امریکا کی جانب سے رواں سال مئی میں چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے مختلف پابندیاں عائد کی گئی تھیں جس کے نتیجے میں ہواوے جکی آمدن میں دس ارب ڈالر کمی کا امکان ہے۔
چین کے شہر شینزن میں ہواوے کے ڈپٹی چیئرمین ایرک شو نے میڈیا کو بتایا کہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں فون ڈویژن کی فروخت میں 10 ارب ڈالرز کمی کا امکان ہے۔
اس حوالے سے جون میں ہواوے کے سی ای او نے کہا تھا کہ پابندیوں کے نتیجے میں کمپنی کو 30 ارب ڈالرز کا نقصان ہوسکتا ہے۔
تاہم اب کمپنی کے ڈپٹی چیئرمین کا کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ پابندیوں کے اثرات توقعات سے کم متاثر کریں گے، تاہم اس حوالے سے درست اعدادوشمار کے لیے آئندہ سال مارچ تک نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔
ایرک شو کے مطابق امریکا کی جانب سے عارضی لائسنس بے معنی ہے کیونکہ ہمارے ملازمین پابندی میں رہ کر بھی کام کرنے کے لیے مکمل تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہواوے نے اپنا آپریٹنگ سسٹم تیار کرلیا جو رواں ماہ متعارف بھی کرادیا ہے لیکن اسکا کا استعمال تب ہوگا جب گوگل کے اینڈرائیڈ سسٹم تک اس کی رسائی ختم کردی جائے گی۔
جون میں ایک انٹرویو کے دوران ہواوے کے سی ای او کا کہنا تھا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ امریکا کی جانب سے اتنے زیادہ پہلوؤں سے ہمیں ہدف بنایا جائے گا، اس سے تمام فریقین متاثر ہوں گے اور کوئی بھی جیت نہیں سکے گا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ 2021 تک ہم اس کے اثرات سے باہر نکل جائیں گے۔
انہوں نے کہا ‘ہم پرزہ جات کی سپلائی حاصل نہیں کرسکیں گے، متعدد بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام نہیں کرسکیں گے، متعدد یونیورسٹیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا، ہم کسی قسم کے امریکی آلات استعمال نہیں کرسکیں گے اور نیٹ ورکس کے ساتھ ان آلات کی مدد سے قائم کیا جانے والا کنکشن بھی بناسکیں گے’۔