریدا تھا تو اسے نے ٹیکنالوجی نیوٹرل کی درخواست دی تھی جس کا مطلب تھا کہ یہ اسی سپیکٹرم پر ہی تھری اور فورجی سروسز فراہم کرسکتا ہے اور کمپنی نے اعلان بھی کیا کہ وہ جلد ہی اس میدان میں سرمایہ کاری بھی کریگی۔ اس طرح نیلامی کے اختتام پر دو کمپنیوں کے پاس فور جی اور تین کے تھری جی سپیکٹرم تھے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ قابل پیشگوئی تھا۔
سنہ 2012 سے 2015 کے دوران موبائل انڈسٹری نے مجموعی آمدن بڑھ کر 18.5 ارب روپے ہو گئی۔ لیکن اسی مدت کے دوران زونگ کی آمدنی 20.4 ارب روپے سے بڑھ کر 47.8 ارب روپے ہوگئی۔ جی آپ بالکل ٹھیک پڑھ رہے ہیں۔ زونگ کی آمدنی میں پوری انڈسٹری کے مقابلے میں زیادہ اضافہ ہوا جس کا مطلب یہ تھا کہ زونگ تیزی سے مارکیٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔
تاہم یوفون واحد کمپنی تھی جس نے فور جی سپیکٹرم نہیں خریدا، یہ حیران کن بات تھی۔ 2015ء میں زونگ نے دوسری کمپنیوں کی آمدن کو متاثر کیا اور اسکی آمدن میں 8.9 ارب روپے اضافہ ہوا جس میں سے 6 ارب روپے یوفون کے صارفین منتقل ہونے کی سے آئے اور موبی لنک اور ٹیلی نار کی آمدن میں بھی کسی قدر کمی ہوئی۔
وارد کے پاس فور جی کا سسٹم لگانے کیلئے پیسے نہیں تھے، نومبر 2015ء میں موبی لنک نے وارد کو خرید لیا اور 2017 میں دونوں کمپنیوں کو ملا کر نام JAZZ رکھ دیا گیا۔ 2016ء کے وسط میں یوفون بھی کافی مسائل کا شکار ہو چکی تھی جو بد سے بدترین ہو رہے تھے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ پاکستان کی سب سے بڑی موبائل آپریٹر کمپنی مزید بڑی ہو چکی تھی اور پھر اس کے تینوں مدمقابل فور جی سروسز متعارف کروا چکے تھے۔ کیا یوفون کا انجام بھی پاک ٹیل یا انسٹافون جیسا ہوگا؟ دیکھنے میں لگتا تو ایسے ہی ہے۔
’سٹریٹیجک متبادل‘ کی افواہیں:
پی ٹی سی ایل کی سینئر مینجمنٹ کے واقفان حال بیان کرتے ہیں کہ جب وارد موبی لنک انضمام ہو گیا اور فور جی سروسز کسی بھی کمپنی کیلئے پاکستان میں کلیدی اہمیت اختیار گئی تو پی ٹی سی ایل نے موبائل آپریٹر گیم سے مکمل طور پر نکلنے پر غور شروع کردیا۔
ذرائع نے ’’منافع‘‘ کو بتایا کہ پی ٹی سی ایل کے یوفون میں حصص کی ممکنہ فروخت کے حوالے سے ابتدائی طور ہر مشاورت ضرور ہوئی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ مشاورت کہاں تک پہنچی اور کیا حتمی طور پر طے پایا تاہم اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی سی ایل انتظامیہ بخوبی آگاہ تھی کہ 2016 میں ان کی موبائل کمپنی کس طرح کی مشکلات کا شکار تھی۔
تاہم پی ٹی سی ایل میں شئیر ہولڈر Etisalat کمپنی نے ستمبر 2016 میں ان افواہوں کی تردید کی، کمپنی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ وہ پی ٹی سی ایل اور اس کی ذیلی کمپنی ویوفون میں اپنے شئیر ہر گز نہیں فروخت کریگی اور اس حوالے سے کسی قسم کی مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ یہ بیان ڈینئل رٹز کی پی ٹی سی ایل کا پہلا غیر ملکی سی ای او بنائے جانے کے 6 ماہ بعد کا ہے۔ ڈینئل رٹز نے مارچ 2016 میں پی ٹی سی ایل میں ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس سے پہلے وہ Etisalat میں بطور چیف سٹریجی اینڈ ایم اینڈ اے آفیسر کام کرچکے تھے۔
فروری 2019 میں ان کی نوکری ختم ہونے سے کچھ عرصہ قبل ’منافع‘ نے ڈینئل رٹز کا انٹرویو کیا تو انہوں نے یوفون کے مسائل پر بات کرتے ہوئے قدرے مبالغہ آرائی سے کام لیا اور حقائق کو چھپایا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ یوفون کے صارفین کی تعداد بڑھ چکی ہے، آمدن میں بھی اضافہ ہوا ہے اور کمپنی اپنا مارکیٹ شئیر بھی واپس حاصل کر رہی ہے۔ انتظامیہ اور ملازمین کی مکمل توجہ کمپنی کی ترقی پر ہے۔ یوفون بہترین نیٹ ورک ہے، گو کہ اس کے پاس فور جی سروسز نہیں ہیں تاہم اگر آپ پی ٹی اے کو سروے دیکھیں تو ’’آواز‘‘ کے لحاظ یوفون سب سے آگے ہے۔ ہو سکتا ہے یوفون کے کسٹمرز دوسروں سے کچھ کم ہوں تاہم اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کے نیٹ ورک کا معیار کسٹمرز کیلئے بہترین رہتا ہے۔‘‘
لیکن یوفون سے سامنے آنے والی غیر یقینی خبروں پر رٹز نے ایک اہم اور دلچسپ نکتہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ دیگرموبائل کمپنیوں کے برعکس پی ٹی سی ایل صرف فور جی ڈیٹا سروسز فراہم کرکے اپنے منافع میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی۔
فور جی سروسز کا انفراسٹریکچر:
فرض کریں کہ آپ اسلام آباد میں ہیں اور کراچی میں کسی دوست کو وٹس ایپ ویڈیو کال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے سمارٹ فون سے فور جی سگنلز نکل کر قریبی ٹاور سے مربوط ہونگے جہاں سے وٹس ایپ کے سروسر کے ساتھ انکا رابطہ ہوگا اور پھر دوست کے قریبی ٹاور کے ذریعے آپکی کال اس تک پہنچے گی۔ اس سارے سلسلے میں وائرلیس سگنلز ہی سارے دنیا میں نہیں بھیجے جا سکتے بلکہ یہ سگنلز فائبر آپٹک کیبلز کے ذریعے مربوط ہوتے ہیں۔
ڈینئل رٹز نے کہا کہ موبائل آپریٹرز کا ڈیٹا کا بڑھتا ہوا حجم پی ٹی سی ایل کیلئے ایکنعمت ہے کیونکہ ان آپریٹرز کو ڈیٹا ٹریفک کیلئے کافی زیادہ کپیسٹی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس ٹریفک کو چلانے کا سب سے بہترین ذریعہ فائبر ہے اور پی ٹی سی ایل کے پاس پاکستان میں سب سے بڑا فائبر نیٹ ورک موجود ہے۔ تو ایسے میں جہاں یہ موبائل آپریٹرز یوفون کے مدمقابل ہیں وہیں یہ پی ٹی سی ایل کیلئے بھی کافی بڑا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ’’ زونگ کیساتھ آئی آر یو(indefeasible right of use) کنٹریکٹ پہلا قدم تھا اور اس کے بعد ہم نے اس طرح کے کافی کنٹریککٹ کیے ہیں، 2018 میں ٹیلی نار کیساتھ ڈیل کی، اور بھی بہت کچھ ہونے کو ہے۔‘‘
باالفاظ دیگر یوفون ختم، بھی ہوجائے تو پی ٹی سی ایل کے پاس کاروبار آتا رہے گا اور اسے پاکستانی صارفین کی جانب سے ڈیٹا استعمال کرنے کا فائدہ پہنچتا رہے گا، کیونکہ وہ ڈیٹا براہ راست کسٹمر کو فروخت کرنے کی بجائے ٹیلی نار کو دیں گے جو اپنے صارفین کو فروخت کریگا۔
پی ٹی سی ایل انتظامیہ کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو سوال اٹھتا ہے جب آپ کے پاس کمپنی کے آپریشنز سے آنے والی رقم محدود ہوگی۔ تو آپ اسے کہان خرچ کرینگے؟ ’’منافع‘‘ کے پی ٹی سی ایل کی فنانشل سٹیٹمنٹس کے تجزیہ کے بعد معلوم ہوا کہ بنیادی کاروبار دراصل ایکیوٹی پر 16.3 فیصد ریٹرن دے رہا ہے، جبکہ موبائل آپریٹرز بزنس میں 30 جون 2019 تک ریٹرن منفی 5.7 فیصد رہا ہے۔
اس مسئلے کا واضح حل یہ ہے کہ ایسے کاروبار میں انویسٹ کرو جو زیادہ منافع دے اور یہاں وہ کاروبار انفراسٹرکچر بزنس ہے۔
یوفون اب بھی درد سر ہے:
پی ٹی سی ایل اگر اپنے بنیادی آپریشنز میں زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یوفون کو بند کر دیا جائے۔ یوفون میں بھی پی ٹی سی ایل نے دسیوں ارب روپے خرچ کیے ہیں تو وہ اس کو ایسے ہی بند نہیں ہونے دے سکتا۔ ایسے حالات عموماََ کوئی کم کارکردگی والا کاروبار فروخت کردینا ہے بہتر آپشن سمجھی جاتی ہے۔ لیکن شائد یہ پی ٹی سی ایل جیسے ٹیلی کام آپریٹر کیلئے زیادہ قابل فہم بات نہ ہو۔
’’منافع‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مندرجہ بالا آپشن زیر غور رہی لیکن پھر بات آّئی گئی ہو گئی۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ پی ٹی سی ایل یوفون کی وجہ سے پھنس گیا ہے اور اسے یوفون کی فور جی سروسز میں سرمایہ لگانا ہوگا۔
ڈینئل رٹز نے بھی ’’منافع‘‘ کو دئیے گئے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ مسابقتی دوڑ میں کسی وقت یوفون کو فور جی سپیکٹرم کی ضرورت پڑے گی۔ یہ انٹرویو فروری میں ہوا تھا، اسی دوران یہ بات سامنے آئی کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں یوفون کسٹمرز پہلے ہی فور جی ایل ٹی ای سروسز استعمال کر رہے ہیں۔ ’’پروپاکستانی‘‘ نامی ویب سائٹ کو انٹرویو میں یوفون کے حکام نے بتایا کہ کمپنی اپنے پہلے سے موجود سپیکٹرم پر ہی فور جی ایل ٹی ای سروسز فراہم کرنے کیلئے تمام ریگولیٹری منظوری لے چکی ہے۔
یوفون کے موجودہ صارفین میں فورجی سروسز کیلئے طلب کسی قدر رکی ہوئی ہے۔ فروری اور جون 2019 کے درمیان یوفون نے اپنے 22.6 ملین میں سے 1.9 ملین صارفین کو فور جی پر منتقل کیا۔ مالی سال 2020 کے آخر تک پاکستان میں فور جی صارفین کی تعداد تھری جی صارفین سے زیادہ ہو جائیگی۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ پی ٹی سی ایل یوفون کی فور جی سروسز کیلئے کتنی سرمایہ کاری کر رہا ہے، پی ٹی سی ایل کا اپنا معاملہ ہے۔ اس میں ابھی بھی وفاقی حکومت کے زیادہ تر شئیرز ہیں، جس کی وجہ سے یہ 200 ملین ڈالر ادائیگی کیے بغیر فورجی سروسز فراہم نہیں کر سکے گا۔
تاہم اب پی ٹی سی ایل کو اپنی پہلی غلطی کا احساس ہو گیا ہے، پاکستانی کنزیومرز فورجی سروس کے بغیر گزارا نہیں کریں گے اس لیے جب تک پی ٹی سی ایل کے پاس یوفون موجود ہے تو اسے صارفین کو یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا چاہے انفرسٹرکچر بزنس اس کیلئے کتنا ہے منافع بخش کیوں نہ ہو۔
(یہ آرٹیکل فاروق ترمذی کی کاوش ہے، اضافی رپورٹنگ سیدہ معصومہ نے کی ہے)