گزشتہ ایک عشرے سے ہم ٹی وی پاکستان میں انٹرٹینمنٹ کیلئے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز میں کبھی نمبر وَن اور کبھی نمبر ٹو پر ہوتا ہے۔ اس چینل نے ’’ہمسفر‘‘ جیسا مشہور ترین ڈرامہ پیش کیا جس نے اداکارہ ماہرہ خان اور اداکار فواد خان کے کیرئیر کو نہ صرف جلا بخشی بلکہ انہیں بین الاقوامی پہچان بھی دی، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم نیٹ ورک کے ڈراموں نے پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں نئی روح ڈال دی۔
اگرچہ انڈسٹری کے دیگر اداروں کی طرح ہم نیٹ ورک کی آمدنی بھی بڑھتی گھٹتی رہتی ہے، پھر بھی آمدن سمیت کئی لحاط سے یہ بڑی میڈیا کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ 31 مارچ 2019ء تک اس کی آمدن 4.7 ارب روپے تھی جو 30 جون 2019ء کو ختم ہونے والے مالی سال تک کی آمدن 5.1 ارب روپے سے محض 8.7 فیصد کم تھی۔
اشتہاراتی جریدہ Aurora میں شائع ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق تمام ٹیلی ویژن چینلز میں سے 10 فیصد اشتہارات ہم نیٹ ورک کو ملتے ہیں۔ یہ مارکیٹ شئیر اسے اپنے حریف اے آر وائے ڈیجیٹل کے مدمقابل کامیاب رکھے ہوئے ہے، ہم نیٹ ورک نے گزشتہ چند سالوں کے دوران بہترین ڈرامے پیش کیے ہیں جنہوں نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑے ہیں۔ ان میں گزشتہ سال کے ڈرامے آنگن، ڈر سی جاتی ہے صلہ کے علاوہ الف اللہ اور انسان شامل ہیں۔
ہم نیٹ ورک موجودہ مقام تک کیسے پہنچا؟ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے دور میں کیسے یہ چینل تسلسل کیساتھ بہترین کام پیش کر رہا ہے؟ اور حالیہ عشرے کے آغاز میں ہم نیٹ ورک کے کنڑول کیلئے ہونے والے ’’رئیل لائف ڈرامہ‘‘ کے دوران کمپنی کے ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی بقاء کیسے ممکن ہوسکی؟
کہانی ایک خاتون سے شروع ہوتی ہے جنہیں بجا طور پر پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی ڈین (Dean) کہا جا سکتا ہے اور ان کا نام ہے سلطانہ صدیقی۔
ہم نیٹ ورک کا آغاز:
سلطانہ صدیقی سرمایہ کار اور بینکر جہانگیر صدیقی کی بہن ہیں، انہوں نے 1974ء میں پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) سے بطور پروڈیوسر کیرئیر شروع کیا اور اپنے طویل کیرئیر کے دوران وہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی اہم قوت بن گئیں، اپنا ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنانے میں یقیناَ ان کے ارب پتی بھائی نے بھی مدد کی ہوگی۔
پی ٹی وی میں قدم رکھنے سے قبل سلطانہ کی زندگی حادثاتی موڑ لے چکی تھی، 1966 میں ان کی شادی ہوئی اور تین بچے ہوئے، لیکن یہ شادی کچھ وجوہات کی بناء پر نہ چل سکی اور انہیں طلاق ہو گئی، ساٹھ کی دہائی میں ایک متعلقہ کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کے بھائیوں نے ان کی کافی مدد کی۔
صدیقی فیملی مڈل کلاس اور پڑھی لکھی ہے، زیادہ تر لوگ سرکاری ملازمت میں رہے، سلطانہ کے والد بھی سندھ میں سرکاری ملازم تھے، سلطانہ کی طلاق کے بعد ان کی بھائی مظہر صدیقی نے انکے بچوں کو باپ کی طرح پالا اور جہانگیر صدیقی نے ان کی مالی مشکلات کم کرنے میں مدد کی۔
سلطانہ صدیقی نے اپنی ایک کالج دوست کے ذریعے پی ٹی وی پر نوکری حاصل کی اور یہ نوکری ان کی زندگی کے بہترین کاموں سے ایک ثابت ہوئی، انہوں نے سندھی پروگرامنگ سے کام شروع کیا، بعد ازاں 1981میں اردو پروگرامنگ آ گئیں۔
سنہ انیس سو بانوے تک ملک بھر میں انٹرٹینمنٹ کا واحد چینل پی ٹی وی ہی تھا جہاں سلطانہ صدیقی نے ایک طویل عرصہ گزارا۔ مشرف دور میں سنہ دو ہزار ایک میں پاکستان میں ٹی وی اندسٹری پھلنا پھولنا شروع ہوئی اور یہی وہ وقت تھا جب سلطانہ صدیقی نے ذاتی ٹی وی نیٹ ورک بنانے پر غور شروع کردیا۔
تب تک ان کے بھائی جہانگیر صدیقی بھی پاکستان میں امیر ترین آدمی بن چکے تھے بلکہ ملک کے سیلف میڈ ارب پتی بن چکے تھے، اس لیے وہ اپنی بہن کو ٹی وی چینل لانچ کرنے کیلئے آسانی سے مدد کرسکتے تھے۔
سن دو ہزار چار میں سلطانہ ٹریگر دبانے کیلئے مکمل تیار تھیں، انہوں نے آئی ٹیلیویژن کےنام سے اپنا چینل قائم کیا جس کانام بعد میں بدل کر ہم ٹی وی کردیا اور اسکے کچھ ہی عرصہ بعد کمپنی کراچی سٹاک ایکسچینج پر لسٹڈ ہوگئی۔
پاکستانی ٹی وی انڈسٹری اور ہم نیٹ ورک کا بزنس ماڈل:
ٹی وی ایک مشکل کاروبار اس لیے ہیں کیونکہ آپکو ہمہ وقت ایسے شوز پروڈیوس کرنا پڑتے جو ناظرین میں بے پناہ مقبول ہوں۔ امریکا اور یوکے میں ٹی وی شوز چلانے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں لیکن اس کے برعکس پاکستان میں ٹی وی شوز صرف ایک وجہ سے طوالت اختیار کرت ہیں اور وہ وجہ یہ ہے کہ ان شوز میں ایک تکون کام کر رہی ہوتی ہے جیسے ہی وہ تکون ختم ہوتی ہے تو شو ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹی وی شوز میں زیادہ کاروباری فائدہ ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ اداکاروں، پروڈیوسروں، ڈائریکٹروں، سکرپٹ لکھنے والوں اور دیگر سٹاف جو ٹی وی شو کی پروڈکشن ٹیم کا حصہ ہوتا ہے ان کیلئے زیادہ مالی عدم استحکام ہوتا ہے۔کیونکہ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ انکا اگلا پے چیک کہاں سے آئے گا۔
ٹی وی سے منسلک لوگوں کا مالی عدم تحفظ ختم کرکے ہم نیٹ ورک نے بہترین ٹیلنٹ حاصل کیا اور یہی اس کی کامیابی ہے۔ سلطانہ اور انکی فیملی مومل پروڈکشنز (موجودہ نام ایم ڈی پروڈکشنز) کے نام سے ایک نجی پروڈکشن ہائوس بھی چلا رہے ہیں جہاں ہم ٹی وی کیلئے کونٹنٹ پروڈیوس کیا جا رہا ہے۔
مومل پروڈکشنز ایکٹرز، ڈائریکٹرز، رائٹرز اور دیگر سٹاف کو ایک سیزن کی بجائے طویل مدت کیلئے بھرتی کرتا ہے اس طرح انہیں انڈسٹری کا بہترین ٹیلنٹ مل جاتا ہے۔
ہم نیٹ ورک کے پیش کردہ ڈرامے ناصرف پاکستان بلکہ باہر بھی بے پناہ مقبول ہیں، ’’ہمسفر‘‘ اس کا بہترین ڈرامہ ثابت ہوا جس نے پاکستانی ٹی وی کی تاریخ میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑے اور ایک بھارتی چینل سے بھی طویل عرصہ تک نشر ہوتا رہا۔ اس ڈرامے نے پہلی مرتبہ ہی ہم ٹی وی کو 200 ملین روپے کی آمدن دی جو کسی بھی پاکستانی ٹی وی شو کی تب تک کی سب سے بڑی آمدن تھی۔
ہم ٹی وی ایک تخلیقی کمپنی ہے جس نے پاکستانی طرز کے بے مثال ڈرامے پروڈیوس کیے اور پہلے سے انڈسٹری پر تسلط جمائے ہوئے بھارتی ڈراموں سے ہٹ کر کام کیا، سلطانہ صدیقی اور مومل پروڈکشنز کی سی ای او مومنہ درید باہمت خواتین ہیں، انہوں نے اس دور میں بھی ایسے ممنوعہ موضوعات پر کام کیا جن پر کام کرنا خطرناک ہو سکتا تھا اور اس وقت ان کے ٹی وی کو اشتہارات بھی نہیں ملتے تھے۔
ہم ٹی وی کے بالکل شروع کے ڈراموں میں سے ایک تھا ’’میرے پاس پاس‘‘۔ جس میں ایک شادی شدہ جوڑے میں بیوی کے حمل کو لیکر جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے، شوہر چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اسقاط حمل کرا لے جبکہ بیوی ایسا نہیں کرتی ہے جس پر شوہر اسے چھوڑ دیتا ہے۔ ان کا ایک ہمسایہ جو خاتون سے مراسم بڑھاتا ہے اور خاتون طلاق لیکر ہمسائے سے شادی کر لیتی ہے۔
ایک دوسرے ڈرامے ’’مانے نہ یہ دل‘‘ میں ایک وائٹ کالر ورکر ایک کال گرل کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ ان ڈراموں نے ہم ٹی وی کو ایک برانڈ بنا دیا اور اسے اپنے مدمقابل چینلوں پر اشتہاری ریٹس کے حوالے سے نمایاں سبقت حاصل ہو گئی۔
اپنا پروڈکشن ہائوس رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ٹی وی مومل کیساتھ وابستہ ٹیلنٹ کے علاوہ کسی اور کیساتھ کام نہیں کرتا۔ بلکہ ایک میڈیا ہائوس کے سی ای او نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ بے شمار پروڈکشن ہائوسز ہیں اور ہم ٹی وی اب بھی مارکیٹ سے کانٹینٹ خریدتا ہے۔
لیکن ہم ٹی وی کا مثالی بزنس ماڈل ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ صرف بہترین ٹیلنٹ کو جگہ دیتا ہے بلکہ اسی ٹیلنٹ کی وجہ سے یہ اپنے مدمقابل چینلز سے زیادہ منافع اور آمدن حاصل کرتا ہے۔
اپریل 2013ء میں جیو انٹرٹینمنٹ نے A&B Production کے ساتھ معاہدہ کیا جو مُومل پروڈکشنز کے بعد اچھے پروڈکشن ہائوسز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس ہائوس نے بھی ’’میں عبدالقادر ہوں‘‘ اور ’’میرے سائیں‘‘ جیسے بہترین ڈرامے دئیے ہیں، جیو انٹرٹینمنٹ کیساتھ معاہدے سے قبل A&B Production دراصل کانٹنٹ مہیا کرنے والا ادارہ تھا جو اپنا کانٹینٹ جیو، اے آر وائی، ایکسپریس انٹرٹینمنٹ کو فروخت کرتا تھا۔
ہم نیٹ ورک کے انتظامی کنٹرول کی خاندانی جنگ:
فیملی ڈرامے بنانے والے ہم نیٹ ورک کے انتظامی کنٹرول کی جنگ بھی کسی ڈرامے سے کم نہیں۔ اس میں اچھے پاکستانی ڈراموں کی طرح ایک خاندان شامل تھا، دولت کا تنازع تھا اور کسی قدر دھوکا شامل تھا۔
اس سارے منظرنامے میں ہمیں دو ایسے ذرائع سے گفتگو کرنے کا موقع ملا جو صدیقی فیملی سے واقفیت رکھتے ہیں، اس کے علاوہ جہانگیر صدیقی کے سٹاک مارکیٹ میں حریف عقیل کریم ڈھیڈی کے ایک انٹرویو سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ سلطانہ صدیقی کو طلاق کے بعد ان کے بھائی مظہر نے ان کے بچوں کی باپ کی طرح پرورش کی اور جہانگیر صدیقی نے مالی مدد فراہم کی۔ جب صدیقی فیملی امیر نہیں تھی جہانگیر صدیقی تب بھی کسی قدر دولتمند تھے۔ انہوں بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بڑھ کر اپنی بہن کی فیملی کی مالی مدد کی۔ معاملے سے واقف ذرائع نے بتایا کہ جہانگیر صدیقی نے ہی سلطانہ کے بیٹوں کو کاروبار کرنے اور دولت کمانے میں مدد دی۔
کئی سال جاری فنانشل سپورٹ اس وقت ختم ہو گئی جب جہانگیر صدیقی نے خود کو کاروبار سے الگ کرلیا اور ان کے بیٹوں نے کاروبار سنبھال لیا، تاہم اس وقت تک سلطانہ صدیقی کے بیٹے بھی دو بڑی کمپنیوں ہم نیٹ ورک اور العباس شوگر ملز میں شئیر ہولڈر بن چکے تھے۔ لیکن ذرائع نے بتایا کہ فیملی کے مالی معاملات میں یہ تبدیلیاں سلطانہ کے بڑے بیٹے شنید قریشی کو ٹھیک نہیں لگیں کیونکہ جہانگیر صدیقی کی فنانشل سپورٹ کا سب سے بڑا بینیفشری بھی وہی تھا (ایک وقت پر شنید ہم نیٹ ورک اور العباس شوگر ملز میں سب سے زیادہ حصص کا مالک تھا)۔
تاہم خاندان کو یہ احساس نہ ہو سکا کہ مالی معاملات کو لیکر شنید کس قدر پریشان تھا اور جہانگیر صدیقی کی فنانشل سپورٹ پر اس کا کس قدر انحصار تھا۔ زرداری دور میں جہانگیر صدیقی ایک جھگڑے میں ملوث ہوئے جو کہ کافی مشہور ہوا، یہ جھگڑا کراچی میں ان کے ایک بھائی کی پراپرٹی پر ایک گروپ کی جانب سے قبضہ کی کوشش سے شروع ہوا۔ جس میں جہانگیر صدیقی نے مداخلت کی کوشش کی تاہم انہیں مبینہ طور پر اس وقت کے صدر مملکت آصف زرداری کے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا اور وہ کچھ عرصہ کیلئے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرکے دبئی چلے گئے۔
جہانگیر صدیقی کی واپسی اس وقت ممکن ہوئی جب ان کی بیٹی کی شادی پاکستان کے سب سے بڑے نیوز نیٹ ورک جنگ اور جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کے بیٹے سے ہوئی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جہانگیر صدیقی کو جس سیاسی ہراسانی کا سامنا تھا اس شادی سے انہیں اس کیخلاف مدد ملی۔ اس شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کی اپنی بہن کیساتھ کشمکش شروع ہو گئی۔ جہانگیر صدیقی کی کہانی سے واقف حال ذرائع کہتے ہیں کہ جب وہ وطن واپس آئے تو انہیں معلوم پڑا کہ ان کا بھانجا شنید قریشی العباس شوگر ملز کی رقم میں خردبرد کر رہا ہے، جس میں جہانگیر صدیق اینڈ کمپنی بھی بڑی شئیر ہولڈر تھی، انہوں نے اپنے بھانجے سے باز پرس کی اور اسے رقم واپس لوٹانے کا کہا۔
دوسری جانب شنید فنانشل سپورٹ ختم ہونے بعد ہوشیار ہو چکے تھے، انہوں نے خرد برد کا الزام جہانگیر صدیقی کے بیٹے علی پر دھر دیا۔ تاہم جہانگیر صدیقی اینڈ کمپنی نے اپریل 2013 میں شنید قریشی اور ان کے مبینہ ساتھیوں کیخلاف مقدمہ درج کرا دیا تاہم یہ واضح نہیں کہ شنید قریشی اور انکے ساتھیوں نے جوابی مقدمہ درج کرایا یا نہیں۔ علی جہانگیر صدیقی کیخلاف الزامات کے پمفلٹ چھاپ کر کراچی سٹاک ایکسچینج کے ہیڈکوارٹرز میں تقسیم کیے گئے۔
سلطانہ صدیقی کے ہمدرد ایک مکمل طور پر مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ عقیل کریم ڈھیڈی کے مطابق جہانگیر صدیقی اس لیے پاکستان واپس آنے میں کامیاب رہے کیونکہ میر شکیل الرحمان نے اپنے طاقتور میڈیا ہائوس کے ذریعے انہیں ’’تحفظ‘‘ فراہم کیا تاہم اس کے بدلے انہوں نے ہم ٹی وی کا کنٹرول میر شکیل کو دینے کا مطالبہ کر دیا، کیونکہ اس وقت ہم ٹی وی واحد ایسا چینل تھا جو ریٹنگ اور آمدن میں جیو کو مات دے رہا تھا۔
جیسا کہ عقیل کریم ڈھیڈی بتاتے ہیں جہانگیر صدیقی نے ہم نیٹ ورک کے شئیر خریدنے کی کوشش کی تاکہ اس کا کنٹرول اپنی بیٹی کے نئے سسرال کو دے سکیں۔ وہ اپنی بہن سلطانہ صدیقی کو شئیرز بیچنے پر مجبور کر رہے تھے تاہم سلطانہ ایسا نہیں چاہتی تھیں، ڈھیڈی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وقت سلطانہ صدیقی نے اپنے بھائی کی جانب سے ہم نیٹ ورک پر ممکنہ قبضے کیخلاف دفاعی منصوبہ بندی کر لی۔
تاہم اس سارے بیانیے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ جہانگیر صدیقی اینڈ کمپنی نے ہم نیٹ ورک میں موجود اپنے شئیرز 2010ء میں فروخت کرکے 18فیصد سے 14 فیصد کردئیے تھے اور اس کے بعد شئیرز بڑھانے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔ پبلکی لسٹڈ کمپنیوں کے شئیرز کتنے کس کے پاس ہیں سارا پیٹرن ایک پبلک ریکارڈ ہوتا ہے جسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔
تاہم جب سلطانہ صدیقی کے منصوبے سے جہانگیر صدیقی کسی قدر نالاں تھے، اس کے بعد شنید قریشی اور جے ایس اینڈ کمپنی کے مابین میڈیا میں الزامات در الزامات کے پے درپے واقعات ہونے لگے، ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جن شنید قریشی جے ایس اینڈ کمپنی کے شئیر ہولڈرز کی میٹنگ میں گھسنے کی کوشش کی اور ٹی وی کیمروں نے انہیں اپنی شرٹ پھاڑتے ہوئے ریکارڈ کر لیا، وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ ان پر حملہ کیا گیا ہے۔
عارضی صلح اور بیرونی سرمایہ کار:
کچھ عرصے کے تلخ واقعات کے بعد فریقین میں ایک عارضی صلح بندی ہوئی، ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ بند ہوا، اور کمپنی کا کنٹرول تیسری پارٹی (بیرونی سرمایہ کاروں کے ایک گروپ) کو دے دیا گیا، ایک حالیہ فنانشل سٹیٹمنٹ کے مطابق 19 فارن انویسٹمنٹ فنڈز کا ایک گروپ کے پاس ہم نیٹ ورک کے 51 فیصد شئیرز موجود ہیں۔ ان میں سے بڑا لندن کا کنگزوے فنڈ ہے جس کے ہم نیٹ ورک میں 16.3 فیصد جبکہ ایک ڈچ کمپنی کے 13.2 فیصد شئیرز ہیں۔
خاندانی جنگ بندی کے بعد جو ایک تبدیلی آئی وہ یہ تھی کہ ہم نیٹ ورک نے مومل پروڈکشنز کا مکمل بزنس ایک سنگل ہولڈنگ کمپنی کے طور پر سنبھال لیا۔
پس منظر میں رہ کر بھی سلطانہ صدیقی کا کنٹرول برقرار ہے:
مومل پروڈکشنز کو سلطانہ صدیقی کی بہو مومنہ درید چلاتی ہیں، دونوں خواتین باصلاحیت ہیں اور انہیں یہ احساس ہے کہ انڈسٹری کو کس سمت لیکر جانا اور کاروباری اور منافع کے قابل کس طرح بنانا ہے۔ ایک واقف حال نے بتایا کہ گو کہ سلطانہ صدیقی پس منظر میں رہ کر کمپنی کے روز مرہ کے معاملات دیکھ رہی ہیں تاہم کسی سینئر مینجر کو ملازمت پررکھنا ہے یا کچھ اور، وہ ہر بڑے فیصلے میں شامل ہوتی ہیں۔ ’’خاندان نے سلطانہ صدیقی کو کاروبار سے علیحدہ کیا ہے نا ہی وہ ایسا کر سکتے ہیں، پی ٹی وی پر گزارے دنوں کی وجہ سے انڈسٹری میں ان کی عزت ہے، پیمرا سمیت ہر جگہ ان کے روابط ہیں، ہو سکتا ہے روزمرہ کا کاروبار چلانے میں وہ شامل نہ ہوں تاہم کلیدی فیصلوں میں اب بھی ان کے پاس ویٹو پاور ہے۔‘‘
واقف حال نے مزید بتایا کہ مومنہ بھی سلطانہ کو جوابدہ ہیں، انہیں اپنے شوہر اور ہم نیٹ ورک کے سی ای او درید قریشی کی بجائے سلطانہ کی سننا پڑتی ہے گو کہ مومنہ مومل پروڈکشنز کا کری ایٹو کنٹرول سنبھالتی ہیں تاہم پھر بھی وہ سلطانہ کے قریب رہ کر کام کرتی ہیں۔
ترقی کا اگلا مرحلہ:
ہم نیٹ ورک محض انٹرٹینمنٹ سے آگے نکل کر ایک بڑی ٹیلیویژن کمپنی بن چکا ہے، 2017ء میں 1.3 ارب روپے سے ہم نیوز کے نام سے ایک نیا چینل متعارف کرایا جا چکا ہے۔ تاہم چینل کی لانچنگ کچھ ایسے وقت پر ہوئی کہ کچھ ہی عرصہ عمران خان برسراقتدار آگئے اور ان کی حکومت نے اشتہاراتی بجٹ ختم کردیا، وفاقی اور صوبائی حکومتیں نیوز چینلز اور پرنٹ میڈیا کو ایک تہائی بجٹ فراہم کر رہی تھیں۔
ہم ٹی وی ویسے تو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں کافی مضبوط قدم جما چکا ہے، تاہم اے آر وائی اس کا سب سے بڑا حریف ہے جس نے رواں سال ’’چیخ‘‘ جیسا ڈرامہ دیا دے کر حیران کردیا ہے۔
ڈیجیٹل فرنٹ پر ہم نیٹ ورک کئی امریکی ٹیلیویژن سٹوڈیوز کے نقش قدم پر عمل پیرا ہے اور نیٹ فلکس جیسی پیڈ سٹریمنگ سروسز کے علاوہ یوٹیوب جیسی مفت سٹریمنگ سروسز پر بھی اپنا کانٹنٹ دے رہا ہے۔ دن بہ دن ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ میں اضافہ ہو رہا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وقت کیساتھ ساتھ ہم نیٹ ورک کی نیٹ فلکس اور یوٹیوب سے آمدن کئی گنا بڑھ جائے۔
جس وقت سرکاری اشتہاروں پر انحصار کرنے والے انڈسٹری کے کم و بیش تمام چینلز کو خاص طور پر جیو اور اے آر وائے کو مالی نقصان ہو رہا تھا، اس وقت بھی ہم نیٹ ورک کی آمدن میں محض 8.7 فیصد کمی ہوئی۔ نتیجتاََ سٹاک مارکیٹ میں مندی کے باوجود ہم نیٹ ورک میں سرمایہ کاری نقصان دہ شائد نہ ہو۔ کسی بھی کمپنی کا بزنس ماڈل اگر ایسا ہے کہ وہ ملازمین کیساتھ اچھا سلوک کرتی ہے، فنانشل سکیورٹی رکھتی، اور بہترین ٹیلنٹ کو کام دیتی ہے، ایسی کمپنی ہمیشہ کامیاب رہتی ہے۔
(مصنف: فاروق ترمذی)