اگر آپ انٹرپرینیور یا سٹارٹ اپ انویسٹر ہیں تو ضرور کلثوم لاکھانی سے ملے ہونگے، وہ انویسٹ ٹو انوویٹ (i2i Ventures) نامی سٹارٹ اپ انکیوبیٹر کی بانی اور سی ای او ہیں جو واشنگٹن اور اسلام آباد میں بیک وقت کام کر رہا ہے، یہ پروگرام پاکستانی سٹارٹ اپس کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کیلئے مدد فراہم کرتا ہے۔ کلثوم لاکھانی ستمبر 2011سے اس کے ساتھ منسلک ہیں۔ اس لیے حیرت کی کوئی بات نہیں تھی جب 6 اگست کو انہوں نے ٹویٹر پر اعلان کیا کہ وہ پاکستان میں سٹارٹ اپس کی ترقی کیلئے 15 ملین ڈالرز سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہیں۔
کئی لحاظ سے آئی ٹو آئی وینچرز بالکل نیا ہے، یہ پاکستان میں واحد فنڈ ہے جو ایک خاتون چلا رہی ہیں،اور اس کا ٹریک ریکارڈ بھی بتاتا ہے کہ یہ زیادہ تر خواتین انٹرپرینیورز کو ہی فنڈنگ فراہم کریگا۔
آئی ٹو آئی وینچرز کو ایک چیز جو دیگر فنڈز سے نمایاں کرتی ہے وہ یہ کہ کلثوم لاکھانی کو ملک بھر کے بے شمار انٹرپرینیورز کیساتھ کام کا تجربہ حاصل ہے جن کی مدد کے دوران باہمی اعتماد قائم ہو چکا ہے۔
یہ فنڈ اپنی پہلی سرمایہ کاری ’’موقع آن لائن‘‘ میں کرے گا، یہ ایپ لوگوں گھریلو ملازمین اور سروسز فراہمی کیلئے بنائی گئی ہے اور Handy یا TaskRabbit کی طرح ہی کام کرتی ہے۔
اس کمپنی کی بنیاد سونیا سعداللہ اور محمد مصطفیٰ نے ملکر رکھی، یہ کمپنی ناصرف گھریلو ملازمین کو نوکری فراہم کرتی ہے بلکہ ہیلتھ انشورنش جیسی سہولتین بھی دیتی ہے، آئی ٹی آئی کی فراہم کردہ سرمایہ کاری نے اس کمپنی کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے علاوہ دیگر شہروں میں پھلنے پھولنے میں مدد کی ہے۔
آئی ٹو آئی وینچرز فنڈ قائم ہوا تھا تو اس کے ذمہ داران نے فیصلہ کیا تھا پہلے مرحلے میں ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر سے پانچ لاکھ ڈالر تک سرمایہ کاریں کرینگے جس کے بعد مزید بڑی سرمایہ کاری کا سوچا جائیگا۔
ایک انٹرویو میں کلثوم لاکھانی نے بتایا کہ ’’ i2i Ventures صرف i2i Accelerator کمپنیوں میں ہی سرمایہ کاری نہیں کرتا بلکہ ہمیں فخر ہے کہ ہماری پہلی سرمایہ کاری ایک ایسی کمپنی کیلئے تھی جو ہماری اقدار کے مطابق تھی، انہوں نے کہا کہ بطور سرمایہ کاری ہماری کیا اپروچ اور سٹریٹجی ہوگی یہ ہماری سرمایہ کاری سے ہے پتہ چل جاتا ہے، بعض اوقات ہم کچھ شیئرز پر کسی سٹارٹ اپ میں پارٹنر بن کر بھی سرمایہ کاری کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس سٹارٹ اپ کو بھی ترقی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ‘‘
I2i کے پہلے فیز کیلئے انہیں Dutch Good Fund کی مدد حاصل رہی جو جنوبی سوڈان، نیپال اور افغانستان میں چھوٹی مارکیٹس کی مدد کرتا ہے۔ i2i اس لیے بھی منفرد ہے کیونکہ اسے ایک خاتون چلاتی ہیں اور یہ ایک انکیوبیٹر کے طور پر بھی کام کرتا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے آئندہ دنوں میں یہ بڑی مارکیٹس میں بھی کام شروع کرے۔
نومبر 2018ء میں رابیل وڑائچ نے پاکستان میں پہلا انسٹیٹیوشنل وینچر کیپیٹل فنڈ 30 ملین ڈالر کے سرمائے سے شروع کیا، اور سلیکون ویلی میں کام کرنے والی ایک پاکستانی ٹیکنالوجسٹ عاطف اعوان سے متعلق بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ انڈس ویلی کیپیٹل کے نام ایک فنڈ لانچ کرنے والے ہیں جو پاکستانی سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کریگا، عاطف اعوان مائیکروسافٹ اور لنکڈ ان میں کام کر چکے ہیں۔
انڈس ویلی کیپیٹل:
عاطف اعوان پاکستان اور امریکا میں سٹارٹ اپ انویسٹمنٹ میں کافی متحرک رہے ہیں، وہ اب ’’ایٹمز‘‘ کے بورڈ ممبر ہیں، یہ جوتوں کی ایک قسم sneaker سے متعلق سٹارٹ اپ سدرہ قاسم اور وقاص علی نے ملکر کا بنایا ہے، لاہور سے تعلق رکھنے والا یہ جوڑا اس سے پہلے ’’مارخور‘‘ کے نام سے مردانہ جوتوں کا بھی ایک سٹارٹ اپ متعارف کرا چکا ہے۔
اس کے علاوہ عاطف اعوان سان فرانسسکو سے چلنے والے ’’فرسٹ رائونڈ کیپیٹل‘‘ میں حصے دار ہیں، یہ وینچر کیپیٹل فنڈ اس سے پہلے Uber اور Blue Apron سمیت 300 سٹارٹ اپ میں سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اس سے قبل عاطف نے لنکڈ ان میں سات سال بطور سینئر ایگزیکٹو کام کیا۔
انہوں نے امریکا کی University of Illinois سے شعیب عباسی کے دئیے گئے سکالرشپ پر تعلیم حاصل کی، 62 سالہ شعیب عباسی پاکستانی ہیں، امریکا میں رہتے ہیں اور وہاں کئی بڑی کمپنیوں کے
سی ای او رہنے کے علاوہ Oracle کے سینئر ایگزیکٹو رہے۔
عاطف نے فنڈ کا کھڑا کرنے کیلئے ایک مربوط سوچ کے تحت کام کیا اور بیرون ملک پاکستانیوں سے اس میں سرمایہ کاری کرائی۔ اوبر کی جانب سے کریم کے حصول کے بعد پاکستانی سٹارٹ اپس کی دنیا میں خاص طور پر ایک سنسنی پھیل گئی، امریکا میں مقیم بہے سے پاکستانی اب سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچ رہے ہیں، لنڈان پر عاطف اعوان نے لکھا کہ انہوں نے سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھنے والوں سے متعلق ایک سروے کیا تو 300 لوگوں نے دلچسپی ظاہر کی۔ انہوں نے سان فرانسسکو، دبئی اور دنیا بھر کے کئی شہروں میں مختلف تقریبات کا اہتمام اس لیے کیا تاکہ سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو ڈھونڈا جا سکے،’’منافع‘‘ نے عاطف اعوان سے وقت لینا چاہا لیکن انہوں نے پرنٹ ڈیڈ لائن تک کسی قسم کا جواب نہیں دیا۔
سب سے بڑا چیلنج:
اس آرٹیکل میں مذکورہ تینوں شخصیات میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ تینوں ہی پاکستان اور امریکا کے بہترین اداروں سے تعلیم یافتہ ہیں اور پاکستانی کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرنے کے خواہشمند ہیں۔
رابیل وڑائچ نے کیڈٹ کالج حسن ابدال اور پھر امریکا میں میسا چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلیم حاصل کی۔ کلثوم لاکھانی یونیورسٹی آف ورجینیا اور واشنگٹن یونیورسٹی کی پڑھی ہوئی ہیں جبکہ عاطف اعوان غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ اور University of Illinois کے پڑھے ہوئے ہیں۔
تینوں کے پاس مشترکہ طور پر تقریباََ 55 ملین ڈالر کا سرمایہ اور کئی ہائی پروفائل انوسیٹرز ہیں، لیکن تینوں کو ایک سوال ہر وقت جکڑے رہتا ہے اور وہ یہ کہ ’’کیا ان کے پاس سرمایہ کاری کرنے کیلئے مناسب مواقع موجود ہیں؟‘‘
یہ اور بات ہے کہ ہر کوئی کہہ دیتا ہے کہ پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے لیکن اصل مسئلہ اس ٹیلنٹ کو تلاش کرنا اور اس پر سرمایہ کاری کرنا ہے۔
کسی بھی معیشت میں وینچر کیپیٹل ایک خطرے کا کام تو ہے لیکن ایک ایسا ملک جس نے گزشتہ 72 سالوں کے دوران تعلیم پر بہت کم خرچ کیا ہے جہاں سوالات پوچھنا اب بھی سماجی طور پر ممنوع ہے، اسی ملک میں ایسے بے شمار باصلاحیت انٹرپرینیورز موجود ہیں جو کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی میں قدرتی ٹیلنٹ موجود ہو تو تعلیمی نظام کی پستی اور گھٹن زدہ کلچر کی وجہ سے اسے بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔
یہ سب مسائل کسی بھی وینچر کیپیٹلسٹ کیلئے چینلج ہوتے ہیں کہ وہ ایسے ماحول میں کس طرح کاروبار چلائے گا اور انتظامی مسائل سے کیسے نبرد آزما ہو گا۔
دبئی میں کام کرنے والے ایک مینجمنٹ کنسلٹنٹ نے بتایا کہ ایسے ماحول میں اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو مستقل طور پر انٹرپرینیور پر اپنا دبائو رکھنا ہو گا اور اسے اسکی مرضی پر نہیں چھوڑنا ہو گا۔
مصنف : فاروق ترمذی