سن 2017ء میں نیو ٹی وی کے ناظرین نے اپنی نوعیت کے ایک نئے شو کا پہلا سیزن دیکھا، جو پاکستانیوں کیلئے تو نیا تھا لیکن بیرون ممالک ایسے شو کافی کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں۔ یہ ایک ایسا رئیلٹی شو تھا جس میں انٹرپرینیورز اپنے سٹارٹ اپس کیلئے انویسٹرز سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کیلئے آئیڈیاز شئیر کرتے ہیں۔
’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ پاکستان کا پہلا بزنس رئییلٹی شو ہے جو ایک برطانوی رئیلٹی شو ’’Dragon Den‘‘ اور ایک امریکی بزنس شو ’’Shark Tank‘‘ کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ اگر آپ ایک ابھرتے ہوئے انٹرپرینیورر ہیں اور آپ کے پاس ایک اچھا بزنس آئیڈیا موجود ہے تو اس شو میں آنے والے سرمایہ کاروں سے آپ لاکھوں کروڑوں کی سرمایہ کاری حاصل کرسکتے ہیں۔
اس شو کے 3 سیزن مکمل ہو چکے ہیں، چوتھا سیزن جاری ہے، اس دوران 35 سٹارٹ اپس کو 420 ملین کی سرمایہ کاری مل چکی ہے۔ اب تک اس شو میں 72 سٹارٹ اپس کو پیش کیا گیا اور سرمایہ کاری کی شرح 50 فیصد رہی۔
’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ فنڈنگ حاصل کرنے کا بہترین پلیٹ فارم ہے اور اگر ان کے اعدادوشمار واقعی درست ہیں تو یہ پاکستانی سٹارٹ اپس کیلئے فنڈنگ حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس شو پر جمع ہونے والی رقم کا حقیقت سے کس حد تک تعلق ہے؟ آن کیمرہ رقم سے متعلق حامی بھرنے کے بعد کتنے انویسٹرز نے واقعی سٹارٹ اپس پر سرمایہ کاری کی؟ ان سوالوں کے جوابات پیچیدہ ہیں اور شو کے دوران پیش کیلئے تصور سے کسی قدر ہٹ کر ہیں۔
’’منافع‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ کے میزبان اور کانٹنٹ پروڈیوسر نبیل قدیر نے تسلیم کیا کہ سٹارٹ اپس اور مختلف آئیڈیا کے لیے جمع کی جانے والی سرمایہ کاری میں سے صرف 30 فیصد کی وہ تصدیق کر سکتے ہیں۔ اگر یہی بات ہے تو انہوں نے کامیابی کی شرح 70 فیصد کیوں بتائی؟ اس بات کو سمجھنے کیلئے ہمیں نبیل قدیر کو سمجھنا ہو گا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس پر ایک نظر دوڑانی ہو گی۔
نبیل قدیر کا انٹرپرینیورشپ کا سفر:
’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ نبیل قدیر کا آئیڈیا تھا جو انہوں نے پاکستان میں لوگوں میں انٹرپرینیورشپ سے آگاہی پیدا کرنے کیلئے متعارف کرایا تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ اپنے دولت کیسے کام کرتی ہے؟ کہاں سے کمائی جاتی ہے؟ اور کہاں لگائی جاتی ہے؟ نبیل قدیر پاکستانی انٹرپرینیوررز کے اس سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سابق چیئرمین عمر سیف کی زیر قیادت Plan9 کے نام سے پہلا ٹیکنالوجی انکیوبیٹر متعارف کروایا۔
نبیل نے سنہ 2012 میں Plan9 جوائن کیا اور اس کے ڈائریکٹر آف انٹرپرینیورشپ بن گئے، پلان نائن سے لیکر ’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ کے چار سیزنز، پھر PlanXکے نام پنجاب گورنمنٹ کو مِڈ سٹیج سٹارٹ اپس کیلئے انٹرپرینیورشپ پروگرام بنا کر دیا، بچوں کیلئے ’’Whizkids‘‘ کے نام سے اور خواتین کیلئے ’’Herself‘‘ کے نام سے انٹرپرینیورشپ پروگرام شروع کیے۔ یہ سب پروجیکٹ پنجاب آئی ٹی بورڈ کی پالیسی تشکیل دینے اور فری لانسنگ کی تربیت کے 40 ای روزگار سینٹر پورے پنجاب میں قائم کرنے کے علاوہ ہے۔
نبیل قدیر ایک کینڈین سافٹ وئیر اور کنسلٹنسی کمپنی ’’InfinitLabs‘‘ کے پاکستان میں سی ای او بھی ہیں جس کے دفاتر لاہور، جدہ یوکے وغیرہ میں ہیں، اسکے علاوہ وہ فاسٹ یونیورسٹی اور آئی ٹی یونیورسٹی کی وزٹنگ فیکلٹی میں بھی شامل رہے اور انٹرپرینیورشپ، پروجیکٹ مینجمنٹ، بزنس ایتھکس اور مینجمنٹ انفارمیشن سسٹمز جیسے مضامین پڑھاتے رہے۔
نبیل کہتے ہیں کہ خود ایک انٹرپرینیورر ہوتے ہوئے وہ نئے آئیڈیاز لیکر آنے والوں کا درد سمجھ سکتے ہیں جو انہیں اپنے سٹارٹ اپ کیلئے سرمایہ کاری جمع کرتے وقت جھیلنا پڑتا ہے۔ یہی ایک چیز ہوتی ہے جو کسی انٹرپرینیورر میں اگلا ’’Elon Musk‘‘ بننے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا بہتر راستہ نہیں تھا کہ انٹرپرینیورشپ کو مین سٹریم ٹی وی پر لایا جائے اور سٹارٹ اپس کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے، انکا بزنس رئیلٹی شو کا آئیڈیا کافی چینلز نے مسترد بھی کیا اور پھر ان کی ان کی ملاقات حادثاتی طور پر سپرئیر گروپ کے مالک چودھری عبدالرحمان سے ہوئی جنہوں نے نبیل کو اپنے ’’نیو ٹی وی‘‘ پر رئیلٹی شو پیش کرنے کا چانس دیا۔
یہ شو کام کیسے کرتا ہے؟
ہر سال ’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ میں آنے کے خواہشمند اپنے اپنے بزنس آئیڈیاز جمع کراتے ہیں جنہیں شارٹ لسٹ کرکے لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں آڈیشنز لیے جاتے ہیں، کامیاب ہونے والوں کو شو کے دوران تین انویسٹرز کے سامنے اپنا آئیڈیا پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
نبیل قدیر نے بتایا کہ ان کے پاس اس شو کیلئے چھ سات سو درخواستیں ہر سال آتی ہیں، جنکا جائزہ لیا جاتا ہے، انہوں نے بتایا کہ انڈسٹری میں سی ای او لیول کے ان کے کافی دوست ہیں، درخواستوں پر ان سے بھی رائے لی جاتی ہے، چھ سات سو درخواستوں میں سے ’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ کے پورے سیزن کیلئے 30 سے بھی کم امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا ہے، اس لیے ہم پہلے شارٹ لسٹ کرتے ہوئے 100 سے150 تک لوگوں کو آڈیشنز کیلئے بلاتے ہیں، جہاں انٹرپرینیورز اپنے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں، ایک آڈیشن کیلئے عموماََ آدھا گھنٹہ لگتا ہے، انکا کہنا تھا کہ آڈیشن کے دوران وہ انٹرپرینیورر کا اسکے مقصد کیلئے جذبہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نبیل کے مطابق بے شمار سٹارٹ اپس پر کام کرنے کی وجہ سے اب انہیں کسی آئیڈیا کو پرکھنے میں چند منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگتا اور بہت جلد اندازہ ہو جاتا ہے کہ انٹرپرینیورر جس پروجیکٹ پر کام کرنا چاہ رہا ہے وہ کتنا قابل عمل ہے اور کامیابی کا امکان کتنا ہے۔ ’’مجھے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ انٹرپرینیورر اپنے پروجیکٹ کیلئے رقم جمع کر سکے گا یا نہیں، وہ مارکیٹنگ کر سکتا ہے یا صرف ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ مجھے اسے کیا دینا چاہیے اور کس انویسٹر کے پاس بھیجنا ہے۔ ان تمام چیزوں کا میں چند منٹ میں جائزہ لیتا ہوں اسی کی بنیاد پر کسی کو موقع دینے کا فیصلہ کرنا ہوں۔ ‘‘
’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ میں آنے والے زیادہ تر انویسٹرز کسی نا کسی کے ریفرنس سے آتے ہیں۔ نبیل قدیر نے اس حوالے سے بتایا کہ ’’جن انویسٹرز کے ساتھ میں نے پہلے کام کر رکھا ہے اور جنہیں اپنی سرمایہ کاری کا کچھ فائدہ پہنچا ہے ان کا مجھ پر اعتماد قائم ہو چکا ہے، اسی اعتماد کی بنیاد پر جب وہ کسی کو ریفر کرتے ہیں تو اس سے بات کرتا ہوں اور ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ کتنی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں؟ اور انہیں کس شعبے میں زیادہ دلچسپی ہے؟
اس کے بعد سرمایہ کار کی دلچسپی اور امیدواروں کے آئیڈیاز کو دیکھتے ہوئے ہم 24 ایسے انٹرپرینیورز کا انتخاب کرتے ہیں جن کے مطابق ہمارے پاس انویسٹرز موجود ہوتے ہیں۔ چونکہ ہر سیزن کی 12 قسطوں میں ہم صرف 24 آئیڈیاز کو جگہ دے سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ شو سے پانچ دن قبل انویسٹرز پینل مکمل کر لیا جاتا ہے اور انہیں کچھ سٹارٹ اپس کی پروفائلز فراہم کردی جاتی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر سرمایہ کار شو کے دوران پوچھنے کیلئے اپنے سوالات مرتب کر لیتے ہیں۔ ہم فریقین کیلئے محض ایک پلیٹ فارم کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی انویسٹر کسی سٹارٹ اپ کو فنڈنگ دینے کی حامی بھرے تو ہم اپنے شو میں اس کا اعلان کرتے ہیں۔
نبیل کہتے ہیں کہ ٹی وی کسی پروجیکٹ کیلئے تھوڑے سے وقت میں رقم جمع کرنا بڑا جادوئی سا لگتا ہے، شو کی ایک قسط کے دوران ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں 2 آئیڈیاز پیش ہوتے ہیں اور ان پر سرمایہ کاری کی بات چیت ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ بات چیت کئی گھنٹے جاری رہتی ہے۔ ’’ مجھے ایک آئیڈیا کو ریکارڈ کرنے میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگتے ہیں، انٹرپرینیوررز اور انویسٹرز کی بات چیت ہوتی ہے جس کے بعد ڈیل فائنل ہوتی ہے۔ پھر طویل ریکارڈنگ میں سے شو پر چلانے کیلئے صرف بہترین 10 منٹ لیے جاتے ہیں جو آن ائیر جاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے شو کیلئے رقم ہر گز نہیں لی جاتی بلکہ یہ اشتہارات سے چلتا ہے۔ سپانسرز نوجوانوں کو اوپر اٹھانے کیلئے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ چونکہ یہ ریئلٹی شو کوئی آمدنی بظاہر نہیں کماتا اس لیے نبیل قدیر گروپ انتظامیہ سے معاوضہ لیتے ہیں۔
کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟
نبیل قدیر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ میں 420 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی کمٹمنٹ کی گئی لیکن حقیقت میں مختلف آئیڈیاز کیلئے اس میں سے صرف 30 فیصد سرمایہ کاری مل سکی۔ یہ پروگرام چونکہ فریقین کو صرف ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے اس لیے کسی قسم کی قانونی ذمہ داری نہیں لیتا۔
تاہم اس کے باوجود نبیل قدیر نے اپنے شو کی 70 فیصد کامیابی کا دعویٰ کیا، انہوں نے کہا کہ انہیں ایک سروے سے معلوم ہوا کہ 30 سے 35 فیصد لوگ صرف ذاتی تشہیر کیلئے ان کے شو پر آتے ہیں۔ ’’ہم دنیا کو آپکا آئیڈیا دکھانے کیلئے ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں سرمایہ لگاتے ہیں، یہ ویب سائٹ، فیس بک یا وٹس ایپ کے ذریعے ہو سکتی ہے۔آپ اس شہرت، اعتماد اور فائدے کا تصور کریں جو اس شو پر آکر آپکو ملتا ہے۔ یہ صرف پیسے کی بات نہیں ہے، میں کامیابی کا تناسب اس لیے زیادہ بتاتا ہوں کیونکہ اس میں تشہیر کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔‘‘
’’لاہور میں اگر آپ ایک بل بورڈ بھی لگائیں تو ماہانہ 25 لاکھ خرچ کرنا پڑینگے۔ دوسری جانب ہم ایک شو کے ذریعے آپکو تیرہ چودہ لاکھ لوگوں تک بغیر کسی رقم کے پہنچا دیتے ہیں، قطع نظر اس بات کے کہ آپکی سرمایہ کاری کس قدر ترقی کرتی ہے یہ دکھیں کہ آپ ایک قومی سطح کے چینل پر بیٹھے اور ہزاروں لوگوں نے آّپکو دیکھا۔ لوگوں کے ذہنوں میں تجسس پیدا ہوتا ہے تو آپ ان پاس جائیں اور اپنی پروڈکٹ بیچیں۔‘‘ لیکن ان سب باتوں کے باجود نیو ٹی وی ٹاپ 10 چینلز میں نہیں آتا اور اس پر ایک ڈاکومنٹری ٹائپ ایڈ پرائم ٹائم سے ہٹ کر چلانے پر شائد پچیس سو روپے خرچہ آئے جو ایک بل بورڈ کا محض ایک فیصد بنتا ہے۔
اور اگر اب نیو ٹی وی کسی چیز کیلئے شہرت رکھتا ہے تو وہ یہی پروگرام ’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ ہے۔
ڈیٹا سپائن کے شریک بانی انوارالحق نے ’’منافع‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے ’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ کے دوسرے سیزن میں10 ملین کی سرمایہ کاری حاصل کی لیکن ڈیل پر عمل نہ ہوسکا۔
سٹارٹ اپ اور انویسٹرز کے مابین مذاکرات کی کسی بھی سطح پر ڈیل ناکام ہو سکتی ہے، حتی کہ امریکی شو شارک ٹینک میں کیے جانے والے معاہدے بھی نان بینڈنگ ہینڈ شیک ڈیلز ہوتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ختم نہیں بھی ہوتے۔
سنہ دو ہزار سولہ کی فوربز میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’شارک ٹینک‘‘ شو میں پیش کیے گئے سٹارٹ اپس کیلئے انویسٹرز اور انٹرپرینیوررز کے مابین ڈیلز کی شرح تینتالیس فیصد رہی، فوربز نے اس شو کے سات سیزن کور کیے۔ ان میں سے بھی ستاون فیصد ڈیلز بعد ازاں تقسیم ہو گئیں اور صرف ستائیس فیصد ڈیلز ہی بالکل اسی طرح چل سکیں جیسے ٹی وی پر پیش کی گئی تھیں جبکہ تیس فیصد میں فریقین نے اپنی مرضی سے قواعد و ضوابط تبدیل کرلیے۔
بعض اوقات انٹرپرینیورز بھی ڈیل سے پھر جاتے ہیں، وہ بھی کمپنی کے مالیاتی اعدادوشمار توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور ڈیل حاصل کرنے کیلئے جھوٹے دعوے کرتے ہیں لیکن جب انویسٹرز کو سچائی معلوم ہوتی ہے تو وہ اس معاہدے سے نکل جاتے ہیں۔
اسی طرح ’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ میں طے پانے والی ڈیلز بھی زیادہ مختلف نہیں ہوتی ہیں،نبیل اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جب کوئی سٹارٹ اپ انویسٹر کی جانب سے کسی قسم کی دھوکا دہی کی شکایت کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ انٹرپرینیورر نے ڈیل کرنے کیلئے اعدادوشمار توڑ مروڑ کر پیش کیے جس کی وجہ سے باہمی اعتماد کو نقصان پہنچا۔ ’’ہم فریقین سے متعلق اچھی طرح جانچ پڑتال کرتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ کسی انویسٹر نے سرمایہ کاری کی حامی بھرنے کے باوجود رقم لگانے سے انکار کیوں کیا۔ اکثر اوقات یہ بھی معلوم پڑا کہ انٹرپرینیورر نے جھوٹ بولا، اور جب انویسٹر کو جھوٹ کا پتہ چلتا ہے تو وہ کیوں کر سرمایہ کاری ضائع کرے گا، یہ سب چیزیں ٹی وی کے رئیلٹی شو کے بارے میں بالکل حقیقی ہیں۔‘‘
تاہم انہوں یہ بھی کہا کہ وہ سٹارٹ اپس یا انویسٹمنٹ میں سے کسی بھی چیز کے ذمہ دار نہیں ہوتے بلکہ وہ پس پردہ بھی فریقین کو بٹھا کر معاملات طے کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دلچسپ طور پر انوارالحق نے بتایا کہ وہ ڈیل طے پانے سے قبل ہی انویسٹر سے مل چکے تھے اور ڈیل طے پا چکی تھی جسے صرف اور صرف شو کے دوران منظر عام پر لایا گیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ سنہ دو ہزار سترہ میں ’’آئیڈیا کروڑوں کا‘‘ کے پہلے سیزن میں ہوا جب ایک آن لائن ٹریول کمپنی چیک اِن ڈاٹ پی کے کے سی ای او یوسف رضوی نے روزی ڈاٹ پی کے کے سی ای او مونس رحمان سے دس ملین روپے کی سرمایہ کاری حاصل کی، تاہم ’’منافع‘‘ کو ایک انٹرویو میں رضوی نے انکشاف کیا کہ مونس ڈیل سے پہلے ہی ان کے بزنس سے متعلق چھان بین کر رہے تھے اور سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے تھےتاہم شو کے دوران بات چیت ہوئی تو ڈیل طے پا گئی۔
نبیل نے بھی یہ بات تسلیم کی کہ ایسے کئی واقعات ہیں جب انویسٹرز پہلے ہی کسی سٹارٹ اپ کیساتھ بات چلا رہے ہوتے ہیں، حتی کہ کئی مواقع پر تو ڈیل بھی پہلے ہی طے پا چکی ہوتی ہے تاہم پھر بھی انہیں شو پر بلایا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ ایسا زیادہ تر شو کے آغاز کے سال میں ہوا کیونکہ تب زیادہ لوگ اسے نہیں دیکھتے تھے۔
لیکن کیا یہ غلط نہیں؟ اس پر نبیل قدیر نے کہا کہ وہ عام آدمی کو ایک امید دیتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سٹارٹ اپ اور سرمایہ کار کے مابین پہلے سے ہی معاہدہ طے پا چکا ہے، ہمارے شو کا مقصد ان لوگوں کو امید دلانا ہے جن کے پاس کوئی اچھا آئیڈیا ہوتا ہے لیکن اسے آگے بڑھانے کیلئے رقم نہیں ہوتی، ایسے لوگوں کو ہم شو پر بلا کر عوام کو دکھاتے ہیں، اس میں کچھ غلط نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ سے عام آدمی کا ہم پر اعتماد بڑھا ہے۔
تاہم اگر باہر فریقین میں ڈیل ہو چکی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ شو کے دوران کوئی نیا انویسٹر اس پر بات نہیں کر سکتا۔ بلکہ پاک وہیلز کے شریک بانی سنیل منج نے بتایا کہ وہ بھی چیک اِن ڈاٹ پی کے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن یہ بھی جانتے تھے کہ مونس رحمان بھی اسی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں کسی نے آفر دینے سے نہیں روکا۔
اسکے علاوہ نبیل قدیر کہتے ہیں کہ انہوں نے خود اور انکے گروپ نے شو پر کسی سٹارٹ اپ میں سرمایہ کاری کبھی نہیں کی۔